کیا قران میں زبرزیر بعد میں داخل کیا گیاہے؟
اہل بدعت کی طرف سے بارباریہ بات اٹھائی جاتی ہے کہ قران میں پہلے زبرزیرنہیں تھا بعدمیں داخل کیا گیاہے، کیونکہ یہ اچھی چیز ہے اس سے ثابت ہوا کہ دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش ہے۔
لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قران میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:
لیکن یہ سوچ غلط ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوفناک بھی ہے کہ قران میں پہلے زیرزبرنہیں تھا، سچ یہ ہے کہ قران میں زبرزیر تب سے ہے جب سے قران ہے، البتہ اسے لکھا بعدمیں گیا ہے،اوربعدمیں لکھنے کے لئے دلیل موجودہے،لکھنے کی دلیل ہم آگے پیش کریں گے پہلے اس بات کے دلائل سامنے رکھ دیں کہ قران مجید میں زیرزبرنیانہیں ہے،ملاحظہ ہو:
پہلی دلیل:
قران مجید ہم تک تلاوت ہوکرپہنچاہے،سب سے پہلے اللہ نے اس کی تلاوت کی ،اللہ کا ارشادہے:
{ تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ } [الجاثية: 6]
یہ اللہ کی آیتیں ہیں جنہیں ہم تم پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں (یعنی پڑھتے
ہیں)۔
اللہ کے بعد جبرئیل علیہ السلام نے اس قران کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا:
{وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192) نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193) عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ (194) بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (195)} [الشعراء: 192 - 195]
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے۔اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ،آپ کے دل پر اترا ہے کہ آپ آگاہ کر دینے والوں میں سے ہوجائیں ،صاف عربی زبان میں ہے۔
اس کے بعدجبرئیل علیہ السلام نے بھی قران مجید کو پڑھ کراورتلاوت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھا یا ہے، بخاری میں ہے:
وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ القُرْآنَ(صحیح البخاری (1/ 8) رقم 6)
یعنی جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہررات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اورآپ کوقران پڑھاتے تھے۔
اوراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قران پڑھ کر ہی صحابہ کرام کوبتلایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا بغیرزبرزیرکے قران کی تلاوت یا اسے پڑھنا ممکن ہے ؟؟؟ ہرگزنہیں !
مثال کے طورپر آپ کسی بھی شخص سے کہیں کہ سورہ فاتحہ کی آیت '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ '' پڑھے، پھراس سے سوال کریں کہ:
تم نے ''الحمد'' کے ''ح'' پرکیا پڑھا ؟
وہ جواب سے گا زبرپڑھا ، اب سوال کیجئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسی ''الحمد'' کو پڑھا تھا توکیا پڑھا تھا؟
یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبرہی پڑھا تھا، اوراسی طرح جبرئیل علیہ السلام نے تلاوت کی اوراس سے پہلے اللہ نے تلاوت کی۔
دوسری دلیل:
زیرزبرلکھنے سے پہلے قران کا جوتلفظ تھا وہی تلفظ اب بھی ہے، اس پرپوری امت کا جماع ہے کسی کا اختلاف نہیں ،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ زیرزبرپہلے ہی سے تھا،البتہ لکھا ہوا نہیں تھابعد میں گیا ہے۔
تیسری دلیل:
تیسری دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے قرآنی آیات کے جومعانی تھے وہی معانی اب بھی ہیں ، اگرزبرزیرنیا ہوتاتومعانی بدل جاتے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قران میں زبرزیرپہلے ہی سے موجودتھا البتہ اسے لکھا بعدمیں گیاہے۔
چوتھی دلیل:
چوتھی دلیل:
زبرزیرلکھنے سے پہلے ہرحرف پردس نیکی کا ثواب تھا اورزبرزیرلکھنے کے بعد بھی ثواب اتنا ہی ہے،اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے،یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ زبرزیرنیانہیں ہے پہلے ہی سے ہے البتہ اس کی کتابت بعدمیں ہوئی ہے۔
پانچویں دلیل:
پانچویں دلیل:
قران نے پوری دنیا کوچیلنج کیا ہے کہ کوئی بھی قران جیسی کوئی سورة نہیں بنا سکتا،اگرپوری دنیا قران جیسی سورة پیش کرنے سے عاجزہے،توخودمسلمانوں میں یہ طاقت کہاں سے آگئی کہ وہ قران میں قران ہی جیسی کوئی چیز داخل کریں اوروہ بھی ''الحمد'' سے لیکر ''الناس'' تک؟؟؟
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔
چھٹی دلیل:
اس سے بھی ثابت ہواکہ زبرزیرکوبعدمیں داخل نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ قران میں پہلے ہی سے موجودتھا۔
چھٹی دلیل:
صحابہ کرام وازواج مطہرات باقائدہ زبرزیرسے استدلال کرتے تھے، ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔
ساتویں دلیل:
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتِ قَوْلَهُ: (حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِّبُوا) أَوْ كُذِبُوا؟ قَالَتْ: «بَلْ كَذَّبَهُمْ قَوْمُهُمْ» ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا أَنَّ قَوْمَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، وَمَا هُوَ بِالظَّنِّ، فَقَالَتْ: «يَا عُرَيَّةُ لَقَدِ اسْتَيْقَنُوا بِذَلِكَ» ، قُلْتُ: فَلَعَلَّهَا أَوْ كُذِبُوا، قَالَتْ: " مَعَاذَ اللَّهِ، لَمْ تَكُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذَلِكَ بِرَبِّهَا، وَأَمَّا هَذِهِ الآيَةُ، قَالَتْ: هُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، الَّذِينَ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَصَدَّقُوهُمْ، وَطَالَ عَلَيْهِمُ البَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْهُمُ النَّصْرُ، حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَتْ مِمَّنْ كَذَّبَهُمْ مِنْ قَوْمِهِمْ، وَظَنُّوا أَنَّ أَتْبَاعَهُمْ كَذَّبُوهُمْ، جَاءَهُمْ نَصْرُ اللَّهِ "صحيح البخاري (4/ 150 رقم3389)
یحیی بن بکیر لیث عقیل ابن شہاب عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ بتائے (فرمان خداوند ی) جب رسول مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہوا کہ انکی قوم انہیں جھٹلا دے گی میں کذبوا کے ذال پر تشدید ہے یا نہیں؟ یعنی کذبوا ہے یا تو انہوں نے فرمایا (کذبوا ہے) کیونکہ انکی قوم تکذیب کرتی تھی میں نے عرض کیا بخدا رسولوں کو تو اپنی قوم کی تکذیب کا یقین تھا (پھر ظنوا کیونکر صادق آئیگا) تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے عریہ (تصغیر عروہ) بیشک انہیں اس بات کا یقین تھا میں نے عرض کیا تو شاید یہ کذبوا ہے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا معاذ اللہ انبیاء اللہ کے ساتھ ایسا گمان نہیں کر سکتے (کیونکہ اس طرح معنی یہ ہوں گے کہ انہیں یہ گمان ہوا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا یعنی معاذ اللہ خدا نے فتح کا وعدہ پورا نہیں کیا لیکن مندرجہ بالا آیت میں ان رسولوں کے وہ متبعین مراد ہیں جو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے تھے اور پیغمبروں کی تصدیق کی تھی پھر ان کی آزمائش ذرا طویل ہوگئی اور مدد آنے میں تاخیر ہوئی حتیٰ کہ جب پیغمبر اپنی قوم سے جھٹلانے والوں کے ایمان سے مایوس ہو گئے اور انہیں یہ گمان ہونے لگا کہ ان کے متبعین بھی ان کی تکذیب کر دیں گے تو اللہ کی مدد آ گئی ۔
اس حدیث میں غورفرمائیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا یہاں اعراب کی پربحث کی ہے اس سے ثابت ہو اکہ اعراب اورزبرزیرقران میں پہلے ہی سے ہے۔
ساتویں دلیل:
اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی نفی کی ہے کہ وہ اس قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل نہیں کرسکتے اوربالفرض وہ اگرایسا کرنے کو کوشش کریں گے تو ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیں گے، ارشاد ہے:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔
غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔
آٹھویں دلیل:
{ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ (47)} [الحاقة: 43 - 47]
(یہ تو (رب العالمین کا) اتارا ہوا ہے۔اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا ،تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے،پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ،پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔
غورکریں کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قران میں اپنی طرف سے کچھ داخل کرسکیں ، اوربالفرض ایسا کرنے پرانہیں سخت وعید سنائی گئی ہے ،تو ایک معمولی انسان کواتنی جرأت کیسے ہوگئی کہ وہ پورے قران میں اپنی طرف سے زبرزیرداخل کردے ۔
آٹھویں دلیل:
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ قران مخلوق نہیں ہے ، اب بتائیے کہ جوچیز غیرمخلوق ہے اس میں مخلوق اضافہ کیسے کرسکتی ہے؟؟؟
نویں دلیل:
نویں دلیل:
اللہ نے اس بات کی ذمہ داری لی ہے کہ وہ قران مجید کواپنی اصلی شکل میں محفوظ رکھے گا،ارشادہے:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔
دسویں دلیل:
{ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ } [الحجر: 9]
قران کو ہم نے ناز ل کیا ہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
غورکریں کہ جس چیز کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے لے رکھی ہے ،اس میں کوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے کی جرأت کسے ہوسکتی ہے؟؟؟معلوم ہوا کہ قران اب بھی اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے اس میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہیں ہواہے۔
لہٰذا زبرزیرلازمی طورپرقران مجید میں پہلے ہی سے موجودہے البتہ شروع میں اسے لکھا نہیں گیا تھااوربعدمیں اسے لکھ دیا گیا۔
دسویں دلیل:
اگرلکھنے سے کوئی چیز نئی نہیں ہوجاتی،تو لازم آئے گا کہ پورا قران بھی بعدمیں بنایا گیا ہے۔
اس لئے کہ جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوقران پیش کیا وہ لکھا ہوا نہیں تھا ،پھراللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقران صحابہ کو پڑھ کرسنایا وہ بھی لکھا ہوانہیں تھا ،البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعدصحابہ کرام نے اسے لکھ لیا،تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ پوراقران بھی اسلام میں منجانب اللہ پہلے ہی سے نہیں تھا اسے صحابہ کرام نے اپنی طرف سے بنایاہے؟؟؟
لہٰذا جس طرح قران کوبعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجاتااسی طرح زبرزیرکوبھی بعدمیں لکھنے سے وہ نیا نہیں ہوجائے گا۔
تلک عشرة کاملہ۔
اب اگرکوئی کہے کہ ٹھیک ہے کہ زبرزیرپہلے سے موجودتھا اوراس کے لکھنے سے قران میں اضافہ بھی نہیں ہوتا لیکن فی نفسہ یہ لکھنا توایک نیا عمل ہے ، لہٰذا بدعت ہوا۔
توعرض ہے کہ زبرزیرلکھنا بدعت ہرگزنہیں ہے کیونکہ اس کے لکھنے کی دلیل موجودہے ملاحظہ ہو:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ حِفْظَهُ، فَنَهَتْنِي قُرَيْشٌ وَقَالُوا: أَتَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ تَسْمَعُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَشَرٌ يَتَكَلَّمُ فِي الْغَضَبِ، وَالرِّضَا، فَأَمْسَكْتُ عَنِ الْكِتَابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ بِأُصْبُعِهِ إِلَى فِيهِ، فَقَالَ: «اكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ» سنن أبي داود (3/ 318 رقم3646)
صحابی رسول عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہرچیز کو لکھنے کی اجازت دی ہے اورقران بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے تلاوت ہوکرامت کو ملاہے،اورپہلے واضح کیا جاچکا ہے کہ تلاوت زبرزیرکے ساتھ ہی ہوتی ہے،گویا کہ زبرزیربھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہی نکلا ہے،لہٰذامذکورہ حدیث میں اس کے لکھنے کا بھی جواز موجودہے۔
لہٰذا قران مجید میں زبرلکھنے پراس حدیث سے دلیل موجودہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں زبرزیرنہیں لکھا گیا کیونکہ اس وقت کسی نے اس کی ضرورت محسوس نہ کی گرچہ اس کا جواز موجود تھا، لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اس لئے اس جواز پرعمل کرتے ہوئے ہمارے لئے زبرزیرلکھ دیاگیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ زبرزیرلکھنے پردلیل موجودہے لہٰذا یہ بدعت نہیں۔
No comments:
Post a Comment