محرم الحرام غلطی ہائے مضامین مت پوچھ
حافظ صلاح الدین یوسف
(1) سانحہ ٴ کربلا کا محرم کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں!
ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو آں حضرت ﷺ کے واقعہ ٴہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اورآغاز ِاستعما ل۱۷ ھ میں حضرت عمر فاروق کے عہد ِحکومت سے ہوا ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعری یمن کے گورنر تھے ،ان کے پاس حضرت عمر فاروق کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔ ۱۷ھء میں حضرت ابو موسیٰ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمایا او ران کے سامنے یہ مسئلہ رکھا ۔تبادلہ ٴافکارکے بعد قرار پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ٴ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتدا ماہ ِمحرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوت کے ذو الحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کامنصوبہ طے کر لیا گیا تھااور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا (فتح الباری ، شرح باب التاریخ ومن أین أرخوا التاریخ ج ۳ ،ص ۳۸۸، دہلی)
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی ومفہوم کے لحاظ سے ایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔مذاہب ِعالم میں اس وقت جس قدر سِنین مروّج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یومِ ولادت کو یاددلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ ٴ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت ہے ۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان کی تخت نشینی کے ایک پرشوکت واقعے سے وابستہ ہے ۔ بکرمی سن راجہ بکر ماجیت کی پیدائش کی یادگار ہے،رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے لیکن اسلامی سن ہجرت عہد نبوت کے ایسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃُالحق کے صلے میں تمام اطراف سے مصائب وآلام میں گھر جائے ،بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپے آزار ہو جائیں،قریبی رشتہ دار اورخویش واقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کر لیں ،اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دیئے جائیں ، شہر کے تمام سر برآوردہ لوگ اس کوقتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں ،اس پر عرصہ ٴحیات ہر طرح تنگ کر دیا جائے اور اس کی آواز کوجبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر وباطل کے ساتھ مصالحت کر لی جائے،تبلیغ حق میں
مداہنت اوررواداری سے کام لیا جائے اوراپنے عقائد ونظریات میں لچک پیدا کر کے اُ ن میں گھل مل جائے تا کہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے ۔بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہرپر حجت تمام کر کے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے ۔چنانچہ اسی واقعہ ٴہجرت نبوی پرسن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ توکسی انسانی برتری اور تفو ّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعہ کو ، بلکہ یہ واقعہ ٴہجرت مظلومی اور بیکسی کی ایک ایسی یادگار ہے کہ جو ثبات ِقدم ، صبرواستقامت اورراضی برضائے الٰہی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔یہ واقعہ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم وبے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہو سکتا ہے اورمصائب وآلام سے نکل کر کس طرح کامرانی وشادمانی کازرّیں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بامِ عروج پر پہنچ سکتا ہے … علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث ِنبوی میں ہے ۔
یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسین کے واقعہ ٴشہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسین کی شہادت کاسانحہ ٴ دل گداز پیش آیا تھا ۔یہ خیال بالکل غلط ہی۔ یہ سانحہ ٴشہادت توحضور ﷺ کی وفات سے ۵۰ سال بعد پیش آیا اوردین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی:﴿اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الإسْلاَمَ دِيْنًا﴾ اس لیے یہ تصور اس آیت ِقرآنی کے سرا سر خلاف ہے ۔پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اورسانحہ ٴ شہادت اورواقعہ ٴ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق کی شہاد ت کا واقعہ ۔ اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کااعتبار کرتے، حضرت عثمان کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تویقینا تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھی کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے ،کم ہوتالیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم وگریہ زاری کی اجازت نہیں ،دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں ،اس لیے اِن کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں۔
(2)عشرہ محرم اور صحابہ کا احترامِ مطلوب
عشرہ محرم میں عام دستور ورواج ہو گیا ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات ِکربلاکو مخصوص رنگ اور افسانوی ودیومالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے ۔شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے لیکن بد قسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظانِ خوش گفتار اور خطیبانِ سحر بیان بھی گرمی ٴمحفل او رعوام سے داد وتحسین وصول کرنے کے لیے اُسی تال سریں ،اُن واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اوران کی انفرادیت کا غماز ہے ۔اس سانحہ ٴشہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی محفل ”ماتم حسین“ مکمل نہیں ہوتی۔ اہلسنّت اس پستی وکمینگی تک تو نہیں اُترتے تا ہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ پر کچھ نکتہ چینی کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے مثلا ایک ’مفکر‘ نے یہاں تک فرما دیا کہ نبی اکرم سے قلیل صحبت ہونے کی وجہ سے بعض صحابہ کی قلب ِماہیت نعوذ باللہ نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ وادنیٰ صحابہ کا فرقِ مراتب کے باوصف بحیثیت ِصحابی ہونے کے یکساں عزت واحترام اسلام کا مطلوب ہے ۔کسی صحابی کے حق میں بھی زبان طعن وتشنیع کھولنا اورریسرچ کے عنوان سے نکتہ چینی کا جواز نکالنا نا ہلاکت وتباہی کے خطرہ کو دعوت دینا ہے ۔
صحابی کی تعریف ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم کو دیکھا ہو او رقرآن وحدیث میں صحابہ کرام کے جو عمومی فضائل ومناقب بیان کیے گئے ، ان کا اطلاق بھی ہر صحابی پر ہو گا۔حافظ ابن حجر نے الإصابۃ میں صحابی کی جس تعریف کو سب سے زیادہ صحیح اور جامع قرار دیا ہے وہ یہ ہے: (الإصابة فی تمييز الصحابة ،طبع جدید)
واَصح ما وقفتُ عليه من ذلک أن الصحابي من لقی مؤمنا به ومات علی الاسلام فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ومن روی عنه أو لم يرو ومن غزا معه أو لم يغزو من راٰہ رؤية ولو لم يجالسه ومن لم يرہ بعارض کالعمی”سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابہ کی جس پر میں مطلع ہوا ،وہ یہ ہے کہ ”وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی اس کی موت ہوئی“ پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے آپ سے ملاقات کی (قطع نظر اس سے کہ) اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یاکم، آپ سے روایت کی یا نہ کی ۔ آپ کے سا تھ غزوات میں شریک ہوا یا نہیں او رجس نے آپ کو صرف ایک نظرہی سے دیکھا ہو او رآپ کی مجالست وہم نشینی کی سعادت کا موقع اُسے نہ ملا ہو ا ور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جیسے نابینا پن“ (سب ہی صحابہ کی اصطلاح میں شامل ہیں)اس لیے اہل سنت کا خلفاء ِاربعہ: ابوبکر وعمر وعثمان اور علی اور دیگر اُن جیسے اکابر صحابہ کی عزت وتوقیر کو ملحوظ رکھنا لیکن بعض اُن جلیل ُالقدر اصحاب ِرسول کی منقبت وتقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم ازکم انہیں احترامِ مطلوب کا مستحق نہ سمجھنا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں جیسے حضرت معاویہ،حضرت عمرو بن العاص ، حضرت مغیر ہ بن شعبہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، یکسر غلط اور رفض وتشیع کا ایک حصہ ہے ۔اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت وتوقیر تو کسی حد تک معقولیت پسند شیعہ حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں او ران کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں البتہ حضرت معاویہ ،عمروبن ا لعاص وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے ۔اگر صحابہ کرام کے نام لیوابھی یہی موقف اختیار کر لیں تو پھر محبانِ صحابہ اور دشمنانِ صحابہ میں فرق کیا رہ جاتا ہے ؟ او ر ان صحابہ کواحترامِ مطلوب سے فروتر خیال کر کے ان کے شر ف وفضل کو مجروح کرنا کیا صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی کا ارتکاب نہیں ہے ؟کیا اس طرح نفس صحابیت کا تقدس مجروح نہیں ہوتا؟اور صحابیت کی ردائے عظمت (معاذ اللہ) تارتار نہیں ہوتی؟
بہر حال ہم عرض یہ کر رہے تھے کہ قرآن وحدیث میں صحابہ کرام کے جو عمومی فضائل ومناقب مذکور ہیں وہ تمام صحابہ کو محیط وشامل ہیں اس میں قطعاً کسی استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے او ران نصوص کی وجہ سے ہم ا س امرکے پابند ہیں کہ تما م صحابہ کو نفس صحابیت کے احترام میں یکساں عزت واحترام کا مستحق سمجھیں …اس سلسلے میں یہ حدیث ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے :
”عن عبد الله بن مغفل قال قال رسول الله ﷺ: الله الله فی أصحابی لا تتخذوهم غرضا من بعدي فمن أحبهم فبحبّی أحبهم ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ومن أذاهم فقد أذاني ومن أذاني فقد أذیٰ الله ومن أذیٰ الله فيوشک أن يأخذہ “ (رواہ الترمذی ص ۲۲۶ ج ۲ وقال ھذا حدیث غریب)
”میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا (یاد رکھو) جس نے اِن سے محبت کی ،پس میری محبت کی وجہ سے اِس نے اُن سے محبت کی ۔ جس نے اُن سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے اُن سے بغض رکھا اور جس نے اُن کو اذیت دی پس اس نے مجھے اَذیت دی جس نے مجھے اَذیت دی ، اس نے اللہ کواذیت دی اور جس نے اللہ کو اذیت دی، پس قریب ہے کہ وہ اس کو گرفت کر لے ۔“
اسی سلسلے کی دو حدیثیں اور قابل ملاحظہ ہیں:
عن أبي سعيد الخدري قال قال النبیﷺ لا تسبّوا أصحابي فلو أن أحدکم أنفق مثل أحد ذهَبًا ما بلغ مد أحدهم ولانصيفه …متفق علیہ (مشکوٰة)
”میرے صحابہ پر سب نہ کرو (یعنی انہیں جرح وتنقید او ربرائی کاہدف نہ بناؤ) انہیں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مد (تقریباً ایک سیر ) بلکہ آدھے مد کے بھی برابر نہیں ہو سکتا۔“
عن ابن عمر قال قال رسول الله ﷺ إذا رأيتم الذين يسبّون أصحابي فقولوا لعنة الله علی شَرِّکُم ، ھذا حدیث منکر (ترمذی ج ۲ ،ص ۲۲۷)
”جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ میرے صحابہ کی برائی کر رہا ہے تو تم کہو ،تم میں سے (یعنی برائی کرنے والے اور جس کی برائی کی جارہی ہے اُن میں سے ) جو بدتر ہو ،اس پر اللہ کی لعنت ہو“
ظاہر ہے صحابہ کے مقابلے میں اُن کی برائی کرنے والا ہی بدتر ہو گا، اس لیے لعنت ِخداوندی کا مستحق اُس کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ۔
(3) ماہ ِمحرم اور عاشورہ محرم
عشرہ ٴ محرم (محر م کے ابتدائی دس دن) میں شیعہ حضرات جس طرح مجالس عزا او رمحافل ماتم برپا کرتے ہیں ۔ظاہر بات ہے کہ یہ سب اختراعی چیزیں ہیں اورشریعت ِاسلامیہ کے مزاج سے قطعاً مخالف ۔اسلام نے تو نوحہ وماتم کے اس انداز کو ’جاہلیت‘ سے تعبیر کیا ہے او راس کام کو باعث ِلعنت بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا بتلایا ہے ۔
بد قسمتی سے اہل سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ وماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن اِن دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض وتشیع کی ہم نوائی اور ان کے مذہب ِباطل کا فروغ ہوتا ہے ۔مثلاً
- شیعوں کی طرح سانحہ ٴ کربلا کو مبالغے او ررنگ آمیزی سے بیان کرنا۔
- حضرت حسین ویزید کی بحث کے ضمن میں بعض جلیل ُالقدر صحابہ کرام (حضرت معاویہ ومغیرہ بن شعبہ )کو ہدف ِطعن وملامت بنانے میں بھی تا ٴمل نہ کرنا
- دس محرم کو تعزیے نکالنا ،انہیں قابل تعظیم وپرستش سمجھنا ۔ اُن میں سے منتیں مانگنا ،حلیم پکانا ،پانی کی سبیلیں لگانا ،اپنے بچوں کوہرے رنگ کے کپڑے پہنا کر انہیں حضرت حسین کا فقیر بنانا ۔ دس محرم کو تعزیوں او رماتم کے جلوسوں میں ذوق وشوق سے شرکت کرنا اور کھیل کود (گٹکے اورپٹہ سازی) سے اِن محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا وغیرہ۔
- ماہ ِمحرم کو سوگ کا مہینہ سمجھ کر اس مہینے میں شادیاں نہ کرنا ۔
- ذو الجناح (گھوڑے )کے جلوس میں کثرت سے شرکت کرنا۔
اور اسی انداز کی کئی چیزیں … حالانکہ یہ سب چیزیں بدعت ہیں جن سے نبی ﷺکے فرمان کے مطابق اجتناب ضروری ہے آپ نے مسلمانوں کوتاکید کی ہے : (مشکوٰة ،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)
”فعليکم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين تَمَسّکُوا بها وعضّوا عليها بالنواجذ وإياکم ومحدثات الامور فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة“
”مسلمانو! تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کو ہی اختیار کرنا اور اِسے مضبوط سے تھامے رکھنا اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچا کر رکھنا اس لیے کہ دین میں ہر نیا کام (چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے “
یہ بات ہر کہ ومہ پر واضح ہے کہ یہ سب چیزیں صدیوں بعد کی پیداوار ہیں ۔بنا بریں ان کے بدعات ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور آں حضرت ﷺ نے ہربدعت کو گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے مذکورہ خود ساختہ رسومات کی شناء ت وقباحت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
(4) محرم میں مسنون عمل
محر م میں مسنون عمل صرف روزے ہیں ۔ حدیث میں رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے”أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرّم“ (مسلم عن ابی ہریرة ) بلکہ ایک( غریب ُالاسناد) روایت میں محرم کے مہینے میں رکھے گئے ایک روزے کا ثواب ۳۰ روزوں کے برابر بھی بتلایا گیا ہے ۔”من صام يوماً من المحرَّم فله بکل يوم ثلاثين“ رواہ الطبرانی فی الصغیر وھو غریب واسنادہ لا بأس بہ (الترغیب ،عن ابن عباس)
خصوصی روزہ:بالخصوص دس محرم کے روزے کی حدیث میں یہ فضیلت آئی ہے کہ یہ گذشتہ ایک سال کا کفارہ ہے ۔ اس روز آں حضرت ﷺبھی خصوصی روزہ رکھتے تھے (ترغیب )
پھر ان کو علم ہوا کہ یہودی بھی اس امرکی خوشی میں کہ دس محرم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی تھی، روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ
”صوموا يوم عاشوراء وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوم“(مسند احمد :ج ۴،ص ۲۱ طبع جدید ،مجمع الزوائد :ج ۳ ،ص ۱۸۸)
”عاشورہ (۱۰/ محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو ۔لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اسکے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملالیا کرو:۹،۱۰ محرم یا ۱۰ ،۱۱ محرم کا روزہ رکھا کرو۔“
ایک من گھڑت روایت:محرم کی دسویں تاریخ کے بارے میں جوروایت بیان کی جاتی ہے کہ اس دن جو شخص اپنے اہل وعیال پر فراخی کرے گا، اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر فراخی کرے گا،بالکل بے اصل ہے جس کی صراحت امام ابن تیمیہ اور دیگر محققین نے کی ہے… چنانچہ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
” هذا من البدع المنکرة التی لم يسنّها رسول اللهﷺ ولا خلفاء الراشدون ولا استحبها أحد من أئمة المسلمين لا مالک ولا أحمد بن حنبل ولا الشافعي ولا أسحٰق بن راهويه ولا أمثال هولاء من الائمة المسلمين “
”۱۰محرم کو خاص کھانا پکانا ،توسیع کرنا وغیرہ من جملہ اِن بدعات ومنکرات سے ہے جو نہ رسول اللہ ﷺکی سنت سے ثابت ہے نہ خلفاءراشدین سے او رنہ ائمہ سلمین میں سے کسی نے اس کو مستحب سمجھا ہے ۔“ (فتا ویٰ ابن تیمیہ :ج ۲ ،ص ۳۵۴)
اور امام احمد کا یہ قول مذکورہ روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ نے ذکرکیا ہے کہ لا أصل لہ، فلم یرہ شیئا ”اس کی کوئی اصل نہیں ،امام احمد نے اس روایت کو کچھ نہیں سمجھا “ (منھاج السنة: ج ۲ ص ۲۴۸ او رفتاویٰ مذکور) … اسی طرح امام صاحب کی کتاب اقتضاء ا لصراط المستقیم میں اس کی صراحت موجود ہے (ص ۳۰۱، طبع مصر ۱۹۵۰ء )
اور امام محمد بن وضاح نے اپنی کتاب میں امام یحییٰ بن یحییٰ (متوفی ۲۳۴ ھ) سے نقل کیا ہے :
”میں امام مالک کے زمانے میں مدینہ منورہ اورامام لیث ،ابن القاسم او رابن وہب کے ایام میں مصر میں موجودتھا اور یہ دن (عاشوراء) وہاں آیا تھا میں نے کسی سے اس کی توسیع رزق کا ذکر تک نہیں سنا ۔اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی توباقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔“ ( البدع والنھی عنھا : ص ۱۴۵)
اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت استاذِ محترم مولانا محمد عطاء ا للہ حنیف نے اپنے مفصل مضمون میں کی ہے جو ہفت روزہ”الاعتصام“ ۱۳ /مارچ ۱۹۷۰ء ئمیں شائع ہوا تھا ۔ من شاء فلیراجعہ
یہ تمام مذکورہ اُمور وہ ہیں جواہل سنت کے عوام کرتے ہیں ،شیعہ اِن ایام میں جو کچھ کرتے ہیں ، ان سے اس وقت بحث نہیں ، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت ،عام جہالت اور شیعیت کی دسیسہ کاریوں سے بے خبر ی کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی او راہتمام سے بجالاتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں او رنبی ﷺکے فرمان ”من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ“ (متفق علیہ ،مشکوٰة) ”دین میں ہرنو ایجاد کام مردود ہے “ کے مصداق ان سے اجتناب ضروری ہے ۔
اور امام احمد کا یہ قول مذکورہ روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ نے ذکرکیا ہے کہ لا أصل لہ، فلم یرہ شیئا ”اس کی کوئی اصل نہیں ،امام احمد نے اس روایت کو کچھ نہیں سمجھا “ (منھاج السنة: ج ۲ ص ۲۴۸ او رفتاویٰ مذکور) … اسی طرح امام صاحب کی کتاب اقتضاء ا لصراط المستقیم میں اس کی صراحت موجود ہے (ص ۳۰۱، طبع مصر ۱۹۵۰ء )
اور امام محمد بن وضاح نے اپنی کتاب میں امام یحییٰ بن یحییٰ (متوفی ۲۳۴ ھ) سے نقل کیا ہے :
”میں امام مالک کے زمانے میں مدینہ منورہ اورامام لیث ،ابن القاسم او رابن وہب کے ایام میں مصر میں موجودتھا اور یہ دن (عاشوراء) وہاں آیا تھا میں نے کسی سے اس کی توسیع رزق کا ذکر تک نہیں سنا ۔اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی توباقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔“ ( البدع والنھی عنھا : ص ۱۴۵)
اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت استاذِ محترم مولانا محمد عطاء ا للہ حنیف نے اپنے مفصل مضمون میں کی ہے جو ہفت روزہ”الاعتصام“ ۱۳ /مارچ ۱۹۷۰ء ئمیں شائع ہوا تھا ۔ من شاء فلیراجعہ
یہ تمام مذکورہ اُمور وہ ہیں جواہل سنت کے عوام کرتے ہیں ،شیعہ اِن ایام میں جو کچھ کرتے ہیں ، ان سے اس وقت بحث نہیں ، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت ،عام جہالت اور شیعیت کی دسیسہ کاریوں سے بے خبر ی کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی او راہتمام سے بجالاتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں او رنبی ﷺکے فرمان ”من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو ردّ“ (متفق علیہ ،مشکوٰة) ”دین میں ہرنو ایجاد کام مردود ہے “ کے مصداق ان سے اجتناب ضروری ہے ۔
No comments:
Post a Comment