احكام حيض
(نماز ,روزه,حج,اور عمره سےمتعلق سا ٹھ
سوالوں کے جوابات)
تاليف
فضيلت مآب شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله
اردو ترجمة :ابو المكرم عبد الجليل رحمه الله
نظرثا ني : شفيق الرحمن ضياء الله
طباعت واشاعت : دفترتعاون برائےدعوت وارشاد سلطانہ-ریاض
بسم الله
الرحمن الرحيم
تقد يم
الحمد لله ,والصلاة والسلام علي رسول الله ,محمد بن عبد الله ,وآله وصحبه ومن سار علي دربه إلي يوم الدين ,أما بعد:
اسلامی بہنو! عبادات میں حیض کے احکام سے متعلق علمائے کرام سے بکثرت کئے جانے والے سوالات کے پیش نظر ہم نے یہ منا سب سمجھا کہ جو سوالات ہمیشہ اور بکثرت پیش آتٍے رہتے ہیں انہیں تفصیل کے بغیر مختصراً مرتب کردیا جائے-
اسلامی بہنو! ہم نے ان سوالات کی جمع وترتیب کا اہتمام اس لئے کیا ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ آپ کے ساتہ رہے
,کیونکہ شریعت الھی کی فقہ ومعرفت کی بڑی اہمیت ہے , اور اس
لئے بھی کہ آپ علم وبصیرت کے ساتہ اللہ تعالی کی عبادت وبندگی کریں-الحمد لله ,والصلاة والسلام علي رسول الله ,محمد بن عبد الله ,وآله وصحبه ومن سار علي دربه إلي يوم الدين ,أما بعد:
اسلامی بہنو! عبادات میں حیض کے احکام سے متعلق علمائے کرام سے بکثرت کئے جانے والے سوالات کے پیش نظر ہم نے یہ منا سب سمجھا کہ جو سوالات ہمیشہ اور بکثرت پیش آتٍے رہتے ہیں انہیں تفصیل کے بغیر مختصراً مرتب کردیا جائے-
اسلامی بہنو! ہم نے ان سوالات کی جمع وترتیب کا اہتمام اس لئے کیا ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ آپ کے ساتہ رہے
نوٹ: پہلی مرتبہ کتاب کی ورق گردانی کرنے والا شخص یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس کے اند ر بعض سوالات مکرر ہیں ,لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد اسے معلوم ہو گا کہ ابک سوال کے جواب میں بعض علمی اضافہ ہے جو دوسرےسوال کے جواب میں نہیں ہے ,اور اس علمی اضافہ کو ہم نے نظر انداز کردینا مناسب نہیں سمجھا-
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وآلہ وصحبہ أجمعین-
نماز اور روزہ سےمتعلق حیض کے بعض احکام
سوال (1) : عورت اگر فجر کے فوراً بعد پاک ہو جائے تو کیا وہ کھا نے پینے اور دیگر مفطرات سے رک کر اس دن کا روزہ کھے گی ؟ اور کیا اس کے اس دن کے روزہ کا شمار ہوگا یا اسے اس دن کی قضا کرنی ہوگی ؟
جواب: عورت اگر طلوع فجر کے بعد پاک ہوتی ہے تو اس دن اس کے کھانے پینےاور دیگر مفطرات سے باز رہنے کے سلسلہ میں علماء کے دو قول ہیں :
پہلا قول: یہ ہے کہ اسے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے رک جانا ضروری ہے ,لیکن اسکا یہ روزہ شمار نہ ہوگا ,بلکہ اس کی قضا کرنی ہوگی ,امام احمد رحمہ اللہ کا مشہور مذ ہب یہی ہے-
دوسرا قول: یہ ہے کہ اس کیلئے اس دن کھانے پینے اور دیگر مفطرات سے باز رہنا ضروری نہیں , کیونکہ اس کے لئے اس دن کا روزہ رکھنا درست نہیں , اسلئے کہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ حائضہ تھی جس کا روزہ رکھنا درست نہیں, اور جب اس کا روزہ درست نہیں تو کھانے پینے اور مفطرات سے رکے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں, اور یہ وقت ایسا ہے جس کا احترام اس پر ضروری نہیں کیونکہ دن کے ابتدائی حصہ میں وہ روزہ نہ رکھنے کی پا بند تھی , بلکہ اس وقت اس کا روزہ رکھنا حرام تھا ,اور شرعی روزہ جیساکہ ہم سب جانتے ہیں یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی عبادت کی نیت سے طلوع فجر سےلیکرغروب آفتاب تک مفطرات سے باز رہا جائے-
یہ دوسرا قول جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں پہلے قول سے زیادہ راجح ہے, بہر حا ل دونوں قو ل کی روشنی میں مذکورہ عورت کو اس دن کے روزہ کی قضا کرنی ہوگی-
سوال (2): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ اگر حائضہ عورت (فجرسے پہلے) پا ک ہوئی اور فجر کے بعد غسل کیا اور نماز پڑھی اور اس دن کا روزہ مکمل کیا ,تو کیا اس پر اس روزہ کی قضا واجب ہے ؟
جواب: حائضہ اگر طلوع فجر سے ایک منٹ بھی پہلے پاک ہو اور اسے طہر کا یقین ہو تو اگر یہ رمضان کا مہینہ ہے تو اس پر اس دن کا روزہ واجب ہے اور وہ روزہ صحیح شمار ہو گا ,اس کی قضا واجب نہیں ہوگی کیونکہ اس نے طہر کی حالت میں روزہ رکھا ہے ,اور اس نے غسل اگر چہ فجر بعد کیا ہے ,تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ,جس طرح مرد اگر جماع یا احتلام کے سبب جنبی ہو جائے اور سحری کرلے ,اور غسل طلوع فجر کے بعد کرے, تو اسکا روزہ صحیح ہے-
اس مناسبت سے میں عورتوں سے متعلق ایک اورمسئلہ کی جانب متنبہ کرنا چا ہتا ہوں ,وہ یہ کہ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ عورت جب دن کا روزہ مکمل کرلے اور اسے افطار کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے سے پہلے حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجاتا ہے ,اسکی کوئی اصل نہیں ,بلکہ اگر غروب آفتاب کے ایک لمحہ کےبعد بھی حیض آجائے تو وہ روزہ مکمل اور صحیح ہے-
سوال (3): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہوجائے تو کیا اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے؟
جواب: ہاں, نفاس والی عورت پر چالیس دن سے پہلے جب بھی پاک ہو جائے اور رمضان کا مہینہ ہو تو اس پر روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا واجب ہے اور اس کے شوہر کیلئے اس سے مجامعت کرنا بھی درست ہے کیونکہ وہ عورت اب پاک ہے, اور روزہ اور نماز کےوجوب سے اور جماع کی اباحت سے کوئی چیز مانع نہیں-
سوال (4): اگر عورت کے حیض کی معروف عادت آٹہ دن یا سات دن ہو ,پھر کبھی ایک یا دو مرتبہ اس کا حیض معروف عادت سے زیادہ دن تک رہ جائے ,تواسکا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی عورت کی معروف عادت اگر 6 دن یا سات دن ہو ,لیکن پھر یہ مدت لمبی ہوجائے اور اسکا حیض 8 دن یا نودن یا دس دن یا گیارہ دن تک باقی رہ جائے تو وہ پاک ہونے تک نماز نہ پڑھے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کی کوئی خاص مدت متعین نہیں کی ہے ,اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ﴿ ويسألونك عن المحيض قل هو أذىً ﴾
البقرۃ[222] ترجمہ"وہ آپ سے حیض کےمتعلق دریافت کرتے ہیں, آپ فرما دیجئے کہ وہ ناپاکی ہے "
اسلئے جب تک حیض کا خون باقی رہے عورت بھی اپنی حالت پر باقی رہے گی, یہاں تک کہ وہ پاک ہو کر غسل کرے اور پھر نماز پڑھے .پھر دوسرے مہینہ میں اگر اسے گزشتہ مہینہ سے کم مدت حیض آ ئے تو جیسے ہی وہ پاک ہو غسل کرلے ,اگر چہ اس مہینہ کی مدت سے کم ہو . الغرض عورت جب تک حیض سے ہو نماز نہ پڑھے ,خواہ یہحیض سابقہ عادت کے مطابق ہو یا اس سے زیادہ ہو یا اس سے کم ہو, اور جب حیض سے پاک ہو جائے نماز پڑھے-
سوال (5): کیا نفاس والی عورت چالیس دن تک نماز اور روزہ ترک کئے رہے گی ,یا اس سلسلہ میں نفاس کے خون کے بند ہونے کا اعتبار کیا جائے گا کہ جیسے ہی خون ہوجائے وہ غسل کرکے نماز شروع کردے؟ نیز طہر کیلئے اقل مدت نفاس کیا ہے؟
جواب : نفاس کی کوئی متعین مدت نہیں ہے , بلکہ جب تک خون آئے عورت نمازو روزہ ترک کئے رہے اور اس کا شوہر اس سے مجامعت بھی نہ کرے , اور جب طہردیکھ لے نماز اور روزہ شروع کردے , اور اب اسکا شوہر اس سے مجامعت بھی کرسکتا ہے, بھلے ہی ابھی چالیس دن پورے نہ ہوئے ہوں, اور اگر چہ اس نے نفاس میں دس دن یا پانچ دن ہی گزارے ہوں -
الغرض نفاس ایک حسی چیزہے اور احکام اس کے وجود یا عدم سے تعلق رکھتے ہیں ,لہذا جب نفاس موجود ہوگا اس کے احکام ثابت ہوں گے ,اور جب عورت پاک ہو جائے گی تو نفاس کے احکام بھی اس سے ساقط ہو جائیں گے , البتہ اگر نفاس کا خون60 دن کےبعد بھی جاری رہے تو اس صورت میں عورت مستحاضہ سمجھی جائے گی ,اس لئے اس حیض کی جو معروف مدت تھی صرف اتنی مدت گزار کر وہ غسل کرے گی اور نماز پڑھےگی –
سوال (6): عورت كو رمضان كے مہینہ میں دن میں خون کے معمولی قطرے آگئے ,اوراس طرح کا خون پورے ماہ اسے آتا رہا اور وہ روزہ رکھتی رہی ,تو کیااسکا روزہ درست ہے ؟
جواب: ہاں, اسکا روزہ درست ہے, اور خون کے ان قطرو ں کا کوئی اعتبار نہیں , کیونکہ وہ رگوں سے آتے ہیں ,اور علی رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ خون کے یہ قطرے جو نکسیر کی طرح ہوتے ہیں حیض نہیں –
سوال (7):حائضہ یا نفاس والی عورت اگرفجرسے پہلے پاک ہوجائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے ,تو کیا اسکا روزہ درست ہے؟
جواب: ہاں, حائضہ اور اسی طرح نفاس والی عورت اگر فجر سے پہلے پاک ہو جائے ,لیکن طلوع فجر کے بعد غسل کرے تو اسکا روزہ درست ہے ,کیونکہ وہ جس وقت پاک ہوئی روزہ رکھنے کے لائق ہوگئی اور وہ بعینہ اس مرد کی طرح ہے جو طلوع فجرکے وقت حالت جنابت میں تھا ,تو اسکا روزہ درست ہے ,
کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
﴿ فالآن باشروهن وابتغو ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الأبيض منالخيط الأسود من الفجر﴾ [البقرة:187-
پس اب تم اپنی بيويوں سے مباشرت کرو , اور جو چیز اللہ نے تمہارے لئے لکھی ہے اسے تلاش کرو ,اور کھاتے پیتے رہو , یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھا گے سےظاہر ہو جائے –
تو جب اللہ تعالی نے طلوع فجرتک جماع کرنے کی اجازت دی ہے تو اسکا لازمی مطلب یہ ہے کہ غسل طلوع فجرکے بعد ہوگا-
نیز عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے, کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے جماع کے بعد جنابت کی حالت میں صبح کرتے, حالانکہ آپ روزہ سے ہوتے تھے -
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد غسل جنابت فرماتے تھے -
سوال (8) عورت نے خون محسوس کیا یا حیض کی تکلیف محسوس کی, لیکن غروب آفتاب سے پہلے خون نہیں آیا, توکیا اس کا یہ روزہ درست ہے یا اس کی قضا کرنا ہو گی؟
جواب: اگر پاک عورت نے حالت صیام میں حیض آنامحسوس کیا یا حیض کی محسوس کی لیکن حیض غروب آفتاب کے بعد آیا ,تو اسکا اس دن کا روزہ درست ہے, لہذااگر وہ فرض روزہ تھا تو اسکا اعادہ نہیں کرنا ہوگا, اور اگر نفل روزہ تھا تو اسکا اجروثواب متاثر نہیں ہوگا –
سوال (9) عورت نے خون دیکھا, لیکن قطعی فیصلہ نہیں کرسکی کہ وہ دم حیض ہی ہے, تو اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے ؟
جواب: مذکورہ عورت کا اس دن کا روزہ درست ہے ,کیونکہ حیض کا نہ ہونا ہی اصل ہے, یہاں تک کہ اسے حیض آنے کا پورا یقین ہو جائے-
سوال (10) بعض دفعہ عورت دن کے مختلف اوقات میں خون کا معمولی اثریا خون کےمعمولی قطرے دیکھتی ہے ,کبھی تو ایسا حیض کے ایام میں دیکھتی ہے جبکہ ابھی حیض شروع نہیں ہوا ہے ,اورکبھی ایام حیض کے علاوہ ایام میں دیکھتی ہے ,سوال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں حالتوں میں اسکے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: تقریبا اسی قسم کے ایک سوال کا جواب گزرچکا ہے ,البتہ سوال کا ایک حصہ باقی رہ جاتا ہے ,وہ یہ کہ خون کے قطرے اگر حیض کے ایام میں دکھائی دیں اور وہ انہیں حیض سمجھ رہی ہو جو اس کے نزدیک معروف ہے , تو وہ حیض کے حکم میں ہوں گے-
سوال (11) کیا حائضہ اورنفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ؟
جواب: ہاں, حیض اور نفاس والی عورتیں رمضان المبارک کے مہینہ میں دن میں کھا ,پی سکتی ہیں ,البتہ بہتر یہ ہےکہ اگر گھر میں بچے ہوں تو چھپ کر کھائیں ,تاکہ بچوں کےذہن میں کوئی اشکا ل نہ پیدا ہو -
سوال (12) حائضہ یا نفاس والی عورت اگرعصر کے وقت پاک ہو ,تو کیا اسے عصر کے سا تہ ظہر کی نماز پڑھنا ہوگی یا وہ صرف عصر کی نماز پڑھے گی ؟
جواب : اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ مذکورہ عورت کو صرف عصر کی نماز پڑھنا ہوگی ,کیونکہ اس صورت مین ظہر کی نماز کے وجوب کی کوئی دلیل نہیں ,اوربراءت ذمہ یعنی عدم وجوب ہی اصل ہے –
دوسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے:
"جس نے غروب آفتاب سے پہلےعصر کی ایک رکعت بھی پالی اس نے عصر کی نماز پالی " اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اس نے ظہر کی نماز پالی,حالانکہ ظہر کی نماز بھی اس صورت میں واجب ھوتی تو آپ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا-
مذکورہ بالا صورت میں عورت پر ظہر کی نماز کے واجب نہ ہونے کی ایک وجہ اور بھی ہے , وہ یہ کہ اگر عورت ظہر کا وقت ہو جانے کے بعد حائضہ ہو تو اسے صرف ظہرکی نماز قضا کرنا ہو گی ,عصر کی نہیں ,حالانکہ ظہر اورعصر کو ایک ساتہ ملا کر جاتا ہے ,اور اس صورت میں اور سوال کے اندر مذکور صورت میں کوئی فرق نہیں -
لہذا بعض حدیث اور قیاس کی روشنی میں مذکورہ عورت پر صرف عصر کی نماز پڑھنا لازم ہے اور ٹھیک اسی طرح اگروہ عشاء کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلےپا ک ہو جائے تو اسے صرف عشاء کی نماز پڑھنی ہوگی ,مغرب کی نہیں –
سوال (13) جن عورتوں کا حمل ساقط ہوتا ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہو تیں :یا تو اسقاط حمل جنین کی تخلیق سے پہلے ہوتا ہے ,اوریا تو جنین کی تخلیق اور اسکے اندر شکل وصورت بننے کے بعد ,اب سوال یہ ہے کہ جس دن اسقاط حمل ہوا اس دن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ نیز ان ایام کے روزہ کا کیا حکم ہے جن میں وہ خون دیکھتی ہے ؟
جوا ب: ا گر جنین کی تخلیق نہیں ہوئی ہے تو یہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا وہ عورت نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی اوراسکا روزہ بھی درست ہے , اوراگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہے تو یہ خون نفاس کا خون ہے , لہذا اس حالت میں اس کا نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا جائز نہیں –
اس مسئلہ میں قاعدہ یا ضابطہ یہ ہے کہ اگر جنین کی تخلیق ہو چکی ہو تو اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس کا خون ہے, اور اس صورت میں اس کیلئےوہ سب حرام ہے جو ایک نفاس والی عورت پرحرام ہو تا ہے , اور اگر جنین کی تخلیق نہ ہوئی ہو تو وہ خون نفاس کا خون نہیں ,لہذا نفاس والی عورت پر جو چیزیں حرام ہیں وہ اس پر حرام نہیں-
سوال (14) : حاملہ عورت کو اگر رمضان کے مہینہ میں دن میں خون آجائے تو کیا اس کا روزہ متاثر ہوگا ؟
جواب: اگر عورت روزے سے ہو اوراسے حیض کا خون آجائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے,کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:"کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حیض سے ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے"-
اسی لئے حیض کو مفطرات (روزہ ٹوڑنے والی اشیاء)میں شمار کیا جاتا ہے , اورنفاس کا حکم بھی وہی ہے ,لہذ ا حیض یا نفاس کا خون آنے سے روزہ ٹوٹ جائیگا –
رہا حاملہ عورت کو رمضان المبارک کے مہینےمیں دن میں خون آنے کا مسئلہ ,تو وہ اگر حیض کا خون ہے تو اس کا حکم غیر حاملہ عورت کے حیض کا ہے ,یعنی اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا , اور اگر حیض کا خون نہیں تو اس سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا-
حاملہ عورت کو جو حیض آسکتا ہے وہ یہ ہے کہ جب سے اس کو حمل قرار پایا ہے اس کا حیض بند نہ ہوا ہو ,بلکہ عادت کے مطابق آتا رہا ہو , تو راجح قول کے مطابق وہ حیض ہے اور اس پر حیض کے احکام نافذ ہوں گے , لیکن اگر اس کا حیض بند ہو گیا ہو , پھر اس کے بعد وہ خون دیکھے جو حیض کا معروف خون نہیں ,تو اس سے روزہ متاثر نہیں ہوگا , کیونکہ وہ خون ,حیض نہیں –
سوال (15): عورت اگرحیض کی عادت کے دنوں میں ایک دن خون دیکھے ,اوراس کے دوسرے دن پورے دن خون نہ دیکھے ,تو اس کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اس مسئلہ میں ظاہر یہ ہے کہ اس عورت نے اپنے حیض کے ایام میں جو طہریا خشکی دیکھی ہےوہ حیض کے تا بع ہے ,لہذا وہ طہر شمار نہیں ہوگا , بنابریں وہ اس چیز سے بچے گی جس سے حائضہ عورت بچتی ہے-
لیکن بعض اہل علم نے یہ کہا کہ جو عورت ایک دن خون دیکھے اور ایک دن خون نہ دیکھے ,تو خون حیض شمار ہوگا اور خون نہ آنے والا دن طہر ,یہاں تک کہ پندرہ دن گزرجائیں ,پندرہ دن کے بعد پھر وہ استحاضہ شمار ہوگا , امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب یہی ہے-
سوال (16): حیض کے آخری ایام میں طہر سے پہلے عورت خون کا کوئی اثر نہین پاتی ,تو کیا وہ اس دن روزہ رکھ سکتی ہے جبکہ ابھی اس نے سفید پانی نہیں دیکھا ہے ؟یا اسے کیا کرنا ہوگا ؟
جواب: اگر مذکورہ عورت کی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کے بعد سفید پانی نہیںدیکھتی ,جیسا کہ بعض عورتوں میں یہ بات پائی جاتی ہے , تو وہ روزہ رکھے گی , اور اگر اسکی عادت یہ ہو کہ وہ حیض کےبعد سفیدی دیکھتی ہے ,تو جب تک سفیدی نہ دیکھ لے روزہ نہیں رکھ سکتی -
سوال (17): حائضہ اور نفاس والی عورت کے لئے ضرورت کے تحت مثلاً طالبہ یا معلّمہ ہونے کی صورت میں دیکھ کر یا زبانی قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ضرورت کے تحت حائضہ یا نفاس والی عورت مثلاًطالبہ یا معلمہ کیلئے رات یا دن کسی بھی وقت قرآن کریم پڑھنے اور اس کے دہرانے میں کوئی حرج نہیں ,لیکن اجروثواب کی غرض سے اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت نہ کرنا ہی افضل ہے ,کیونکہ بہت سے بلکہ اکثراہل علم کا یہی خیال ہے کہ حائضہ کیلئے قرآن کریم کی تلاوت کرنا جائز نہیں –
سوال (18): كيا حائضہ عورت کیلئے طہر کےبعد کپڑے تبدیل کرنا ضروری ہیں ؟بھلے ہی اس میں خون یا نجاست نہ لگی ہو ؟
جواب: نہیں ,کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں , کیونکہ حیض سے جسم ناپاک نہیں ہوتا ,بلکہ صرف وہ چیزیں ناباک ہو تی ہے جس میں یہ خون لگ جائے ,اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےعورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ اسے دھو لیں اور اس میں نماز پڑھیں .
سوال (19): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے نفاس کیوجہ سےرمضان کے سات روزے نہیں رکھے , اور دوسرا رمضان آنے تک اس نے ان روزوں کی قضا بھی نہیں کی , پھر دوسرے رمضان کے بھی اس کے سات روزے رہ گئے کیونکہ وہ بچے کو دودہ پلا رہی تھی ,بیماری کا عذر ہونے کیوجہ سے اس نے ان روزوں کی بھی قضا نہیں کی , اب جبکہ تیسرا رمضان قریب ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟ جواب سے مستفید فرمائیں , اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے –
جواب : مذکورہ عورت اگروا قعی مریض ہے اور روزوں کی قضا کی استطاعت نہیں رکھتی , تو چونکہ وہ معذور ہے اس لئے جب بھی اپنے اندر استطاعت پائے روزوں کی قضا کرے. اگرچہ دوسرا رمضان آجائے , لیکن اگر اسکے پاس کو ئی عذر نہیں ,بلکہ بہانہ بازی اور سستی کر رہی ہے , تو اسکے لئے یہ جائز نہیں کہ ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرے , عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :" ميرے ذمہ روزے باقی ہوتے تھے,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کر پاتی تھی" بنابریں اس عورت کو اپنے سلسلے میں غور کرنا چاہئے , اگراسکے پاس کوئی معقول عذر نہیں ہے تو وہ گنہگار ہے, اور اسکے ذمہ جو روزے باقی ہیں ان کی قضا کرنے میں جلدی کرے ,لیکن اگر وہ واقعی معذور ہے تو روزوں کی قضا میں سال دوسال کی بھی تاخیر ہو جائے تو اس مین کوئی حرج نہیں –
سوال (20): بعض عورتوں کا حال یہ ہے کہ دوسرا رمضان آجاتا ہے اور وہ ابھی گزشتہ رمضان کےچھوڑے ہوئے روزوں کی قضا نہیں کئے ہوتی ہیں , تو ایسی عورتوں پر کیا واجب ہے؟
جواب : ایسی عورتوں پريہ واجب ہے کہ وہ اس فعل سے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں (اور دوسرا رمضان ختم ہوتے ہی ان روزوں کی قضا کرلیں ) کیونکہ بغیر کسی عذر کے ایک رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دوسرے رمضان تک موخر کرنا جائز نہیں ,جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے" میرے ذمہ روزے باقی ہوتے تہے ,تو میں شعبان ہی میں ان کی قضا کرپأتی تھی "
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ایک رمضان کے روزوں کی قضا دوسرے رمضان کے بعد تک مؤخر کرنا ممکن نہیں ,لہذ ا ایسی عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے اللہ عزوجل سے سچی توبہ کریں اوردوسرے رمضان کے بعد چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرلیں-
سوال (21): اگر عورت دوپہر کے بعد مثلاً ایک بجے حائضہ ہوجائے اور اس نے ابھی تک ظہر کی نماز نہ پڑھی ہو ,تو کیا پاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی؟
جواب : اس مسئلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے , بعض کا یہ کہنا ہے کہ مذکورہ عورت پر اس نماز کی قضا واجب نہیں ,کیونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی اورنہ ہی گنہگار ہوئی ,کیونکہ اس کیلئے نماز کواس کے آخری وقت تک مؤخرکرنا جائز ہے ,لیکن بعض دوسرے علماء یہ کہتے ہیں کہ اس پر مذکورہ نمازکی قضا واجب ہے ,کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے"جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نےنمازپالی " ویسے احتیاط اسی میں ہے کہ وہ اس نماز کی قضا کرلے ,کیونکہ ایک نماز کی بات ہے جس کی قضا میں عورت کیلئے کوئی مشقت وپریشانی نہیں –
سوال (22 ): حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یا دو دن پہلے خون دیکھ لے ,تو کیا اس کی وجہ سے وہ نماز اور روزہ ترک کردیگی ؟
جواب: حاملہ عورت اگر ولادت سے ایک یادودن پہلے خون دیکہ لے اورولادت کی تکلیف (دردزہ) محسوس کرے ,تو یہ نفاس شمار ہوگا ,لہذا اس کی وجہ سے عورت نماز اورروزہ چھوڑدے گی –لیکن اگرخون آنے کےساتہ دردزہ محسوس نہ کرے ,تو یہ فاسد خون مانا جائے گا جس کا کوئی اعتبار نہیں , اورنہ ہی یہ خون نماز اور روزہ سے مانع ہے –
سوال (23): لوگوں کے ساتہ روزہ رکھنے کی غرض سے مانع حیض گولیوں کے استعمال کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
جواب: میں اس بات سے سختی سےمنع کرتا ہوں ,کیونکہ اطباء کے ذریعہ میرے نزدیک یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ان گولیوں کے بڑے نقصانات ہیں ,لہذا عورتوں سے یہی کہنا ہے کہ یہ بات اللہ تعالی نے تمام عورتوں کیلئے مقدر فرمادی ہے ,اسلئے اللہ عزوجل کی مقررکردہ تقدیر پر قانع رہو, اور جب کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو روزہ رکھو ,اور جب کوئی شرعی رکاوٹ درپیش ہو تو اللہ عزوجل کی تقدیر پر رضا مند رہتے ہوئے روزہ توڑدو-
سوال (24): ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ ایک عورت کو شوہر سے ہمبستری اور حیض سے پاک ہونے کے دوماہ بعد خون کے چھوٹے چھوٹے قطرے آنے لگے ,اب اس حالت میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے یا کیا کرے؟
جواب: حیض اور نکاح (جماع) سے متعلق عورتوں کی مشکلات اس سمندر کےمانند ہےجسکا کوئی ساحل ہی نہیں,( یعنی بےشمار ہیں) ,جس کا ایک سبب مانع حیض اور مانع حمل گولیوں کا استعمال بھی ہے , سابقہ دور میں اس قسم کے اکثر اشکالات کو جانتے بھی نہ تھے ,یہ صحیح ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی سے بلکہ جب سے عورت کا وجود ہو ا اسی وقت سے اشکالات موجود ہیں ,لیکن اشکالات کی ایسی کثرت وبہتات کہ انسان ان کے حل کرنے میں حیران وپریشان ہوجائے ,بڑی افسوسناک بات ہے.
لیکن اس سلسلہ میں عام قاعدہ یہ ہے کہ عورت جب پاک ہوجائے , اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکہ لے,اور حیض میں یقینی طور پر طہر دیکھنے سےمیری مرا د یہ ہے کہ اسے وہ سفید پانی نظر آجائے جسے عورتیں جانتی ہیں ,خواہ وہ پانی مٹ میلا ہو ,یا زردی مائل ہو , یا قطرہ ہو , یا رطوبت ہو , تو یہ سب حیض میں شمار نہیں ہیں , اسلئے اس کے لئے نماز اورروزہ سے مانع نہیں اورنہ ہی اس کے شوہر کیلئے مجامعت سے مانع,کیونکہ یہ سب چیزیں حیض سے نہیں ,
جیسا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :"هم زردي مائل يا مـ ٹ میلے پانی کا کچھ اعتبار نہیں کرتے تھے "
اس حديث كو اما م بخاري نے روایت کیا ہے.اور امام ابوداود نے اس میں لفظ طہر کا اضافہ کیا ہے (یعنی طہر کے بعد ہم زردی مائل یا مٹ میلے پانی کا کچہ اعتبار نہیں کرتے تھٍٍے ) اس حدیث کی سند صحیح ہے.
اس بنا پر ہم کہ سکتے ہیں کہ طہر کا یقین ہو جانے کے بعد اس قسم کی جو بھی چیز ظاہر ہو وہ عورت کیلئے مضر نہیں , اور نہ ہی اس کے لئے نماز ,روزہ اور شوہر کے ساتہ ہمبستری سے مانع ہے , لیکن اس پر واجب ہے کہ جب تک وہ طہر نہ دیکھ لے جلدی نہ کرے ,کیونکہ بعض عورتیں جیسے ہی دیکھتی ہیں کہ خون بند ہو گیا طہر دیکھے بغیر جلدی سے غسل کر لیتی ہیں ,
یہی وجہ ہے کہ صحابیات –رضی اللہ عنہن- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کےپاس کرسف یعنی خون والی روئی بھیجتیں , تو وہ جواب میں ان سے فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ سفیدی دیکھ لو .
سوال (25): بعض عورتوں کو مسلسل خون جاری رہتا ہے , اورکبھی ایسا ہوتا ہےکہ ایک یا دو دن بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے ,ایسی حالت میں ان کیلئے نماز ,روزہ اوردیگر عبادتوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: بہت سے اہل علم کےنزدیک مشہور یہی ہے کہ اگر عورت کی کوئی مخصوص عادت (یعنی متعین مدت ) ہے , تو اس عادت کے پوری ہوجانے کے بعد وہ غسل کرے اور نماز پڑھے اور روزہ رکھے , اور دو یا تین دن کے بعد وہ جو خون دیکھتی ہے وہ حیض نہیں ھے , کیونکہ ان علماء کے نزدیک طہر کی کم سے کم مدت تیرہ (13)دن ہے ,اور بعض دوسرے اہل علم یہ کہتے ہیں کہ جب وہ خون دیکھے حائضہ شمارہوگی , اور جب نہ دیکھے پاک شمار ہو گی , اگرچہ دونوں حیض کے درمیان تیرہ (13) دن کا وقفہ نہ ہو.
سوال (26):عورت کیلئے رمضان المبارک کی راتوں میں گھرمیں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں ؟ خاص کر اس صورت میں جبکہ مسجد میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ بھی ہو ؟ نیز مسجد میں نماز پڑھنے والی عورتوں کو آپ کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟
جواب: افضل یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں نماز پڑھے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث عام ہے :"اور عورتوں کے لئے ان کا گھر نماز کے لئے زیادہ بہترہے"
نیز اس لئے کہ عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا بہت سے حالات میں فتنہ سے خالی نہیں ہوتا , اس لئے اس کا گھر میں نمازپڑھ لینا مسجد جانے سے بہتر ہے, جہان تک وعظ ونصیحت کے سننے کی بات ھے ,تو یہ کیسٹ کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے -
جو عورتیں نماز کیلئے مسجد جاتی ہیں ان کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ کسی زیب وزینت کا مظاہرہ نہ کریں اورنہ ہی خوشبو لگا کرجائیں.
سوال (27) :عورت كے لئے رمضان المبارک کے مہینہ میں روزہ کی حالت میں کھانا چکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ضرورت اسکی متقاضی ہو تو اسکے چکھنےمیں کوئی حرج نہیں ,لیکن چکھنے کے بعد وہ اسے تھوک دے .
سوال (28): ایک عورت حمل کے ابتدائی ایام سے گزررہی تھی کہ ایکسیڈنٹ کا شکار ہوگئی اور بہت زیادہ خون گرنے کی وجہ سے جنین (پیٹ کا بچھ) سا قط ہو گیا , تو ایسی صورت میں کیا وہ روزہ توڑدے یا جاری رکھے ؟ اور اگر روزہ توڑدے تو کیا اس پر کوئی گناہ ہے ؟
جواب : ہمارا یہ خیال ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا, جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ عورتوں کو حیض بند ہونے سے ہی حمل کا پتہ چلتا ہے , اور حیض کو جیسا کہ اہل علم کہتے ہیں ,اللہ تبارک وتعالی نے اس حکمت کے تحت پید ا فرمایا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنیں کے لئے غذا بنے , لہذا جیسے ہی حمل قرار پاتا ہے حیض آنا بند ہوجاتا ھے ,لیکن بعض عورتوں کو حسب عادت حمل کے بعد بھی حیض جاری رہتا ہے جسطرح حمل سے پہلے تھا , تو ایسی عورت پر یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس کا یہ حیض صحیح حیض ہے , کیونکہ وہ حمل سے متاثر ہوئے بغیر جاری ہے –تو اس قسم کا حیض بھی ہر اس چیز سے مانع ہوگا جس سے غیر حاملہ کا حیض مانع ہوتا ہے ,اورہر اس چیزکو واجب کرنے والا ہوگا جس کو غیر حاملہ کا حیض واجب کرتا ہے, اور ہر اس چیز کو ساقط کردے گا جسے غیر حاملہ کا حیض ساقط کرتا ہے .
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حاملہ کو جو خون آتا ھے وہ دو طرح کا ہوتا ہے :
ايك طرح كے خون پر حیض کا حکم عائد ہوگا,اوریہ وہ خون ہے جوحمل کے بعد بھی پہلے ہی کی طرح جاری رہے , جسکا مطلب یہ ہے کہ وہ حمل سے متاثر نہیں ہوا ہے ,لہذا وہ حیض شمار ہوگا.
دوسرا خون وہ ہے جو کسی ایکسیڈ نٹ کےسبب یا کسی وزنی چیز کے اٹھانے کی وجہ سے یا کہیں سے گرجانے کے باعث اچانک آجائے ,تو یہ حیض نہیں ,بلکہ رگ کا خون ھے ,لہذا اس کیلئے نماز اور روزہ سے مانع نہیں ہوگا ,بلکہ یہ پاک عورتوں کے حکم میں ھوگی,لیکن اگر ایکسیڈ نٹ کے سبب پیٹ کا بچہ یا حمل ساقط ہو جائے تو اہل علم کے بقول اس کی دو صورت ہے :
پہلی صورت یہ ہے کہ پیٹ کا بجہ اس حال میں ساقط ہو کہ اس کی شکل وصورت ظاہر ہوچکی ھے, تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہو گا ,جس میں وہ نماز اورروزہ چھوڑ دے گی , اور پاک ہونے تک اس کا شوہر بھی اس سے ہمبستری نہیں کرسکتا.
دوسری صورت یہ ہے کہ حمل اس حال میں ساقط ہو کہ ابھی اس کی شکل وصورت ظاہر نہیں ہوئی ہے ,تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں, بلکہ فاسد خون شمارہو گا ,جو اس کے لئے نماز ,روزہ اور دیگر امور سے مانع نہیں .ا ہل علم فرماتے ہیں کہ تخلیق (شکل وصورت ) ظاہر ہونے کی اقل مدت اکیاسی (81) دن ہے, جیسا کہ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ صادق ومصدوق ہیں ,نے فرمایا :" ہر شخص اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے , پھر اسی مدت کے بقدرخون کا لوتھڑا رہتا ہے ,پھر اس کے اسی مدت کے بقدر گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے ,پھر اس کے پاس فرشتہ بھیجا جاتا ہے جسے چار باتوں کا حکم ہوتا ہے ,چنانچہ وہ اس کی روزی , اس کی زندگی کی مدت , اس کا عمل اور یہ کہ وہ نیک بخت ہوگا یا بد بخت لکھ دیتا ہے"
لہذا اس مدت سے پہلے پیٹ کے اندر جنین کی خلقت کا مظاہرہ ہونا ممکن نہیں ,ویسے عموما نوے (90) دن سے پہلے خلقت ظاہر نہیں ہوتی , جیسا کہ بعض اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے .
سوال (29): ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ تقریبا سال بھر پہلے تیسرے مہینے مین میرا حمل ساقط ہوگیا , پاک ہونے تک میں نے نماز نہیں پڑھی ’ مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر نماز پڑھنی واجب ہے , اب میں کیا کروں جبکہ میں متعین طور پردنو ں کی تعداد نہیں جانتی ؟
جواب : اہل علم کے نزدیک معروف یہی ہے کہ عورت تین ماہ کا جنین ساقط کردے تو وہ نماز نہیں پڑھے گی, کیونکہ اگر وہ ایسا جنین ساقط کرتی ہے جس کے اندر انسانی شکل و
صورت ظاہر ہوچکی ہو تو اس حالت میں آنے والا خون نفاس کا خون ہے جسکے ہوتے ہوئے عورت نماز نہیں پڑھے گی –
علماء کا کہنا ہے کہ جنین کی شکل وصورت (81) اکیاسی دن پورے ہونے پر ظاہر ہو سکتی ہے ,اوریہ مدت تین ماہ سے کم ہے , لہذا اگر عورت کو یقین ہو کہ ساقط ہونے والا جنین تین ماہ کا ہو چکا ہے تو آنے والا خون نفاس کا خون ہٍے,لیکن اگرجنین (80)اسّی دن سے پہلے ساقط ہوا ہے تو اس صورت میں آنے والا خون فا سد خون ہے جس کی وجہ سے وہ نماز ترک نہیں کرے گی اب مذکورہ عورت اپنے متعلق یاد داشت پر زور دے ,اگر اسکا جنین80 دن پورے ہونے سے پہلے ساقط ہوا ہے تو وہ نمازوں کی قضا کرے , اگر اسے چھوڑی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو حتی الإمکان اندازہ لگا کر جو غالب گمان ہو اس کے مطابق نمازوں کی قضا کرے-
سوال (30): ایک خاتون دریافت کرتی ہیں کہ جب سے ان پر روزہ واجب ہوا ہے وہ رمضان کے روزے رکھتی ہیں ,لیکن ان روزوں کی قضا نہیں کرتیں جو حیض کے دنوں میں چھوٹ جاتے تھے, اور چونکہ انہیں چھوڑے ہوئے روزوں کی تعداد معلوم نہیں , اس لئے چاہتی ہیں کہ انہیں اس چیز کی طرف رہنمائی کی جائے جو ان پر واجب ہے؟
جواب: ہمیں افسوس ہے کہ مسلمان عورتوں سے اس طرح کی بات واقع ہو ,کیونکہ واجب روزوں کی قضا نہ کرنا یا تو نا واقفیت کی بنا پر ہے یا سستی وکاہلی کی بنا پر ,اور یہ دونوں ہی مصیبت ہیں , ناواقفیت کا علاج تو یہ ہے کہ علم سیکھا جائے اور جاننے والوں سے دریافت کیا جائے , لیکن سستی وکاہلی کا علاج یہ کہ اللہ عزوجل کا تقوى اختیار کیا جائے ,اس کے عذاب وعقاب سے ڈرا جائے اور اسکی مرضیات کی طرف سبقت کی جائے-
مذکورہ عورت پر ضروری ہے کہ اس سے جو غلطی ہو چکی ہے اس سے اللہ تعالى سے سچی توبہ اور استغفار کرے , اور جتنے روزے چھوڑے ہیں بقدر استطاعت ان کا اندازہ لگا کرقضا کرے , اس طرح وہ بری الذمہ ہو سکتی ہے , اور ہمیں امید ہےکہ اللہ تعالى اس کی توبہ قبول فرما لے گا –
سوال (31) : ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اسکا کیا حکم ہے ؟اور کیا پاک ہونے کے بعد اس عورت پر اس نماز کی قضا واجب ہے.؟ اور اسی طرح اگر وہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پاک ہو جائے تو اسکا کیا حکم ہے؟
جواب: اولاً: نماز کا وقت ہوجانے کے بعد عورت کو حیض آجائے تو اگراس نے اب تک وہ نماز نہیں پڑھی تھی توپاک ہونے کے بعد اسے اس نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکے وقت میں وہ حائضہ ہوئی تھی ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"جس نے نماز کی ایک رکعت بھی پالی اس نے نماز پالی "لہذا اگرعورت کو کسی نماز کی ایک رکعت کا بھی وقت مل جائے اور اس نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی وہ حائضہ ہو جائے تو پاک ہونے کے بعد اسے اس کی قضا کرنی ہوگی .
ثانیاً: نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگرعورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس پر نماز کی قضا واجب ہے , مثلاً: اگر طلوع آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سےپاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز فجرکی قضا واجب ہے ,اسی طرح اگروہ غروب آفتاب سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر عصر کی قضا واجب ہے , اور اسی طرح اگر نصف رات مکمل ہونے سے صرف اتنا پہلے وہ حیض سے پاک ہو کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے تو اس پر نماز عشاء کی قضا واجب ہے , اوراگر نصف رات کے بعد پاک ہو تو اس پر عشاءکی نماز واجب نہیں , البتہ وقت ہوجانے پر فجرکی نماز پڑھنا واجب ھے ,
اللہ سبحانہ وتعالى کا ارشاد ہے :
﴿فإذا اطمأننتم فأقيمو الصلاة إن الصلوة كانت على المؤمنين كتاباً مو قُوتا ﴾النساء: 103-
جب اطمینان پالو تو نماز قائم کرو ,یقیناً نماز مومنوں پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے -
یعنی نماز, متعین اوقات میں فرض ہے , اورانسان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نماز کو اس کے متعینہ وقت سے نکال دے , یا وقت ہونے سے پہلے پڑھ لے .
سوال (32): (ایک خاتون سوال کرتی ہیں کہ ) مجھے نماز کے دوران ہی حیض آگیا ,میں کیا کروں ؟اورکیا مجھے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا ہوگی ؟
جواب : نماز کا وقت ہو جانے کے بعد عورت حائضہ ہوجائے, مثلاً زوال آفتاب کے آدھا گھنٹہ بعد اسے حیض آجائے , تو حیض سے پاک ہونے کے بعد اسے نماز کی قضا کرنی ہوگی جسکا وقت داخل ہوا اوروہ پاک تھی , کیونکہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے :
﴿إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتا ﴾النساء 103-
يقينا نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں میں فرض ہے-
اور عورت پر حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں ,کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"کیا ایسا نہیں کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تونہ نماز پڑھتی ہےاورنہ روزہ رکھتی ہے "
نیز اہل علم کا اس پراتفاق ہے کہ عورت حیض کے ایام میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں کرے گی ,لیکن اگروہ حیض سے اسوقت پاک ہو کہ ایک رکعت یا اس سے زیادہ کا وقت باقی تھا ,توجس نماز کے وقت میں پاک ہوئی تھی اس کی قضا کرنی ہوگی ,
کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :"جس نے غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر کی ایک رکعت پالی تواس نے عصرکی نماز(وقت)پرپالی "
لہذا اگرحائضہ عورت عصر کے وقت میں غروب آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے ,یا طلوع آفتاب سے اتنا پہلے پاک ہوجائے کہ ایک رکعت پڑھ سکتی ہے , تو اسے پہلی صورت میں عصرکی نماز اوردوسری صورت میں فجر کی نماز پڑھنی ہو گی –
سوال (33): ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ میری والدہ (65) پینسٹہ سا ل کی ہو چکی ہیں اورانیس (19) سال سے انہیں بچہ نہیں ہوا ہے , ادہرکوئی تین سال سے انہیں خون جاری رہنے کی شکایت ہے ,جو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی مرض ہے جو انہیں اسوقت لاحق ہو گیا ہے ,اورچونکہ ادہررمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے اسلئے براہ مہربانی انہیں کیا نصیحت فرماتے ہیں ؟ نیزازراہ کرم یہ واضح فرمائیں کہ اس طرح کی عورت کیا کرے؟
جواب:اس قسم کی عورت ,جسے خون جاری رہنے کی شکایت ہے, اسکا حکم یہ ہے کہ مذکورہ شکایت لاحق ہونے سے پہلے اس کے حیض کی جومعروف مدت تھی اتنے دنوں کے لئے نمازاورروزہ ترک کردے ,اگراسکی عادت یہ تھی کہ ہرماہ کےشروع میں مثلاً 6 دن اسے حیض آتا تھا تو وہ ہر ماہ کے شروع میں6 دن تک وہ نماز اورروزہ چھوڑدے ,اورجب 6 دن کی مدت پوری ہوجائے تو غسل کرکے نماز پڑھے اورروزہ رکھے ,اوراس قسم کی عورتوں کیلئے نماز پڑھنے کی صورت یہ ھےکہ وہ اپنی شرمگاہ کو خوب اچھی طرح دہوکراس پر پٹی باندہ لے اورپھر وضوکرے , یہ کام وہ فرض نماز کا وقت ہوجانے کے بعد کرے ,اسی طرح اگر فرض نمازوں کے علاوہ اوقات میں وہ نوافل پڑھنا چاہے تو بھی اسے ایسا ہی کرنا ہوگا –
مذکورہ حالت میں مشقت وپریشانی کے سبب ایسی عورت کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ ظہر کو عصر کے ساتھ اورمغرب کو عشاء کے ساتہ ملا کر پڑھے ,تاکہ اسکا (وضواورطہارت کا ) ایک ہی عمل دونمازوں کے لئے کا فی ہوجائے ,یعنی ایک طہارت ظہراورعصر کے لئے , ایک طہارت مغرب اور عشاء کیلئے اور ایک طہارت فجرکیلئے ,اسطرح پانچ مرتبہ طہارت حاصل کرنے کے بجائے صرف تین مرتبہ طہارت حاصل کرنا کافی ہوگا .
اس مسئلہ کی میں پھرسے وضاحت کرتا ہوں , مذکورہ عورت جب طہارت حاصل کرنا چاہے تو اپنی شرمگاہ کو دہولے اوراس پرکپڑا وغیرہ کی پٹی باندہ لے تاکہ نکلنے والا خون ہلکا ہوجائے ,اورپھر وضو کرکے نمازپڑھے , چاررکعت ظہر پڑھے ,چار رکعت عصر , تین رکعت مغرب , چاررکعت عشاء اوردورکعت فجر, یعنی ان نمازوں میں وہ قصر نہیں کرے گی جیسا کہ بعض لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہیں , البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ ظہر اورعصر ایک ساتہ پڑھ لے اورمغرب اور عشاء ایک ساتہ , یعنی ظہر کو عصر کے ساتہ ,یا عصرکو ظہر کے ساتہ ,اور اسی طرح مغرب کو عشاء کے ساتہ , یا عشاء کو مغرب کے ساتہ , چاہے جمع تاخیر کرے یا جمع تقدیم , اسی طرح اگر وہ اس وضو سے نوافل پڑھنا چاہے تو اس میں بھی کو ئی حرج نہیں ہے.
سوال (34): وعظ وخطبہ سننے کے لئے حائضہ عورت کا مسجد حرام کے اندرٹھرنا کیسا ہے ؟
جواب : حائضہ عورت کے لئے مسجد حرام یا اسکے علاوہ کسی بھی مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں , البتہ مسجد سے گزرنا اور اس سے ضرورت کا کوئی سامان لینا جائز ہے, جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب مصلى طلب فرمایا تو انہوں نے جواب دیا کہ مصلى مسجد میں ہے اور وہ حائضہ ہیں ,تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا حیض تمہارے ہاتہ میں نہیں (لگا ہوا ) ہے –لہذا اگر حائضہ کو یہ ڈر نہ ہو کہ مسجد میں خون ٹپک سکتا ہے تو اس کے لئے مسجد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں , لیکن بیٹھنے کے ارادہ سے اسکا مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں , اوراسکی دلیل یہ ھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید کے لئے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ کنواری ,پردہ نشین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ لے جائیں , لیکن حائضہ عورتوں کو عید گاہ سے دوررہنےکا حکم دیا ہے , جو اس بات کی دلیل ہے کہ خطبہ سننےیا درس اور وعظ سننے کیلئے حائضہ عورت کا مسجد میں ٹھرنا جائز نہیں .
نماز کیلئے طہا رت کے بعض احکام
سوال (35):عورت (کی شرمگاہ) سے جو سفید یا زرد رطوبت خارج ہوتی ہے وہ پاک ہے یا ناپاک ؟ اور اگروہ مسلسل خارج ہو تو کیا اس میں وضو واجب ہے ؟اور اگررک رک کر خارج ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟ خاص کر اکثر پڑھی لکھی عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ فطری رطوبت ہے جس سے وضو ضروری نہیں ہوتا ؟
جواب: بحث وتحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پرپہنچا ہوں کہ عورت (کی شرمگاہ ) سے خارج ہونے والی رطوبت اگرمثانہ سے نہیں بلکہ رحم سے آرہی ہے تو وہ پاک ہے ,لیکن پاک ہونے کے باوجود وہ ناقض وضو ہے , کیونکہ ناقض وضوہونے کے لئےیہ شرط نہیں کہ خارج ہونے والی چیز ناپاک بھی ہو ,مثلاً ہوا دبر(پیخانہ کے راستہ ) سے خارج ہوتی ہے ,اورہوا کا کوئی جسم بھی نہیں ,اسکے باوجود ناقض وضو ہے , بنابریں اگر عورت وضو سے ہو اور اسکی شرمگاہ سے کوئی چیز خارج ہو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا اور اسے وضو کی تجدید کرنی ہوگی .
یہ رطوبت اگر مسلسل خارج ہو تو وہ ناقض وضو نہیں ’ لیکن اس صورت میں عورت یوں کرے کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو نماز کے لئےوضو کرے اوراس وضو سے فرائض ونوافل پڑھے, قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اس کیلئے جو کام مباح ہیں ان میں سے جو چاہے کرے , جیسا کہ اہل علم نے سلسل البول (مسلسل پیشاب کے قطرے ٹپکنےکی بیماری)کے مریض کے متعلق اسی قسم کی بات کہی ہے, یہ ھے رحم سے خارج ہونے والی رطوبت کا حکم , یہ رطوبت پاک ہے ,لیکن رک رک کر آنے کی صورت میں ناقض وضو ہے , اوراگرمسلسل جاری ہو توناقض وضو نہیں , لیکن اس صورت میں عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا وقت ہوجانے کے بعد وضو کرے اور اپنی شرمگاہ پر لنگوٹی باندہ لے .
اور اگر یہ رطوبت رک رک کرآرہی ہو اور عادتاً نماز کے اوقات میں بند رہتی ہو, تو عورت کو چاہئے کہ جس وقت یہ رطوبت آنا بند ہوجاتی ہو اس وقت تک کیلئے نماز کو مؤخر کردے ,بشرطیکہ نماز کا وقت نکل جانے کا خطرہ نہ ہو ,اور اگر وقت کے نکل جانے کا خطرہ ہو تو وضو کرکےلنگوٹی باندہ لے اورپھر نماز پڑھ لے .
خارج ہونے والی رطوبت تھوڑی ہو یا زیادہ , اس میں کوئی فرق نہیں , کیونکہ شرمگاہ سے خارج ہونے والی ہرچیزناقض وضو ہے خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ,اس کے برخلاف جسم کے دیگر کسی حصہ سے خارج ہونے والی چیز مثلاً خون یا قے ناقض وضو نہیں , خواہ وہ تھوڑی ہو یازیادہ ہو .
رہا بعض عورتوںکا یہ خیال کہ مذکورہ رطوبت ایک فطری رطوبت ہے جوناقض وضو نہیں,تو میرے علم کے مطابق اس کی کوئی اصل نہیں , البتہ ابن حزم رحمہ اللہ کا ایک قو ل ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا,لیکن انہوں نے اس قول کی کوئی دلیل نہیں ذکر کی ہے ,اگر کتاب وسنت یااقوال صحابہ سے اس قول کی کوئی دلیل ہوتی تو وہ یقیناً حجت ہوتی.
عورت کیلئےضروری ہے کہ وہ اللہ تعالى کا تقوى اختیار کرے اور پاکی وطہارت کی حریص رہے , کیونکہ طہارت کے بغیر خواہ سو مرتبہ نماز پڑھی جائے وہ نا قابل قبول ہے ,بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ جو شخص طہارت کے بغیر نماز پڑھےوہ کافر ہے , کیونکہ یہ اللہ سبحانہ وتعالى کی آیات کے ساتہ مذاق کرنا ہے .
سوال (36 ) :جس عورت (کی شرمگاہ) سے یہ رطوبت مسلسل خارج ہو رہی ہو اگر وہ کسی فرض نماز کیلئے وضو کرے ,تو کیا اس وضو سے دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک نوافل پڑھ سکتی اور قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے؟
جواب: مذکورہ عورت کسی فرض نماز کیلئے اگراول وقت میں وضو کرلے تو دوسری فرض نماز کا وقت آنے تک وہ اس وضو سےجس قدر فرائض ونوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی اورقرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے .
سوال (37): کیا مذکورہ عورت کیلئے فجرکے وضو سے چاشت کی نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب: ایسا کرنا درست نہیں , کیونکہ چاشت کی نماز کا ایک متعین وقت ہے , اس لئے وقت ہو جانے کے بعد اس کے لئے وضو کرنا ضروری ہے ,
کیونکہ مذکورہ عورت مستحاضہ کےحکم میں ہے ,اور مستحاضہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرنماز کیلئے وضو کرنے کا حکم دیا ہے .اورظہرکا وقت زوال آفتاب کےبعد سے عصر کا وقت آنے تک ہے ,اورعصر کا وقت , عصرکےداخل ہوجانے کے بعد سے سورج میں زردی آنے تک اور بوقت ضرورت غروب آفتاب تک ہے , اور مغرب کا وقت ,غروب آفتاب کے بعد سے شفق احمر (آسمان کی سرخ روشنی ) کے ختم ہونے تک ہے , اورعشاء کا وقت شفق احمر کے ختم ہونے کے بعد سے آدھی رات تک ہے .
سوال (38): کیا مذکورہ عورت کیلئے عشاء کے وضو سے آدھی رات گزرجانے کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا درست ہے ؟
جواب : نہیں پڑھ سکتی , ایک قول کے مطا بق آ دھی رات گزرجانے کےبعد اس عورت پرتجدید وضو واجب ہے , اور ایک قول یہ ہے کہ تجدید وضو واجب نہیں ( اس لئے پڑھ سکتی ہےٍ ) اور یہی دوسرا قو ل ہی راجح ہے.
سوال (39): عشاء کی نماز کا آخری وقت اوراسکےجاننے کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب :عشاء کا آخری وقت نصف رات ہے , اور اس کے جاننے کا طریقہ یہ ھے کہ غروب آفتاب اور طلوع فجر کے درمیان کا جو وقت ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ,نصف اول کے ختم ہو نے کے ساتہ ہی عشاء کی نماز کا وقت ختم ہو جائے گا ,اور نصف آخر عشاء کا وقت نہیں ہے بلکہ عشاء اور فجر کے درمیان ایک حاجز وقت شمار ہے.
سوال (40): جس عورت کو مذکورہ رطوبت رک رک کرآرہی ہو تو اگر وہ وضو کرلے اوروضوسے فارغ ہونے کے بعد اور نمازپڑھنے سے پہلے پھر رطوبت آجائے تو کیا کرے؟
جواب: اگریہ رطوبت رک رک کرآرہی ہے تو وہ انتظار کرے تاوقتیکہ رطوبت آنا بند ہوجائے ’لیکن اگر کوئی واضح صورت حال نہیں ہے , کبھی رطوبت آتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے ,تو نماز کا وقت ہو جانے کےبعد وہ وضو کرکے نماز پڑھ لے ,اس صورت میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے .
سوال (41): مذکورہ رطوبت جسم یا کپڑے میں لگ جائے تو اسکا کیا حکم ھے؟
جواب : یہ رطوبت پاک ہے تو ایسی صورت میں اسے کچہ نہیں کرنا ہے ,لیکن اگر ناپاک ہے, یعنی مثانہ سے آ رہی ہے , تو اس کا دہونا ضروری ہے.
سوال (42): مذکورہ رطوبت سے وضو کرنے کی صورت میں کیا صرف اعضائے وضو کے دھونے پر اکتفا کیا جائے گا ؟
جواب : ہاں ,اگر رطوبت پاک ہے ,یعنی مثانہ سے نہیں بلکہ رحم سے آرہا ہے ,تو صرف اعضائے وضو کے دہونے پر اکتفا کیا جائے گا .
سوال (43): اسکی کیا وجہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی حدیث مروی نہیں جو مذکورہ رطوبت سے وضو کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہو ,حا لانکہ صحابیات –رضی اللہ عنہن – دینی امورمیں فتوى دریافت کرنے کی بہت حریص تھیں؟
جواب:اسکی وجہ یہ ہےکہ یہ رطوبت ہر عورت کو نہیں آتی .
سوال ( 44):جو عورت مذکورہ مسئلہ میں شرعی حکم سے نا واقفیت کی بنا پروضو نہیں کرتی تھی اسے کیا کرنا چا ہئے ؟
جواب :اس پرواجب ہے کہ اللہ تعالى سے توبہ کرے اور اہل علم سے مسئلہ دریافت کرتی رہے .
سوال (45): بعض لوگ آپ کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں کہ مذکورہ رطوبت سے وضو واجب نہیں ؟
جواب: جو شخص میری طرف یہ قول منسوب کرتا ہے وہ سچّا نہیں , اور بظاہر اس نے میرے اس قول سے کہ " مذکورہ رطوبت پاک ہے " یہ سمجھ لیا کہ وہ ناقض وضو بھی نہیں ہٍے .
سوال (46):عورت کو حیض سے کم وبیش ایک دن پہلے جو مٹ میلا پانی آتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟ یہ پانی کبھی کبھی باریک دہاگے کی شکل میں کالے یا سرخ سیاہی مائل رنگ کا ہو تا ہے , اوراگر یہ پانی حیض کے بعد آئے تو اسکا کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ پانی اگرحیض کی ابتدائی علامات میں سے ہے تو وہ حیض شمار ہوگا ,اوریہ اس کی پہچان اس تکلیف اور مروڑ سے ہوگی جو حائضہ عورتوں کو عموماً پیش آتی ہے . حیض کے بعد مٹ میلا پانی آنے کی صورت میں عورت کو پاکی کا انتظار کر نا ہو گا , کیونکہ حیض سے متصل آنے والا مٹ میلا پانی بھی حیض ہی ہے ,عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں:" تم جلدي نه كرو ,يہا ں تک کہ سفیدی دیکھ لو " واللہ أعلم .
حج اور عمرہ سے متعلق حیض کے احکام
سوال (47): حائضہ عورت احرام کی دورکعت نماز کیسے پڑھے ؟ اورکیاحائضہ کیلئے آہستہ آہستہ قرآن کریم کی آیتوں کی تلاوت کرنا جائز ہے ؟
جواب: اولاً :سب سے پہلے ہم کو یہ جاننا چاہئے کہ احرام کی کوئی مخصوص نماز نہیں , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے قول یا عمل یا تقریر کے ذریعہ اپنی امت کے لئے احرام کی کوئی نماز مشروع فرما ئی ہو-
ثانیاً: جو عورت احرام باند ھنے سے پہلے حائضہ ہو جائے وہ بحالت حیض احرام باندھ سکتی ہے , کیونکہ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء رضی اللہ عنہا مقام ذوالحلیفہ میں نفاس سے دو چار ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ غسل کریں اور اپنی شرمگاہ پرکپڑا لپیٹ لیں اوراحرام باندہ لیں , اور اسی طرح حائضہ کا بھی حکم ہے ,اور وہ اپنے احرام پر باقی رہیں ,یہاں تک کہ پا ک ہوجائیں , پھر بیت اللہ کا طواف اور (صفا ومروہ)کی سعی کریں .
رہا یہ سوال کہ کیا حائضہ قرآن کریم پڑھ سکتی ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضرورت اورکسی مصلحت کے تحت وہ قرآن پڑھ سکتی ہی ,لیکن ضرورت یا کسی مصلحت کےبغیر ,محض عبادت اورتقرب الہی کی نیت سے قرآن کا نہ پڑھنا ہی بہتر ہے .
سوال (48) : ایک عورت نے حج کے لئے سفر کیا ,اور سفر کے پانچویں دن اسے حیض آگیا ,میقات پر پہنچ کر اسنے غسل کیا اور احرام باندھ لیا ,حالانکہ ابھی وہ حیض سے پاک نہیں ہوئی تھی ,مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد وہ حرم شریف سے باہر ہی رہی ,اورحج یا عمرہ کا کوئی بھی کام اس نے نہیں کیا , دو دن اس نے منی میں بھی گزارے ,پھر وہ حیض سے پاک ہو ئی ,غسل کیا اوربحالت طہر عمرہ کے سارے ارکان ادا کئے , پھر جبکہ وہ حج کے لئے طواف افاضہ کررہی تھی اسی دوران اسے دربارہ خون آگیا , مگر شرم کی وجہ سے اس نے اپنےٍ سرپرست کو نہیں بتایا , اور اسی حالت میں حج کے مناسک پورے کرلئے , پھر وطن پہنچنے کے بعد اس نے اپنے سرپرست کو اسکی اطلاع دی , اب اسکا کیا حکم ہے ؟
جواب : مذکورہ مسئلہ کا حکم یہ ہے کہ اس عورت کو طواف افاضہ کے دوران جو خون آیا اگروہ حیض کا خون تھا , جسے وہ خون کی کیفیت اورتکلیف سے جان سکتی ہے ,تو اسکا طواف افاضہ درست نہیں , اور اس پر لازم ہے کہ طواف افاضہ کےلئے وہ دوبارہ مکہ مکرمہ جائے اورمیقات سے عمرہ کا احرام باندہ کرطواف اور سعی کے ساتہ عمرہ ادا کرے اورقصر کرائے ,اوراسکے بعد طواف افاضہ کرے.
لیکن اگر طواف افاضہ کے دوران آنے والا خون حیض کا معروف فطری خون نہیں تھا , بلکہ بھیڑ کی شدت یا خوف یا اورکسی وجہ سے آگیا تھا , تو اسکا طواف افاضہ ان لوگوں کے مسلک کے مطابق درست ہے جن کےنزدیک طواف کے لئے طہارت شرط نہیں .پہلی صورت میں اگر اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہ ہو , مثلاً دوردراز ملک کی باشندہ ہو ,تو اس صورت میں اسکا حج صحیح ہے ,کیونکہ اس نے جو کیا اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا.
سوال (49): ایک عورت نے عمرہ کا احرام باندھا اور مکہ مکرمہ پہنچ کر اس کو حیض آگیا , اور اسکا محرم فوراً سفر کرنے پر مجبور ہے اور اس عورت کا مکہ میں کوئی قریبی بھی نہیں ہے , ایسی حالت میں وہ کیا کرے ؟
جواب : مذکورہ عورت اگر سعودی عرب میں ہے تو وہ اپنے محرم کے ساتھ واپس چلی جائے اوراحرام کی حالت میں باقی رہے , پھر پاک ہوجانے کے بعد دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آئے , کیونکہ اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا آسان ہے , اس میں اس کے لئے کوئی مشقت نہیں , اورنہ ہی پاسپورٹ وغیرہ کی ضرورت ہے – لیکن اگر وہ عورت کسی دوسرے ملک سے آئی ہے اور سفر کرنے کے بعد دوبارہ واپس آنا مشکل ہے تو وہ لنگوٹی باندہ لے اورطواف وسعی کرکے اورقصر کراکر اسی سفر میں اپنا عمرہ پورا کرلے , کیونکہ ایسی حالت میں اس کا طواف ایک ناگزیر ضرورت کا حکم اختیار کر چکا ہے , اور ضرورت کے تحت بعض ممنوع چیزیں بھی مباح ہو جاتی ہیں .
سوال (50): جو عورت ایام حج میںحائضہ ہو جائے اسکا کیا حکم ہے ؟ کیا یہ حج اس کے لئے کفایت کر جائیگا؟
جواب :جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ وہ عورت کب حائضہ ہوئی , اس سوال کا جواب دینا نا ممکن ہے ,کیونکہ حج کے بعض اعمال ایسے ہیں کہ حیض ان کی ادائیگی کے لئے مانع نہیں , اور بعض اعمال ایسے ہیں جو حالت حیض میں نہیں کئے جا سکتے , چنانچہ طواف طہارت کے بغیر ممکن نہیں , لیکن اس کے علاوہ دیگر اعمال حج , حالت حیض میں بھی ادا کئے جا سکتے ہیں.
سوال (51) : ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں نے سال گزشتہ حج کیا اورحج کے تمام اعمال ادا کئے , البتہ شرعی عذر کی بنا پر طواف افاضہ اور طواف وداع نہیں کرسکی , اسکے بعد یہ سوچ کر اپنے گھر مدینہ منورہ واپس آگئی کہ کسی بھی دن مکہ مکرمہ آکر طواف افاضہ اورطواف وداع کرلوں گی , دینی امور سے ناواقفیت کی وجہ سے میں ہر چیز سے حلال بھی ہوگئی , اور دوران احرام جتنی چیزیں حرام ہوتی ہیں وہ سب کر لیں , پھر میں نے مکہ مکرمہ لوٹ کر آنے اورطواف کرنے کے بارے میں دریافت کیا , تو مجھےیہ بتایا گیا کہ تمہارا طواف کرنا درست نہیں , کیونکہ تم نے اپنا حج خراب کرلیا ہے , اب آئندہ سال تمہیں دوبارہ حج کرنا ہوگا , ساتہ ہی ایک گائے یا اونٹنی بھی فدیہ میں ذبح کرنی ہوگی ,سوال یہ ہےکہ کیا یہ بات صحیح ہے ؟اور کیا میرے معاملہ کا کوئی دوسرا حل بھی ہے ؟ اور کیا واقعی میرا حج خراب ہو گیا اور مجھ پر دوبارہ حج کرنا واجب ہے ؟ اب مجھے کیا کرنا ہوگا مستفید فرمائیں , اللہ تعالى آپ کو برکت سے نوازے.
جواب : یہ بھی ایک مصیبت ہےکہ بغیر علم کے لوگ فتوى دے دیتےہیں, مذکورہ صورت میں آپ پر یہ واجب ہے کہ مکہ مکرمہ جائیں اور صرف طواف افاضہ کریں , مکہ سے نکلتے وقت چونکہ آپ حیض سے تھیں اس لئے آپ پر طواف ودا ع واجب نہیں تھا ,کیونکہ حائضہ پر طواف وداع نہیں ہے ,جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ھے :"
لوگو ں کو یہ حکم دیا گیا ہےکہ بیت اللہ کا طواف ان کا آخری کام ہو البتہ حائضہ سے اس کی تخفیف کر دی گئی ہے "
اورابو داؤد کی ایک روایت میں ہے :" بيت الله ميں لوگوں کا آخری کام طواف ہو "
نیز جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع ملی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کرچکی ہیں (اس کے بعد انہیں حیض آیا ہے ) تو فرمایا "پھرتو کوچ کریں "
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ حائضہ پر طواف وداع نہیں ہے , لیکن طواف افاضہ بہرحال ضروری ہے .
جہاں تک آپ کے ہر چیز سے حلال ہو جانے کی بات ہے ,تو چونکہ یہ تحلل اول ناواقفیت اور لاعلمی کی بنا پر ہوا ہے اس لئے یہ آپ کے لئے نقصان دہ نہیں , کیونکہ جو شخص لا علمی میں حالت احرام میں ممنوع کسی چیزکا ارتکاب کرلے اس پر کچہ نہیں ہے , اسکی دلیل اللہ تعالى کا ارشاد ہے :﴿ربنا لا تؤاخذناإن نسينا أو أخطأنا ﴾ البقرة: 286 –
"اے ہمارے رب !اگر ہم بھول گئے یا غلطی کر بیٹھے تو ہمارا مواخذہ نہ کر "
اور بندہ کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالى نے فرمایا :" میں نے تمہاری دعا قبول کرلی" .نیز اللہ تعالى کا ارشاد ہے: ﴿وليس عليكم جناح فيما أخطأتم به ولكن ما تعمّدت قلوبكم ﴾ الأحزاب :5-
"اور جس چیز میں چوک جاؤ یا غلطی سے کربیٹھو اس میں تم پر گناہ نہیں , لیکن وہ جس کا تم دل سے ارادہ کرو".
لہذا وہ تمام محظورات جن سے اللہ تعالى نے محرم کو منع فرمایا ہے , اگر ناواقفیت کی بنا پر یا بھول کر یا کسی کے مجبور کرنے پر وہ ان کا ارتکاب کر لے تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے , لیکن جیسے ہی عذر ختم ہو جائے باز آجانا واجب ہے .
سوال (52): نغاس والی عورت کو اگر ترویہ( 8/ذی الحجہ) کے دن نفاس کا خون شروع ہوا اور اس نے طواف اور سعی کے علاوہ دیگر ارکان حج مکمل کرلئے ,لیکن دس ہی دن کے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ ابتدائی طور پرپاک ہو چکی ہے , تو کیا وہ اپنے آپ کو پاک سمجھ کر غسل کرے اور باقی رکن یعنی طواف افاضہ ادا کرے ؟
جواب : مذکورہ عورت کے لئے اس وقت تک غسل کرکے طواف کرنا جائز نہیں جب تک کہ اسے پاکی کا بالکل یقین نہ ہو جائے , سوال کے انداز سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ اس نے ابھی مکمل طور پرطہر (پاکی) نہیں دیکھی ہٍے , جیسا کہ لفظ ابتدائی سے معلوم ہورہا ہے , لہذا ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر پاکی دیکہ لے , اس کے بعد غسل کرکے طواف اور سعی کرے , اور اگر طواف سے پہلے سعی کرلے تو بھی کوئی حرج نہیں , کیونکہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےدریافت کیا گیا کہ جس نے طواف سےپہلے سعی کرلی اسکا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا: كوئي حرج نہیں .
سوال (53): ایک عورت نے حیض کی حالت میں مقام سیل سے حج کا احرام باندہا , لیکن مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد وہ کسی ضرورت سے جدہ گئی اور جدہ ہی میں حیض سے پاک ہوگئی ,غسل کیا ,بالوں کی کنگھی کی اور پھر اپنا حج پورا کرلیا ,تو کیا اسکا حج صحیح ہے ؟ اور کیا اس کے ذمہ کچہ ہے ؟
جواب : مذکورہ عورت کا حج درست ہے اور اس کے ذمہ کچہ نہیں ہے .
سوال (54): ايك خاتون سوال كرتي هيں کہ میں عمرہ کرنے جارہی تھی , میقات سے گزری تو میں حیض سے تھی اس لئے احرام نہیں باندھا , پاک ہونے تک مکہ مکرمہ میں ٹہری رہی ,پھر مکہ ہی سے احرام باندہ لیا ,تو کیا یہ جائز ہے ؟ اور مجھ پر کیا واجب ہے؟
جواب : مذكوره عمل جائز نہیں ,جو عورت عمرہ کا ارادہ رکھتی ہواسکے لئے احرام کے بغیر میقات سے آگے جانا جائز نہیں اگر چہ وہ حیض سے ہو , حیض ہی کی حالت میں وہ احرام باندھ لے, اوراس کا یہ احرام درست ہے,اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے ارادے سے جب مقام ذوالحلیفہ میں تھے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس –رضی اللہ عنہا –کو بچہ پیدا ہوا, حضرت اسماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرایا کہ ایسی حالت میں وہ کیا کریں ؟ آپ نے فرمایا :"غسل کرکے (شرمگاہ پر) کپڑا باندھ لو اور پھر احرام باندھ لو"
حیض کا خون بھی نفاس کے خون کے حکم میں ہے , لہذا حائضہ عورت کےلئے ہم یہی کہیں گے کہ جب وہ حج یا عمرہ کی نیت سے میقات سے گزرے تو غسل کرکے شرمگاہ پر کپڑا باندہ لے اور پھر حج یا عمرہ کا احرام باندہے,البتہ جب احرام باندہ کر وہ مکہ مکرمہ پہنچے تو جب تک پاک نہ ہوجائے نہ تو مسجد حرام میں داخل ہو اور نہ ہی بیت اللہ کا طواف کرے , کیونکہ جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو عمرہ کے دوران ہی حیض آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا :
"حجاج جو کام کریں تم بھی کرو , البتہ پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرنا "
یہ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت ہے , اورصحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب وہ پاک ہوگئیں تو انہوں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی کی .
ان روايات سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت حالت حیض میں حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے,یا طواف کرنے سے پہلے اسے حیض آجائے , تو جب تک پاک ہو کر غسل نہ کرلے اس وقت تک طواف اور سعی نہ کرے –
لیکن اگر اس نے بحالت طہر طواف کیا اوراس کے بعد اسے حیض آیا تو وہ اسی حالت میں اپنا عمرہ جاری رکھے گی , چنانچہ سعی کرے گی اور بال کٹائے گی اور اس طرح وہ اپنا عمرہ پورا کرے گی , کیونکہ صفا ومروہ کی سعی کے لئے طہارت شرط نہیں .
سوال (55): ایک صاحب دریافت کرتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ینبع شہر سے عمرہ کے لئے آیا , جدہ پہنچا تو میری اہلیہ کو حیض آگیا, چنانچہ میں نے اکیلے ہی عمرہ کرلیا , اب میری اہلیہ کے لئے کیا حکم ہے ؟
جواب :ایسی صور ت میں آپ کی اہلیہ کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ پاک ہونے تک ٹہری رہے ,اور پھر اپنا عمرہ پورا کرے , کیونکہ جب ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا کو حیض آگیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" كيا يه هم كو سفر سے روک دیں گی "؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !یہ طواف افاضہ کرچکی ھیں ,تو آپ نٍے فرمایا :" پھر تو کو چ کریں "
اس حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا :"کیا یہ ہم کو سفر سے روک دیں گی " اس بات پر دلا لت کرتا ہےکہ عورت کو اگر طواف افاضہ سے پہلے حیض آ جائے تو اس پر واجب ہے کہ پا ک ہونے تک ٹھری رہے , اس کے بعد طواف افاضہ کرے . اور طواف عمرہ بھی طواف افاضہ ہی کے حکم میں ہے ,کیونکہ وہ عمرہ کا رکن ہے,لہذا عمرہ کرنے والی عورت اگر طواف عمرہ سے پہلے حائضہ ہو جائے تو پاک ہونے تک رکی رہے اور اس کے بعد طواف کرے .
سوال (56): كيا مسعى ,حرم كا حصہ ہے ؟ اورکیا حائضہ عورت مسعى میں داخل ہو سکتی ہے ؟ اور کیا مسعی سے حرم میں داخل ہونے والے کے لئے تحیۃ المسجد پڑھنا واجب ہے ؟
جواب : ظاہر یہی ہے کہ مسعى , مسجد حرام کا حصہ نہیں ہے , یہی وجہ ہے کہ اس کے اور مسجد حرام کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار قائم کردی گئی ہے ,اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسعى کے مسجد حرام سے باہر ہونے ہی میں لوگوں کی بھلائی ہے , کیونکہ اگر اسے حرم کا حصہ قراردے دیا جاتا ہے تو طواف اور سعی کے درمیان حائضہ ہونے والی عورت کے لئے سعی کرنا منع ہوتا , اس سلسلہ میں میر ا فتوى یہ ہے کہ اگر عورت طواف کے بعد اور سعی سے پہلے حائضہ ہوجائے تو وہ سعی کرلے , کیونکہ مسعى مسجد حرام سے الگ ہے .
جہاں تک تحیۃ المسجد کی بات ہے , تو اگر کسی نے طواف کے بعد سعی کی اور اس کے بعد مسجد حرام میں واپس جانا چاہے تو اسے تحیۃ المسجد پڑھنا ہوگی , اور اگر نہ بھی پڑھے تو کوئی حرج نہیں , لیکن افضل یہی ہے کہ موقع کو غنیمت جانے اور اس جگہ نماز پڑہنے کی جو فضیلت ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے دو رکعت (تحیۃ المسجد) پڑھ لے .
سوال (57): ایک خاتو ن کہتی ہیں کہ میں نے حج کیا اور دوران حج مجھے حیض آگیا ,شرم کی وجہ سے میں نے کسی کو نہیں بتایا , میں حرم میں بھی داخل ہوئی ,نماز پڑھی , طواف کیا اور سعی بھی کی , تو اب مجھے کیا کرنا ہوگا؟ واضح رہے کہ یہ حیض ,نفاس کے بعدد آیا تھا .
جواب : حائضہ اورنفاس والی عورت کے لئے نماز پڑھنا جائز نہیں ,خواہ وہ مکہ مکرمہ میں ہو یا اپنے وطن میں ہو یا کہیں اور ہو , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے بارے میں فرمایا : "کیا ایسا نہیں کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے "
اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت کے لئے نماز پڑھنا اورروزہ رکھنا جائزنہیں , لہذا مذکورہ عورت کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالى سے توبہ کرے اور اس سے جو غلطی سرزد ہوئی ہے اس پر استغفار کرے –
جہاں تک حالت حیض میں طواف کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ طواف درست نہیں ,البتہ سعی درست ہے , کیونکہ راجح قول کے مطابق حج میں طواف سے پہلے سعی کر لینا جائز ہے , لہذا اس پر دو بارہ طواف کرنا واجب ہے , کیونکہ طواف افاضہ حج کا ایک رکن ہے ,اور اس کے بغیر تحلل تام حاصل نہیں ہوتا , اس لئے وہ عورت اگر شادی شدہ ہے تو طواف کرلینے تک اسکا شوہر اس سے صحبت نہیں کرسکتا , اور اگر شادی شدہ نہیں ہے تو طواف کرلینے تک اسکا نکاح کرنا درست نہیں ,واللہ اعلم .
سوال (58): عورت کو عرفہ کے دن حیض آجائے تو وہ کیا کرے؟
جواب : عورت کو عرفہ کے دن حیض آجائے تو دیگر حجاج کی طرح وہ بھی حج کے اعمال انجام دے اور اپنا حج پورا کرلے , البتہ بیت اللہ کا طواف پاک ہونے تک مؤخر رکھے.
سوال ( 59): اگر عورت جمرہ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد اور طواف افاضہ سے پہلے حائضہ ہوجائے , اوروہ اور اس کا شوہر کسی قافلہ (جماعت) کے ساتہ مرتبط بھی ہوں , تو اسے کیا کرنا چاہئے ؟ واضح رہے کہ سفر کر جانے کے بعد اس کے لئے دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہیں .
جواب : مذكوره عورت كے لئے اگر دوبارہ مکہ مکرمہ آنا ممکن نہیں ہے تو اسے چاہئے کہ من باب الضرورہ اپنی شرمگاہ پر پٹی باندہ کر طواف کرلے , اور دیگر اعمال حج بھی پورے کرے , ایسی حالت میں اس پر کوئی فدیہ وغیرہ واجب نہیں .
سوال (60): نفاس والی عورت اگر چالیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو کیا اس کا حج درست ہے ؟اور اگر طہر نہ دیکھے تو کیا کرے ؟ واضح رہے کہ وہ حج کی نیت کرچکی ہے .
جواب:نفاس والی عورت اگر چا لیس دن سے پہلے پاک ہو جائے تو وہ غسل کرکے نماز پڑھے اوروہ سارے کام کرے جوپاک عورتیں کرتی ہیں , یہاں تک کہ وہ بیت اللہ کا طواف بھی کرے , کیونکہ نفاس کی اقل مدت کی کوئی حد نہیں .
مذکورہ عورت اگر طہر نہ دیکھے تو بھی اس کی حج درست ہے ,البتہ پاک ہونے تک وہ بیت اللہ کا طواف نہ کرے , کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے منع فرمایا ہے ,اوراس سلسلہ میں نفاس والی عورت بھی حائضہ ہی کے حکم میں ہے
No comments:
Post a Comment