بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فتنہ اندھا اور بہرا


حدیث شریف:
عن حُذَيْفَةَ بنَ الْيَمَانٍِ رضي لله عنه ، قال كان الناس يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ وعرفت إن الخير لن يسبقني ...... الحديث . ( مسند أحمد :5/- 286 – -287 سنن أبوداؤد :4246 ، الفتن والملاحم – صحيح ابن حبان :5932 :8/367- -----------–- 368 )

ترجمہ : حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں شر مجھے آ نہ لے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں خیر سے محروم نہیں رہوں گا، میں نے سوال کیا : یا رسول اللہ ! آپ کی آمد سے قبل ہم لوگ جاہلیت و شر میں مبتلا تھے [ لیکن آپ ﷺکے ذریعہ اللہ تعالٰی یہ خیر لے کر آیا جس میں ہم اس وقت ہیں ] تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر واپس آئے گا ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
’’ اے حذیفہ اللہ کی کتاب سیکھو اور جو کچھ اس میں ہے اس کی پیروی کرو [ اس شر سے نجات پاؤ گے ] ‘‘، یہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے تین بار دہرائی ، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے پھر وہی سوال دہرایا کہ کیا اس خیر کے بعد شر پھر لوٹ کر آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ فتنہ پیدا ہوگا اور فساد برپا ہوگا ‘‘ ،حضرت حذیفہ کہتے ہیں میں نے پھر پوچھا : اے اللہ کے رسول کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے حذیفہ اللہ کی کتاب سیکھو اور اس میں موجود تعلیمات کی پیروی کرو’‘[ اس میں خیر کی تعلیم اور ہر شر سے بچاو ہے ] یہی بات آپ نے تین بار دہرائی، حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اس شر کے بعد خیر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایسی صلح ہوگی کی جس میں ملاوٹ رہے گی اور اتفاق و اتحاد ہوگا مگر کدورت والا ‘‘ ، میں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول صلح میں ملاوٹ اور کدورت کا کیا معنی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لوگوں کے دل پہلے کی سی کیفیت پر واپس نہیں آئیں گے اور ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سُنّت و طریقہ کے خلاف چلیں گے ، ان کے بعض کام تمہیں پسند آئیں گے اور بعض سےتم نفرت کروگے اور انہیں کے ساتھ کچھ ایسے لوگ ہوں گے جن کے جسم تو انسانوں کے ہوں گے البتہ ان کے سینے میں شیطانوں کا دل ہوگا ‘‘ ،حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا : کیا اس خیر کے بعد پھر شر واپس آئے گا ؟ آپ نے فرمایا : ’’ اے حذیفہ کتاب الٰہی کو سیکھو اور اس کی تعلیمات کی پیروی کرو [ یہی چیز تمہیں ہر خیر سے قریب اور ہر شر سے دور رکھے گی ] میں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول کیا اس خیر کے بعد پھر شر آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ فتنہ برپا ہوگا جو اندھا اور بہرا ہوگا [ جس سے نہ چھٹکارا ملے گا اور نہ ہی وہ رکے گا ] اس کے قائد جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے [ جو شخص ان کی بات مانے گا اسے جہنم میں جھونک دیں گے ‘‘ ، حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول فتنہ کے ان قائدین کی صفت بیان کردیجئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا : ’’ وہ ہم ہی لوگوں میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں بات کریں گے ‘‘ ، حضرت حذیفہ نے سوال کیا کہ اگر یہ زمانہ مجھے مل جائے تو آپ مجھے کس چیز کی وصیت کرتے ہیں ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’ مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ جڑے رہو ، اس کی بات مانو اور اطاعت کرو خواہ وہ تمہاری پیٹہ پرکوڑے برسائے ور تمہارا مال چھین لے پھر بھی اُس کی بات سُننا اور اِطاعت کرنا ‘‘ ، میں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! اگر جماعت اور امام المسلمین موجود نہ ہو [تو پھر ہم کیا کریں ؟] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ان تمام فرقوں سے کنارہ کشی اختیار کرلو ، اور یاد رکھو اگر تم کسی درخت کی جڑ کوچباتے ہوئے مرجاؤ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہوگا کہ ان میں سے کسی کی اتباع کرو ‘‘، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سوال کیا : پھر اس کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ پھر دجّال کا خروج ہوگا ‘‘ ، میں نے عرض کیا : وہ کیا لے کر آئے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ وہ پانی کا دریا اور آگ لے کر آئے گا ، تو جو شخص اس کی دریا میں داخل ہوا اس کا اجر ضائع ہوا اور گناہ واجب ہوگیا اور جو اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر واجب ہوا اور اس کے گناہ ختم کردئے گئے ‘‘، میں نے پھر سوال کیا : اے اللہ کے رسول ! پھر دجال کے بعد کیا ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کا نزول ہوگا ‘‘ ،حضرت حذیفہ نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کیا ہوگا؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اس وقت قیامت اس قدر قریب ہوگی کہ اگر گھوڑی کوئی بچہ جنے تو ابھی بچہ سواری کے قابل نہ ہوگا کہ قیامت قائم ہوجائے گی ‘‘۔ { مسند احمد ، سنن ابو داود ،صحیح ابن حبان }

{نوٹ : یہ حدیث صحیح البخاری :7084 ، اور صحیح مسلم :1847، وغیرہ میں بھی مختصر و مطول موجود ہے ، دیکھئے : الصحیحہ :2739 }




تشریح :
آج فتنوں کا دور ہے ہر قسم کے فتنے مسلمانوں کو چاروں طرف سے اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں ، اقتصادی فتنے ، سیاسی فتنے ، مالی فتنے ، معاشرتی فتنے اور عورتوں کے فتنے وغیرہ وغیرہ ہر طرف سے مومن کو اپنے لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں ، ایک صادق ، مخلص اور اپنے دین و ایمان پر حریص مسلمان کے لئے زندگی گزارنا ایک مشکل ترین مسئلہ بن گیا ہے ۔ اور اس پرمصیبت یہ کہ بہت سے فتنوں کے داعی مُصلح اور مُبلغِ دین کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں اور بہت سے خالص کتاب و سنت کی پیروی اور سلف صالحین کے منہج پر ہونے کے داعی ہیں ، جس کی وجہ سے ایک سچاّ مُسلمان پریشان اور حیران ہے کہ وہ کیا کرے ، ایسے ہی لوگوں کے پیش خدمت یہ حدیث نبوی ہے ، اگر غور وفکر سے اسے پڑھ لیا جائے تو ایک مسلمان کے لئے بہترین رہنما ثابت ہوگی ۔


** خلاصہء درسِ حدیث نمبر 164 ، بتاریخ :7/8/ جمادی الاولی1432 ھ، م 12/11،اپریل2011م

فضیلۃ الشیخ/ ابوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

الغاط، سعودی عرب