علم غیب سے متعلقہ علوم

فال گیری:
منفعت کے حصول اور دفع مضرت(نقصان)ہی ایسی اغراض ہیں جس کے لیے انسان ہر طرح کے جرائم کرتا اور جائز و ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے،حتی کی شرک بھی اسی لیے کرتا ہے۔فال کے تیروں سے فال نکالنابھی ایسا ہی ایک ذریعہ ہے جسے قرآن نے’’شیطانی عمل‘‘ کہہ کر حرام قرار دیا ہے۔
علم نجوم:
اس ذریعہ کے علاوہ غیب کے حالات معلوم کرنے کے لیے عرب میں مزید دو طریقے مروج تھے۔ایک یہ تھا کہ لوگ ستاروں کی گردش سے آئندہ کے حالات معلوم کرتے اور انسانی زندگی پر ان کی گردش کے اثرات کو تسلیم کرتےتھے اور یہ ایسا پرانا طریقہ تھا۔جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے بھی پہلے چلا آرہا تھا۔چنانچہ ؁ ۶ھ صلح حدیبہ کے سال)آپﷺ نے حدیبہ کے مقام پر چودہ سو صحابہ سمیت پڑاؤ ڈالا۔تو ایک رات بارش ہوئی۔توآپﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں جس نے یہ سمجھا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور جس نے یوں کہا کہ فلاح ستارے کے فلاں برج اور فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے بارش ہوئی اس کا ایمان ستاروں پر ہے اور اس نے میرے ساتھ کفر کیا(۱)
اور اس کا نام نجوم پرستی ہے جس میں اہل بابل گرفتار تھے اور حضرت ابراہیمؑ نے اس قسم کے شرک کا بھی رد کیا۔
کہانت:
عرب میں تیسرا مروج طریقہ کہانت تھا۔کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتا کرتے تھے اور معاشرہ کے معزز اور معتبر افرادشمار ہوا کرتے تھے۔اس غرض کے لیے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گرانقدر نذرانے پیش کرتے تھے اور حد یہ ہے کہ بعض کاہنوں سےبعض اہم مقدمات کے فیصلے بھی کروائے جاتے تھے،ایسا عقیدہ چونکہ اللہ پر توکل اور ایمان کے منافی ہے۔اس پیشہ اور اس سے حاصل ہونےوالی کمائی کو رسول اللہﷺ نے حرام قرار دیا (۲)
آپﷺ نے فرمایا:’’جو کوئی غیب کی خبریں بتانے والے کے پاس جائے اور اس سے پوچھے،اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی‘‘(۳)
آپﷺ نے فرمایا:’’جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے اور پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس سے کفر کیا جو محمدﷺ پر نازل ہوا‘‘(۴)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’نجومی کاہن ہے اور کاہن ساحر(جادوگر) کی ہے اور ساحر کافر ہے‘‘(۵)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ایک غلام تھا جو روزانہ خراج کی ایک مقررہ رقم ادا کرتا تھا۔ایک دن وہ غلام کھانے کی کوئی چیز لایا جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کچھ کھا لی اور وہ غلام آپ سے کہنا لگا’’پتاہے یہ کیا چیز ہے اور کیسی ہے؟ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا بتاؤ تو،اس نے کہا میں زمانہ جاہلیت میں کہانت کیا کرتا تھا حالانکہ میں اچھی طرح جانتا بھی نہ تھا اور دھوکے سے کام چلاتا تھا سو آج کسی نے اجرت کے طور پر مجھے یہ چیز دی ہے اور وہی آپ نے کھائی ہے،یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے منہ میں انگلی ڈال کر قے کر دی اور پیٹ میں جو کچھ تھا وہ نکال دیا۔(۶)
مذکورہ روایت میں کاہن کی کمائی کی حرمت واضح کی گئی ہے۔
اس آیت اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو پیشے بھی غیب کی خبریں دنیے سےتعلق رکھتے ہیں وہ حرام ہیں خواہ وہ علم نجوم ہو یا جوتش،رمل و جفر،کہانت سے متعلق ہوں
حواشی:
(۱)صحیح بخاری۔کتاب المغازی،حدیث نمبر:۴۱۴۷
(۲)صحیح بخاری،کتاب البیوع،حدیث نمبر:۲۲۳۷
(۳)صحیح مسلم،کتاب تحریم الکھانۃ و ایثان الکھان،حدیث نمبر:۲۲۳۰
(۴):ابوداؤد،کتاب الطب،باب فی الکاہن ،حدیث نمبر:۳۹۰۴
(۵) مشکوۃ کتاب الطب و الرقی،حدیث نمبر:۴۶۰۴
(۶)صحیح بخاری ،کتاب مناقب الانصار،باب الایام الجاھلیۃ،حدیث نمبر:۳۸۴۲

مضمون یہاں سے لیا گیا ہے: علم غیب سے متعلقہ علوم