تازہ مچھلی کھانے کا سواد
جاپان کا رقبہ پاکستان کے رقبے کا صرف ۴۷
فیصد بنتا ہے۔ یہاں کی آبادی ساڑھے بارہ کروڑ ہے۔ انسانوں کی کثافت کا اس بات سے
اندازہ لگا لیجیئے کہ یہاں فی مربع کیلومیٹر اوسطا ۳۳۷ لوگ بستے ہیں، جبکہ پاکستان
میں فی مربع کیلومیٹر صرف ۲۲۱ لوگ بستے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ اس ملک کا تین چوتھائی رقبہ پہاڑی جنگلات سے گھرا ہوا ہے جو کسی قسم کی زراعت کے قابل ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کی اکثر آبادی ساحلی علاقوں پر آباد ہے اور مچھلی عوام الناس کی بنیادی غذا شمار کی جاتی ہے۔
جاپانیوں کی مچھلی سے رغبت اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیئے کہ ملک میں چالیس سے زیادہ
میگیزین (بیشتر جاپانی زبان یہ بھی یاد رہے کہ اس ملک کا تین چوتھائی رقبہ پہاڑی جنگلات سے گھرا ہوا ہے جو کسی قسم کی زراعت کے قابل ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان کی اکثر آبادی ساحلی علاقوں پر آباد ہے اور مچھلی عوام الناس کی بنیادی غذا شمار کی جاتی ہے۔
جاپانیوں کی مچھلی سے رغبت اور محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیئے کہ ملک میں چالیس سے زیادہ
میں)
صرف مچھلی اور مچھلی سے متعلقہ اسرار و علوم کی تحقیق پر شائع ہوتے ہیں۔ جاپان میں
کوئی سکول یا یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جس میں مچھلی سے متعلق علوم نہ پڑھائے جاتے ہوں
بلکہ یہاں تو مچھلی کے علم پر ایک خاص یونیورسٹی بھی موجود ہے اور دیگر ایسے ادارے
جو مچھلی کے علوم میں ریسرچ کرتے ہیں وہ ان سب کے علاوہ ہیں۔ اس لئیے آپ کو یہ بات
عجیب نہیں لگے گی کہ دنیا بھر میں پکڑی جانے والے مچھلی کا پندرہ فیصد صرف جاپان پکڑتا
ہے جبکہ دنیا میں سب سے مچھلی شکار کرنے والے ملک چین کے بعد جاپان کا دوسرا نمبر ہے۔
اس ساری تمہید کے بعد میں آپ کو جاپانیوں کی تازہ مچھلی کھانے کے شوق اور محبت کا یہ قصہ سناتا ہوں جو میں نے سنگاپور آرمی کی ایک ویب سائٹ پر پڑھا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جاپان کے ساحلوں پر یا ساحلوں سے نزدیک مچھلی کا ملنا مشکل ہوتا گیا تو مچھیروں نے ساحلوں سے دور سمندر کے اندر جا کر مچھلی کا شکار کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے سمندر کے اندر جا کر مچھلی شکار کرنے والی کشتیوں کے حجم بھی بڑے ہوتے گئے۔ اسکا جہاں فائدہ ہوا وہیں شکاری کشتیوں اور جہازوں کے ساحل پر واپس لوٹنے کا عرصہ لمبا ہوتا گیا۔ اور نتیجہ کے طور جب مچھلی ساحل پر لائی جاتی تھی تو وہ تازہ نہیں ہوا کرتی تھی۔
اِس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ شکاری جہازوں پر بڑے بڑے فریزر اور سرد خانے بنا دیئے گئے جس میں شکار کرنے کے فورا بعد ہی مچھلی سٹور کر لی جاتی تھی۔ اس حل کا منفی پہلو یہ نکلا کہ مچھلی کی خرابی کے اندیشوں سے بے فکر شکاری جہازوں کا سمندر میں رہنے کا عرصہ اور دراز ہو گیا، شکاری بے فکری سے سمندر کے اندر دور تک جانے لگے اور اطمئنان سے واپس آنے لگے ۔
لیکن مچھلی کو تازہ واپس لانے کا خواب تو شرمندہِ تعبیر پھر بھی نہ ہو سکا۔ فریزر کی جمی ہوئی مچھلی کو لوگ مچھلی تو شمار کرتے مگر تازہ مچھلی ہرگز نہیں۔ بلکہ اس سے تو نئی مشکل آن کھڑی ہوئی اور وہ یہ کہ خریدار مچھلی کے وہ دام نہ دیتے جو کہ حق بنتا تھا۔ مچھلی کی مناسب قیمت نہ ملنے اور خریداروں کی عدم رغبتی کی وجہ سے مچھیرے گھاٹے میں جانے لگے۔
اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے، اور جاپانیوں کے پاس تو ہمیشہ اپنے مسائل کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے۔
مچھیروں نے اپنے جہازوں پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے حوض اور ٹینک رکھنا شروع کر دیئے۔ ادھر سمندر سے شکار کرتے اور اُدھر حوضوں میں ڈال لیتے، اس طرح مچھلی ساحل تک زندہ لائی جانے لگی، خریدار نہ صرف تازہ بلکہ زندہ مچھلی خریدنے لگے۔
بظاہر تو آئیڈیا لاجواب اور دانشمندانہ تھا مگر یہ دیکھیئے کہ اس کے بعد کیا ہوا؟
خریداروں نے محسوس کیا کہ جو مچھلی وہ خرید رہے ہیں وہ زندہ تو ضرور ہے مگر نہایت ہی سست، کاہل اور مردنی سی۔ کیوں کہ جہاز پر رکھے حوضوں میں ڈال کر لائی گئی مچھلی کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ حوض میں بہتات سے ڈالی ہوئی مچھلیاں وہ حرکت نہیں کر سکتی تھیں جو کھلے سمندر میں طبیعی طور پر کرتی تھیں، مزید اُن کو حوض میں ڈالی گئی خوراک یا تو ناکافی ہوا کرتی تھی یا اُس خوراک سے قطعی مختلف جو مچھلیاں سمندر میں آزادی سے حاصل کر کے کھاتی تھیں۔
جاپانیوں کی تازہ مچھلی خوری کی عادت کیلئے اس قسم کی مچھلی گویا رمضان کے روزے رجب میں رکھوانے والی بات ثابت ہو رہی تھی۔ کس طرح مچھیرے اپنے ہموطن خوش خوراکوں کو راضی کر پاتے، اس ذہین قوم کے پاس ہر مشکل کا حل نکالنے کی صلاحیت ہے اور اس مسئلے کا حل بھی انہوں نے نکال ہی لیا۔
جی ہاں، اُنہوں نے مچھلی کے حوضوں میں ایک چھوٹی سی شارک مچھلی رکھنا شروع کردی۔
تاکہ اس شارک مچھلی کے ہاتھوں پکڑے جانے کے خوف سے کوئی مچھلی ایک جگہ پر ٹکنے یا رکنے نہ پائے اور مسلسل حرکت میں ہی رہے۔
کیا اس حرکت سے کوئی مچھلی سستی یا کاہلی کا شکار ہو سکتی تھی؟ شاید نہیں۔
اور کُچھ ایسی ہی مثال حضرت انسان کی ہے جب وہ کسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کیئے بغیر سست، کاہل اور مردنی سی زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
کیا صرف چیلنجز ہی ہماری زندگیوں کو متحرک اور سرگرم رکھ سکتے ہیں؟
یاد رکھیئے کامیابیاں کبھی ایسے تن آسانوں کو نہیں ملا کرتیں جو کسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے سے کتراتے اور گھبراتے ہوں۔
تو پھر کیوں ناں ہم اپنے وہ ساری مہارتیں اور سارے مواقع و وسائل جو اللہ تبارک و تعالٰی نے ہمیں عطا کیئے ہیں استعمال کرکے کچھ مختلف کام کریں۔ کم از کم اُن لوگوں سے مختلف تو ضرور جو تن ٓآسان، سست اور کاہل لوگ کرتے ہیں۔
کیوں ناں کوئی ہمارے پیچھے بھی ایک شارک مچھلی لگادے جو ہمیں زندگی میں آگے ہی آگے بڑھاتی رہے کامیابیوں اور کامرانیوں کے سفر پر۔۔۔
تازہ مچھلی کھانے کا سواد
اس ساری تمہید کے بعد میں آپ کو جاپانیوں کی تازہ مچھلی کھانے کے شوق اور محبت کا یہ قصہ سناتا ہوں جو میں نے سنگاپور آرمی کی ایک ویب سائٹ پر پڑھا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ جاپان کے ساحلوں پر یا ساحلوں سے نزدیک مچھلی کا ملنا مشکل ہوتا گیا تو مچھیروں نے ساحلوں سے دور سمندر کے اندر جا کر مچھلی کا شکار کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے سمندر کے اندر جا کر مچھلی شکار کرنے والی کشتیوں کے حجم بھی بڑے ہوتے گئے۔ اسکا جہاں فائدہ ہوا وہیں شکاری کشتیوں اور جہازوں کے ساحل پر واپس لوٹنے کا عرصہ لمبا ہوتا گیا۔ اور نتیجہ کے طور جب مچھلی ساحل پر لائی جاتی تھی تو وہ تازہ نہیں ہوا کرتی تھی۔
اِس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ شکاری جہازوں پر بڑے بڑے فریزر اور سرد خانے بنا دیئے گئے جس میں شکار کرنے کے فورا بعد ہی مچھلی سٹور کر لی جاتی تھی۔ اس حل کا منفی پہلو یہ نکلا کہ مچھلی کی خرابی کے اندیشوں سے بے فکر شکاری جہازوں کا سمندر میں رہنے کا عرصہ اور دراز ہو گیا، شکاری بے فکری سے سمندر کے اندر دور تک جانے لگے اور اطمئنان سے واپس آنے لگے ۔
لیکن مچھلی کو تازہ واپس لانے کا خواب تو شرمندہِ تعبیر پھر بھی نہ ہو سکا۔ فریزر کی جمی ہوئی مچھلی کو لوگ مچھلی تو شمار کرتے مگر تازہ مچھلی ہرگز نہیں۔ بلکہ اس سے تو نئی مشکل آن کھڑی ہوئی اور وہ یہ کہ خریدار مچھلی کے وہ دام نہ دیتے جو کہ حق بنتا تھا۔ مچھلی کی مناسب قیمت نہ ملنے اور خریداروں کی عدم رغبتی کی وجہ سے مچھیرے گھاٹے میں جانے لگے۔
اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے، اور جاپانیوں کے پاس تو ہمیشہ اپنے مسائل کا کوئی نہ کوئی حل موجود ہوتا ہے۔
مچھیروں نے اپنے جہازوں پر پانی سے بھرے ہوئے بڑے بڑے حوض اور ٹینک رکھنا شروع کر دیئے۔ ادھر سمندر سے شکار کرتے اور اُدھر حوضوں میں ڈال لیتے، اس طرح مچھلی ساحل تک زندہ لائی جانے لگی، خریدار نہ صرف تازہ بلکہ زندہ مچھلی خریدنے لگے۔
بظاہر تو آئیڈیا لاجواب اور دانشمندانہ تھا مگر یہ دیکھیئے کہ اس کے بعد کیا ہوا؟
خریداروں نے محسوس کیا کہ جو مچھلی وہ خرید رہے ہیں وہ زندہ تو ضرور ہے مگر نہایت ہی سست، کاہل اور مردنی سی۔ کیوں کہ جہاز پر رکھے حوضوں میں ڈال کر لائی گئی مچھلی کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ حوض میں بہتات سے ڈالی ہوئی مچھلیاں وہ حرکت نہیں کر سکتی تھیں جو کھلے سمندر میں طبیعی طور پر کرتی تھیں، مزید اُن کو حوض میں ڈالی گئی خوراک یا تو ناکافی ہوا کرتی تھی یا اُس خوراک سے قطعی مختلف جو مچھلیاں سمندر میں آزادی سے حاصل کر کے کھاتی تھیں۔
جاپانیوں کی تازہ مچھلی خوری کی عادت کیلئے اس قسم کی مچھلی گویا رمضان کے روزے رجب میں رکھوانے والی بات ثابت ہو رہی تھی۔ کس طرح مچھیرے اپنے ہموطن خوش خوراکوں کو راضی کر پاتے، اس ذہین قوم کے پاس ہر مشکل کا حل نکالنے کی صلاحیت ہے اور اس مسئلے کا حل بھی انہوں نے نکال ہی لیا۔
جی ہاں، اُنہوں نے مچھلی کے حوضوں میں ایک چھوٹی سی شارک مچھلی رکھنا شروع کردی۔
تاکہ اس شارک مچھلی کے ہاتھوں پکڑے جانے کے خوف سے کوئی مچھلی ایک جگہ پر ٹکنے یا رکنے نہ پائے اور مسلسل حرکت میں ہی رہے۔
کیا اس حرکت سے کوئی مچھلی سستی یا کاہلی کا شکار ہو سکتی تھی؟ شاید نہیں۔
اور کُچھ ایسی ہی مثال حضرت انسان کی ہے جب وہ کسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کیئے بغیر سست، کاہل اور مردنی سی زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔
کیا صرف چیلنجز ہی ہماری زندگیوں کو متحرک اور سرگرم رکھ سکتے ہیں؟
یاد رکھیئے کامیابیاں کبھی ایسے تن آسانوں کو نہیں ملا کرتیں جو کسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنے سے کتراتے اور گھبراتے ہوں۔
تو پھر کیوں ناں ہم اپنے وہ ساری مہارتیں اور سارے مواقع و وسائل جو اللہ تبارک و تعالٰی نے ہمیں عطا کیئے ہیں استعمال کرکے کچھ مختلف کام کریں۔ کم از کم اُن لوگوں سے مختلف تو ضرور جو تن ٓآسان، سست اور کاہل لوگ کرتے ہیں۔
کیوں ناں کوئی ہمارے پیچھے بھی ایک شارک مچھلی لگادے جو ہمیں زندگی میں آگے ہی آگے بڑھاتی رہے کامیابیوں اور کامرانیوں کے سفر پر۔۔۔
تازہ مچھلی کھانے کا سواد
No comments:
Post a Comment