بسم اللہ الرحمن الرحیم

احکامِ زکوٰۃ


زیر نظر سطور لکھنے کا مقصد صرف اور صرف فریضہ زکوٰۃ کی یاد دہانی کے متعلق ہے۔ آج کے اکثر مسلمان اس فریضے میں سخت سست واقع ہوئے ہیں۔ شریعت کے مطابق زکوٰۃ نہیں نکالتے بلکہ اسلام کا ایک اہم رکن ہونے کے باوجود اس کے متعلق معلومات انتہائی ناقص ہیں۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: 1 اللہ تعالیٰ اور رسول کی گواہی دینا۔ 2 نماز ادا کرنا۔ 3 زکوٰۃ دینا۔ 4رمضان کے روزے رکھنا۔ 5 اور حج بیت اللہ کرنا۔

اسلام میں زکوٰۃ فرض کئے جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے بے شمار مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے فوائد کا بڑا اہم سبب زکوٰۃ بھی ہے۔ فقراء مساکین کی ضروریات و حاجات کا مداوا زکوٰۃ سے ہوتا ہے۔ مالداروں اور فقراء میں باہم رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔ نفس کی پاکیزگی، کنجوسی، بخل سے دوری و نفرت کا ذریعہ بھی زکوٰۃ ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ…‘‘ ان کے مالوںمیں سے زکوٰۃ لے
لو، اور ان کو پاک کر دو، ان کا تزکیہ نفس کر دو۔(سورہ توبہ)۔

مسلمان کی ایک صفت سخاوت بھی ہے۔ محتاجوں پر شفقت و مہربانی کرنا، شیوئہ مسلم ہے۔ خرچ کرنے سے برکت حاصل ہوتی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہ (اللہ) اس کا بدلہ دے دیتا ہے۔ اور وہ بہترین رزق والا ہے‘‘۔ اسی طرح ایک حدیث میں یہی مضمون ہے کہ ’’اے بنی آدم تم خرچ کرو، تمہارے اوپر خرچ کیا جائے گا‘‘۔

جو شخص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے حق میں شدید ترین وعید بیان کی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے کہ:

وہ لوگ جو سونا چاندی کو خزانوں میں جمع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب شدید کی خوشخبری دے دو اس دن (ان کے مال کو) گرم کیا جائے گا جہنم کی آگ میں، اور ان کی پیشانیوں، پہلوؤں اور کمروں کو داغا جائے گا اور (کہا جائے گا) کہ یہ ہے تمہارا مال، جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا سو آج اس عذاب کا مزا چکھو، جو تم اپنے لئے جمع کرتے تھے۔ (سورہ توبہ)۔

ہر وہ مال جس کا حق ادا نہیں کیا جاتا تو وہ ’’کنز‘‘ بن جاتا ہے۔ جس کے ذریعے صاحب مال کو بروزِ قیامت عذاب دیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہر وہ سونے چاندی والا جو اپنے مال کا حق ادا نہ کرتا ہو گا تو یہ قیامت کے دن جہنم کی آگ کا ٹکڑا بنے گا۔ جہنم کی آگ سے گرم کرنے کے بعد اس کی پیشانی کو، پہلو اور کمر کو داغا جائے گا۔ جب یہ مال ٹھنڈا ہو گا تو دوبارہ اس کو گرم کیا جائے گا۔ وہ دن پچاس ہزار سال جتنا بڑا ہو گا۔ اس وقت تک تمام مخلوق میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔ پھر اس مالدار کو دیکھا جائے گا کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے یا جنت۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ، بکری، گائے والوں کا ذکر ہونے پر فرمایا: ’’جو شخص ایسا مال دلائے گا جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی ہو گی تو یہ مال ایک گنجے سانپ کی مانند بن جائے گا۔ اس کے دو منہ ہوں گے۔ یہ سانپ مالدار کے گلے میں بطورِ طوق ڈالا جائے گا پھر یہ اس کے جبڑوں کو ڈسے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی۔

اﷲ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال میں سے بخیلی کرنے والے یہ نہ سمجھیں کہ یہ عمل انکے لئے بہتر ہے ۔بلکہ یہ انکے لئے برا کام ہے ۔قیامت کے دن انکی بخیلی انکے گلوں کا طوق بن جائے گی۔ (بخاری ومسلم)۔

زکوٰۃچار قسم کے اموال پر فرض ہے ۔ (١) زمین سے حاصل شدہ اناج وپھل پر (٢) مویشی پر (٣)سونے چاندی پر (٤)اور سامانِ تجارت پر۔ یہ بھی واضح رہے کہ ان چاروں اقسام کا ایک مقرر شدہ نصاب ہے ۔نصاب سے کم پر زکوٰۃ فر ض نہیں ہوتی۔ لہٰذا پھلوں اور اناج کا نصاب 5وسق ہے جو (20من ) بنتا ہے ۔گائے ،اونٹ اور بکریاں کی تفصیل بھی احادیث نبوی میں موجود ہے ۔اگر اختصار کو مدنظر نہ رکھا جاتا تو ہم یہاں تفصیل ذکر کردیتے ۔

سونے کی زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ ہے جو عربی ریال میں تقریباً 56ریال بنتاہے چاندی کی زکوٰۃ52تولہ پر فرض ہوتی ہے ۔اس مال کو اگر ایک سال تک اپنی ملکیت میں رکھا جائے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہو جاتی ہے ۔مال کا حاصل شدہ منافع بھی ملکیت میں شامل ہوتا ہے ۔

سونے چاندی کے نصاب کے حکم میں موجودہ دور کی کرنسی بھی شامل ہے ۔یعنی اگر روپے ریال یا ڈالر کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونے جتنی موجود ہے ۔تو اس پر بھی زکوٰۃ ہے ۔عورتوں کے زیورات پرزکوٰۃ ہوتی ہے ۔اگرچہ یہ زیورات ذاتی استعمال کی چیزیں ہوں پھر بھی زکوٰۃ لازمی ہے۔ کیونکہ حدیث ِنبوی موجود ہے کہ آپ نے ایک عورت کے ہاتھوں میں کنگن دیکھے تو فرمایا کیا تم اسکی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟اس عورت نے انکار کیا تو آپ نے فرمایاکیا تم پسند کرتی ہو کہ کل قیامت کے دن اﷲتعالیٰ اسکو جہنم کی آگ بنا دے ۔یہ سن کر اس عو رت نے کنگن اتار دیئے او رکہا یہ مال اﷲ او ر اسکے رسول کے لئے ہے (ابو داود)۔

سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے سونے کا ایک زیور بنایا ہوا تھا تو آپ نے فرمایا ’’جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہوتا ‘یعنی اسکی پکڑ نہیں ہوتی ۔سامان ِتجارت جو کاروبار کے لئے رکھا جائے اسکی سال کے آخر میں قیمت لگائی جائے گی اور اس قیمت کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کیا جائے گا۔ سال کے آخر میں قیمت لگاتے وقت اس سامان کی موجودہ قیمت لگائی جائے گی ۔اگرچہ یہ قیمت سامان کے اصل ریٹ سے کم ہو یا زیادہ۔ سیدنا سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں کاروبار کے لئے تیار کردہ سامان کی قیمت لگا کرزکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا ہے (ابو دائود)۔ اس سامانِ تجارت میں اراضی گھر اور مشینیں وغیرہ شامل ہیں جو تجارت کے لئے ہوں ۔وہ گھر جو بیچنے کے لئے نہ ہوں بلکہ کرائے پر دئیے جائیں تو ان گھروں یا دکانوں کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں ہوگی بلکہ اسکے کرائے پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ ہو گی۔ اسی طرح ذاتی استعمال کی گاڑیوں اور ٹیکسیوں پر بھی زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ لیکن ان گاڑیوں کے مالک کے پاس اگر نصاب کے مطابق رقم جمع ہوجائے اور اس پرسال بھی گزر جائے تو پھر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ اگرچہ یہ رقم خرچ، شادی یا زمین خریدنے کے لئے رکھی ہوتی ہو۔ اسی طرح یتیم یا مجنوں افراد کے پاس اتنا مال موجود ہو جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہو تو اسکے ولیوں کو چاہیے کہ وہ زکوٰۃ نکالیں۔

زکوٰۃ مستحقین کا حق ہے لہٰذااسکو غیر مستحقین کو نہیں دینی چاہیے۔ اس زکوٰۃ کے ذریعے انسان کو فائدہ حاصل کرنا یا ذاتی نقصان سے بچنے کے لئے استعمال کرنابھی درست نہیں ہے ۔ بلکہ صرف خلوصِ نیت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی رضا او رخوشنودی کے لئے مستحقین کو زکوٰۃ ادا کی جائے (آ ج کل مختلف گلو کاروں نے کچھ رفاہی ادارے قائم کیے ہیں او روہ لوگوں کی زکوٰۃ اکٹھا کرتے ہیں ایسے اداکاروں اور گلو کاروں کو زکوٰۃ ادا نہیں کرنی چاہیے )مترجم۔

اﷲتعالیٰ مصارفِ زکوٰۃ بیان فرماتے ہیں ۔فرمان الٰہی ہے (بے شک زکوٰۃ فقرائ، مساکین، عاملین (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے )تالیفِ قلبی کے لئے ۔گردنوں کو آزاد کرنے کے لئے۔ تاوان زدہ کے لئے۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں۔ اور مسافروں کے لئے۔ یہ اﷲکا فریضہ ہے۔ اور اﷲتعالیٰ علیم وحکیم ہے)۔

اس آیت کے آخر میں اﷲتعالیٰ نے یہ دو نام ذکر فرمائے ہیں ۔بندوں کے لئے اس میں اﷲتعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے زکوٰۃ دینے اور نہ دینے کو جانتا ہے ۔اور اﷲحکیم بھی ہے اس کو خوب معلوم ہے کہ زکوٰۃ کا کون مستحق ہے ۔اﷲتعالیٰ اشیاء کی مقدار اور تعداد پر حکیم ہے۔ وہ کسی چیز یا شخص کوضائع نہیں کرتا ۔اگرچہ بعض لوگوںپر یہ حکمتیں مخفی ہوتی ہیں۔ اﷲتعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم بہتر سے بہتر عمل کریں۔ اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔

اصل مضمون نگار : احکامِ زکوٰۃ