اہل سنت کا تصور سنت

اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کے امتحان کے لیے انہیں مختلف آزمائشوں سے دو چار کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کوئی نعمت ہی اس کے بندوں کے لیے فتنہ یا آزمائش بن جاتی ہے،جیسا کہ مال اور اولاد کے بارے قرآن میں مذکور ہے کہ تمہارے لیے فتنہ ہے ۔برصغیر پاک و ہند میں حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی سے علومِ حدیث و سنت کے احیاء کی جو تحریک شروع ہوئی تھی وہ مختلف اَدوار سے گزرتی رہی ۔اسی تحریک کی وجہ سے علماء نے حدیث،تاریخ اورسیر تِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے متعلقہ سینکڑوں کتب کے تراجم کیے تاکہ عامة الناس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث،سیرت ،حیاتِ صحابہ اور تاریخ اسلام سے واقف ہو سکیں۔


بلاشبہ علماء کا یہ کام ایک علمی اور نفع بخش کام تھا۔لیکن جہاں ایک کام میں خیر کے پہلو ہوتے ہیں وہاں کچھ مفاسد بھی اس سے متعلق ہوجاتے ہیں ۔مصادرِ اسلامیہ سے متعلق ان سینکڑوں کتب کے تراجم کا ایک بڑا نقصان جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سامنے آیا، وہ یہ ہے کہ عامۃ ا لناس میں بعض افراد نے ان مترجم کتب کے جزئی مطالعہ کے بعد اپنے آپ کو درجۂ اجتہاد و افتاء پر فائز سمجھا اور مفکرا سلام کی نشست سنبھالتے ہوئے اسلام کی چودہ صد سالہ علمی تاریخ و روایت کو کارِ عبث قرار دیا ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث کے حوالے سے بھی معاصر معاشروں میں ہمیں سینکڑوں ایسے افکار و نظریات نظرآتے ہیں جو کہ راہِ اعتدال سے بہت دُور ہیں مثلاً قادیانی،نیچری،پرویزی اور جماعت المسلمین وغیرہ۔

بعض مفکرین نے ایک انتہا پر جاتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی قسم کی بھی تشریعی حیثیت ہی کوماننے سے انکار کر دیا تو دوسری طرف ایسا غلو بھی پیدا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر ہر قول اور فعل کو یکساں درجے کی شریعت قرار دے دیا گیا۔اس مضمون میں ہمارے پیش نظر اِس وقت یہ دوسرا رویہ یا فکر ہے ۔ہمارے نزدیک اگر پہلا گروہ منکرین حدیث کا ہے تو دوسرے رویے کو’غلو فی السنۃ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔اس فکر کے حاملین اپنے اخلاص کے باوصف سنت کے مسئلے میں اُس غلو میں مبتلا ہیں کہ جس غلوسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حج کے موقع پر فرمایا:
((وَاِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِی الدِّیْنِ' فَاِنَّمَا اَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِی الدِّیْنِ))(١)
''دین میں غلو سے بچو۔تم سے پہلی قومیں دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں''۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح کہا ہے(٢)۔امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کومسلم کی شرائط پر صحیح کہا ہے۔(٣)علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے (٤)۔

ایک مثبت رویہ تو یہ ہے کہ ایک شخص اگر حدیث کی مترجم کتابوں سے استفادہ کرتا ہے اورا س دوران اسے کچھ اشکالات پیش آتے ہیں تو وہ (فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ)کے قرآنی حکم کے مطابق علماء سے رجوع کر کے ان سے رہنمائی حاصل کرے۔اگر معاصر علماء سے وہ مطمئن نہیں ہے تو ٹھوس علمی بنیادوں پر علومِ اسلامیہ کی تعلیم حاصل کرے ۔قرآن،حدیث ،فقہ المقارن،اصول فقہ،اصول حدیث،اصول تفسیر،عقیدہ،علومِ بلاغت اورعلومِ لغت وغیرہ میں پختگی حاصل کرے اور عربی زبان میں موجود ائمہ سلف کے علمی ذخیرے سے براہِ راست استفادہ کرے۔لیکن اگر کوئی شخص ان بنیادی دینی علوم سے ناواقف ہو اور پھر بھی دین کے معاملات میں اپنی رائے پیش کرے تو ایسے شخص کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں اللہ تعالیٰ علماء کو اٹھا لیں اور لوگوں کی صورت حال یہ ہوگی :
((اِتَّخَذَ النَّاسُ رَئُ وْسًا جُھَّالًا' فَسُئِلُوْا فَاَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ' فَضَلُّوْا وَاَضَلُّوْا)) (٥)
''لوگ جہلاء کو اپنا بڑا بنالیں گے اور ان جاہلوں سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے جاری کریں گے۔پس خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے''۔
محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی زمانے کی علامات ہیں کہ علمی رسوخ رکھنے والے علماء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اٹھا رہے ہیں اور ترجمہ شدہ کتابوں کا جزئی طور پر مطالعہ کرنے والے فتوے جاری کرنے لگے ہیں۔علم دین کے حصول میں سند اور استاد کی کیااہمیت ہے،اس کی اِن شاء اللہ ایک مستقل مضمون میں وضاحت کروں گا ۔فی الحال اصل مقصود اس فکر کا جائزہ لینا ہے کہ کیایہ کہنا درست ہے کہ اللہ کے رسول کا ہرہر قول اور فعل واجب الاتباع سنت ہے ؟