ایک انتہائی جذباتی ردعمل
محمد عطاء اللہ صدیقی
یکم جون۲۰۱۰ء کے ’’جنگ‘‘ میں سلیم صافی کا ایک کالم شائع ہوا،راقم الحروف نے کالم نگار کے نکتہ نظر سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے ذہنی تحفظات اور معروضات تحریر کیں جو کچھ ردّوبدل کے ساتھ روزنامہ ’’جنگ‘‘ میں شائع ہوئیں ۔ (۱۲ جون۲۰۱۰ء)
۱۳جون کے رو زنامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’استدلال کا پائے چوبیں بےتمکین‘‘ کے عنوان سے راقم الحروف کا ایک تنقیدی مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون کا بنیادی خیال یہ تھا کہ جو لوگ فیس بُک پر پابندی کے خلاف بات کر رہے ہیں ان کے دلائل بے حد کمزور ہیں اور وہ فکری ناپختگی کاشکار ہیں ۔ راقم الحروف نے تحریر کیا ’’گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کی جسارت کی مرتکب اس فیس بُک پراگر مستقل پابندی عائد کر دی جاتی تب بھی اس کا پورا جواز موجود تھا مگر ہمارے کچھ نام نہاد لبرل اور ترقی پسند دانش بازوں نے جو طرز عمل اختیار کیا وہ بے حد افسوس ناک ہے ۔ ۔ ۔ انہوں نے فیس بُک پر پابندی کے خلاف واویلا مچانا شروع کر دیا۔ اس ناپسندیدہ مہم کی قیادت انگریزی اخبارات کے بعض کالم نگاروں نے کی۔ ‘‘ واضح رہے کہ اس قسم کے خیالات کا اظہار ڈاکٹر عامر لیاقت علی نے بھی انہی دنوں اپنے کالم میں کیا تھا۔
راقم الحروف نے مذکورہ مضمون میں یکم جون کو جنگ میں شائع ہونے والے سلیم صافی کے کالم سے اختلاف رائے کرتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے سلیم صافی کی تحریر کے بارے میں رائے ظاہر کی کہ اس میں نری جذباتیت ہے اور عقلیت کا فقدان ہے ۔ سلیم صافی کی جن سطور پر ناقدانہ رائے کا اظہار کیا، انہیں اقتباس کے طور پر بھی پیش کر دیا تاکہ قارئین اس کے متعلق خود بھی رائے قائم کر سکیں ۔ ان قابل اعتراض سطور کو دوبارہ دیکھ لیجئے ۔ سلیم صافی نے تحریر کیا تھا:
’’ہر ایشو پر ہونے والے احتجاج سے دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ شاید پاکستان ہی اسلام کا قلعہ ہے جہاں مغرب سے نفرت کرنے والے حساس اور جہادی مسلمان بستے ہیں ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ رحمت اللعالمین کے لیے ہوئے دین کی توہین کے سب سے زیادہ مرتکب خود ہم پاکستانی ہورہے ہیں جس نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہم سڑکوں پراحتجاج کرتے نظر آتے ہیں وہ رحمت اللعالمین تھے، لیکن کون نہیں جانتا کہ ان کے یہ پاکستانی امتی زحمت اللعالمین بن گئے ہیں ۔ ‘‘ (یکم جون، جنگ )
راقم نے ان سطور پران الفاظ میں تبصرہ کیا:
’’اس طرح کی جذباتی سطور کا مصنف بلا شبہ سطحی جذباتیت اور فکری عدم توازن کا شکار ہے ۔ وہ اس طرح کے سنجیدہ اور حساس موضوع پرموزوں استدلال پیش کرنے کے سیلقے سے نابلد معلوم ہوتا ہے ۔ سلیم صافی کی تحریر ان لاکھوں پاکستانیوں کی سراسر توہین ہے جو سمجھتے ہیں کہ محسن انسانیت کے حقوق اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا ہے کہ ناموس رسالتؐ کے خلاف اٹھائے گئے ہر اقدام کی شدت سے مخالفت کی جائے اور گستاخانہ رسول کو بتا دیا جائے کہ اس طرح کی حرکات قبیحہ مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہیں ۔ ہمیں حیرت ہے کہ کوئی شخص بقائم ہوش و حواس یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ جو لوگ توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ دین اسلام کی سب سے زیادہ توہین کر رہے ہیں ۔ گویا توہین آمیز خاکے شائع کرنا اتنا بڑا جرم نہیں ہے جتنا کہک اس کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنا، اس سے زیادہ لغو استدلال کیا ہو سکتا ہے ۔ ‘‘ (۱۳ جون، جنگ)
میں یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ ’’جنگ‘‘ کے چند قارئین دوستوں نے بھی سلیم صافی کے اس کالم کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی، مذکورہ سطور سے انہوں نے بھی وہی سمجھا، جو میں نے اپنے مضمون میں تحریر کیا۔ لیکن ۱۶ جون کو شائع ہونے والے تازہ کالم میں سلیم صافی نے راقم الحروف کے کالم پر نہ صرف جذباتی ردّ عمل طاہر کیا ہے، بلکہ یہ گھناؤنا الزام بھی عائد کیا ہے کہ میں نے اس کالم میں خودکش دھماکوں کی ’’تبلیغ‘‘ کا فریضہ بھی انجام دیا ہے ۔
خامہ انگشت بدندان ہے ۔
اسے کیا لکھے ۔ موصوف نے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی تحریرکو غلط معنی پہنائے گئے ہیں اور دنیا کی نظروں میں ان کے عقیدے سے متعلق ابہام پیدا کیا گیا ہے ۔ انہیں شکوہ ہے کہ ان کے بارے میں غلط تاثر دیا گیا ہے ۔
سلیم صافی وضاحت پیش کرتے ہیں : ’’قارئین میرا کالم اُٹھا کر دیکھ سکتے ہیں، اس میں کہیں فیس بجک یا یو ٹیوب کاذکر یا حوالہ ہو تو میں گناہگار۔ اگر کہیں یہ لکھا ہو کہ ہمیں نعوذ باللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پرمشتعل نہیں ہونا چاہئے تو میں مجرم۔ ‘‘
یہ بات درست ہے کہ انہوں نے ’’فیس بُک یا یو ٹیوب‘‘ کانام نہیں لیا۔ مگر آج کل جس تواتر سے توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے جا رہے ہیں، انہیں ذہن میں رکھتے ہوئے آخر کون ہے جو سلیم صافی کا کالم پڑھ کر ’’فیس بُک‘‘ کے خلاف احتجاج کو ذہن میں نہ لائے ؟ آخر یہ الفاظ ’’جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہم ہر وقت سڑکوں پراحتجاج کرتے نظر آتے ہیں ‘‘ کس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ؟ کیا یہ واضح اشارہ نہیں ہے ؟ پھر ’’ہرایشو پر ہونے والے احتجاج‘‘ پر بھی غور کیجئے ۔ کیا’’ہر ایشو‘‘ میں ’’فیس بُک‘‘ کا ’’ایشو‘‘ شامل نہیں ہے ۔ اتنے واضح الفاظ اور اظہر من الشمس اشاروں کے بعد اگر کوئی وہ تاثر قبول کرتا ہے جس کا اظہار راقم کے مضمون میں ہوا تو اس میں قصور کس کا ہے ؟ کالم لکھنے والے کا یا اس پرناقدانہ رائے کا اظہار کرنے والوں کا؟ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ابہام، اگر کوئی ہے تو کس نے پیدا کیا ہے ؟
سلیم صافی مزید لکھتے ہیں :’’میں نے اس کالم میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی عمل بھی ان ہستیوں کی توہین کے زمرے میں آتا ہے ۔ ہم پاکستانی افسوسناک حد تک اس کے مرتکب ہورہے ہیں اور ہمیں احتجاج کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی متوجہ ہو کر ہمیں اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اچھا اور سچا امتی بنانے کی کوشش کرنا چاہئے ۔ لیکن عطاء اللہ صدیقی نے اپنے کالم میں ایسا تاثر دیا ہے کہ جیسے نعوذ باللہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر احتجاج کا مخالف ہوں ۔ ‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر سلیم صافی کا واقعی یہی مقصد تھا تو وہ اسے مناسب اور غیر مبہم الفاظ میں پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ ان کے کالم کو پڑھ کر ایک عام قاری کے ذہن میں یہ تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ دلوں کے حال خدا جانتا ہے، انہوں نے جیسی بھی وضاحت پیش کی ہے ہم اسے قبول کرتے ہیں ۔
راقم الحروف نہیں سمجھتا کہ اس نے اپنی تنقید میں آخر ایسی کون سی بات لکھ دی ہے جس سے نعوذ باللہ ’’پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس نام کو استعمال کرنے ‘‘ کا تاثر ملتا ہو یا جسے پڑھ کر کوئی نوجوان مسلمانوں پر خود کش حملے کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میرے مضمون میں کون سے الفاظ ہیں جو قاری کے ذہن میں اس غلط فہمی کے پیدا کرنے کا باعث بنیں گے ۔ میں نے اپنے کالم کو بار بار دیکھا ہے اور میں بڑے اعتماد اور دیانتداری سے یہ لکھ سکتا ہوں کہ یہ محض فضول اور بیہودہ الزام تراشی ہے ۔ یہ سوقیانہ پن اور بلاجواز کردار کشی کی ایک مکروہ صورت ہے جو ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے ۔
سلیم صافی نے اپنے کالم کا بیشترحصہ اسی بیہودہ الزام تراشی میں صر ف کیا ہے ۔ یہ گھٹیا الزامات اس قابل تو نہیں ہیں کہ ان کے ردّ کے لیے توانائیاں صرف کی جائیں کیونکہ جذباتی تشنج کے نتیجے میں لکھی جانے والی تحریروں کے خلاف عقلی استدلال قائم کرنا محض تصیع اوقات ہی ہوتا ہے ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ان سنگین الزامات پر سکوت اختیار کرنے کامطلب عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ یہ انہیں قبول کر لیا گیا ہے اور یہ لکھنے والے کے نفسیاتی امراض میں اضافے کاباعث بھی بن سکتا ہے ۔ اس بات کے پیش نظر راقم اپنا مؤقف اور الزامات کاردّ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہے ۔
مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون سا بدبخت ہے جو مختصر سے اخباری کالم میں ایک معمولی درجے کی تنقید پڑھ کر اس قدر باؤلا ہو جائے گا کہ اپنے کمر سے بم باندھ کر کسی کومارنے کے لیے کمربستہ ہو جائے گا۔ مگر سلیم صافی جذباتیت کی معراج پر پہنچ کر یہ نامعقول دعویٰ کرنے سیباز نہیں رہ سکا۔ وہ لکھتا ہے : ’’یہ لوگ تو صرف دکانداری چمکانے یا حسد کی آگ بجھانے کے لیے اس طرح کی تحریریں لکھ دیتے ہیں لیکن پاکستان کے سادہ لوح اور مخلص مسلمان نوجوان اس طرح ہی کی تحریروں کو پڑھ کر اپنے جسموں سے بم باندھتے ہیں ۔ ‘‘ یہ جملہ ایک شاطرانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے ۔ وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے ۔ پہلی بات یہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ’’عقل کل‘‘ ہے اور تنقید ماورا ہے ۔ اس کے خیالات سے اختلاف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ’’اپنی دکانداری چمکانے ‘‘ اور حسد کی آگ بجھانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں ۔ یہ کام کسی دوسرے کے کرنے کا نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ ذہنی طور پر تیار رہیں کہ ان پر خود کش بمباروں کو ’’تبلیغ کرنے کا الزام بھی لگایا جاسکتا ہے، اگر ان میں اتنا حوصلہ اور اس قدر ہمت ہے تو ہمارے منہ ضرور لگیں ورنہ وہ یہیں سے لوٹ جائیں، جنہیں زندگی ہو پیاری۔
عام پاکستانی تو یہ سمجھتے ہیں کہ خود کش بمبار اسی لیے کار روائیاں کر رہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دباؤ میں آ کر حکومت پاکستان ان کے خلاف آپریشن نہیں کرے گی، مزید یہ کہ ڈرون حملوں کا یہ ردّعمل ہے، خود ہمارے وزیرخارجہ حالیہ دنوں میں ’’ٹائم اسکوائر‘‘ کے واقعہ کو ڈرون حملوں کا ردّعمل قرا ردے چکے ہیں ۔ خود طالبان کی قیادت کے بیانات میں بھی انہی وجوہات کا تذکرہ کیا جاتا ہے مگر یہ افغانستان میں جہادی کار روائیوں میں مصروف رہنے کے بعد صحافت پر شب خون مارنے والا نو آموز عقل کھرا شخص قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتا ہے : ’’وہ پہلے روس سے لڑتے تھے، اب جارح امریکہ سے لڑرہے ہیں لیکن عطاء اللہ صدیقی جیسے لوگوں کی تحریروں اور تقریروں نے ان کا رخ پاکستانیوں کی طرف موڑدیا ہے ۔ ‘‘
غالب نے سچ کہا تھا:
شرع و آئین پر مدار سہی ایسے کافر کا کیا کرے کوئی
ہمارا خیال ہے کوئی شخص اعصابی عدم توازن (Nurousis) میں مبتلا ہوئے بغیر درج ذیل فقرے تحریر نہیں کر سکتا:
’’آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ خود تو ایک کالم لکھنے یا پھر ایک تقریر جھاڑنے سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرا ردیتے ہو، لیکن دوسرے کے بچوں کو خود کش حملہ آور بنانے پر اکساتے ہو اور وہ بھی امریکہ یا کسی غیر مسلم گستاخ کے خلاف نہیں بلکہ اپنے مسلمان پاکستانیوں کے خلاف۔ آپ اگر احتجاج اور خودکش حملوں کے راستے کو ہی درست سمجھتے ہیں تو آئیے ۔ بسم اللہ کیجئے، افغانستان بھی حاضر ہے اور پاکستان کے اندر کی تربیت گاہیں بھی۔ ۔ ۔ خود تو اپنے بچوں کو ماں کی گود میں کمپیوٹر سے آشنا کرتے ہوئے انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھائیں اور میرے بچوں کو خود کش حملہ آور بننے کی تلقین کریں ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ ‘‘
جن قارئین نے سلیم صافی کا پہلا کالم اور اس پر میری تنقید کو نہیں دیکھا، ان سے راقم کی اتنی سی گزارش ہے کہ وہان کو ضرور دیکھیں اور پھر وہ خود ہی انصاف کریں کہ اس ہذیان اور ہیجان خیزی اور ابلتی ہوئی جنونیت اور طوائف القلمی کا آخر کوئی جواز ہے ؟ اگر اس تحریر کو پڑھ کر میں سلیم صافی کو مخلصانہ مشورہ دوں کہ وہ قارئین کی ذہنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے کچھ وقت کے لیے کالم نگاری کا یہ مصرف شغل موقوف کر دیں اور اس دوران کسی تجربہ کار اور قابل ماہر نفسیات سے اپنا علاج بھی کرائیں، تو کیا قارئین کو یہ مشورہ پسند نہیں آئے گا؟
آخر میں خود کش حملوں کے متعلق نہایت سنجیدگی سے راقم اپنا مؤقف بیان کرنا بہت ضروری سمجھتا ہے ۔ مجھے اس بات کے متعلق انشراح صدر ہے کہ اسلام میں خود کش حملے کس بھی صورت میں جائز نہیں ہیں ۔ راقم خود کش حملوں کو غیر مسلموں کے خلاف بھی درست نہیں سمجھتا، مسلمانوں کے خلاف تو ناقابل تصور ہے، یہ آج کی رائے نہیں ہے، راقم کی رائے اس وقت بھی تھی جب پاکستان میں خود کش حملوں کا ذکر تک نہیں تھا اور نہ ہی ۹/۱۱ کی دہشت گردی کا واقعہ ظہور میں آیا تھا۔ یادش بخیر ۹۷۔ ۱۹۹۶ء میں عرب ملکوں کے علماء میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی نوجوانوں اور فدائین کے خود کش حملوں کے متعلق طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ ان علماء کے ایک گروہ کا خیال تھا کہ اسرائیل کے ظلم و ستم کو توڑنے کے لیے فدائین کے یہ حملے جائز ہیں ۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ قرآن و سنت سے ان حملوں کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ جائز نہیں ہیں ۔ سعودی عرب کے اس وقت کے مفتی اعظم ابن باز رحمہ اللہ ان علماء میں شامل تھے جن کا خیال تھا کہ خود کش حملے جائز نہیں ہیں ۔ راقم کو یاد ہے کہ ہندوستان کے بعض معروف علماء نے حضرت مفتی اعظم ابن بازرحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق کیا تھا اور اس کے متعلق ان کے بعض مضامین راقم کی نگاہ سے بھی گذرے تھے ۔ راقم الحروف نے اس مسئلے پر دستیاب ہونے والی تحریروں اور فتاویٰ جات کے بنظر عمیق مطالعے کے بعد یہ رائے قائم کر لی تھی کہ خود کش حملے کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہیں ۔ ۱۹۹۸ء کے دوران اپنے کسی مضمون میں بھی راقم نے ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ میری اس رائے کے متعلق مجھ سے علمی طور پر وابستہ کئی افراد بھی واقف ہیں ۔
مجھے اس مرد کوہستانی سلیم صافی پر تر آتا ہے کہ اس نے میری تحریر سے خود کش بمباروں کو تیار کرنے کا جو فسوں نکالا تھا، اس کا اب کیا بنے گا؟ اپنے کالم کے ذریعے ایک چالاک مکڑی کی طرح اپنے ایک ناقد کو پھانسنے کے لیے جو تار عنکبوت اس نے اپنے پراگندہ ذہن میں بنا رکھا تھا، اب وہ تو تار تار ہو گیا ہے، اُسے کسی اور جال کی تیاری کرنی چاہئے، ہاں وہ نوجوان جو روزنامہ جنگ میں سلیم صافی کے خلاف میرا ناقدانہ کالم پڑھ کر اپنے ’’جسموں پربم باندھ‘‘ چکے ہوں، ان سے میری گزارش ہے کہ خود کش حملوں کے متعلق میری مندرجہ بالا رائے ضرور پڑھ لیں ۔ چونکہ سلیم صافی کے بقول میری بے ضر ر اور غیر متعلق تحریر سے خود کش بمبار تیار ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اسی لیے مجھے اُمید واثق ہے کہ وہ میری اس گذارش کو’’سنجیدگی‘‘ سے لیتے ہوئے خود کش حملوں کی تیاری سے دست گش ہو جائیں گے وہ جان لیں کہ ایسے حملوں میں مرنے والوں کو میں واصل جہنم سمجھتا ہوں ۔ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کو ذہن میں رکھیں جس کا ترجمہ ہے :’’اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ‘‘
No comments:
Post a Comment