توحید۔مفہوم وضرورت
فاروق حمید
توحید کامطلب ہے یکتا، تنہا اور اکیلا۔ بعض لوگ توحید کامطلب ایک اللہ یا خدا سمجھتے ہیں یہ ترجمہ ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ لفظ 'ایک' میں بھی جمع کا شائبہ موجود ہے، مثلاً ایک قوم، ایک کلاس۔ اب صاف ظاہر ہے کہ ایک قوم میں توکروڑوں اَفراد ہیں لہٰذا صحیح مفہوم
وہی ہے جو ہم نے شروع میں عرض کیاہے۔ اِصطلاحی مفہوم ہے یہ ہے کہ اللہ رب العالمین کویکتا، اکیلااور اَحدتسلیم کرنا۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں اہم ترین اوراصل عقیدہ 'توحید' ہی ہے۔یہ ایمان کا جوہرEssence اور دین کی محکم اَساس ہے۔باقی تمام عقائد دراصل اسی ایک عقیدے کے تکمیلی پہلو ہیں۔ ایمان باللہ پر ہی دراصل سارے اِسلامی عقائد و اَعمال کی عمارت قائم ہے۔ سارے اَحکام اور قوانین کے صدوراورقوت کامرکز اللہ کی ذات ہے۔ہم فرشتوں پر ایمان اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے فرشتے ہیں اور اُسی کے حکم سے کائنات میں اپنے فرائض بجا لاتے ہیں۔ ہم رسولوں پر ایمان اس لئے لاتے ہیں کہ وہ اُسی کی طرف سے اس کاپیغام دنیا کو پہنچاتے ہیں۔کتابوں پر ایمان اس لئے ہے کہ اُسی اللہ کے اَحکامات پرمشتمل ہوتی ہیں اگرچہ اب صرف قرآن ہی اصل شکل میں محفوظ ہے اور ہم اُسی کے مطابق زندگی گزارنے کے پابند ہیں اور آخرت پر ایمان اس لئے ہے کہ وہی ذات انصاف کے دن کی مالک ہے اور وہی اِنسانی اعمال کے مطابق انصاف کرے گا۔ اسی پرباقی سارے اَعمال کو بھی قیاس کرلیا جائے کہ وہ اس لیے بجالائے جاتے ہیں تاکہ ہمارا مالک و آقا راضی ہوجائے۔
حضرت آدم ؑسے نبی اکرمﷺ تک جتنے انبیاء و رسل آئے اُن سب کی دعوت کامرکزی نقطہ 'توحید' ہی تھا۔ انسانیت کی ابتدا مکمل توحید کی روشنی میں ہوئی پھر جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی گئی تو انسان توحید کے سبق کو بولنے لگا اور اللہ اَحد و صمد کو چھوڑ کر دَر دَر اپنی اُمیدوں اور تمناؤں کے لئے ٹھوکریں کھانے لگا اور اپنا شرف انسانیت کھو کر اپنی ہی تذلیل و رسوائی کا سامان کرنے لگا۔
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسان کی اس نادانی کے باوجود بارباراللہ کی رحمت جوش میں آکر انسانیت کوبھولا ہوا سبق 'توحید' یاددلانے کے لئے ہدایت و رہنمائی کاانتظام کرتی رہی ﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ "ہر قوم کے لئے ایک رہنما ہے۔" ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا﴾"اور ہم نے ہراُمت میں ایک رسول بھیجا۔"
توحیدفی الذات
اللہ رب العالمین کی ذات بھی تنہا اور یکتا ہے۔ کائنات کی کوئی شے کسی بھی حیثیت میں اُس کی ذات کا حصہ نہیں ہے، وہ اوّل و آخر ہے خداؤں کی کوئی جنس یاسلسلہ نسب نہیں ہے جس کا وہ ایک فرد یا حصہ ہو نہ وہ کسی کا بیٹا ہے، نہ کوئی اس کا بیٹا ہے وہ اجزا سے مرکب وجود نہیں جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو۔ وہی تنہا ذات ہے جو ہر لحاظ سے تنہا، اکیلی اور اَحد ہے۔اس کا اظہار ویسے تو پورے قرآن میں جابجا کیا گیاہے لیکن جس قدر جامع اور خوبصورت اظہار سورة اخلاص میں ملتاہے اس کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔اِرشاد ربانی ہے۔ ﴿قُلْ هُوَ اللهَ اَحَدٌ اَللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يَوْلَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُواً اَحَدٌ﴾ "کہہ دیجئے وہ اللہ ہے یکتا ، اللہ سب سے بے نیاز ہے (سب اُس کے محتاج ہیں)نہ اُس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔"
اولاد چونکہ ذات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں اُس کا تذکرہ بھی کردیا گیاہے اور عملی طور پر دنیانے اللہ کی اولادیں بنائی بھی ہیں مثلاً یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا، عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کابیٹا اور مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے رہے اور اسی سے اُن قوموں کا عقیدہ آخرت بھی بگڑ گیا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں وہ ہمیں سزانہیں دے گا۔
توحید فی الصفات
اللہ تعالیٰ اپنی صفات اور خوبیوں میں بھی یکتا ہے یہ صفات بھی اُس کی ذاتی ہیں اور اُس کی ذات کی طرح قدیم و دائمی ہیں۔سورہ طہٰ میں ہے: ﴿اَللهُ لَا اِلٰهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الأَ سْمَاءُ الْحُسْنٰی﴾ "وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی اللہ نہیں اس کے لئے بہترین نام ہیں۔" حدیث میں اللہ کے نام تفصیل سے ملتے ہیں۔ اِرشاد نبویﷺہے۔ "اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔جس نے ان کو حفظ کرلیاوہ جنت میں داخل ہوگا"وہ اس کائنات کاخالق،مالک، رازق اور آقا ہے اُسی نے ساری مخلوقات کو پیدا کیاہے اور وہی سب کامارنے والاہے وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہے اُسے کسی کے سہارے کے ضرورت نہیں وہ﴿عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِيْرٌ﴾ ہے۔کوئی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں وہ ایسا ہے کہ اُس جیسی کوئی دوسری شے اس کائنات میں نہیں ہے۔ ﴿لَيْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ "کائنات میں کوئی اس کی مثل نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"۔ وہ حیی و قیوم ہے، لائق حمد وثنا ہے اور وہی معبودِ حقیقی، مسجودِ حقیقی اور منعم ِ حقیقی ہے۔ اللہ کی صفات کا تذکرہ قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے۔ آیۃ الکرسی اورسورہٴ حشر میں اللہ کے ناموں کا حسین گلدستہ موجود ہے۔
توحید فی الافعال
اس کائنات میں جس قدر تصرف، اختیار اور حکم ہوتا ہے وہ اللہ واحد کی ذات سے ہوتا ہے وہ علیم و خبیر ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اُس کے علم سے باہر نہیں اگر کسی درخت کاپتہ گرتا ہے تو اس کی اِجازت اور علم سے۔
تمام اختیارات اُسی ذات واحد کے پاس ہیں ﴿کُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ "ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔" یعنی ہر وقت دنیائے عالم میں اس کی کارفرمائی اور حکومت کا سلسلہ جاری ہے ہر لمحہ کسی کو فنا کررہا ہے، کسی کوزندگی بخش رہا ہے، کسی کو عروج عطا کررہاہے، کسی کو زوال دے رہاہے، یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی اللہ ہی کرتا ہے۔ جس چیز کاارادہ کرتا ہے اُسے کر لیتاہے۔ کوئی طاقت اس کو روکنے والی نہیں ہے۔ توحید فی الافعال کی جہتیں مقرر کی جائیں تو بے شمار پہلو نکلتے ہیں یہاں بطور مثال صرف دو تین پہلو بیان کئے جاتے ہیں۔
معبود حقیقی
اس کائنات میں عبادت صرف اللہ کے لئے ہے قرآن میں جابجا ارشاد ہے:"تمہارامعبود صرف اللہ ہے۔سجدہ، رکوع، دعا اورقربانی یعنی تمام مراسم عبادت صرف اللہ کے لئے ہیں۔نیزیہ کہ اُس نے انسان اور جن کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔ سورہٴ مریم میں ہے:"آسمان اور زمین کی تمام مخلوق اُس مہربان خدا کے سامنے غلام بن کر ہی آنے والی ہے۔" غرض اللہ کے سوا، نہ تو آسمان میں نہ زمین میں، نہ آسمان کے اوپر نہ زمین کے نیچے کوئی ایسی چیز ہے، جو عبادت کی مستحق ہو۔ اِرشاد نبویﷺ ہے: "اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اُن کو عذاب نہ دے۔
حاکمیت اعلیٰ
اس کائنات میں حاکمیت، ملکیت اور اختیارصرف اللہ رب العالمین کا ہے:﴿بِيَدِه مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ﴾ "ہر چیز کی ملکیت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔" ﴿وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ شَرِيْکٌ فِیْ الْمُلْکِ﴾ "بادشاہی میں کوئی اس کاشریک نہیں ہے۔" یہ کائنات اَضداد کا مجموعہ ہے یہاں خیروشر کی کشمکش بھی ہے اور عروج و زوال کے طوفان بھی لیکن اس کے باوجود نظم کائنات بلکہ وجود کائنات کی بقا صرف اس لئے ہے کہ یہاں حکمران صرف اور صرف تنہارب العالمین ہے۔﴿لَوْ کَانَ فِيْهِمَا اٰلِهَةٌ إلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحٰنِ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ﴾ "اگر زمین و آسمان میں اکیلے اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (کائنات) کانظام بگڑ جاتاپس اللہ رب العرش پاک ہے ان باتوں سے جو لوگ بنا رہے ہیں" اور وہ وحدہ لاشریک ہے۔ سورة الزمر میں ہے:﴿لَهُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ "آسمان اور زمین کی بادشاہی اُسی کی ہے۔پھر تم اُسی کی طرف پلٹائے جانے والے ہو۔" ﴿لَهُ مَقَالِيْدُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللهِ اُوْلٰئِکَ هُمُ الْخَاسِرُوْنَ ﴾"آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔" ﴿يُدَبِّرُ الاَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ ﴾ "آسمان سے زمان تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتاہے۔" تخلیق میں، حاکمیت میں اور ملکیت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
رزاق حقیقی
تمام کائنات کارب، روزی رساں پالنہار اور بہترین رزق دینے والا اللہ ہی ہے وہ صرف انسانوں کو ہی نہیں دیتا بلکہ چرند پرند، آبی و بری حیوانات تک کو رزق دیتا ہے اور رزق کی اتنی اقسام اُس نے پیدا کردی کہ ان کاشماربھی مشکل ہے۔﴿إنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّةِ الْمَتِين﴾"اللہ تو خود ہی رزاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست۔" ﴿وَاللهُ خَيْرُالرَّازِقِيْنَ﴾ "اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔"
مالک یوم الدین
وہ حساب کے دن کا مالک ہے اورتمام انسان اور جن مرنے کے بعد اس دنیا کی کارکردگی کی بنا پر اُس کے سامنے حساب کتاب کے لئے پیش ہوں گے اور ہرشخص کو اس کے اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا ہوگی اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ ﴿اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ "آج تم لوگوں کو ان اعمال کابدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہتے تھے۔"
انسان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک لمحہ بھی اللہ کے بغیر نہیں گزار سکتا۔
پیدا اُسی نے کیا۔
رزق وہی دیتا ہے جس کے بغیر زندہ نہیں رہاجاسکتا۔
دنیا میں قدم قدم پراُس کا محتاج ہے۔
لوٹ کر جانا بھی اُسی کے پاس ہے بھاگ نہیں سکتا۔
انہی چار چیزوں میں زندگی گزر جاتی ہے۔ اسی لئے انسان کے پاس اس کا دامن تھامنے کے علاوہ کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔غرض اللہ کی جتنی صفات بھی ہیں ان سب کے جو تقاضے ہیں وہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہی پورے کئے جائیں تو ہی توحید مکمل ہوگی۔
توحید وقت کی شدید ترین ضرورت
عالمی تناظر میں اقوام عالم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اُمت مسلمہ سب سے زیادہ مجبور و مقہور اور پسماندہ ہے اور مغربی اقوام کی ذہنی اور سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلمان ہی تہذیب و تمدن کے بانی تھے اور باقی اقوام کو علم کی روشنی مسلمانوں سے ہی ملی تھی۔پھر یہ پسماندگی و تباہی کیوں؟ ... اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے 'توحید' کا سبق بھلا دیا ورنہ نبی کریمﷺ کی اِطاعت کرتے ہوئے خلفائے راشدین7 کی قیادت میں مسلم معاشرہ سے اُس وقت کی سپر طاقتیں روم و فارس لرزہ براَندام تھیں اس لیے کہ اُن کے دلوں میں اٹل اور غیر متزلزل'توحید' موجود تھی جس کی وجہ سے اللہ کے علاوہ دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایمان کی حلاوت و چاشنی اور استحکام'توحید' کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور ایسے ہی ایمان بالتوحید کے لئے جیسا کہ صحابہ کرام کا تھا۔ اللہ کی طرف سے یہ اعلان آج بھی موجود ہے۔﴿إنَّ الاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ﴾﴿وَأنْتُمُ الاَعْلَوْنَ إنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِيْنَ﴾
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہے ﴿يَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْيَةِ اللهِ أوْ أشَدَّ خَشْيَةً﴾ "وہ اللہ سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں۔" اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ﴿کَأنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ﴾ "وہ لکڑی کے کندے ہیں جودیوار کے ساتھ چن کررکھ دیئے گئے ہوں۔" حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتی ہے اُن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَه اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وََّلَوِِاجْتَمَعُوْا لَه وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِيْزٌ﴾ "بے شک اللہ کو چھوڑ کر جن کوتم لوگ پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی تک پیدا کرنے پرقادرنہیں اگرچہ اس کام کے لئے وہ سب مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اُس سے وہ چیز چھڑالینے کی طاقت بھی ان میں نہیں ہے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور، ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔درحقیقت قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔"
اُمت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام عظمت اورمنصب امامت اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اُن کی زندگیوں میں توحیدکے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں صرف زبانی کلامی نہیں۔
خرد نے کہہ بھی لاالہ تو کیاحاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت Reconciliation تذبذب Vocillation اور شک و شبہ Uncertainty نہ ہو بلکہ اصحاب الاخدود اصحاب کہف اورصحابہ کرام جیسا ایمان ہو ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لئے ہوبلکہ ساری گفتگو کو ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ"ساری اُمت مسلمہ اللہ کی ہی ہوکر رہے
حضرت آدم ؑسے نبی اکرمﷺ تک جتنے انبیاء و رسل آئے اُن سب کی دعوت کامرکزی نقطہ 'توحید' ہی تھا۔ انسانیت کی ابتدا مکمل توحید کی روشنی میں ہوئی پھر جوں جوں انسانی آبادی بڑھتی گئی تو انسان توحید کے سبق کو بولنے لگا اور اللہ اَحد و صمد کو چھوڑ کر دَر دَر اپنی اُمیدوں اور تمناؤں کے لئے ٹھوکریں کھانے لگا اور اپنا شرف انسانیت کھو کر اپنی ہی تذلیل و رسوائی کا سامان کرنے لگا۔
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
انسان کی اس نادانی کے باوجود بارباراللہ کی رحمت جوش میں آکر انسانیت کوبھولا ہوا سبق 'توحید' یاددلانے کے لئے ہدایت و رہنمائی کاانتظام کرتی رہی ﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ﴾ "ہر قوم کے لئے ایک رہنما ہے۔" ﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا﴾"اور ہم نے ہراُمت میں ایک رسول بھیجا۔"
توحیدفی الذات
اللہ رب العالمین کی ذات بھی تنہا اور یکتا ہے۔ کائنات کی کوئی شے کسی بھی حیثیت میں اُس کی ذات کا حصہ نہیں ہے، وہ اوّل و آخر ہے خداؤں کی کوئی جنس یاسلسلہ نسب نہیں ہے جس کا وہ ایک فرد یا حصہ ہو نہ وہ کسی کا بیٹا ہے، نہ کوئی اس کا بیٹا ہے وہ اجزا سے مرکب وجود نہیں جو قابل تجزیہ و تقسیم ہو۔ وہی تنہا ذات ہے جو ہر لحاظ سے تنہا، اکیلی اور اَحد ہے۔اس کا اظہار ویسے تو پورے قرآن میں جابجا کیا گیاہے لیکن جس قدر جامع اور خوبصورت اظہار سورة اخلاص میں ملتاہے اس کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔اِرشاد ربانی ہے۔ ﴿قُلْ هُوَ اللهَ اَحَدٌ اَللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يَوْلَدْ وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ کُفُواً اَحَدٌ﴾ "کہہ دیجئے وہ اللہ ہے یکتا ، اللہ سب سے بے نیاز ہے (سب اُس کے محتاج ہیں)نہ اُس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور کوئی اُس کا ہمسر نہیں ہے۔"
اولاد چونکہ ذات کا حصہ ہوتی ہے اس لیے مذکورہ صورت میں اُس کا تذکرہ بھی کردیا گیاہے اور عملی طور پر دنیانے اللہ کی اولادیں بنائی بھی ہیں مثلاً یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا، عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کابیٹا اور مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے رہے اور اسی سے اُن قوموں کا عقیدہ آخرت بھی بگڑ گیا کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں وہ ہمیں سزانہیں دے گا۔
توحید فی الصفات
اللہ تعالیٰ اپنی صفات اور خوبیوں میں بھی یکتا ہے یہ صفات بھی اُس کی ذاتی ہیں اور اُس کی ذات کی طرح قدیم و دائمی ہیں۔سورہ طہٰ میں ہے: ﴿اَللهُ لَا اِلٰهَ إِلَّا هُوَ لَهُ الأَ سْمَاءُ الْحُسْنٰی﴾ "وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی اللہ نہیں اس کے لئے بہترین نام ہیں۔" حدیث میں اللہ کے نام تفصیل سے ملتے ہیں۔ اِرشاد نبویﷺہے۔ "اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں۔جس نے ان کو حفظ کرلیاوہ جنت میں داخل ہوگا"وہ اس کائنات کاخالق،مالک، رازق اور آقا ہے اُسی نے ساری مخلوقات کو پیدا کیاہے اور وہی سب کامارنے والاہے وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہے اُسے کسی کے سہارے کے ضرورت نہیں وہ﴿عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِيْرٌ﴾ ہے۔کوئی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں وہ ایسا ہے کہ اُس جیسی کوئی دوسری شے اس کائنات میں نہیں ہے۔ ﴿لَيْسَ کَمِثْلِهِ شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ "کائنات میں کوئی اس کی مثل نہیں وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"۔ وہ حیی و قیوم ہے، لائق حمد وثنا ہے اور وہی معبودِ حقیقی، مسجودِ حقیقی اور منعم ِ حقیقی ہے۔ اللہ کی صفات کا تذکرہ قرآن میں جگہ جگہ موجود ہے۔ آیۃ الکرسی اورسورہٴ حشر میں اللہ کے ناموں کا حسین گلدستہ موجود ہے۔
توحید فی الافعال
اس کائنات میں جس قدر تصرف، اختیار اور حکم ہوتا ہے وہ اللہ واحد کی ذات سے ہوتا ہے وہ علیم و خبیر ہے کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی اُس کے علم سے باہر نہیں اگر کسی درخت کاپتہ گرتا ہے تو اس کی اِجازت اور علم سے۔
تمام اختیارات اُسی ذات واحد کے پاس ہیں ﴿کُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ﴾ "ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔" یعنی ہر وقت دنیائے عالم میں اس کی کارفرمائی اور حکومت کا سلسلہ جاری ہے ہر لمحہ کسی کو فنا کررہا ہے، کسی کوزندگی بخش رہا ہے، کسی کو عروج عطا کررہاہے، کسی کو زوال دے رہاہے، یہ معاملہ صرف افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ قوموں کے عروج و زوال کا فیصلہ بھی اللہ ہی کرتا ہے۔ جس چیز کاارادہ کرتا ہے اُسے کر لیتاہے۔ کوئی طاقت اس کو روکنے والی نہیں ہے۔ توحید فی الافعال کی جہتیں مقرر کی جائیں تو بے شمار پہلو نکلتے ہیں یہاں بطور مثال صرف دو تین پہلو بیان کئے جاتے ہیں۔
معبود حقیقی
اس کائنات میں عبادت صرف اللہ کے لئے ہے قرآن میں جابجا ارشاد ہے:"تمہارامعبود صرف اللہ ہے۔سجدہ، رکوع، دعا اورقربانی یعنی تمام مراسم عبادت صرف اللہ کے لئے ہیں۔نیزیہ کہ اُس نے انسان اور جن کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔ سورہٴ مریم میں ہے:"آسمان اور زمین کی تمام مخلوق اُس مہربان خدا کے سامنے غلام بن کر ہی آنے والی ہے۔" غرض اللہ کے سوا، نہ تو آسمان میں نہ زمین میں، نہ آسمان کے اوپر نہ زمین کے نیچے کوئی ایسی چیز ہے، جو عبادت کی مستحق ہو۔ اِرشاد نبویﷺ ہے: "اللہ کا بندوں پریہ حق ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ اُن کو عذاب نہ دے۔
حاکمیت اعلیٰ
اس کائنات میں حاکمیت، ملکیت اور اختیارصرف اللہ رب العالمین کا ہے:﴿بِيَدِه مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ﴾ "ہر چیز کی ملکیت اُسی کے ہاتھ میں ہے۔" ﴿وَلَمْ يَکُنْ لَّهُ شَرِيْکٌ فِیْ الْمُلْکِ﴾ "بادشاہی میں کوئی اس کاشریک نہیں ہے۔" یہ کائنات اَضداد کا مجموعہ ہے یہاں خیروشر کی کشمکش بھی ہے اور عروج و زوال کے طوفان بھی لیکن اس کے باوجود نظم کائنات بلکہ وجود کائنات کی بقا صرف اس لئے ہے کہ یہاں حکمران صرف اور صرف تنہارب العالمین ہے۔﴿لَوْ کَانَ فِيْهِمَا اٰلِهَةٌ إلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحٰنِ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ﴾ "اگر زمین و آسمان میں اکیلے اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو (کائنات) کانظام بگڑ جاتاپس اللہ رب العرش پاک ہے ان باتوں سے جو لوگ بنا رہے ہیں" اور وہ وحدہ لاشریک ہے۔ سورة الزمر میں ہے:﴿لَهُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ﴾ "آسمان اور زمین کی بادشاہی اُسی کی ہے۔پھر تم اُسی کی طرف پلٹائے جانے والے ہو۔" ﴿لَهُ مَقَالِيْدُ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضِ وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللهِ اُوْلٰئِکَ هُمُ الْخَاسِرُوْنَ ﴾"آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔" ﴿يُدَبِّرُ الاَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ ﴾ "آسمان سے زمان تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتاہے۔" تخلیق میں، حاکمیت میں اور ملکیت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری
رزاق حقیقی
تمام کائنات کارب، روزی رساں پالنہار اور بہترین رزق دینے والا اللہ ہی ہے وہ صرف انسانوں کو ہی نہیں دیتا بلکہ چرند پرند، آبی و بری حیوانات تک کو رزق دیتا ہے اور رزق کی اتنی اقسام اُس نے پیدا کردی کہ ان کاشماربھی مشکل ہے۔﴿إنَّ اللهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْ الْقُوَّةِ الْمَتِين﴾"اللہ تو خود ہی رزاق ہے بڑی قوت والا اور زبردست۔" ﴿وَاللهُ خَيْرُالرَّازِقِيْنَ﴾ "اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔"
مالک یوم الدین
وہ حساب کے دن کا مالک ہے اورتمام انسان اور جن مرنے کے بعد اس دنیا کی کارکردگی کی بنا پر اُس کے سامنے حساب کتاب کے لئے پیش ہوں گے اور ہرشخص کو اس کے اعمال کی بنیاد پر جزا و سزا ہوگی اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ ﴿اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ "آج تم لوگوں کو ان اعمال کابدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہتے تھے۔"
انسان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک لمحہ بھی اللہ کے بغیر نہیں گزار سکتا۔
پیدا اُسی نے کیا۔
رزق وہی دیتا ہے جس کے بغیر زندہ نہیں رہاجاسکتا۔
دنیا میں قدم قدم پراُس کا محتاج ہے۔
لوٹ کر جانا بھی اُسی کے پاس ہے بھاگ نہیں سکتا۔
انہی چار چیزوں میں زندگی گزر جاتی ہے۔ اسی لئے انسان کے پاس اس کا دامن تھامنے کے علاوہ کوئی چارہ ہے ہی نہیں۔غرض اللہ کی جتنی صفات بھی ہیں ان سب کے جو تقاضے ہیں وہ صرف اور صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہی پورے کئے جائیں تو ہی توحید مکمل ہوگی۔
توحید وقت کی شدید ترین ضرورت
عالمی تناظر میں اقوام عالم کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اُمت مسلمہ سب سے زیادہ مجبور و مقہور اور پسماندہ ہے اور مغربی اقوام کی ذہنی اور سیاسی غلام بن چکی ہے۔ حالانکہ مسلمان ہی تہذیب و تمدن کے بانی تھے اور باقی اقوام کو علم کی روشنی مسلمانوں سے ہی ملی تھی۔پھر یہ پسماندگی و تباہی کیوں؟ ... اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے 'توحید' کا سبق بھلا دیا ورنہ نبی کریمﷺ کی اِطاعت کرتے ہوئے خلفائے راشدین7 کی قیادت میں مسلم معاشرہ سے اُس وقت کی سپر طاقتیں روم و فارس لرزہ براَندام تھیں اس لیے کہ اُن کے دلوں میں اٹل اور غیر متزلزل'توحید' موجود تھی جس کی وجہ سے اللہ کے علاوہ دنیا کی کسی طاقت سے نہیں ڈرتے تھے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ایمان کی حلاوت و چاشنی اور استحکام'توحید' کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور ایسے ہی ایمان بالتوحید کے لئے جیسا کہ صحابہ کرام کا تھا۔ اللہ کی طرف سے یہ اعلان آج بھی موجود ہے۔﴿إنَّ الاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ﴾﴿وَأنْتُمُ الاَعْلَوْنَ إنْ کُنْتُمْ مُوْمِنِيْنَ﴾
رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا اتر گیا جو تیرے دل میں لا شریک لہ
مسلمان نام کی ایک قوم تو اب بھی موجود ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہے ﴿يَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْيَةِ اللهِ أوْ أشَدَّ خَشْيَةً﴾ "وہ اللہ سے بڑھ کر انسانوں سے ڈرتے ہیں۔" اسی لیے ان کی کیفیت یہ ہے کہ گویا وہ﴿کَأنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ﴾ "وہ لکڑی کے کندے ہیں جودیوار کے ساتھ چن کررکھ دیئے گئے ہوں۔" حالانکہ جن قوتوں سے وہ ڈرتی ہے اُن کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَه اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وََّلَوِِاجْتَمَعُوْا لَه وَ اِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِه اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِیٌّ عَزِيْزٌ﴾ "بے شک اللہ کو چھوڑ کر جن کوتم لوگ پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی تک پیدا کرنے پرقادرنہیں اگرچہ اس کام کے لئے وہ سب مل کر زور لگائیں اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اُس سے وہ چیز چھڑالینے کی طاقت بھی ان میں نہیں ہے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور، ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جیساکہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔درحقیقت قوت اور عزت والا تو اللہ ہی ہے۔"
اُمت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام عظمت اورمنصب امامت اُسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ توحید پر دل و جان سے ڈٹ جائے اور اُن کی زندگیوں میں توحیدکے اثرات واضح طور پر نظر بھی آئیں صرف زبانی کلامی نہیں۔
خرد نے کہہ بھی لاالہ تو کیاحاصل دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
توحید پر ایسا ایمان درکار ہے جس میں مصالحت Reconciliation تذبذب Vocillation اور شک و شبہ Uncertainty نہ ہو بلکہ اصحاب الاخدود اصحاب کہف اورصحابہ کرام جیسا ایمان ہو ساری محبت و اطاعت اللہ ہی کے لئے ہوبلکہ ساری گفتگو کو ایک فقرے میں سمیٹا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ"ساری اُمت مسلمہ اللہ کی ہی ہوکر رہے
﴿اِِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِيٰٓوٴُکُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ﴾ "جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں نہ ڈرو، نہ غم کرو اور خوش ہوجاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیاگیاہے۔ ہم اس دنیاکی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔"
تاریخ انسانی کے سٹیج پر بڑے بڑے فرعون آئے اپنی اپنی ڈفلی بجاکر نابود ہوگئے اصل قوت و طاقت کامالک تو اللہ الواحد القہار ہے۔ اُسی سے تعلق مضبوط کیا جائے، اُسی سے محبت کی جائے، اُسی سے ہرحال میں رجوع کیا جائے، اُسی کی اطاعت و بندگی کی جائے تو سارے مسائل ختم ہوجائیں گے کیونکہ وہ اپنے بندے کے لئے کافی ہے۔ ﴿اَلَيْسَ اللهُ بِکَافٍ عَبْدَهُ﴾ "وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔" وہ پکارسنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔ تو پھر اصل سہاراچھوڑکر نقلی سہارے تلاش کرناعقل کافتور نہیں تو اورکیاہے۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف ِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو خوف ِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو
No comments:
Post a Comment