دعائیں قبول کیوں نہیں
محمد جمیل اختر
یہ مسئلہ انتہائی اہم اور اکثر و بیشتر لوگوں سے سننے میں آیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعا کرتے ہیں لیکن ان کی دعا قبول نہیں ہوتی! آخر و جہ کیا ہے کہ لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی؟
یوں تو اس کی متعدد وجوہات ہیںلیکن بنیادی و جہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا مسنون طریقے سے دعا نہیں مانگتا اور دعا کی قبولیت کی وہ شرائط، جن کا دھیان رکھنا ضروری ہے، ان کا اپنی دعا میں اہتمام نہیں کرتا۔ جس طرح ایک حکیم کسی مریض کو دوا دیتا ہے اور اس کے ساتھ کئی چیزوں سے احتیاط، اجتناب او رپرہیز بھی تجویز کرتا ہے کہ اگر مریض ان پر عمل کرے گا تو تندرست ہوجائے گا لیکن اگر وہ مریض ان تدابیر و تجاویز پر عمل نہ کرے اور جتنی چاہے دوا استعمال کرتا رہے تو وہ دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اِلا کہ ان احتیاطوں اور تدابیر پر عمل نہ کرلے جو حکیم نے اسے بتائی ہیں۔ دعا کی قبولیت کی بھی اسی طرح چند شرائط ہیں جوقرآن و سنت سے حاصل ہوتی ہیں، جب تک ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے دعا نہ کی جائے، دعا قبول نہ ہوں گی... وہ شرائط بالاختصار درجِ ذیل ہیں:
دُعا کی شرائط وضوابط
1 اخلاص
دعا کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (فَادْعُوْہُ مخلصين لهَ الدِّينَ) (غافر:۶۵) ''تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔'' حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ''اس آیت سے ثابت ہوا کہ اخلاص قبولیت ِدعا کی لازمی شرط ہے۔'' (فتح الباری:۱۱؍۹۵)
2 حرام سے اجتناب
کسی شخص کا کوئی نیک عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ حرام کاری اور حرام خوری سے مکمل اجتناب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ حرام کا کھائے، حرام کا پئے، حرام کا پہنے تو اس شخص کے نیک اعمال ہرگز شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ دعا بھی ایک نیک عمل ہے،اس لئے یہ بھی اسی صورت میں قبول ہوگی جب دعا کرنے والا ہر حرام کام سے اجتناب کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی دعا ہرگز قبولیت کے لائق نہیں جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''ایک آدمی لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ (بیت اللہ پہنچ کر) ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو کیسے قبول کرے۔'' (مسلم:۱۰۱۵)
3 توبہ
اگر دعا کرنے والا دعا کرے اور ساتھ گناہ والے کام بھی کرتا رہے یا ان سے توبہ نہ کرے تو ایسے شخص کی دعا بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، توبہ اور استغفار کرے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: (وَيقوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إليه ُيرْسِلِ السَّمَائَ عليكم مِدْرَارًا وَّيزدْکُمْ قُوَّۃً إلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمينَ) (ھود:۵۲) ''اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پربھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اور تم گنہگار ہوکر روگردانی نہ کرو۔''
4 عاجزی و انکساری
دعا میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح دیا گیا کہ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وّخفية) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی ...''
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خوب عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔
5 دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے
اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زیادتی و تجاوز سے منع فرمایا ہے بالخصوص دعا میں زیادتی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخخفيةً إنه لاَ يحب الْمُعْتَدِين) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر او رچپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔'' دعا میں زیادتی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً حرام اور ممنوع چیزوں کے لئے دعا کرنا یا ہمیشگی کی زندگی کی دعا کرنا یا بلا و جہ کسی کے لئے بری دعا کرنا، اسی طرح کی تمام زیادتیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
6 معلق دعا نہ کی جائے
معلق دعا سے مراد وہ دعا ہے جس میں دعا اس طرح کی جائے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کردے اور اگر چاہتا ہے تو بخش دے۔ اس کامعنی یہ ہوا کہ یا اللہ اگر تو بخشنا نہیں چاہتا تو نہ بخشش ! اگر عطا نہیں کرنا چاہتا تو عطا نہ کر... تیری مرضی! حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ پورے عزم سے دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔'' (بخاری:۶۳۳۹، مسلم :۲۶۷۸ عن ابی ہریرۃ)
7 غفلت اور سستی نہ دکھائی جائے
دعا مانگنے میں کسی قسم کی سستی نہیں برتنی چاہئے بلکہ پورے دھیان، توجہ اور چستی کے ساتھ دعا مانگنی چاہئے اور دعا مانگنے والے کا ذہن دعا کے اندر مشغول ہونا چاہئے نیز اس پر کسی قسم کی سستی (خیالات یا نیند وغیرہ) نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ دعا کرنے والا اگر سستی میں مبتلا ہو گا یا غفلت کا شکار ہوگا تو اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس لئے نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ دعا ضرور قبول ہوگی اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔'' (ترمذی:۳۴۷۹، السلسلۃ الصحیحۃ : ۲؍۱۴۳)
دعا کے آداب
مذکورہ بالا شرائط ایسی ہیں جنہیں دعا میں ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری ہے جبکہ ان کے علاوہ بعض آداب ایسے ہیں کہ اگر دعا کرنے والا ان کا بھی اہتمام کرے تو پھر اس کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان مستحب آداب میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1 دعا سے پہلے طہارت (پاکیزگی)
دعا کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ ظاہری (باوضو) اور باطنی (استغفار) طہارت حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ قبولیت دعا میں وضو کے مستحب ہونے کی دلیل ابوعامرؓ کی شہادت اور نبی اکرم ﷺ سے ان کے استغفار والے قصے میں موجود ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی گئی تو آپؐ نے پانی منگوایا پھر آپؐ نے وضو کرکے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۳) لیکن یاد رہے کہ دعا سے پہلے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ نبی اکرم ا نے ہر دعا وضو کے ساتھ نہیں مانگی بلکہ کئی دعائیں آپؐ نے بغیر وضو کے مانگی ہیں۔
2 حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺپر درود
دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور بعد میں آنحضرت ا پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال کیا جائے۔ یہ ترتیب مستحب ہے جیسا کہ فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث میں ہے کہ '' رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا مگر اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: ''عجل ھذا'' ''اس نے جلدی کی'' پھراسے بلاکر اور دوسرے لوگوں کو بھی فرمایا کہ ''جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو پہلے حمدوثنا کرے پھر نبی اکرم ا پر درود بھیجے پھر جو وہ چاہے دعا کرے۔'' (ابوداود:۱۴۸و سندہ صحیح ، صحیح الجامع :۱؍۲۳۸)
3 افضل حالت اور افضل مقام پر دعا
دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ انسان افضل حالت میں اور افضل جگہ پر دعا کرے۔ افضل حالت سے مراد یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے انسان کی حالت افضل ہو۔ مثلاً سجدے اور رکوع کی حالت۔ جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''خبردار! میں تمہیں رکوع و سجود میں تلاوتِ قرآن سے منع کرتا ہوں لہٰذا رکوع میں ربّ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کا اہتمام کرو کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہے۔'' (مسلم:۴۷۹)
افضل جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ پرانسان دعا کررہا ہے وہ دوسری جگہوں سے افضل ہو مثلاً حرمین شریفین(بیت اللہ ومسجد نبوی)، مسا جد، مکہ مکرمہ وغیرہ۔ یہ ایسے مقامات ہیں جن میں دوسری جگہوں کی نسبت دعا جلدی قبول ہونے کا امکان ہوتا ہے، حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مکہ کے اندر دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''جب کفار نے نبی اکرم ﷺ کی پشت پر حالت ِنماز میں اوجھ ڈالی تو (نبی کریم ﷺنے ان پر بددعا کی اور) ان پر نبی اکرم ﷺ کی بددعا گراں گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شہر مستجاب الدعوات ہے۔'' (بخاری :۲۴۰)
4 افضل وقت میں دعا
جس طرح قبولیت ِدعا کے لئے افضل حالت اور افضل جگہ کا ہونا مستحب ہے، اسی طرح افضل وقت میں دعا کرنا بھی مستحب ہے جیسے عرفہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں دعا کرنا اور اس میں بھی بالخصوص آخری دس دن اور ان دس دنوں میں بھی طاق راتیں اور شب ِقدر زیادہ افضل ہیں۔ اسی طرح سحری کا وقت، جمعہ کا دن، اذان اور اقامت کا درمیانی وقت بھی افضل اوقات میں شامل ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا ردّ نہیں ہوتی۔'' (احمد ۲؍۱۵۵، ترمذی : ۲۱۲)
5 گریہ زاری اور تکرار کے ساتھ دعا کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ گڑ گڑاتے ہوئے اور باربار دہراتے ہوئے دعا کرنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''اللہ کے رسولؐ کو یہ بات پسند تھی کہ تین تین مرتبہ دعا کی جائے اور تین تین مرتبہ استغفار کیا جائے۔'' (ابوداود:۱۵۲۴ ، ضعیف عند الالبانی ؒ)
6 اسماے حسنیٰ اور نیک اعمال کا وسیلہ
مستحب آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام لے کر دعا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَللهِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہ ببها) اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں تو ان ناموں کے ساتھ اللہ ہی کو پکارا کرو۔'' (اعراف :۱۸۰) اسی طرح دعا کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرے کہ اے اللہ! میں نے محض تیری رضا کی خاطر فلاں فلاں نیک کام کیا، اے اللہ! مجھے بخش دے... اے اللہ میری مصیبت دور فرما... اے اللہ میرے حال پر رحم فرما...!!
7 جلد بازی سے پرہیز
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والا ان شرائط کو مدنظر رکھ کر دعا کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ایسے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مایوس ہوکر جلد بازی میں اپنی دعا کو چھوڑ نہ دے بلکہ دعا مانگتا رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔'' پوچھا گیا: یارسول اللہﷺ جلد بازی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بندے کا اس طرح کہنا کہ میں نے دعا کی، پھر دعا کی، لیکن وہ قبول نہیں ہوئی۔پھر وہ دل برداشتہ ہوکر دعا کو چھوڑ دے۔'' (یہ جلد بازی ہے) (بخاری :۶۳۴۰و مسلم :۲۷۳۵)
قبولیت ِدعا کی مختلف صورتیں
یاد رہے کہ ہر انسان کی ایسی دعا جو مذکورہ شرائط و آداب کے مطابق کی جائے، وہ قبول ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کاوعدہ ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أسْتَجِبْ لَکُمْ) ''اور تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا'' (غافر:۶۰) لیکن دعاکی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہیں جیساکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : ''ما من مسلم يدعو بدعوۃ ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاہ الله بها إحدی ثلاث: إما أن تعجّل له دعوته، وإما أن يدخرھا له فی الآخرۃ، وإما أن يصرف عنهمن السوء مثلها، قالوا : إذًا نُکثر، قال: الله أکثر'' ''جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔'' (احمد :۳؍۱۸) اس حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دعا کے مذکورہ بالا آداب وضوابط اور شروط و قواعد کو مد ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دست ِسوال دراز کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور بضرور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ البتہ دعا کی قبولیت کی تین مختلف صورتیںہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سائل کو اس کے سوال ومطالبہ سے نواز کر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور عموماً اسے ہی مقبول دعا خیال کیا جاتا ہے۔اس صورت کی مزید دو حالتیں ہیں، ایک تو یہ کہ ادھر دعا کی جائے او رادھر اسے فوراً قبول کرلیا جائے جس طرح حضرت زکریا ؑنے اللہ تعالیٰ سے طلب ِاولاد کی دعا ( رَبِّ هب لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيةً طيبةً) (آلِ عمران: ۳۸) اے میرے ربّ! مجھے تو اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما۔'' تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول کرلی اور فرشتوں کے ذریعے انہیں باخبر کیا کہ (اِنَّ اللهُ يبشرکَ بيحي) (آلِ عمران: ۳۹) ''یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ (بیٹے) کی خوشخبری دیتے ہیں۔'' دنیا میں قبولیت ِدعا کی دوسری حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دعا طویل عرصہ کے بعد قبول ہو جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فيهم رَسُوْلاً...) (البقرۃ:۱۲۹) اے ہمارے ربّ ! ان میں سے رسول بھیج...'' جبکہ ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا سینکڑوں برس کے بعد قبول ہوئی اور ابراہیم نے جس رسول کی بعثت کی دعا فرمائی، وہ آنحضرت ﷺ کی صورت میں قبول ہوئی۔ جیسا کہ آنحضرتؐ ہی فرماتے ہیں: (الفتح الربانی: ۲۰؍۱۸۱) ''میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا، حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔'' جبکہ اس کے علاوہ بھی قبولیت کی دو صورتیں ہیں جنہیں لوگ 'قبولِ دعا' کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتے، یعنی سائل کی دعا دنیا میں تو پوری نہیں ہوئی، البتہ اس دعا کو روزِ قیامت اجروثواب بنا کر سائل کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا یا بسا اوقات اس دعا کی برکت سے سائل و داعی سے کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے جس کا اندازہ دعا کرنے والے کو نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتا کہ شاید اس کی دعا قبول نہیں ہوئی جبکہ اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے مگر اس قبولیت کی صورت ہمارے خیالات سے کہیں بالا ہوتی ہے۔
بعض اوقات دعا کی جو صورت ہمارے سامنے ہے، اللہ اس سے بہتر صورت میں اس کی تکمیل کردیتے ہیں، اور وہی ہمارے حالات کے زیادہ موافق ومناسب ہوتی ہے، تو یہ بھی قبولیت ِدعا کی ایک صورت ہے۔ اس میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اس قبولیت ِدعا کو بظاہر اپنے لئے اچھا خیال نہیں کرتے لیکن وسیع تناظر میں یا دور اندیشی کے طور پروہی بات ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ الغرض آداب و شروطِ دعا کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
1 اخلاص
دعا کی قبولیت کے لئے سب سے اہم اور ضروری شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کو اپنا حقیقی معبود سمجھتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، غیر اللہ سے دعا نہ کرے۔ اللہ کے دَر کے علاوہ اور کے دَر پر اپنی جھولی نہ پھیلائے۔ خالق ِحقیقی کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کرے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (فَادْعُوْہُ مخلصين لهَ الدِّينَ) (غافر:۶۵) ''تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔'' حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ''اس آیت سے ثابت ہوا کہ اخلاص قبولیت ِدعا کی لازمی شرط ہے۔'' (فتح الباری:۱۱؍۹۵)
2 حرام سے اجتناب
کسی شخص کا کوئی نیک عمل اس وقت تک قابل قبول نہیں جب تک کہ وہ حرام کاری اور حرام خوری سے مکمل اجتناب نہ کرے۔ لیکن اگر وہ حرام کا کھائے، حرام کا پئے، حرام کا پہنے تو اس شخص کے نیک اعمال ہرگز شرفِ قبولیت حاصل نہیں کرسکتے اور چونکہ دعا بھی ایک نیک عمل ہے،اس لئے یہ بھی اسی صورت میں قبول ہوگی جب دعا کرنے والا ہر حرام کام سے اجتناب کرے۔ بصورتِ دیگر اس کی دعا ہرگز قبولیت کے لائق نہیں جیساکہ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ''ایک آدمی لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کی حالت یہ ہے کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں، چہرہ خاک آلود ہے اور وہ (بیت اللہ پہنچ کر) ہاتھ پھیلا کر کہتا ہے: یاربّ! یاربّ! حالانکہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس کا پینا حرام کا ہے، اس کا لباس حرام کا ہے او رحرام سے اس کی پرورش ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو کیسے قبول کرے۔'' (مسلم:۱۰۱۵)
3 توبہ
اگر دعا کرنے والا دعا کرے اور ساتھ گناہ والے کام بھی کرتا رہے یا ان سے توبہ نہ کرے تو ایسے شخص کی دعا بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتی۔ اس لئے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، توبہ اور استغفار کرے جیسا کہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: (وَيقوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا إليه ُيرْسِلِ السَّمَائَ عليكم مِدْرَارًا وَّيزدْکُمْ قُوَّۃً إلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمينَ) (ھود:۵۲) ''اے میری قوم کے لوگو! تم اپنے پالنے والے سے اپنی تقصیروں کی معافی طلب کرو اور اس کی جناب میں توبہ کرو، تاکہ وہ برسنے والے بادل تم پربھیج دے اور تمہاری طاقت پر اور طاقت بڑھا دے اور تم گنہگار ہوکر روگردانی نہ کرو۔''
4 عاجزی و انکساری
دعا میں عاجزی و انکساری اختیار کرنے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح دیا گیا کہ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وّخفية) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے بھی ...''
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور خوب عاجزی کا اظہار کرنا چاہئے۔
5 دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے
اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زیادتی و تجاوز سے منع فرمایا ہے بالخصوص دعا میں زیادتی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخخفيةً إنه لاَ يحب الْمُعْتَدِين) (الاعراف:۵۵) ''تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر او رچپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔'' دعا میں زیادتی کی کئی صورتیں ہیں مثلاً حرام اور ممنوع چیزوں کے لئے دعا کرنا یا ہمیشگی کی زندگی کی دعا کرنا یا بلا و جہ کسی کے لئے بری دعا کرنا، اسی طرح کی تمام زیادتیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔
6 معلق دعا نہ کی جائے
معلق دعا سے مراد وہ دعا ہے جس میں دعا اس طرح کی جائے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کردے اور اگر چاہتا ہے تو بخش دے۔ اس کامعنی یہ ہوا کہ یا اللہ اگر تو بخشنا نہیں چاہتا تو نہ بخشش ! اگر عطا نہیں کرنا چاہتا تو عطا نہ کر... تیری مرضی! حالانکہ نبیﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ پورے عزم سے دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔'' (بخاری:۶۳۳۹، مسلم :۲۶۷۸ عن ابی ہریرۃ)
7 غفلت اور سستی نہ دکھائی جائے
دعا مانگنے میں کسی قسم کی سستی نہیں برتنی چاہئے بلکہ پورے دھیان، توجہ اور چستی کے ساتھ دعا مانگنی چاہئے اور دعا مانگنے والے کا ذہن دعا کے اندر مشغول ہونا چاہئے نیز اس پر کسی قسم کی سستی (خیالات یا نیند وغیرہ) نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ دعا کرنے والا اگر سستی میں مبتلا ہو گا یا غفلت کا شکار ہوگا تو اس کی دعا قبول نہیں ہوگی۔ اس لئے نبیﷺ نے فرمایا: ''اللہ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ دعا ضرور قبول ہوگی اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی دعا کو قبول نہیں فرماتے۔'' (ترمذی:۳۴۷۹، السلسلۃ الصحیحۃ : ۲؍۱۴۳)
دعا کے آداب
مذکورہ بالا شرائط ایسی ہیں جنہیں دعا میں ملحوظ خاطر رکھنا از بس ضروری ہے جبکہ ان کے علاوہ بعض آداب ایسے ہیں کہ اگر دعا کرنے والا ان کا بھی اہتمام کرے تو پھر اس کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ان مستحب آداب میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1 دعا سے پہلے طہارت (پاکیزگی)
دعا کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ ظاہری (باوضو) اور باطنی (استغفار) طہارت حاصل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ قبولیت دعا میں وضو کے مستحب ہونے کی دلیل ابوعامرؓ کی شہادت اور نبی اکرم ﷺ سے ان کے استغفار والے قصے میں موجود ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی اور ان کے لئے استغفار کی درخواست کی گئی تو آپؐ نے پانی منگوایا پھر آپؐ نے وضو کرکے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری: ۴۳۲۳) لیکن یاد رہے کہ دعا سے پہلے باوضو ہونا ضروری نہیں کیونکہ نبی اکرم ا نے ہر دعا وضو کے ساتھ نہیں مانگی بلکہ کئی دعائیں آپؐ نے بغیر وضو کے مانگی ہیں۔
2 حمد و ثنا اور آنحضرت ﷺپر درود
دعا مانگنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کی جائے اور بعد میں آنحضرت ا پر درود بھیجا جائے اور اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال کیا جائے۔ یہ ترتیب مستحب ہے جیسا کہ فضالہ بن عبیدؓ کی حدیث میں ہے کہ '' رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا مگر اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا تو آپؐ نے فرمایا: ''عجل ھذا'' ''اس نے جلدی کی'' پھراسے بلاکر اور دوسرے لوگوں کو بھی فرمایا کہ ''جب تم میں سے کوئی دعا مانگے تو پہلے حمدوثنا کرے پھر نبی اکرم ا پر درود بھیجے پھر جو وہ چاہے دعا کرے۔'' (ابوداود:۱۴۸و سندہ صحیح ، صحیح الجامع :۱؍۲۳۸)
3 افضل حالت اور افضل مقام پر دعا
دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی مستحب ہے کہ انسان افضل حالت میں اور افضل جگہ پر دعا کرے۔ افضل حالت سے مراد یہ ہے کہ دعا مانگتے ہوئے انسان کی حالت افضل ہو۔ مثلاً سجدے اور رکوع کی حالت۔ جیسا کہ ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ''خبردار! میں تمہیں رکوع و سجود میں تلاوتِ قرآن سے منع کرتا ہوں لہٰذا رکوع میں ربّ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور سجدے میں دعا کا اہتمام کرو کیونکہ سجدے میں دعا کی قبولیت کا امکان ہے۔'' (مسلم:۴۷۹)
افضل جگہ سے مراد یہ ہے کہ جس جگہ پرانسان دعا کررہا ہے وہ دوسری جگہوں سے افضل ہو مثلاً حرمین شریفین(بیت اللہ ومسجد نبوی)، مسا جد، مکہ مکرمہ وغیرہ۔ یہ ایسے مقامات ہیں جن میں دوسری جگہوں کی نسبت دعا جلدی قبول ہونے کا امکان ہوتا ہے، حتیٰ کہ مشرکین مکہ بھی اس بات کے قائل تھے کہ مکہ کے اندر دعا جلد قبول ہوتی ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''جب کفار نے نبی اکرم ﷺ کی پشت پر حالت ِنماز میں اوجھ ڈالی تو (نبی کریم ﷺنے ان پر بددعا کی اور) ان پر نبی اکرم ﷺ کی بددعا گراں گزری کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ شہر مستجاب الدعوات ہے۔'' (بخاری :۲۴۰)
4 افضل وقت میں دعا
جس طرح قبولیت ِدعا کے لئے افضل حالت اور افضل جگہ کا ہونا مستحب ہے، اسی طرح افضل وقت میں دعا کرنا بھی مستحب ہے جیسے عرفہ کے دن یا رمضان المبارک کے مہینے میں دعا کرنا اور اس میں بھی بالخصوص آخری دس دن اور ان دس دنوں میں بھی طاق راتیں اور شب ِقدر زیادہ افضل ہیں۔ اسی طرح سحری کا وقت، جمعہ کا دن، اذان اور اقامت کا درمیانی وقت بھی افضل اوقات میں شامل ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ''اذان اور اقامت کے درمیان دعا ردّ نہیں ہوتی۔'' (احمد ۲؍۱۵۵، ترمذی : ۲۱۲)
5 گریہ زاری اور تکرار کے ساتھ دعا کرنا
اس کا مطلب یہ ہے کہ گڑ گڑاتے ہوئے اور باربار دہراتے ہوئے دعا کرنا جیسا کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ''اللہ کے رسولؐ کو یہ بات پسند تھی کہ تین تین مرتبہ دعا کی جائے اور تین تین مرتبہ استغفار کیا جائے۔'' (ابوداود:۱۵۲۴ ، ضعیف عند الالبانی ؒ)
6 اسماے حسنیٰ اور نیک اعمال کا وسیلہ
مستحب آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دعا کرنے والا اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام لے کر دعا کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (وَللهِ الاَسْمَائُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہ ببها) اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لئے ہیں تو ان ناموں کے ساتھ اللہ ہی کو پکارا کرو۔'' (اعراف :۱۸۰) اسی طرح دعا کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرے کہ اے اللہ! میں نے محض تیری رضا کی خاطر فلاں فلاں نیک کام کیا، اے اللہ! مجھے بخش دے... اے اللہ میری مصیبت دور فرما... اے اللہ میرے حال پر رحم فرما...!!
7 جلد بازی سے پرہیز
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ دعا کرنے والا ان شرائط کو مدنظر رکھ کر دعا کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی دعا قبول نہیں ہوتی تو ایسے دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مایوس ہوکر جلد بازی میں اپنی دعا کو چھوڑ نہ دے بلکہ دعا مانگتا رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بندے کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے۔'' پوچھا گیا: یارسول اللہﷺ جلد بازی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ بندے کا اس طرح کہنا کہ میں نے دعا کی، پھر دعا کی، لیکن وہ قبول نہیں ہوئی۔پھر وہ دل برداشتہ ہوکر دعا کو چھوڑ دے۔'' (یہ جلد بازی ہے) (بخاری :۶۳۴۰و مسلم :۲۷۳۵)
قبولیت ِدعا کی مختلف صورتیں
یاد رہے کہ ہر انسان کی ایسی دعا جو مذکورہ شرائط و آداب کے مطابق کی جائے، وہ قبول ضرور ہوتی ہے کیونکہ یہ اللہ کاوعدہ ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ أسْتَجِبْ لَکُمْ) ''اور تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا'' (غافر:۶۰) لیکن دعاکی قبولیت کی تین مختلف صورتیں ہیں جیساکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : ''ما من مسلم يدعو بدعوۃ ليس فيها إثم ولا قطيعة رحم إلا أعطاہ الله بها إحدی ثلاث: إما أن تعجّل له دعوته، وإما أن يدخرھا له فی الآخرۃ، وإما أن يصرف عنهمن السوء مثلها، قالوا : إذًا نُکثر، قال: الله أکثر'' ''جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔'' (احمد :۳؍۱۸) اس حدیث سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان دعا کے مذکورہ بالا آداب وضوابط اور شروط و قواعد کو مد ِنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دست ِسوال دراز کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور بضرور اس کی دعا قبول فرماتے ہیں۔ البتہ دعا کی قبولیت کی تین مختلف صورتیںہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سائل کو اس کے سوال ومطالبہ سے نواز کر اس کی دعا قبول کی جاتی ہے اور عموماً اسے ہی مقبول دعا خیال کیا جاتا ہے۔اس صورت کی مزید دو حالتیں ہیں، ایک تو یہ کہ ادھر دعا کی جائے او رادھر اسے فوراً قبول کرلیا جائے جس طرح حضرت زکریا ؑنے اللہ تعالیٰ سے طلب ِاولاد کی دعا ( رَبِّ هب لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّيةً طيبةً) (آلِ عمران: ۳۸) اے میرے ربّ! مجھے تو اپنے پاس سے اچھی اولاد عطا فرما۔'' تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول کرلی اور فرشتوں کے ذریعے انہیں باخبر کیا کہ (اِنَّ اللهُ يبشرکَ بيحي) (آلِ عمران: ۳۹) ''یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو حضرت یحییٰ (بیٹے) کی خوشخبری دیتے ہیں۔'' دنیا میں قبولیت ِدعا کی دوسری حالت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دعا طویل عرصہ کے بعد قبول ہو جیسے حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: (رَبَّنَا وَابْعَثْ فيهم رَسُوْلاً...) (البقرۃ:۱۲۹) اے ہمارے ربّ ! ان میں سے رسول بھیج...'' جبکہ ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا سینکڑوں برس کے بعد قبول ہوئی اور ابراہیم نے جس رسول کی بعثت کی دعا فرمائی، وہ آنحضرت ﷺ کی صورت میں قبول ہوئی۔ جیسا کہ آنحضرتؐ ہی فرماتے ہیں: (الفتح الربانی: ۲۰؍۱۸۱) ''میں اپنے باپ حضرت ابراہیمؑ کی دعا، حضرت عیسیٰؑ کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں۔'' جبکہ اس کے علاوہ بھی قبولیت کی دو صورتیں ہیں جنہیں لوگ 'قبولِ دعا' کی فہرست میں شامل نہیں سمجھتے، یعنی سائل کی دعا دنیا میں تو پوری نہیں ہوئی، البتہ اس دعا کو روزِ قیامت اجروثواب بنا کر سائل کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا یا بسا اوقات اس دعا کی برکت سے سائل و داعی سے کسی آنے والی مصیبت کو ٹال دیا جاتا ہے جس کا اندازہ دعا کرنے والے کو نہیں ہو پاتا اور وہ یہی سمجھتا کہ شاید اس کی دعا قبول نہیں ہوئی جبکہ اس کی دعا بارگاہِ خداوندی میں قبول ہوتی ہے مگر اس قبولیت کی صورت ہمارے خیالات سے کہیں بالا ہوتی ہے۔
بعض اوقات دعا کی جو صورت ہمارے سامنے ہے، اللہ اس سے بہتر صورت میں اس کی تکمیل کردیتے ہیں، اور وہی ہمارے حالات کے زیادہ موافق ومناسب ہوتی ہے، تو یہ بھی قبولیت ِدعا کی ایک صورت ہے۔ اس میں بعض اوقات تاخیر ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم اس قبولیت ِدعا کو بظاہر اپنے لئے اچھا خیال نہیں کرتے لیکن وسیع تناظر میں یا دور اندیشی کے طور پروہی بات ہمارے حق میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ الغرض آداب و شروطِ دعا کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا مانگی جائے تو وہ کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
No comments:
Post a Comment