عورت زیب وزینت
ڈاکٹر صالح بن فوزان۔۔۔ مترجم:قاری محمد مصطفی
زیب وزینت کے حوالے سے عورتوں کے لئے مخصوص خصائل فطرت پر عمل کرنا از حدضروری ہے۔
جیسے پابندی کے ساتھ ناخن کاٹنا اور ان کی صفائی رکھنا، کیونکہ ناخن کاٹنا سنت نبویﷺ ہے جس پر اہل علم کا اجماع ہے اور یہ حدیث میں وارد خصائل فطرت میں سے بھی ہے۔ ناخن کاٹنے میں حسن ونظافت جب کہ لمبے چھوڑدینے میں بد شکلی اور خونخوار درندوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ لمبے ناخنوں کے نیچے میل جمع ہوجاتی ہے اور یہ نیچے تک پانی پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ بعض مسلمان عورتیں، غیر مسلم خواتین کی تقلید کرتے ہوئے اور سنت سے جہالت کی وجہ سے لمبے ناخن رکھنے کی وبامیں مبتلا ہیں۔ العیاذ
عورت کے لئے زیرناف اور زیربغل بالوں کی صفائی کرنا مسنون ہے۔(صحیح مسلم:۲۶۱) اس میں حدیث پر عمل بھی ہے اور حسن و جمال بھی۔ بہتر ہے کہ ہرہفتہ یہ عمل انجام دیا جائے ورنہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑا جائے۔
1۔ سرمونڈوانے کی حرمت
مسلمان عورتوں کے لیے سر کے بال لمبے رکھنا واجب ہے اور بلا عذر و ضرورت مونڈوانا حرام ہے۔ سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں:
"عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ : (نَهَی رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا) (سنن النسائي:۵۰۵۲)"نبی کریمﷺ نے عورت کو سرمونڈنے سے منع کیا ہے۔ان احادیث میں نبی کریمﷺ سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔ ملا علی قاری "المرقاة شرح مشکوٰة" میں فرماتے ہیں :" عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے، کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔ (مجموع فتاویٰ فضیلة الشیخ محمد إبراہیم :۲/۴۹)
2۔ سر کے بال کاٹنے کا حکم
اگرمقصدزینت کے بغیر فقط ضرورت کی وجہ سے بال کاٹے جائیں مثلاً زیادہ لمبے ہوجائیں اور ان کو سنوارنا مشکل ہوجائے وغیرہ تو بقدر ضرورت کاٹ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد ترک زینت اور لمبے بالوں سے استغنائیت کی بنا پر بعض اُمہات المومنین ایسے کرلیا کرتی تھیں۔
اگر بال کاٹنے کا مقصد کافر و فاسق عورتوں یا مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہو تو بلا شک یہ حرام عمل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے عمومی طور پر کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔(مجمع الزوائد)اور اگر مقصد زیب و زینت ہو تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ عمل تب بھی ناجائز ہے۔
الشیخ محمدامین الشنقیطی، اضواء البیان میں فرماتے ہیں:
متعدد مسلم ممالک میں عورتوں کا اپنے سر کے بالوں کو جڑوں کے قریب تک کاٹ لینے کا جو رواج عام ہوچکا درحقیقت یہ فرنگی طرز زندگی ہے جو مسلمان عورتوں اور اسلام سے قبل عرب عورتوں کے طریقہ کے خلاف ہے، یہ رواج ان عمومی انحرافات میں سے ہے جو دین، تخلیق، اخلاق اور کردار کو متاثر کررہا ہے۔
پھر اس حدیث(أنَّ أزْوَاجَ النَّبِیِّ يَأخُذْنَ مِنْ رُؤوْسِهِنَّ حَتَّی تَکُوْنَ کَالْوَفْرَةِ)(صحیح مسلم:۳۲۰) "بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔" کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ازواج مطہرات نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اپنے بالوں کو کاٹا، کیونکہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں وہ زیب و آرائش کیا کرتی تھیں اور ان کی زینت میں سب سے خوبصورت چیز اُن کے بال ہوتے تھے۔ آپﷺ کی وفات کے بعد ان کے لئے خاص حکم ہے جس میں دنیا کی کوئی عورت ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتی اوروہ حکم خاص ان کی نکاح کی اُمیدوں کا یکسر ختم ہوجاناہے اور کسی غیر سے شادی کرنے سے مایوس ہوجاناہے۔ آپﷺ کی موت کے بعد وہ گویا کہ معتدات (عدت گزارنے والیاں) تھیں۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا کَانَ لَکُمْ أنْ تُؤَذُوْا رَسُوْلَ اللهِ وَلَا أنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِه أبَدًا إنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللهِ عَظِيْمًا﴾ (الأحزاب:۵۳)
"نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہﷺ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپﷺ کے بعد کسی وقت بھی آپﷺ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یادرکھو اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔"
مردوں سے بالکل مایوسی بسااوقات زینت سے متعلقہ بعض چیزوں کی حلت کی رخصت کا سبب بن جاتی ہے، جو اس سبب کے علاوہ حلال نہیں ہوسکتیں۔ (أضواء البیان: ۵/۵۹۸تا۶۰۱)
عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بالوں کی حفاظت کرے ،ان کو پوری توجہ دے اور ان کی مینڈھیاں بنالے، بالوں کو سر پر یا گدی کی جانب جمع کرلینا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ:۲۲/۱۴۵ میں فرماتے ہیں:
جیسا کہ بعض آبرو باختہ کرتی ہیں کہ کندھوں کے درمیان لٹکتی ہوئی ایک ہی مینڈھی بنالیتیں ہیں۔
سعودی عرب کے مفتی شیخ محمدبن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ: "عصر حاضر کی بعض مسلمان خواتین نے جو رواج اپنایا ہوا ہے کہ سر کے تمام بالوں کو کنگھی کر کے (دائیں یا بائیں) ایک ہی جانب کرلینا، گدی کی جانب بالوں کو جمع کرنا یا فرنگی عورتوں کی مانند سر پر بالوں کو جمع کرلینا، یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:(صِنْفَانِ مِنْ أهْلِ النَّارِ لَمْ أرَهُما قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ کَأذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مَائِلَاتٌ،رُؤوْسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْعِجَاف لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيْحَهَا،وَإنَّ رِيْحَهَا لَيُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ کَذَا وَکَذَا) (صحیح مسلم:۲۱۲۸)
"اہل جہنم کی دو قسموں کو میں نے دیکھا۔پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے، دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، میل ہونے والیاں اور میل کرنے والیاں، ان کے سر دبلے پتلے بختی اونٹوں کی کوہان کی مانند ہوں گے، وہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو کو پائیں گی۔ باوجودیکہ اس کی خوشبو لمبی مسافت سے محسوس کی جاسکے گی۔"
بعض علماء نے اس قول (مائلات مميلات)کی تفسیر 'ٹیڑھی مانگ نکالنا' کی ہے جو فواحشہ کی علامت ہے اور فرنگیوں کی نشانی ہے اور مسلمان عورت کے لئے ان کے نقش قدم پر چلناجائز نہیں ہے۔ (مجموع فتاویٰ:۲/۴۲، وانظر: الایضاح والتبیین للشیخ حمود التویجري، ص۸۵)
3۔ مصنوعی بال اوروِگ لگانے کا حکم
جس طرح مسلمان عورت کے لئے بلا ضرورت اپنے سر کے بالوں کو مونڈنا یاکاٹنا منع ہے اسی طرح اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانا یا زیادہ کرنا بھی منع ہے۔ صحیحین میں نبی کریمﷺ سے مروی ہے (( لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ))"رسول اللہﷺ نے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال لگانے والی اور لگوانے والی (دونوں) پر لعنت فرمائی۔" کیونکہ اس میں جھوٹ ہے۔ ایسے ہی اس زمانے میں معروف 'وِگ' لگانا بھی حرام ہے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ امیر معاویہ نے مدینہ منورہ آنے پر تقریر کی اور دوران تقریربالوں کا گولا یا بالوں کا گچھا نکال کر فرمایا:
"تمہاری عورتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سروں میں اس جیسے (بال) لگاتی ہیں، حالانکہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:( مَا مِنْ اِمْرَأةٍ تَجْعَلُ فِیْ رَأسِهَا شَعْراً مِنْ شَعْرِ غَيْرِهَا اِلَّا کَانَ زُوْرًا) (صحیح ابن حبان:۵۴۸۶)"جو بھی عورت اپنے سر میں اپنے بالوں کے علاوہ بال لگاتی ہے، وہ جھوٹ اور فریب ہے۔"
وگ بھی مصنوعی بالوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جو سر کے بالوں کے مشابہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لگانے میں بھی دھوکہ اور مکر وفریب ہے۔
4۔ اَبرو کے بال صاف کرنے کا حکم
مسلمان عورت پر اپنے ابرؤوں کے بالوں کو مونڈنا، کاٹنا یا بال صفا جیسے کیمیکل سے سارے یا کچھ بال ختم کرنا حرام ہے، کیونکہ یہی وہ عمل نمص ہے جس سے نبی کریمﷺ نے منع کیا ہے، اور ایسا کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے: (لَعَنَ النَّامِصَةَ وَالْمُتْنَمِصَةَ )(صحیح ابن حبان:۵۴۸۰)
"نبی کریمﷺ نے بال اکھڑوانے والی اور اکھیڑنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔"
یہ دراصل اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہے جس کی شیطان نے قسم کھائی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلأمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ﴾ (النساء :۱۱۹) "اور ان سے کہوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔"
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے: (لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنِّمَصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمَغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ)(صحیح البخاري:۵۹۳۱) "اللہ تعالیٰ نے جسم گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر، بال اُکھیڑنے والیوں اور اُکھڑوانے والیوں پر اور حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کرکے اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی۔"
پھر اس کے بعد انہوں نے فرمایا۔ کیا میں بھی ان پر لعنت نہ کروں جن پر نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی اور قرآن مجید میں بھی ہمیں یہی حکم ہے۔ ﴿وَمَا اَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخَذُوْهُ وَمَانَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر:۷) "اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔"
اس سنگین اور خطرناک وباء میں آج بے شمار عورتیں مبتلا ہو گئی ہیں در حقیقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اَبروٴوں کے بال صاف کرنا روز مرہ کی ضروریات میں شامل ہو گیا ہے اگر کسی عورت کا خاوند اس کا حکم دے تو بھی اس کی اطاعت نہیں ہے، کیونکہ یہ معصیت اور گناہ کاکام ہے۔
5۔ دانت کشادہ کرنے کا حکم
مسلمان عورت پرحرام ہے کہ وہ حسن و جمال میں اِضافے کے لئے اپنے دانتوں کو ریتی سے رگڑ کر کشادہ کرلے تاکہ دانتوں کے درمیان معمولی سی کشادگی پیدا ہوجائے اور وہ خوبصورت محسوس ہونے لگیں، لیکن اگر دانتوں میں تکلیف ہو یا کیڑا لگ گیا ہو جو آپریشن کا محتاج ہو تو تب اس تکلیف کے اِزالے اور کیڑے کو ختم کرنے کے لئے اس کا علاج کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ علاج ہے، حسن کی نیت سے نہیں اور یہ علاج بھی مخصوص طبیب ہی کرتا ہے۔
6۔ اپنے جسم کو گودنا اس اس میں الوشم (جسم میں سرمہ ڈلوانے) کا معنی اور حکم
عورت کیلئے جسم گود کر اس میں سرمہ بھرنا بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے(لَعَنَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ) "جسم کو کھود کر سرمہ ڈلوانے والی اور ڈالنے والی (دونوں) پر لعنت کی۔" (صحیح البخاري:۵۹۳۱)
یہ حرام عمل ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ لعنت فقط کبیرہ گناہوں پر ہی ہوتی ہے۔
7۔ خضاب لگانے، بال رنگنے اور سونا پہننے کا حکم
امام نووی ؒ المجموع(۱/۳۲۴) میں فرماتے ہیں ہاتھوں اور پاؤں کومہندی کے رنگ سے رنگنا مشہور اَحادیث کی وجہ سے شادی شدہ عورت کے لئے مستحب ہے۔
ان کا اشارہ ابوداؤد کی اس حدیث کی طرف ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے مہندی کا خضاب لگانے سے متعلق سوال کیا، تو حضرت عائشہ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن میں اس کو ناپسند کرتی ہوں کیونکہ میرے محبوب رسول اللہﷺ اس کی بو کو ناپسند کرتے تھے۔(سنن أبی داود:۴۱۶۴)
حضرت عائشہ سے ہی مروی ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے نبی کریمﷺ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ا س کے ہاتھ میں کتاب تھی، پس آپﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: (مَا أدْرِیْ أَ يَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأ ةٍ) "میں نہیں جانتا کہ یہ مرد کاہاتھ ہے یا عورت کا۔" تو اس عورت نے کہا: بلکہ عورت کا ہاتھ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا (لَوْکَانَتِ امْرَأ ةٌ لَغَيَّرْتِ أظْفَارِکِ) اگر عورت ہے تو تجھے اپنے ناخنوں کا رنگ بدلنا چاہئے تھا۔ (یعنی مہندی لگا کر) ( سنن أبوداؤد:۴۱۶۶)
لیکن ایسی چیز سے ناخنوں کو نہیں رنگا جائے گا جو جلد پر جم جائے اور پانی اور ناخنوں کے درمیان رکاوٹ بن جائے جیسے نیل پالش وغیرہ۔
عورت کا اپنے سر کے بالوں کو رنگنا، اگر بوڑھی ہوچکی ہے تو کالے رنگ کے علاوہ کسی دوسرے رنگ سے اپنے بالوں کو رنگ سکتی ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے کالا رنگ لگانے سے منع کیا ہے۔ امام نووی نے ریاض الصالحین کے صفحہ ۶۲۶ پر باب باندھا ہے :"نہی الرجل والمرأة عن خضاب شعرھما بالسواد" اور المجموع میں فرماتے ہیں:" کالے رنگ کی ممانعت میں مرد اورعورت کاکوئی فرق نہیں ہے۔"
اگر کوئی عورت اپنے کالے بالوں کو خضاب لگا کر ان کا رنگ بدلنا چاہتی ہے تو میری رائے کے مطابق یہ ناجائز ہے کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ کالے بال ہی حسن و جمال کی علامت ہیں جن کا رنگ بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔
8۔زیور پہننے کا حکم
عورت کے لئے سونے اور چاندی کے زیورات پہننا جائز ہے، جس پر علماء کا اجماع ہے، لیکن غیر محرم مردوں کے سامنے اپنے زیورات کو ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو چھپا کر رکھے خصوصاً جب گھر سے باہرنکلے،کیونکہ اس میں فتنے کا ڈر ہے، عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس کے خفیہ زیورات کی آواز کوئی غیر محرم سنے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ﴾(النور:۲۴) "اور اس طرح زور زور سے پاوٴں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے"لہٰذا ظاہرزیورات کیسے جائزہو سکتے ہیں؟
1۔ سرمونڈوانے کی حرمت
مسلمان عورتوں کے لیے سر کے بال لمبے رکھنا واجب ہے اور بلا عذر و ضرورت مونڈوانا حرام ہے۔ سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں:
"عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ امام نسائیؒ نے اپنی سنن میں حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ : (نَهَی رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا) (سنن النسائي:۵۰۵۲)"نبی کریمﷺ نے عورت کو سرمونڈنے سے منع کیا ہے۔ان احادیث میں نبی کریمﷺ سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔ ملا علی قاری "المرقاة شرح مشکوٰة" میں فرماتے ہیں :" عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے، کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔ (مجموع فتاویٰ فضیلة الشیخ محمد إبراہیم :۲/۴۹)
2۔ سر کے بال کاٹنے کا حکم
اگرمقصدزینت کے بغیر فقط ضرورت کی وجہ سے بال کاٹے جائیں مثلاً زیادہ لمبے ہوجائیں اور ان کو سنوارنا مشکل ہوجائے وغیرہ تو بقدر ضرورت کاٹ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد ترک زینت اور لمبے بالوں سے استغنائیت کی بنا پر بعض اُمہات المومنین ایسے کرلیا کرتی تھیں۔
اگر بال کاٹنے کا مقصد کافر و فاسق عورتوں یا مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہو تو بلا شک یہ حرام عمل ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ نے عمومی طور پر کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔(مجمع الزوائد)اور اگر مقصد زیب و زینت ہو تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ عمل تب بھی ناجائز ہے۔
الشیخ محمدامین الشنقیطی، اضواء البیان میں فرماتے ہیں:
متعدد مسلم ممالک میں عورتوں کا اپنے سر کے بالوں کو جڑوں کے قریب تک کاٹ لینے کا جو رواج عام ہوچکا درحقیقت یہ فرنگی طرز زندگی ہے جو مسلمان عورتوں اور اسلام سے قبل عرب عورتوں کے طریقہ کے خلاف ہے، یہ رواج ان عمومی انحرافات میں سے ہے جو دین، تخلیق، اخلاق اور کردار کو متاثر کررہا ہے۔
پھر اس حدیث(أنَّ أزْوَاجَ النَّبِیِّ يَأخُذْنَ مِنْ رُؤوْسِهِنَّ حَتَّی تَکُوْنَ کَالْوَفْرَةِ)(صحیح مسلم:۳۲۰) "بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔" کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ازواج مطہرات نے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اپنے بالوں کو کاٹا، کیونکہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں وہ زیب و آرائش کیا کرتی تھیں اور ان کی زینت میں سب سے خوبصورت چیز اُن کے بال ہوتے تھے۔ آپﷺ کی وفات کے بعد ان کے لئے خاص حکم ہے جس میں دنیا کی کوئی عورت ان کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتی اوروہ حکم خاص ان کی نکاح کی اُمیدوں کا یکسر ختم ہوجاناہے اور کسی غیر سے شادی کرنے سے مایوس ہوجاناہے۔ آپﷺ کی موت کے بعد وہ گویا کہ معتدات (عدت گزارنے والیاں) تھیں۔
اِرشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا کَانَ لَکُمْ أنْ تُؤَذُوْا رَسُوْلَ اللهِ وَلَا أنْ تَنْکِحُوْا اَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِه أبَدًا إنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللهِ عَظِيْمًا﴾ (الأحزاب:۵۳)
"نہ تمہیں یہ جائز ہے کہ تم رسول اللہﷺ کو تکلیف دو اور نہ تمہیں یہ حلال ہے کہ آپﷺ کے بعد کسی وقت بھی آپﷺ کی بیویوں سے نکاح کرو۔ یادرکھو اللہ کےنزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔"
مردوں سے بالکل مایوسی بسااوقات زینت سے متعلقہ بعض چیزوں کی حلت کی رخصت کا سبب بن جاتی ہے، جو اس سبب کے علاوہ حلال نہیں ہوسکتیں۔ (أضواء البیان: ۵/۵۹۸تا۶۰۱)
عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے سر کے بالوں کی حفاظت کرے ،ان کو پوری توجہ دے اور ان کی مینڈھیاں بنالے، بالوں کو سر پر یا گدی کی جانب جمع کرلینا جائز نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاویٰ:۲۲/۱۴۵ میں فرماتے ہیں:
جیسا کہ بعض آبرو باختہ کرتی ہیں کہ کندھوں کے درمیان لٹکتی ہوئی ایک ہی مینڈھی بنالیتیں ہیں۔
سعودی عرب کے مفتی شیخ محمدبن ابراہیمؒ فرماتے ہیں کہ: "عصر حاضر کی بعض مسلمان خواتین نے جو رواج اپنایا ہوا ہے کہ سر کے تمام بالوں کو کنگھی کر کے (دائیں یا بائیں) ایک ہی جانب کرلینا، گدی کی جانب بالوں کو جمع کرنا یا فرنگی عورتوں کی مانند سر پر بالوں کو جمع کرلینا، یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:(صِنْفَانِ مِنْ أهْلِ النَّارِ لَمْ أرَهُما قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ کَأذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُوْنَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ، مَائِلَاتٌ،رُؤوْسُهُنَّ کَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْعِجَاف لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيْحَهَا،وَإنَّ رِيْحَهَا لَيُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ کَذَا وَکَذَا) (صحیح مسلم:۲۱۲۸)
"اہل جہنم کی دو قسموں کو میں نے دیکھا۔پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پاس گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو ماریں گے، دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، میل ہونے والیاں اور میل کرنے والیاں، ان کے سر دبلے پتلے بختی اونٹوں کی کوہان کی مانند ہوں گے، وہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو کو پائیں گی۔ باوجودیکہ اس کی خوشبو لمبی مسافت سے محسوس کی جاسکے گی۔"
بعض علماء نے اس قول (مائلات مميلات)کی تفسیر 'ٹیڑھی مانگ نکالنا' کی ہے جو فواحشہ کی علامت ہے اور فرنگیوں کی نشانی ہے اور مسلمان عورت کے لئے ان کے نقش قدم پر چلناجائز نہیں ہے۔ (مجموع فتاویٰ:۲/۴۲، وانظر: الایضاح والتبیین للشیخ حمود التویجري، ص۸۵)
3۔ مصنوعی بال اوروِگ لگانے کا حکم
جس طرح مسلمان عورت کے لئے بلا ضرورت اپنے سر کے بالوں کو مونڈنا یاکاٹنا منع ہے اسی طرح اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانا یا زیادہ کرنا بھی منع ہے۔ صحیحین میں نبی کریمﷺ سے مروی ہے (( لَعَنَ رَسُوْلُ اللهِ الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ))"رسول اللہﷺ نے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال لگانے والی اور لگوانے والی (دونوں) پر لعنت فرمائی۔" کیونکہ اس میں جھوٹ ہے۔ ایسے ہی اس زمانے میں معروف 'وِگ' لگانا بھی حرام ہے۔ بخاری مسلم وغیرہ میں مروی ہے کہ امیر معاویہ نے مدینہ منورہ آنے پر تقریر کی اور دوران تقریربالوں کا گولا یا بالوں کا گچھا نکال کر فرمایا:
"تمہاری عورتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے سروں میں اس جیسے (بال) لگاتی ہیں، حالانکہ میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:( مَا مِنْ اِمْرَأةٍ تَجْعَلُ فِیْ رَأسِهَا شَعْراً مِنْ شَعْرِ غَيْرِهَا اِلَّا کَانَ زُوْرًا) (صحیح ابن حبان:۵۴۸۶)"جو بھی عورت اپنے سر میں اپنے بالوں کے علاوہ بال لگاتی ہے، وہ جھوٹ اور فریب ہے۔"
وگ بھی مصنوعی بالوں کا ایک مجموعہ ہوتا ہے جو سر کے بالوں کے مشابہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لگانے میں بھی دھوکہ اور مکر وفریب ہے۔
4۔ اَبرو کے بال صاف کرنے کا حکم
مسلمان عورت پر اپنے ابرؤوں کے بالوں کو مونڈنا، کاٹنا یا بال صفا جیسے کیمیکل سے سارے یا کچھ بال ختم کرنا حرام ہے، کیونکہ یہی وہ عمل نمص ہے جس سے نبی کریمﷺ نے منع کیا ہے، اور ایسا کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے: (لَعَنَ النَّامِصَةَ وَالْمُتْنَمِصَةَ )(صحیح ابن حبان:۵۴۸۰)
"نبی کریمﷺ نے بال اکھڑوانے والی اور اکھیڑنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔"
یہ دراصل اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ہے جس کی شیطان نے قسم کھائی تھی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلأمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ﴾ (النساء :۱۱۹) "اور ان سے کہوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔"
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے: (لَعَنَ اللهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنِّمَصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمَغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ)(صحیح البخاري:۵۹۳۱) "اللہ تعالیٰ نے جسم گودنے والیوں اور گودوانے والیوں پر، بال اُکھیڑنے والیوں اور اُکھڑوانے والیوں پر اور حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کرکے اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر لعنت فرمائی۔"
پھر اس کے بعد انہوں نے فرمایا۔ کیا میں بھی ان پر لعنت نہ کروں جن پر نبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی اور قرآن مجید میں بھی ہمیں یہی حکم ہے۔ ﴿وَمَا اَتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخَذُوْهُ وَمَانَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا﴾ (الحشر:۷) "اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاؤ۔"
اس سنگین اور خطرناک وباء میں آج بے شمار عورتیں مبتلا ہو گئی ہیں در حقیقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اَبروٴوں کے بال صاف کرنا روز مرہ کی ضروریات میں شامل ہو گیا ہے اگر کسی عورت کا خاوند اس کا حکم دے تو بھی اس کی اطاعت نہیں ہے، کیونکہ یہ معصیت اور گناہ کاکام ہے۔
5۔ دانت کشادہ کرنے کا حکم
مسلمان عورت پرحرام ہے کہ وہ حسن و جمال میں اِضافے کے لئے اپنے دانتوں کو ریتی سے رگڑ کر کشادہ کرلے تاکہ دانتوں کے درمیان معمولی سی کشادگی پیدا ہوجائے اور وہ خوبصورت محسوس ہونے لگیں، لیکن اگر دانتوں میں تکلیف ہو یا کیڑا لگ گیا ہو جو آپریشن کا محتاج ہو تو تب اس تکلیف کے اِزالے اور کیڑے کو ختم کرنے کے لئے اس کا علاج کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ علاج ہے، حسن کی نیت سے نہیں اور یہ علاج بھی مخصوص طبیب ہی کرتا ہے۔
6۔ اپنے جسم کو گودنا اس اس میں الوشم (جسم میں سرمہ ڈلوانے) کا معنی اور حکم
عورت کیلئے جسم گود کر اس میں سرمہ بھرنا بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے(لَعَنَ الْوَاشِمَةَ وَالْمُسْتَوْشِمَةَ) "جسم کو کھود کر سرمہ ڈلوانے والی اور ڈالنے والی (دونوں) پر لعنت کی۔" (صحیح البخاري:۵۹۳۱)
یہ حرام عمل ہے اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، کیونکہ لعنت فقط کبیرہ گناہوں پر ہی ہوتی ہے۔
7۔ خضاب لگانے، بال رنگنے اور سونا پہننے کا حکم
امام نووی ؒ المجموع(۱/۳۲۴) میں فرماتے ہیں ہاتھوں اور پاؤں کومہندی کے رنگ سے رنگنا مشہور اَحادیث کی وجہ سے شادی شدہ عورت کے لئے مستحب ہے۔
ان کا اشارہ ابوداؤد کی اس حدیث کی طرف ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ سے مہندی کا خضاب لگانے سے متعلق سوال کیا، تو حضرت عائشہ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن میں اس کو ناپسند کرتی ہوں کیونکہ میرے محبوب رسول اللہﷺ اس کی بو کو ناپسند کرتے تھے۔(سنن أبی داود:۴۱۶۴)
حضرت عائشہ سے ہی مروی ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے نبی کریمﷺ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ا س کے ہاتھ میں کتاب تھی، پس آپﷺ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: (مَا أدْرِیْ أَ يَدُ رَجُلٍ أَمْ يَدُ امْرَأ ةٍ) "میں نہیں جانتا کہ یہ مرد کاہاتھ ہے یا عورت کا۔" تو اس عورت نے کہا: بلکہ عورت کا ہاتھ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا (لَوْکَانَتِ امْرَأ ةٌ لَغَيَّرْتِ أظْفَارِکِ) اگر عورت ہے تو تجھے اپنے ناخنوں کا رنگ بدلنا چاہئے تھا۔ (یعنی مہندی لگا کر) ( سنن أبوداؤد:۴۱۶۶)
لیکن ایسی چیز سے ناخنوں کو نہیں رنگا جائے گا جو جلد پر جم جائے اور پانی اور ناخنوں کے درمیان رکاوٹ بن جائے جیسے نیل پالش وغیرہ۔
عورت کا اپنے سر کے بالوں کو رنگنا، اگر بوڑھی ہوچکی ہے تو کالے رنگ کے علاوہ کسی دوسرے رنگ سے اپنے بالوں کو رنگ سکتی ہے کیونکہ نبی کریمﷺ نے کالا رنگ لگانے سے منع کیا ہے۔ امام نووی نے ریاض الصالحین کے صفحہ ۶۲۶ پر باب باندھا ہے :"نہی الرجل والمرأة عن خضاب شعرھما بالسواد" اور المجموع میں فرماتے ہیں:" کالے رنگ کی ممانعت میں مرد اورعورت کاکوئی فرق نہیں ہے۔"
اگر کوئی عورت اپنے کالے بالوں کو خضاب لگا کر ان کا رنگ بدلنا چاہتی ہے تو میری رائے کے مطابق یہ ناجائز ہے کیونکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ کالے بال ہی حسن و جمال کی علامت ہیں جن کا رنگ بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اس میں کافر عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔
8۔زیور پہننے کا حکم
عورت کے لئے سونے اور چاندی کے زیورات پہننا جائز ہے، جس پر علماء کا اجماع ہے، لیکن غیر محرم مردوں کے سامنے اپنے زیورات کو ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو چھپا کر رکھے خصوصاً جب گھر سے باہرنکلے،کیونکہ اس میں فتنے کا ڈر ہے، عورت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس کے خفیہ زیورات کی آواز کوئی غیر محرم سنے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ﴾(النور:۲۴) "اور اس طرح زور زور سے پاوٴں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے"لہٰذا ظاہرزیورات کیسے جائزہو سکتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment