بسم اللہ الرحمن الرحیم
وسیلہ اور واسطہ تلاش کرنے کی دنیاوی مثالیں (شیطانی فریب)
اللہ تعالیٰ کے حضور رسائی حاصل کرنے کے لئے وسیلہ اور واسطہ تلاش کرنے کی جو دنیاوی مثالیں دی جاتی ہیں،آئیے لمحہ بھر کے لئے ان پر بھی غور کر لیں اور یہ دیکھیں کہ ان میں کہاں تک صداقت ہے ؟
دنیا میں کسی بھی افسر بالا تک رسائی حاصل کرنے کے لئے وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت درج ذیل وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے:
1) افسران بالا کے دروازوں پر ہمیشہ دربان بیٹھے ہیں جو تمام درخواست گزاروں کو اندر نہیں جانے دیتےاگر کوئی افسر بالا کا مقرب اور عزیز ساتھی ہو تو یہ رکاوٹ فورا دور ہو جاتی ہے ، لہذا وسیلہ اور واسطہ مطلوب ہوتا ہے۔
2) متعلقہ افسر اگر سائل کے ذاتی حالات اور معاملات سے آگاہ نہ ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ متعلقہ افسر کو مطلوبہ معلومات فراہم کی جا سکیں جن پر وہ اعتماد کر سکے۔
3) اگر افسر بالا بے رحم،بے انصاف اور ظالم طبیعت کا مالک ہو تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے،کہیں خود سائل ہی بے انصافی اوور ظلم کا شکار نہ بن جائے۔
4) اگر افسر بالا سے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول مطلوب ہو (مثلا رشوت دے کر یا کسی قریبی رشتہ دار ،والدین ،بیوی ،یا اولاد وغیرہ کا دباو ڈلوا کر مراد حاصل کرنا)تب بھی وسیلے اور واسطے کی ضرورت محسوس کی جاسکتی ہے۔
یہ ہیں وہ مختلف صورتیں جن میں دنیاوی واسطوں اور وسیلوں کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ان تمام نکات کو ذہن میں رکھئےاور پھر سوچئے کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں دربان مقرر ہیں کہ اگر کوئی عام آدمی درخواست پیش کرنا چاہے تو اسے مشکل پیش آئے اور اگر اس کے مقرب اور محبوب آئیں تو ان کے لئے اذن عام ہو؟کیا واقعی اللہ تعالیٰ بھی دنیاوی افسروں کی طرح اپنی مخلوق کے محالات اور معاملات سے لاعلم ہے جنہیں جاننے کے لئے اسے وسیلے یا واسطے کی ضرورت ہو ؟
کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ ظلم اور بے انصافی اور بے رحمی کا مرتکب ہو سکتا ہے؟
کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا ایمان یہی ہے کہ دنیاوی عدالتوں کی طرح اس کے دربار میں بھی رشوت یا واسطے وسیلے کے دباو سے ناجائز مراعات اور مفادات کا حصول ممکن ہے ؟
اگر ان سارے سوالوں کا جواب "ہاں"میں ہے تو پھر قرآن مجید اور حدیث شریف میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے بارے میں بتائی گئی ساری صفات رحمن،رحیم،کریم،رووف۔ودود، سمیع،بصیر،علیم،قدیر،خبیر، مقسط وغیرہ کا انکار کر دیجئے اور پھر یہ بھی تسلیم کر دیجئے کہ جو ظلم و ستم ،اندھیر نگری اور جنگل کا قانون اس دنیا میں رائج ہے (معاذاللہ)اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہی قانون رائج ہے اور اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے(اور واقعی نفی میں ہے)تو پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ آخر وہ کون سا سبب ہے جس کے لئے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہے؟
ہم اس مسئلے کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہیں گے ۔غور فرمائیے !اگر کوئی حاجت مند پچاس یا سو میل دور اپنے گھر بیٹھے کسی افسر مجاز کو اپنی پریشانی اور مصیبت سے آگاہ کرنا چاہے تو کیا ایسا کر سکتا ہے ؟ہر گز نہیں ۔سائل اور مسئول دونوں ہی واسطے اور وسیلے کے محتاج ہیں ۔فرض کیجئے سائل کی درخواست کسی طرح افسر مجاز تک پہنچا دی گئی۔کیا وہ افسر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ سائل کے بیان کردہ حالات کی اپنے ذاتی علم کی بناء پر تصدیق یا تردید کر سکے؟
ہرگز نہیں !!!
انسان کا علم اس قدر محدود ہے کہ وہ کسی کے صحیح حالات جاننے کے لئے قابل اعتماد اور ثقہ گواہوں کا محتاج ہے۔
فرض کیجئے افسر بالا اپنی ذہانت اور فراست کے سبب خود ہی حقائق کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے تو کیا وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنے دفتر میں بیٹھے بٹھائے پچاس یا سو میل دور بیٹھے ہوئے سائل کی مشکل آسان کر دے؟
ہرگز نہیں !!!
بلکہ ایسا کرنے کے لئے بھی اسے وسیلے اور واسطے کی ضرورت ہے ۔گویا سائل سوال کرنے کے لئے وسیلے کا محتاج ہے اور افسر مجاز مدد کرنے کے لئے واسطے اور وسیلے کا محتاج ہے ۔یہی وہ بات ہے جو اللہ کریم نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمائی ہے: "مدد چاہنے والے بھی کمزور ہیں اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور ہیں ۔"(سورہ حج،آیت 73)
اس کے بر عکس اللہ تعالیٰ کی صفات اور اختیارات اور قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ ساتوں زمینوں کے نیچے پتھر کے اندر موجود چھوٹی سی چیونٹی کی پکار بھی سن رہا ہے۔اس کے حالات کا پورا علم رکھتا ہے اور کھربوں میل دور بیٹھے بٹھائے کسی وسیلے اور واسطے کے بغیر اس کی ساری ضرورتیں اور حاجتیں بھی پوری کر رہا ہے۔پھر آخر اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرت کے ساتھ انسانوں کی صفات اور قدرت کو کون سی نسبت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے دنیاوی مثالیں دی جائیں اور وسیلے اور واسطے کا جواز ثابت کیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں تمام دنیاوی مثالیں محض شیطانی فریب ہیں،وسیع قدرتوں اور لا محدود صفات کے مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات بابرکات کے معاملات کو انتہائی قلیل اور عارضی اختیارات کے مالک انسانوں کے معاملات پر محمول کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے افسران بالا کی مثالیں دینا اللہ تعالیٰ کی جناب میں بہت بڑی گستاخی ہے جس سے خود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان الفاظ میں منع فرمایا ہے:
لوگو اللہ تعالیٰ کے لئے مثالیں نہ دو بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔(سورہ نحل ،آیت نمبر 74)
پس حاصل کلام یہ ہے کہ نہ تو کتاب و سنت کی رو سے وسیلہ اور واسطہ پکڑنا جائز ہے نہ ہی عقل انسانی اسکی تائید کرتی ہے ۔
پس اللہ تعالیٰ پاک اور بالا تر ہے اس شرک سے جو لوگ کرتے ہیں۔"(سورہ قصص،آیت 68)
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کو سمجھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین۔
(یہ مضمون مولانا محمد اقبال کیلانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب توحید کے مسائل سے لیا گیا ہے۔جزاہ اللہ خیر الجزاء
No comments:
Post a Comment