الیاس گھمن کے پمفلٹ " آمین آہستہ کہنے کے دلائل"
کا جواب
الیاس گھمن کے پمفلٹ " آمین آہستہ کہنے کے دلائل"
کا جواب
محمد الیاس گھمن دیوبندی کے پمفلٹ "آمین آہستہ کہنے کے دلائل" کا
جواب درج ذیل ہے:
دلیل نمبر ١ :
آمین دعا ہے
قَالَ اللہُ تَعَالیٰ:قَدْاُجِیْبَتْ دَعْوَتُکُمَا۔ (سورۃ یونس:89)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ وہارون کے بارے میں فرمایاکہ تم
دونوں کی دعا قبول کرلی گئی
جواب: ہم نے اپنے دلائل میں امام عطا ء بن ابی رباح رحمہ الله کے
مکمل قول کی بنیاد پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ آمین ایسی دعا ہے جو اونچی آواز (یعنی
جہر )سے کہنی چاہئے. (دیکھئے دلیل نمبر ٤)
اگر ہر دعا لازمی طور پر دل میں ہی پڑھنا ضروری ہے تو آل دیوبند رائے
ونڈ کے تبلیغی اجتماع کے آخری دن (اتوار کو) لاؤڈ سپیکر پر اونچی آواز سے کیوں دعا
مانگتے ہیں اور لوگ آمین آمین کیوں کہتے ہیں؟
ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر تمہارا عمل نہیں؟
’’اَخْرَجَ اَبُوالشِّیْخِ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ مُوْسٰی
عَلَیْہِ السَّلاَمِ اِذَادَعَا اَمَّنَ ھَارُوْنُ عَلَیْہِ السَّلاَمِ عَلٰی
دُعَائِہِ۔ یَقُوْلُ آمِیْن‘‘ (تفسیر درمنثور
ج3،ص567)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ حضرت موسیٰ علیہ
السلام دعامانگتے اور حضرت ہارون علیہ السلام ان کی دعا پر آمین کہتے ۔‘‘
اس روایت کی سند معلوم نہیں، یعنی یہ بے سند روایت ہے لہٰذا اسے بطور
دلیل پیش کرنا غلط ہے.
دوسرے یہ کہ اس میں یہ وضاحت نہیں کہ سیدنا ہارون علیہ السلام دل میں
آمین کہتے تھے لہٰذا
آل دیوبند کا استدلال غلط ہے.
آل دیوبند کا استدلال غلط ہے.
’’ قَالَ عَطَائُ آمِیْنُ دُعَائٌ ‘‘ (صحیح بخاری :ج1،ص107)
ترجمہ: معروف جلیل القدر تابعی حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’آمین
دعا ہے۔‘‘
یہ آدھا قول نقل کیا گیا ہے، حالانکہ صحیح بخاری میں مکمل قول سے
ثابت ہوتا ہے کہ آمین ایسی دعا ہے جو بالجہر کہنی چاہئے. (دیکھئے میرا مضموں :
"آمین بالجہر کہنے کے دلائل" دلیل نمبر ٤)
دعا میں اصل یہ ہے کہ آہستہ کی جائے
اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعاًوَّخُفْیَۃً (سورۃ الاعراف:55)
ترجمہ: دعامانگو تم اپنے رب سے عاجزی اورآہستہ آواز سے۔
قرآن و حدیث سے جہاں آہستہ دعا کہنا ثابت ہے وہاں آہستہ کہنی چاہئے
اور جہاں بالجہر ثابت ہو وہاں بالجہر کہنی چاہئے. یہ کیا ہوا کہ خود تو رائے ونڈ
میں لمبی لمبی جہراً ا مانگیں اور لوگوں
کو آمین بالجہر سے منع کریں؟
دلیل نمبر٢ :
آمین اللہ تعالی کانام ہے
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَھِلَالِ بْنِ یَسَافٍ وَ مُجَاہِدٍ
قَالَ؛آمِیْنُ اِسْمٌ مِّنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔ (مصنف عبدالرزاق ج2ص64 ،مصنف ابن ابی شیبۃ ج2ص316)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،حضرت ہلال بن یساف رحمہ اللہ
اورحضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ آمین‘‘ اللہ کانام ہے۔
جواب: سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی طرف منسوب جو قول مصنف عبدالر
زاق میں مذکور ہے، اس کی سند میں بشر بن رافع ضعیف راوی ہے. (دیکھئے تقریب
التہذیب: ٧٧٠)
اس راوی پر اکاڑوی کی شدید جرح کے لئے دیکھئے تجلیات صفدر (٣/١٣٣)
دوسرے یہ کہ اگر الله کا نام
بلند آواز سے پڑھنا جائز نہیں تو رائے ونڈ وغیرہ کی دعا ؤں میں "اے الله! رحم
فرما" جہراً کیوں پڑھا جاتا ہے؟
ذکر میں اصل یہ ہے کہ آہستہ کیا جائے
وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاًوَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ
الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ۔ (سورۃ
اعراف:205)
ترجمہ: ’’ ذکر کیجیے اپنے رب کا دل میں عاجزی اورخوف کے ساتھ ، آہستہ
آواز میں۔
جو ذکر جہراً ثابت ہے مثلاً
جہری نمازوں میں آمین بالجہر پڑھنا تو اسے جہراً پڑھنا چاہئے اور جو سر اً ثابت ہے وہ
سر اً پڑھنا چاہئے.
قَالَ الْاِمَامُ فَخْرُالدِّیْنِ الرِّازِیُّ قَالَ اَبُوْحَنِیْفَۃَ
اِخْفَائُ التَّامِیْنِ اَفْضَلٌ وَاحْتَجَّ اَبُوْحَنِیْفَۃَ عَلٰی صِحَّۃِ
قَوْلِہِ قَالَ فِیْ قَوْلِہِ (آمِیْنٌ) وَجْھَانِ؛اَحُدُھُمَا: اَنَّہُ دُعَائٌ۔
وَالثَّانِیْ: اَنَّہُ مِنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ فَاِنْ کَانَ دُعَائٌ وَجَبَ
اِخْفَائُہُ لِقَوْلِہِ تَعَالٰی{ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاًوَّخُفْیَۃً}
وَاِنْ کَانَ اِسْماً مِّنْ اَسْمَائِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَجَبَ اِخْفَائُہُ
لِقَوْلِہِ تَعَالٰی {وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعاًوَّخِیْفَۃً} (تفسیر کبیرامام رازی ج14 ص131 )
ترجمہ: امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ
رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ آہستہ آواز سے’’ آمین ‘‘کہنا افضل ہے اوراپنے قول کی صحت
پر دلیل قائم کی اورفرمایا کہ اس قول (آمین) میں دوجہتیں ہیں:
(١) آمین دعاہے۔
(٢) آمین اللہ کا نام ہے
اگر آمین’’دعا‘‘ہے تو اس کا آہستہ آواز سے کہنا واجب ہے {اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً}کی وجہ سے اور اگر آمین اللہ تعالیٰ کانام ہے تو بھی اس کا آہستہ آواز
سے کہنا واجب ہے {وَاذْکُرْرَبَّکَ فِیْ
نَفْسِکَ تَضَرُّعاً وَّخِیْفَۃ }کی وجہ سے۔‘‘
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ اَحْمَدُ بْنُ
حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا یَحْیَ بْنُ سَعِیْدٍ عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ حَدَّثَنِیْ
مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ لَبِیْبِۃَ عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ
النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:’’خَیْرُ الذِّکْرِ
اَلْخَفِیُّ‘‘
(مسند احمد ؛ج1ص228)
ترجمہ: حضرت سعدبن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : ’’سب سے بہتر ذکر آہستہ آواز کے ساتھ کرنا ہے ۔‘‘
فخر الدین رازی (م ٦٠٦ ھ) نے کہا کہ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : . الخ (ص٢ ملخصا)
رازی ٥٤٤ ھ میں پیدا ہوئے تھے اور امام صاحب ١٥٠ ھ میں فوت ھ گئے
تھے، لہٰذا یہ سند منقطع مردود ہے.
ترجمہ: حضرت سعدبن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : ’’سب سے بہتر ذکر آہستہ آواز کے ساتھ کرنا ہے ۔‘‘
اس کی سند میں محمد بن عبد الرحمٰن ابی لبیبہ ہے جس کی سعد بن مالک
رضی الله عنہ سے ملاقات ثابت نہیں، لہٰذا یہ سند منقطع ہے.
دوسرے یہ کہ ہر ذکر دل ہی پڑھنا چاہئے تو حافظ نثار احمد الحسینی الحضر وی وغیرہ کو سمجھا ئیں جو ہؤ ہؤ کی آوازیں
نکال کر (اندھیرے میں) ذکر بالجہر کرتے ہیں.
دلیل نمبر ٣ :
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗد
َالطِّیَالْسِیُّ حَدَّثَنَاشُعْبَۃُ قَالَ اَخْبَرَنِیْ سَلْمَۃُ بْنُ کُھَیْلٍ
قَالَ سَمِعْتُ حُجْراً اَبَاالْعَنْبَسِ قَالَ سَمِعْتُ عَلْقَمَۃَ بْنَ وَائِلٍ
یُحَدِّثُ عَنْ وَائِلٍ وَ قَدْ سَمِعْتُ مِنْ وَائِلٍ اَنَّہُ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ
اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا قَرَأَ {غَیْرِالْمَغْضُـوْبِ
عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ} قَالَ آمِیْنٌ خَفِضَ بِھَا صَوْتَہُ۔ (مسند ابی دائودطیالسی ص138 ،مسند احمد ج4ص389 )
ترجمہ: حضرت وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے {غَیْرِ الْمَغْضُـوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا
الضَّآلِیْنَ}کی قرأت کی تو ’’آمین ‘‘ آہستہ آواز سے کہی۔‘‘
جواب: آہستہ آواز کے لفظ سے ثابت ہوا کہ جہری نمازوں میں آمین دل میں
نہیں کہنی چاہئے. دوسرے یہ کہ یہ حدیث
خیر القرون کے محدثین کے نزدیک خطا (یعنی ضعیف) ہے. (دیکھئے القول المتین ص ٣٦_٣٧)
دلیل نمبر ٤ :
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ
السَّجِسْتَانِیُّ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ نَا یَزِیْدُ نَاسَعِیْدٌ نَا قَتَادَۃُ
عَنِ الْحَسِنِ اَنَّ سَمُرَۃَ بْنَ جُنْدُبٍ وَ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ
تَذَاکَرَا فَحَدَّثَ سَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ اَنَّہُ حَفِظَ عَنْ رَسُوْلِ
اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَکْتَتَیْنِ: سَکْتَۃٌ
اِذَاکَبَّرَوَسَکْتَۃٌ اِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَائَۃِ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ
عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ}
(سنن ابی
دائود: ج1،ص122 )
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’حضرت سمرہ بن جندب رضی
اللہ عنہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے درمیان نمازمیں سکتوں کے متعلق مذاکرہ
ہوا توحضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے نمازمیں دو سکتوں کو یادکیا ایک جب تکبیر تحریمہ کہتے، سکتہ کرتے
یعنی خاموش رہتے اور دوسرا جب{غَیْرِ
الْمَغْضُـوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْنَ}کی قرأت سے فارغ ہوتے تو سکتہ کرتے ،یعنی خاموش رہتے۔
جواب: اس سند کی روایت میں قتادہ رحمہ الله ثقہ مدلس ہیں اور
روایت عن سے ہے.
اصول حدیث کا مشہور مسلہ ہے
کہ غیر صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت
ضعیف ہوتی ہے. (قتادہ کے مدلس ہونے کے لئے دیکھئے الجوہرا النقی لا بن التر کمانی الحنفی ٧/١٢٦)
دلیل نمبر ٥ :
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْجِعْفَرِ
الطَّحَاوِیُّ الْحَنْفِیُّ حَدَّثَنَا سَلَیْمَانُ بْنُ شُعَیْبِ الْکِیْسَانِیُّ
قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مَعْبَدٍ قَالَ ثَنَا اَبُوْبَکْرِ بْنِ عَیَاشٍ
عَنْ اَبِیْ سَعْدٍ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عُمَرُوَعَلِیُّ لاَ
یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ
وَلَابِالتَّامِیْنَ۔ (سنن طحاوی
ج1ص150)
ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’حضرت عمر اور حضرت علی
رضی اللہ عنہما نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اعوذ باللہ من الشیطن الرحیم
اورآمین کی قرأت کے وقت آواز بلند نہیں کرتے تھے ۔‘‘
جواب: اس روایت کی سند میں ابو سعد البقال جمہور محدثین کے نزدیک
ضعیف ، نیز مدلس ہے. اور یہ روایت عن سے
ہے.
دلیل نمبر ٦ :
عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ کَانَ عَلِیُّ وَعَبْدُاللّٰہِ لَا
یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ
وَلَابِالتَّامِیْنَ۔ (اعلاء السنن
ج2ص249)
ترجمہ: حضرت ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ حضرت علی اور حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم ،اعوذ باللہ من
الشیطٰن الرجیم اورآمین کی قرأت کے وقت آواز بلند نہیں کرتے تھے۔‘‘
جواب : اس کی سند میں بھی وہی ابو سعد البقال ضعیف راوی ہے. دیکھئے
دلیل نمبر ٥
دلیل نمبر ٧:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ یُخْفِی الْاِمَامُ
ثَلَاثًا:اَلْاِسْتِعِاذَۃُ وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْنٌ۔ (المحلی بالآثار،امام ا بن حزم رحمہ اللہ ج2ص280)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ امام نماز میں
تین چیزوں ’’اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم اورآمین کی قرأ
ت آہستہ آواز سے کرے۔‘‘
جواب: اس کا راوی ابو حمزہ
میمون الا عور القصاب الکوفی ضعیف متروک ہے. (دیکھئے نصب الرایہ ٢/٣٧٣، القول
المتین ص ٨٣)
دلیل نمبر ٨ :
رَوَی الْاِمَامُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ الْاَعْظَمُ
اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتِ التَّابِعِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ
اِبْرَاھِیْمَ قَالَ اَرْبَعٌ یُخَافِتُ بِھِنَّ الْاِمَامُ؛سُبْحَانَکَ
اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذِ مِنَ الشَّیْطَانِ وَبِسْمِ اللّٰہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْن۔
(کتاب
الآثار ،امام ابو حنیفۃ بروایۃ امام محمد ج1ص162 ،مصنف عبدالرزاق ج2ص57)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’امام نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ
الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ،بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اورآمین کی قرأت آہستہ آواز سے کرے۔‘‘
جواب : کتاب الآثار کا مصنف
ابن فرقد جمہور محدثین کے نزدیک مجروح و ضعیف ہے لہٰذا یہ حوالہ مردود ہے اور مصنف
عبد الرزاق والی روایت میں عبدالرزاق مدلس اور روایت معنعن، حماد ابی سلیمان مدلس اور مختلط ہیں،
لہٰذا یہ سند بھی ضعیف ہے.
دلیل نمبر ٩ :
عَنِ النَّخْعِیِّ وَالشَّعْبِیِّ وَاِبْرَاہِیْمَ التَّیْمِیِّ
کَانُوْا یَخْفُوْنَ بِاٰمِیْنَ۔
(الجوہر
النقی ج2ص58)
ترجمہ: ’’حضرت امام نخعی،حضرت امام شعبی اور حضرت امام ابراہیم تیمی
رحمہم اللہ نماز میں ’’آمین ‘‘آہستہ آواز سے کہتے تھے ۔ ‘‘
نوٹ : یادرہے ان میں امام شعبی رحمہ اللہ پانچ سوصحابہ کرام رضی اللہ
عنہم کے شاگرد ہیں
یہ قول الجواہر النقی کتاب میں بغیر کسی سند کے اور "روي"
کے لفظ سے مروی ہیں، یعنی یہ بے سند اور مردود حوالہ ہے. گھمن صاحب نے اس بے سند
حوالے کے بعد لکھا ہے: "ان میں امام شعبی رحمہ اللہ پانچ سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے
شاگرد ہیں"
عرض ہے کہ امام مالک بن مغول رحمہ الله نے فرمایا : سمعت الشعبي يحسن القراء خلف
الإمام" میں نے شعبی کو سنا، وہ امام
کے پیچھے قراءت کرنے کو اچھا قرار دیتے تھے. (مصنف ابن ابی شیبہ ١/٣٧٥ ح ٣٧٩٥
صحیح، نسختہ مکتبہ شاملہ)
دلیل نمبر ١٠:
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ اْلاَعْظَمُ
اَبُوْحَنِیْفَۃَ نُعْمَانُ بْنُ ثَابِتِ التَّابِعیُّ (اَرْبَعٌ یُخَافِتُ
بِھِنَّ الْاِمَامُ؛سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذِ مِنَ
الشَّیْطٰنِ وِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَآمِیْن) قَالَ مُحَمَّدٌ
وَبِہِ نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ ۔ (کتاب الآثار امام ابو حنیفۃ بروایۃامام محمد ج1ص162 )
ترجمہ: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت تابعی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: ’’امام نماز میں سبحانک اللھم
وبحمدک ،اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم اورآمین کی قرأت آہستہ آواز سے کرے۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
ہم اسی پر عمل کرتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے ۔
اس روایت کا راوی ابن فرقد ضعیف ہے . دیکھئے دلیل نمبر ٨
یاد رہے کہ امام ابو حنیفہ تابعی نہیں تھے، امام دار قطنی رحمہ الله
(م ٣٨٥ھ) نے فرمایا: "لم يلحق أبو حنيفة أحداً من السحابة" ابو حنیفہ نے صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی
ملاقات نہیں کی. (سوالات حمزة السہمی : ٣٨٣، تاریخ بغداد ٤/٢٠٨، توضیح الاحکام ٢/٤٠٤)
وما علينا ألا البلاغ
(١٧ دسمبر ٢٠١٢ء جامعہ
امام بخاری، مقام حیات سرگودھا)
Jazakallah khair, Fantastic reply
ReplyDeleteماشاء اللہ بہت ہی عمدہ اور تفصیل سے جواب دیا ہے
ReplyDeleteجزاک اللہ خیراً