یہ بھی چوری ہے؟
چوری اسلام میں ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جس کی سزا دوسرے تمام جرائم سے بالکل الگ ہے کہ ادمی زندہ رہ کر بھی بے بس اور محتاج ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما ’’ چور چاہے مرد ہو یا عورت اس کے ہاتھ کاٹو
چوری ایک معروف عمل ہے جس کو سب ہی جانتے ہیں کہ کسی کا مال یا کوئی چیز اس سے اور سب سے چھپ کر اس طرح سے لے لی جائے کہ وہ اپنی ہی ملک بن جائے۔ لیکن چوری کی بعض شکلیں اور بھی ہیں جسے لوگ چوری نہین سمجھتے اور اللہ کی نظرمیں چور ہونے کی وجہ سے اپنے ہاتھ کٹوادیتے ہیں۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر ہاتھ نہیں کٹتے لیکن آدمی پر اللہ کی طرف سے ایسے حالات ڈالے جاتے ہیں کہ وہ ہاتھ ہونے کے باوجود بے بس ومجبور ہوجاتا ہے۔ اور اس طرف نگاہ بھی نہیں جاتی ان ہی میں سے ایک بجلی کی چوری ہے ۔ چاہے اپنے گھر، فیکٹری، دکان کسی بھی جگہ بغیر میٹر لئے ڈائرکٹ تار کھیچ کر بجلی کا استعمال کرے یا میٹر ہونے کی صورت میں کچھ ایسا انتظام کرے کہ میٹر کم ریڈینگ بتائے۔ یہ مہذب چوری ہے لیکن انفرادی کسی کے مال کی چوری سے زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بجلی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے یاتو وہ کسی company کی ہے یا پھر حکومت کا محکمہ ہے۔ ہر حال میں یہ کسی فرد کی چوری سے زیادہ خطرناک ہے۔ جس کا وبال دنیا میں بھی اٹھانا پڑتا ہے اور آخرت میں بھی۔ حکومت اس پر چاہے گرفتار کرے یانہ کرے لیکن اللہ جس کے سامنے ہر ایک کو جوابدہ ہونا ہے۔ وہ علم وخبیر، سمیع و بصیر ہے۔ کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔
چوری ایک معروف عمل ہے جس کو سب ہی جانتے ہیں کہ کسی کا مال یا کوئی چیز اس سے اور سب سے چھپ کر اس طرح سے لے لی جائے کہ وہ اپنی ہی ملک بن جائے۔ لیکن چوری کی بعض شکلیں اور بھی ہیں جسے لوگ چوری نہین سمجھتے اور اللہ کی نظرمیں چور ہونے کی وجہ سے اپنے ہاتھ کٹوادیتے ہیں۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر ہاتھ نہیں کٹتے لیکن آدمی پر اللہ کی طرف سے ایسے حالات ڈالے جاتے ہیں کہ وہ ہاتھ ہونے کے باوجود بے بس ومجبور ہوجاتا ہے۔ اور اس طرف نگاہ بھی نہیں جاتی ان ہی میں سے ایک بجلی کی چوری ہے ۔ چاہے اپنے گھر، فیکٹری، دکان کسی بھی جگہ بغیر میٹر لئے ڈائرکٹ تار کھیچ کر بجلی کا استعمال کرے یا میٹر ہونے کی صورت میں کچھ ایسا انتظام کرے کہ میٹر کم ریڈینگ بتائے۔ یہ مہذب چوری ہے لیکن انفرادی کسی کے مال کی چوری سے زیادہ سنگین ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں بجلی کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے یاتو وہ کسی company کی ہے یا پھر حکومت کا محکمہ ہے۔ ہر حال میں یہ کسی فرد کی چوری سے زیادہ خطرناک ہے۔ جس کا وبال دنیا میں بھی اٹھانا پڑتا ہے اور آخرت میں بھی۔ حکومت اس پر چاہے گرفتار کرے یانہ کرے لیکن اللہ جس کے سامنے ہر ایک کو جوابدہ ہونا ہے۔ وہ علم وخبیر، سمیع و بصیر ہے۔ کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے اعمال کو لکھنے والے فرشتوں کا بھی باقاعدہ نظام ہے۔ جس کی قرآن میں خبر دی گئی ہے۔ ان علیکم لحافطین ۔ کراماً کاتبین۔ یعلمون ما تفعلون۔ ترجمہ ’’ یقینا تم پر ہمارے محافظ فرشتے مقرر ہیں جو کراماً کاتبین ہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو جانتے ہیں ‘‘۔
اللہ کا نظام یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک طرف غلط طریقہ سے کوئی منفعت حاصل بھی کرلی تو اللہ تعالیٰ کوئی دوسرا راستہ اس کی تلافی کا پیدا کردیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ نے خود بھی اپنے اوپر ظلم کو حرام کرلیاہے۔ اور آپس میں بھی کسی پر ظلم کی اجازت نہیں دی۔ اگر کوئی ظلم کرتا ہے تو اس کا بدلہ ضرور پاتا ہے۔بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہ آئے تو اور بات ہے۔اس لئے قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور تمام مسلمانوں کو اس جرم سے روکنے کی کوشش کریں۔ ہم کسی پر زبردستی بے شک نہیں کرسکتے لیکن سمجھاتو سکتے ہیں۔ دوسرے لوگ مانیں یا نہ مانیں ہم اپنی ذمہ داری پوری کردیں۔
دوسری شکل چوری کی کم ٹکٹ یا بغیر ٹکٹ کے ریل میں سفر کرنا یا کروانا یا قانون سے زائد سامان لیجانا ہے۔ بعض لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بچہ ہے قانوناً اس کی ٹکٹ لگتی ہے مگر نہیں لیتے یہ سوچ کرکہ بچہ چھوٹا دکھتا ہے۔ ریلوے ملازمین کو چھوٹا دیکھتاہے مگر اللہ تو آپ کے بچہ کو جانتا ہے۔وہ آپ کا بھی خالق ہے اور آکی اولاد کا بھی ۔ اگر آپ نے یہاں پیسے بچا بھی لئے تو اللہ اس پر قادر ہے کہ وہ آپ سے کہیں اور آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی خرچ کروادے۔
چوری کی ایک قسم ریلوے اسٹیشن پر بغیر پلیٹ فارم ٹکٹ لئے جانا ہے۔ چاہے ریلوے گیٹ پر Ticket Collector آپکا رشتہ دار ہو لیکن اس کو یہ اختیار کہاں حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے بغیر پلیٹ فارم ٹکٹ کے اندر آنے دے۔ یہاں کچھ نہیں ہوگا مگر اللہ کے یہاں آپ چوری کی سزا کے مستحق ہوگئے۔ جس طرح چور آپ کی نظر میں ذلیل سمجھا جاتا ہے اسی طرح آپ بھی اللہ کی نظر میں ذلیل ہوگئے۔ اور جو اللہ کے یہاں ذلیل ہو جائے وہ کہیں بھی عزت نہیں پاسکتا۔
چوری کی ایک قسم کام کی چوری ہے۔ ملازمین جس خدمت پر مامور ہیں انہیں اسی کی تنخواہ دی جاتی ہے۔ اگر وہ تنخواہ تو پوری لیں لیکن کام پورانہ کریں تو یہ بھی چوری میں شامل ہے چاہے یہ ملازمت سرکاری ہویا پرائیویٹ۔ دنیا میں بظاہر اس پر کوئی مواخذۃ ہویا نہ ہو لیکن جولوگ اللہ پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھگتنا اسے بھی پڑیگا۔
اس قسم کی چوری کی اور بھی شکلیں ہیں جس کو ہم چوری نہیں سمجھتے اور بعض لوگ یہ تاویل کردیتے ہیں کہ یہ حکومت کی چوری ہے اور حکومت میں ہمارا حق ہے۔ اگر حق ہے تو آپ جائز طریقہ سے کیوں نہیں لے سکتے۔ بعض لوگ یہ کہہ کر جواز پیدا کرلیتے ہیں کہ ہندوستان دارالسلام نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے لیکن ہندوستان دارالحرب بھی نہیں ہے۔ بلکہ ہندوستان دارالامن اور دارالمعاہدہ ہے۔ بلا استحقاق ہم حکومت سے یا حکومت کی جائیداد سے منتفع نہیں ہوسکتے۔
No comments:
Post a Comment