بغیر اجازت خاوند کے پیسے نکالنا ۔ ۔ ۔ ؟
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 1
جلد نمبر 39 24 ذوالحجہ 1428 ھ 4 جنوری 2008 ء
مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد | احکام و مسائل |
ہمارے گھر میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے ، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخرات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں، ایسے حالات میں مجھے شرعا اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کیلئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پسیے نکا ل لو ں ؟ ( ایک خاتون .... ملتان)
نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے (الطلاق : 7)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ”بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات کو پورا کرے اگر وہ ان اخراجات کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتا ہے یا بخل سے کام لے کر پورے ادا نہیں کرتا تو بیوی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی بھی طریقہ سے خاوند کی آمدن سے انہیں پورا کرسکتی ہے جیسا کہ
حضرت ھند بنت عتبہ رضی اللہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خاوند کے متعلق شکایت کی کہ میرا خاوندابو سفیان رضی اللہ عنہ گھریلو اخراجات پورے طور پر ادا نہیں کرتا تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اس کی آمدن سے اتنی رقم اس کی اجازت کے بغیر لے لوں جس سے گھر کا نظام چل سکے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں ! اس کے مال سے اس کی اجازت ے بغیر اتنا لے سکتی ہو جس سے معروف طریقہ کے مطابق تیرے اور تیری اولاد کی گزر اوقات ہو سکے یعنی گھر کا نظام چل سکے (صحیح بخاری التفات:5364)
امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :
اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کیلئے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے اس قدر لے لے جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزرا ہو سکے“
اگر خاوند اخراجات پورے نہ کرے تو بیوی کیلئے جائز ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے اس قدر لے لے جس سے معروف طریقہ کے مطابق اہل خانہ کا گزرا ہو سکے“
مندرجہ بالا احادیث کے پیش نظر اگر خاوند گھریلو اخراجات کی ادائیگی میں کنجوسی کرتا ہے تو بیوی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اتنی رقم لے سکتی ہے جس سے گھر کا نظام چل سکے لیکن یہ اجازت صرف ضروریات کیلئے ہے فضولیات کے نہیں نیز اگر ایسا کرنے سے بیوی خاوند کے درمیان اختلاف اور تعلقات کے کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے تو اس طریقہ سے اخراجات پورے نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ
بیوی خاوند کے تعلقات کی استواری مقدم ہے ،اس بات کا فیصلہ بیوی خود کر سکتی ہے کہ ایسا کرنے سے تعلقات تو خراب نہیں ہوں گے ، بہرحال ایسے حالات میں ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بیوی کو اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے اس قدر رقم لینے کی شرعاً اجازت ہے جس سے معروف طریقہ کے مطابق گزر اوقات ہو سکے۔
No comments:
Post a Comment