جلے
ہوئے بسکٹ
جب میں چھوٹا ہوا کرتا تھا تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ امی کو تو بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ جب بھی انہیں موقع اور وقت ملے تو مجھے کوئی نا کوئی اچھی سی چیز بنا کر کھلا دیا کریں۔
اور اس رات کو تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا جب ایک لمبے تھکا دینے والے دن کے اختتام پر اور یقیناً تھکن سے چور میری امی نے شام کے کھانے کیلئے میز پر ہمارے سامنے میری پسندیدہ ڈش انڈوں کا ساسیج کے ساتھ بنا ہوا آملیٹ اور ایک ٹرے میں جلے ہوئے بسکٹ رکھے تھے۔ میں نے تو دیکھ ہی لیا تھا مگر مجھے یاد ہے کہ میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی تو محسوس کرے کہ ہمارے سامنے رکھے ہوئے بسکٹ جلے ہوئے ہیں۔ مگر ابو نے تو امی کو بس مسکرا کر دیکھا اور اسے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو کہا، پھر مجھ سے پوچھا کہ میرا سکول میں آج کا دن کیسا گزرا تھا؟ یہ تو مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے
تھا
مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں نے دیکھا تھا کہ ابو بسکٹ پر مکھن اور مربہ لگا کر ایسے
کھا رہے تھے کہ جیسے وہ جلے ہوئے ہوں ہی نہیں- بلکہ اس دن تو ابو نے اپنی سابقہ عادت
سے بھی دو یا تین بسکٹ زیادہ ہی کھائے تھے۔
کھانے کی میز سے اُٹھ جانے کے بعد تجسس مجھے بے چین کر رہا تھا کہ آخر کار میں نے سُن ہی لیا امی کہہ رہی تھی، مجھے افسوس ہے کہ آج اوون میں بسکٹ جل گئے تھے۔ اور ابو کہہ رہے تھے نہیں تو، اچھے خاصے تو تھے، جان من، ویسے بھی مجھے جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں۔ اور جب ابو اپنے کمرے میں جا چکے اور امی میز سے برتن اُٹھا رہی تھیں تو میں چپکے سے ابو کے کمرے میں گیا جہاں ابو پلنگ پر دراز ہو رہے تھے۔ میں نے ابو کو شب بخیر کہا اور پوچھا، ابو کیا آپ کو واقعی جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں؟
ابو نے مجھے بھی اپنے پلنگ پر کھینچ کر اپنے سینے سے چمٹا کر ساتھ سلا لیا اور حسب عادت میرے بالوں میں اپنئ اُنگلیاں پھیرتے ہوئے مجھے کہا؛ آج تمہاری امی نے بہت سے کام کیئے تھے، کپڑے دھونے سے لیکر برتن دھونے، گھر کی صفائی اور کھانا پکانے تک۔ وہ یقیناً اس سارے کام سے بہت زیادہ تھکی ہوئی ہے آج ۔ اور ویسے بھی اگر انسان تھوڑے سے جلے ہوئے بسکٹ کھا بھی لے تو اُسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
ہماری زندگی بھی بہت سی غیر مثالی باتوں، کاموں، چیزوں اور لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور میں بھی تو لگ بھگ انہی جیسا ہی ایک خطاکار اور غلطیاں کرنے والا انسان ہوں۔ اور تو اور، لوگوں کو اُن کے اچھے دنوں پر مبارکباد تک کہنا بھی بھول جاتا ہوں۔
اس گزرتے وقت سے جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی خطائیں اور غلطیاں قبول کرنے کی عادت کو سیکھنا چاہیئے۔ ہمیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے اختلافات، کمیوں اور کوتاہیوں سمیت قبول کرنا چاہیئے۔ اور یہی بات تعلقات کو مضبوط اور رشتوں کو استوار رکھنے کی چابی ہے۔
اس کہانی سے حاصل عبرت
میری آپ کیلئے خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں اچھے اور برے کی تمیز تو ضرور پیدا کیجیئے اور اچھائیوں کو پاس رکھتے ہوئے بری اور بدصورت چیزوں کو محو کرتے رہیئے مگر اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے اور یقین کے ساتھ، کیونکہ آخر میں صرف اُسی کی ذات ہی تو ہے جو آپ کے تعلقات پر جلے ہوئے بسکٹوں کو اثرانداز ہونے سے محفوظ رکھے گی۔ اس کہانی کو ہم اپنی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات کیلئے استعمال کر سکتے ہیں چاہے وہ میاں بیوی کے درمیاں تعلقات ہوں یا یاری اور دوستی کے تعلق۔ یاد رکھئیے گا کہ خوشیوں کی چابی ہمیشہ آپکے ہی پاس ہو نا کہ کسی اور کی جیب میں۔
اور ہمیشہ ایک دوسرے کو بسکٹ وغیرہ دیتے لیتے رہیئے خواہ وہ تھوڑے سے جلے ہوئے ہی کیوں ناں ہوں۔ (مآخوذ)
جلے ہوئے بسکٹ
کھانے کی میز سے اُٹھ جانے کے بعد تجسس مجھے بے چین کر رہا تھا کہ آخر کار میں نے سُن ہی لیا امی کہہ رہی تھی، مجھے افسوس ہے کہ آج اوون میں بسکٹ جل گئے تھے۔ اور ابو کہہ رہے تھے نہیں تو، اچھے خاصے تو تھے، جان من، ویسے بھی مجھے جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں۔ اور جب ابو اپنے کمرے میں جا چکے اور امی میز سے برتن اُٹھا رہی تھیں تو میں چپکے سے ابو کے کمرے میں گیا جہاں ابو پلنگ پر دراز ہو رہے تھے۔ میں نے ابو کو شب بخیر کہا اور پوچھا، ابو کیا آپ کو واقعی جلے ہوئے بسکٹ اچھے لگتے ہیں؟
ابو نے مجھے بھی اپنے پلنگ پر کھینچ کر اپنے سینے سے چمٹا کر ساتھ سلا لیا اور حسب عادت میرے بالوں میں اپنئ اُنگلیاں پھیرتے ہوئے مجھے کہا؛ آج تمہاری امی نے بہت سے کام کیئے تھے، کپڑے دھونے سے لیکر برتن دھونے، گھر کی صفائی اور کھانا پکانے تک۔ وہ یقیناً اس سارے کام سے بہت زیادہ تھکی ہوئی ہے آج ۔ اور ویسے بھی اگر انسان تھوڑے سے جلے ہوئے بسکٹ کھا بھی لے تو اُسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
ہماری زندگی بھی بہت سی غیر مثالی باتوں، کاموں، چیزوں اور لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور میں بھی تو لگ بھگ انہی جیسا ہی ایک خطاکار اور غلطیاں کرنے والا انسان ہوں۔ اور تو اور، لوگوں کو اُن کے اچھے دنوں پر مبارکباد تک کہنا بھی بھول جاتا ہوں۔
اس گزرتے وقت سے جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی خطائیں اور غلطیاں قبول کرنے کی عادت کو سیکھنا چاہیئے۔ ہمیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے اختلافات، کمیوں اور کوتاہیوں سمیت قبول کرنا چاہیئے۔ اور یہی بات تعلقات کو مضبوط اور رشتوں کو استوار رکھنے کی چابی ہے۔
اس کہانی سے حاصل عبرت
میری آپ کیلئے خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں اچھے اور برے کی تمیز تو ضرور پیدا کیجیئے اور اچھائیوں کو پاس رکھتے ہوئے بری اور بدصورت چیزوں کو محو کرتے رہیئے مگر اللہ کی ذات پر مکمل بھروسے اور یقین کے ساتھ، کیونکہ آخر میں صرف اُسی کی ذات ہی تو ہے جو آپ کے تعلقات پر جلے ہوئے بسکٹوں کو اثرانداز ہونے سے محفوظ رکھے گی۔ اس کہانی کو ہم اپنی زندگی میں ہر قسم کے تعلقات کیلئے استعمال کر سکتے ہیں چاہے وہ میاں بیوی کے درمیاں تعلقات ہوں یا یاری اور دوستی کے تعلق۔ یاد رکھئیے گا کہ خوشیوں کی چابی ہمیشہ آپکے ہی پاس ہو نا کہ کسی اور کی جیب میں۔
اور ہمیشہ ایک دوسرے کو بسکٹ وغیرہ دیتے لیتے رہیئے خواہ وہ تھوڑے سے جلے ہوئے ہی کیوں ناں ہوں۔ (مآخوذ)
جلے ہوئے بسکٹ
No comments:
Post a Comment