چند حرام
کردہ امور
عوام الناس میں درج ذیل گناہوں کے متعلق
شعور و احساس کم ہوتا جارہا ہے ۔لوگ ان حرام کردہ امور کو بڑے گناہ سمجھتے ہی
نہیں۔ ہرمسلمان کو ان گناہوں سے لازماً دور رہنا چاہیے۔
بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کچھ
احکامات بطور فرض صادر فرمائے ہیں لہٰذا ان فرائض اسلام کو ضائع مت کرو،اور اسی
طرح چند معاملات کوحرام قرار دیا ہے سو تم ان محرمات کو پامال مت کرو۔فرمان الٰہی
ہے کہ ’’اور جوشخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی
نافرمانی کرتا ہے اور حدود اللہ میں زیادتی کرتا ہے تو وہ ہمیشہ جہنم میں رہے
گا۔اور اس کے لئے درد ناک عذاب ہے‘‘۔ (النساء:)۔
ہم زیر نظر سطور میں چند حرام کردہ امور
کاتذکرہ کررہے ہیں ہرشخص کوخود ان امور سے دور رہتے ہوئے
دوسرے بھائیوں کو بھی
نصیحت کرنی چاہیئے۔
(1) شرک باللہ :پیارے نبی صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا ’’کیا میں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر تمہیں نہ دوں ؟ہم نے کہا
، اے اللہ کے رسول ، آپ ہمیں خبر
دیجئے
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘‘۔(بخاری
و مسلم )اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے علاوہ دیگر تمام گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف
کردے گا لیکن شرک کو نہیں ۔شرک کی بخشش کے لئے خالصتاً توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’بے شک اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کرنے کو نہیں بخشتا۔اسکے
علاوہ جسکو چاہتا ہے بخش دیتا ہے‘‘۔ (سورہ النساء)۔ شرک باللہ
کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ذیل میں ہم چند بڑے بڑے مظاہر بیان کررہے ہیں ۔
(2) یہ اعتقاد رکھنا کہ فوت شدہ افراد ، ہماری حاجات پوری کرتے ہیں، پریشانی اور دکھ کوختم کرتے ہیں اور
فوت شدگان سے مدد طلب کرنا، انہیں غوثِ اعظم کہہ کر پکارنا ، یہ سب شرک
باللہ میں شامل ہیں ۔کیونکہ واضح ترین ارشاد الٰہی ہے کہ ’’اور اگر اللہ تعالیٰ تم کو نقصان پہنچائے تو اللہ تعالیٰ
کے علاوہ اس نقصان کوکوئی دوسرا دور نہیں کرسکتااور اگر تمہارے بارے میں اللہ
تعالیٰ بھلائی کاارادہ کرے تو کوئی اللہ کے فضل کو لوٹا نہیں سکتا‘‘۔ (یونس:)۔
(3) فوت شدگان بزرگوں اور انبیائے کرام
کومدد کے لئے پکارنا شرک ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور اس شخص سے زیادہ گمراہ
کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ایسے لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اسکی پکار
کاجواب نہیں دے سکتے۔اور (یہ وفات پاجانے والے افراد)انکی دعاؤں سے غافل ہیں‘‘۔ (احقاف:)۔
(4) اللہ کے علاوہ کسی اور بزرگ کے لئے نذر
ماننی یاذبیحہ کرنا شرک ہے ۔کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ
’’اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو‘‘۔ (سورہ کوثر:)۔
اسی طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’لعن اللہ من ذبح لغیر
اﷲ‘‘( صحیح مسلم)یعنی جو شخص غیر اللہ کے لئے ذبح کرتا ہے تو اللہ
تعالیٰ نے اس پر لعنت فرمائی ہے ۔
(5)اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کردہ امور
کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنایاذرہ برابر بھی ترمیم کرناشرک ہے ۔ فرمان الٰہی ہے: ’’(اے نبی)کہہ دیجئے کہ جو رزق اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل
کیاہے۔تم اس میں سے کچھ کوحلال و حرام قرار دیتے ہو۔کہہ دیجئے کہ کیااللہ تعالیٰ
نے تم کواجازت دی ہے ۔یاتم اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو‘‘۔ (یونس:)۔
(6)جادو کرنا،کاھنوں اور عاملوں کے پاس
جانا بھی کفرہے۔فرمان الٰہی ہے ’’اور سلیمان علیہ
السلام نے کفر نہیں کیاتھابلکہ شیطانوں نے کفر کیاتھا۔وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے
۔اور جوہاروت و ماروت نامی دوفرشتے بابل میں نازل ہوئے تھے وہ کسی کو جادو نہیں
سکھاتے تھے حتی کہ کہتے کہ ہم توآزمائش ہیں لہٰذا تم کفر نہ کرو‘‘۔ (بقرہ:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
’’جوشخص کاہن اور عامل کے پاس جائے اور اسکے جادو کی تصدیق کرے تو اس نے دین محمد
سے کفر کیاہے‘‘۔(مسند احمد)۔
(7) علم نجوم اور ستاروں کا انسانی زندگی
پر اثر
انسانی زندگی پر ستاروں اور سیاروں کااثر
انگیز ہونا اور قسمت کاحال ستاروں سے معلوم کرنا شرک بااللہ کے دروازوں کوکھولنے
کے مترادف ہے ۔چاند ستارے تو خود اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور تابع فرمان ہیں یہ ہمیں
ہماری تقدیر کی کیاخبر دیں گے ؟
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے
صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی۔رات کو بارش ہوچکی تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم
نماز کے بعد عوام الناس سے مخاطب ہوئے اور فرمایا’’تم جانتے ہو تمہارے رب نے
کیافرمایا ہے‘‘۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ اور اس کارسول زیادہ باخبر ہیں
۔یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’’آج میرے بندوں میں سے کچھ ایمان لانے والے بن گئے ہیں اور کچھ کافر ہوگئے ہیں
۔جن لوگوں نے بارش کو دیکھ کر کہاکہ ہم پر بارش اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوئی ہے تو
وہ مؤمن ہیں اور جنہوں نے کہاکہ ہم پر بارش ستاروں کی گردش سے ہوتی ہے تووہ کافر
بن گئے‘‘۔ (بخاری)۔
محترم قارئین کرام آج کل اخبار و
جرائد اور ٹیلی ویژن پر بے شمار ایسے مضامین و پروگرام شائع ہوتے ہیں ۔جن کاعنوان
ہوتا ہے۔ تمہارا ستارہ کیاکہتا ہے ۔یاستاروں کاحال معلوم کیجئے۔ اور بہت سے لاعلم لوگ
اپنی روزمرہ مصروفیات کوستاروں کے مطابق کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں یااپنی
قسمت کاحال ستاروں سے معلوم کرتے ہیں ۔ یہ سب شرک کے مظاہر و عوامل ہیں ۔ ان سے بچ
کر رہیئے یہ سب جھوٹ و خرافات کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
(8)بدشگون یانحوست: کچھ لوگ کسی مہینے
یاکسی خاص دن کو منحوس سمجھتے ہوئے بدشگونی لیتے ہیں ۔او رکچھ لوگ کسی خاص تاریخ
کو مثلاً تاریخ یاگنتی کے ھندسے کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اسکے متعلق فرمان رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم ہے ۔’’بدشگونی لینا شرک ہے ‘‘۔(مسند احمد)۔
(9) غیر اللہ کی قسم کھانا: عبداللہ بن عمر
بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ جو شخص اللہ
تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھاتا ہے تو اس نے شرک کیا‘‘۔ ایک دوسری روایت
میں یہ الفاظ ہیں ۔’’اے لوگو!بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں منع کیاہے کہ تم اپنے
باپوں کی قسم کھاؤ۔جو قسم کھانا چاہتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی قسم کھائے۔یاخاموش
رہے‘‘۔ (بخاری )۔
(10) ریاکاری کرنا: فرمان الٰہی ہے ’’ بے شک منافقین اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ (ان
منافقوں )کودھوکے کی سزا دیگا۔ اور جب یہ نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے
کھڑے ہوتے ہیں ۔لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کاذکر بہت کم کرتے ہیں‘‘۔
(النساء:)۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جوشخص اپنے اعمال کولوگوں کے
سامنے سنوارنے اور دکھلانے کی کوشش میں رہتا ہے (یعنی ریاکار ہوتاہے)تو اللہ
تعالیٰ اسکو اسکے اعمال کابدلہ صرف یہی ریاکاری اور نمائش دیں گے‘‘۔ (یعنی
آخرت میں کچھ نہ ملے گا۔ بحوالہ صحیح مسلم)۔
صحیح مسلم میں حدیث قدسی کے الفاظ کے مطابق
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’بیشک میں مشرکوں کے شرک سے بے پرواہ ہوں۔ جوشخص عمل
کو اس نیت سے کرے کہ میرے ساتھ اس میں غیر اللہ کوشریک کرے تو میں اسکے عمل اور
شرک دونوں کو پھینک دیتا ہوں‘‘۔ (مسلم)۔
(11)منافقوں اور فاسقوں کی ہم نشینی کرنا:
فرمان الٰہی ہے ’’اگر تم ان فاسقوں سے راضی ہوجاؤ
پھر بھی اللہ تعالیٰ تو فاسق قوم سے راضی نہیں ہے‘‘۔ (توبہ:)۔
(یعنی مسلمانوں کو بھی ان سے راضی نہیں ہونا چاہیئے)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور جب تم دیکھتے ہو کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات میں نکتہ
چینی کرتے ہیں تو تم ان سے اعراض کرو جب تک یہ لوگ کسی اور موضوع میں مصروف نہ
ہوجائیں ۔اور اگر کبھی شیطان تمہیں بھلا دے تو پھر یاد آجانے کے بعد ظالموں کیساتھ
نہ بیٹھو‘‘۔ (الانعام:)۔
(12)پیشاب کے قطروں سے نہ بچنا: عبداللہ بن
عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کے ایک باغ کے قریب سے
گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دوقبر والوں پر عذاب کوہوتے سنا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ان قبر والوں کو عذاب ہورہا ہے اوریہ عذاب کسی بڑی
چیز کے متعلق نہیں ہورہا۔بلکہ ایک شخص پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا
چغل خوری کرتا تھا‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
(13)نماز میں عدم اطمینان و سکون: فرمان
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہے ’’لوگوں میں سب سے بدترین چور وہ ہے جو نما
زکی چوری کرتا ہے‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کی اے اللہ کے رسول ’’نماز میں چوری کیسے
ہوسکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’رکوع و سجدہ کو مکمل اطمینان سے نہ
ادا کرنا نماز کی چوری ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
(14)جھوٹی گواہی: فرمان الٰہی ہے ’’بتوں
کی گندگی اورجھوٹی بات سے اجتناب کرو، ایک اللہ تعالیٰ کے سیدھے بندے بن جاؤ۔اسکے
ساتھ شرک نہ کرو‘‘۔ (حج:)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
’’کیامیں تمہیں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دوں‘‘؟۔پھرآپ صلی اللہ علیہ و سلم ہے
فرمایا 1’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔2والدین کی نافرمانی کرنا‘‘۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹیک لگائی ہوئی تھی پھرآپ سیدھی طرح بیٹھ گئے اور خبردار
کرتے ہوئے فرمایا: 3’’اور جھوٹی گواہی نہ دو‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم باربار
اسی بات کو دہراتے رہے صحابہ کرام نے عرض کی کہ کاش آپ خاموش ہوجائیں۔ (صحیح
بخاری)۔
(15)غیبت کرنا: فرمان الٰہی ہے ’’اور تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیاتم میں سے کوئی شخص
اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھاناچاہتا ہے ؟تم اسکو ناپسند کرتے ہو‘‘۔ (سورہ
الحجرات:)۔ یعنی جس طرح تم مردہ بھائی کاگوشت کھانا ناپسند کرتے ہو تو اسی طرح
غیبت کو بھی ناپسند کرو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا کہ کیاتم
جانتے ہو غیبت کیاہے ؟صحابہ کرام نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ
جانتے ہیں ۔آپ نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کاناپسندیدہ الفاظ میں ذکر کرنا غیبت
کہلاتا ہے‘‘۔ سوال کیاگیا کہ اگر ہمارے بھائی میں وہ بات موجود ہو جس کا ہم تذکرہ
کررہے ہوں تو؟ آپ نے فرمایا: ’’یہی تو غیبت ہے۔ اگر کوئی عیب نہ ہوا،پھر تم نے یہ بات
کہی تو اس کو بہتان کہتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم)۔
(16) چغل خوری کرنا: فرمان الٰہی ہے ’’اور تم ہر قسم کھانے والے ذلیل کی بات نہ مانو،جو عیب جوئی
کرنے والا اور چغل خوری کرنے والا ہے‘‘۔ (سورہ قلم :)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’چغل
خور کو قبر میں عذاب دیا جا رہاہے‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
(17) جاسوسی کرنا: فرمان الٰہی ہے’’اور تم ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو‘‘۔ (سورہ
الحجرات:)
(18)پڑوسیوں سے براسلوک کرنا: اللہ تعالیٰ
نے پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے کاحکم دیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے ’’اور اللہ کی عبادت
کرو اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔اور قریبی
رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، قریبی ساتھی، پڑوسی ، اور پڑوسی رشتہ دار سے اچھا
سلوک کرو۔مسافر اور غلام سے بھی حسن سلوک کرو۔بے شک اللہ تعالیٰ ہرتکبر کرنے والے
شیخی خور ے کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سورہ نسائ:)۔
فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔’’اللہ
کی قسم وہ مؤمن نہیں ہے ۔وہ مؤمن نہیں ہے ، وہ مؤمن نہیں ہے‘‘۔ پوچھا گیا کون اے
اللہ کے رسول ؟فرمایا ’’جس شخص کے شر سے اسکے پڑوسی محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ (صحیح
بخاری)۔
(19) مؤمن پر لعنت بھیجنا:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’مؤمن پر لعنت بھیجنا اسکو قتل کرنے کے مترادف
ہے‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
(20) چہرے پر مارنا: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم نے چہرے پر مارنے اور چہرے کوگرم لوہے سے داغنے سے منع فرمایا ہے (صحیح
مسلم )۔یہ حکم انسانوں اور جانوروں دونوں کے لئے ہے ۔
(21) نوحہ کرنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا ’’نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہیں کرتی توقیامت
کے دن اسکو گندھک اور خارش کی شلوار قمیض پہنائی جائے گی‘‘۔ اور آپ صلی اللہ
علیہ و سلم نے فرمایا ’’چہرے پر تھپڑ مارنے والا ،گریبان پھاڑنے والا اور
جاہلیت کے دعوے کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (بخاری) (کسی کے مرنے پر چیخنا
چلانا اور آواز کے ساتھ رونا نوحہ کہلاتا ہے)۔
(22)تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے ناراض
رہنا:فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے ’’کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں
ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے ‘‘۔
(23)سود کھانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔’’ اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور باقی سود کو چھوڑ دو۔اگر
تم ایمان والے ہو۔اگر تم نے سود کونہ چھوڑا تو پھراللہ اور اسکے رسول سے جنگ کے
لئے تیار رہو‘‘۔ (سورۃ البقرہ: )۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے ، سودی کاروبار کو لکھنے والے اور گواہوں پرلعنت فرمائی
ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(بحوالہ
مسلم)
(24) جوا کھیلنا اور جوئے کاکاروبار کرنا:
فرمان الٰہی ہے ۔’’بے شک شراب، جوا ، بت اور فال نکالنا ، شیطان کاناپاک عمل ہے
۔اس سے اجتناب کروتاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘۔ (مائدہ:)۔
(25)چوری کرنا: فرمان الٰہی ہے ۔’’ چوری کرنے والے مرد عورت کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ اسکے گناہ کی
سزاہے ۔اور اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے‘‘۔ (سورہ مائدہ:)۔
(26) رشوت کو لینادینا:فرمان الٰہی ہے: ’’اور تم ایک دوسرے کامال باطل طریقے سے نہ کھاؤ۔ باطل اور
زیادتی کے طریقے سے تم اس جھگڑے کوحاکموں کے پاس لے کر جاتے ہو حالانکہ تم جانتے
ہو‘‘(کہ تم جھوٹے اوردوسرا فریق سچا ہے)۔ (سورۃ البقرہ:)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے
’’ رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو‘‘(مسند احمد)
(27) جھوٹ بول کر ناکارہ سامان بیچنا: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’بے شک ایک مسلمان دوسرے مسلمان کابھائی
ہے۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ سامان کے عیب کو چھپا کر بیان کرے‘‘۔ (سنن
ابن ماجہ)۔
(28)زمین پر ناجائز قبضہ کرنا: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’جوشخص کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرتا ہے تو اس
کو قیامت کے دن سات زمینوں میں دھنسایاجائے گا۔ (صحیح بخاری)۔
(29)اولاد کے درمیان ناانصافی کرنا: اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔’’عدل کرو عدل کرنا تقوی کے
قریب تر ہے ۔اور اللہ سے ڈرو‘‘۔ (سورہ مائدہ:) سیدنا نعمان بن بشیر رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ان کے والد آپ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا،میں نے اپنے اس بیٹے کو باغ دے دیا ہے ۔رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا ۔کیاتم نے اپنے ہر بیٹے کو ایک ایک باغ دیا ہے
؟میرے والد نے جواب دیا ، نہیں ۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر
اس باغ کوواپس لے لو‘‘۔ (صحیح بخاری)۔
دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف قائم کرو‘‘۔
(مسلم)۔
(30)حرام کھانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و
سلم نے فرمایا: ’’ہروہ انسانی گوشت جو رزق حرام سے نشوونما پاتا ہے تو وہ جہنم
کی آگ میں جانے کازیادہ مستحق ہے‘‘۔ (طبرانی)۔
(31) جان بوجھ کر غیر عورت کو دیکھنا:
فرمان الٰہی ہے ’’مومنوں کو کہہ دیجئے کہ اپنی نظروں
کو جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے
۔بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کوجانتا ہے جووہ عمل کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ
نور:)۔
(32) عورتوں کاباریک اورعریاں لباس پہننا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’دوقسم کے جہنمی لوگوں کو ابھی میں
نے دیکھا نہیں ہے۔ (1) ایک وہ جو ہاتھوںمیں کوڑے پکڑ کر لوگوں کومارتے ہیں اور
(2)دوسری قسم کی وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی عریاں رہتی ہیں ۔ یہ لوگوں کو گناہ
کی جانب مائل کرتی اور خود بھی مائل ہوتی ہیں ۔انکے سر بختی اونٹوں کے کوہانوں کی
طرح ہوتے ہیں ۔یہ دونوں قسم کے لوگ نہ جنت میں جائیں گے اور نہ ہی جنت کی خوشبو
پاسکیں گے اور بے شک جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم)۔
(33)اجنبی عورت کے ساتھ تنہا ہونا: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ
ہو۔ان دونوں کیساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ (جامع ترمذی)۔
(34) غیر محرم عورت سے ہاتھ ملانا:رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’ تمہارے سر میں کوئی لوہے کی سلاخ سے
سوراخ کر دے تو یہ بہتر ہے کہ تم ایک غیر محرم عورت سے ہاتھ ملاؤ‘‘۔ ـ(طبرانی)۔
(35)عورت کا خوشبو لگاکر غیر مردوں کے پاس
جانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ جوعورت خوشبو لگا کر اس لئے
لوگوں کے پاس سے گزرتی ہے تاکہ ان لوگوں کو ا س کی خوشبو محسوس ہوتو وہ زانیہ
ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
(36) غیر محرم کے ساتھ سفر کرنا: رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا’’ کوئی عورت کسی غیرمحرم کے ساتھ سفر نہ کرے‘‘۔
(متفق علیہ)۔
(37)بدکاری کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور تم زنا کے قریب مت جاؤ بے شک یہ فحش کام اور برا راستہ
ہے‘‘ ۔ (سورہ اسرائ:)۔
(38) بے غیرتی پر قائم رہنا: رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’تین افراد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کردیا ہے
۔1ہمیشہ کاشرابی۔ 2 والدین کانافرمان 3 اور وہ دیوث شخص جو اپنے گھر میں برائی
کوبرقرار رکھتا ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
(39) مصنوعی بال لگانا: ایک عورت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تشریف لائی اور عرض کی کہ میری بیٹی کو بخار کی وجہ سے
بال گرنے کی بیماری لگ گئی تھی کیامیں شادی کے لئے اسکو مصنوعی بال (وگ) لگاسکتی
ہوں؟آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت
فرمائی ہے‘‘۔ (صحیح مسلم )۔
(40) مردوں کاسونا پہننا:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:’’ میری امت کی عورتوں کے لئے ریشم اور سونا حلال اور
مردوں کے لئے حرام ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
(41) شراب نوشی کرنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد
ہے :’’ بیشک شراب ، جوا ، بت اور تیروں سے قسمت کاحال
معلوم کرنا ، شیطانی عمل ہے تم اس سے اجتناب کروتاکہ تم فلاح پاجاؤ‘‘۔ (سورہ
مائدہ:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر
نشہ آور چیز حرام ہے‘‘ (بحوالہ بخاری)۔
چند حرام کردہ امور
No comments:
Post a Comment