جماعتی نام اہل حدیث ، قران وحدیث کی روشنی میں۔
کسی فرد یا جماعت یاکسی اورچیز کا نام صحیح ہے یا غلط اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے ۔۔۔
اکثر لوگ اس بنیاد سے غافل ہیں اوریہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نام کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجودہو، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور بعض شاطر ذہن کی مغالطہ بازی بھی ہے۔
جماعت کے ناموں پر ہم بعد میں بات کریں گے ، سب پہلے فرد کے ناموں کا مسئلہ لیتے ہیں۔
قران و حدیث میں فرد کے ناموں کا تذکرہ ملتاہے:
قران :
مثلا اللہ تعالی قران میں کہتاہے:
{ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا } [الأحزاب: 37]۔
احادیث:
اور احادیث بے شمار ہیں جن میں فرد کے ناموں کا تذکرہ ہے۔
ہمارے یہاں آئے دن افراد کے نام رکھے جاتے ہیں اور اس بات کا بھی لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ نام قران وحدیث کے مطابق ہو اسی لئے لوگ نام رکھتے وقت اکثر علماء سے سوال کرتے رہتے ہیں، اوربعض ناموں کو علماء کے سامنے رکھ کر پوچھتے ہیں کہ یہ نام صحیح ہے یا غلط ؟ اور اہل علم الحمدللہ اس کاجواب بھی دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب فرد کے نام کامسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کے صحیح یا غلط کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے۔
کیا ہراس نام کو غلط کہہ دیا جاتا ہے جس کا وجود قران وحدیث میں نہ ہو ؟؟
یا اس نام کو غلط کہا جاتا ہے جو قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہو ؟؟؟
یقینا دوسری صورت ہی پر عمل ہوتا ہے یعنی نام کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا نام قران وحدیث میں ہے یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ نام قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے یا نہیں ۔
چنانچہ ہراس نام کواہل علم کی طرف سے صحیح کہا جاتا ہے جو قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ، گرچہ اس نام کا قران وحدیث یاعہدصحابہ میں اثر ونشان تک نہ ، حتی کہ ایسے ناموں کو بھی صحیح اور درست تسلیم کیا جاتا ہے جو سرے سے عربی زبان کے الفاظ ہی نہیں ہوتے بلکہ کسی اور زبان کے الفاظ ہوتےہیں۔
سوال یہ ہے کہ فرد کے نام کے سلسلے میں ایسا کیوں؟ یہاں پر یہ مطالبہ کیوں نہیں کہ بعینہ اسی نام کا قران وحدیث میں ہونا ضروری ہے؟؟
جواب اس کا یہ ہے کہ عہدرسالت میں فرد کے ناموں کے سلسلے میں ایساہی عمل تھا یعنی صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ فرد کا نام اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ، چنانچہ جو نام اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتے تھے انہیں تبدیل کردیا جاتا تھا اورجونام ایسے نہ ہوتے تھے انہیں صحیح تسلیم کیا جاتا تھا۔
قران وحدیث میں جماعتی ناموں کا بھی تذکرہ ملتاہے:
قران :
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ }[التوبة: 117]۔
احادیث:
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں جماعتی نام بھی رکھے جاتے تھے یعنی عہد رسالت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گروہ کے اندر کوئی خاص خوبی ہے تو اس خوبی کے حوالے سے ان کا نام رکھا جاتا تھا، مثلا چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
اہل الہجرہ:
عن مُجَاشِعٌ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخِي بَعْدَ الفَتْحِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الهِجْرَةِ. قَالَ: «ذَهَبَ أَهْلُ الهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا» . فَقُلْتُ: " عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُبَايِعُهُ؟ قَالَ: «أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ، وَالإِيمَانِ، وَالجِهَادِ» فَلَقِيتُ مَعْبَدًا بَعْدُ، وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «صَدَقَ مُجَاشِعٌ»[صحيح البخاري 5/ 152]
اہل بدر:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ "[صحيح البخاري 4/ 76]
اہل احد:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ[صحيح البخاري 4/ 198]
اہل الصفہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: «أَبَا هِرٍّ، الحَقْ أَهْلَ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ إِلَيَّ» قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا، فَأُذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا[صحيح البخاري 8/ 55]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں اگرکسی مخصوص گروہ کے اندرکوئی امتیازی خوبی ہوتی تھی تو اس امتیازی خوبی کے حوالے سے اس گروہ کانام رکھا جاتا تھا یعنی عہد رسالت میں جس طرح افراد کے نام رکھے جاتے تھے اسی طرح جماعات کے بھی نام رکھے جاتے تھے
ان دلائل سے اس بات کا ثبوت ملا کہ مسلمانوں کی کسی بھی گروہ میں اگر کوئی امتیازی خوبی ہے تو اس خوبی کے حوالہ سے اس کا نام رکھا جاسکتاہے۔
آج مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جس کے اندر یہ امتیازی خوبی ہے کہ وہ صرف حدیث (کتاب وسنت ) کی پیروی کرتا ہے چونکہ یہ اس گروہ کی امتیازی خوبی ہے اس لئے اس امتیازی خوبی کی بناپر اگراس گروہ کا نام اہل حدیث رکھا گیا تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
اب یہاں کسی کو یہ اعتراض کرنے کاحق نہیں ہے کہ بعینہ یہی نام قران یا حدیث میں دکھا ؤ ، کیونکہ اگر یہ اعتراض بجاہے تو یہی اعتراض فرد کے ناموں پر بھی وارد ہوگا، اور ہر وہ نام غلط قرار پائے گا جس کا ہو بہو ذکر قران وحدیث میں نہ ہو ۔
اب اگر فرد کے ناموں پر اس طرح کا اعتراض غلط ہے تو جماعت کے ناموں پر بھی اس طرح کا اعتراض غلط ہے، اوردونوں کی وجہ ایک ہی ہے۔
ایک ہی جماعت کے کئی نام:
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل حدیث کے کئی نام ہیں ، مثلا اہل حدیث ، سلفی ، محمدی وغیرہ ، لہٰذا ایہ لوگ مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
عرض ہے کہ ایک ہی چیز کے کئی نام ہونا اس کے تعدد کی دلیل نہیں ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی کئی نام ہیں پھر کیا یہ الگ الگ نبیوں کے نام ہیں ، بلکہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں تو کیا یہ بھی الگ الگ الہ کے نام ہیں ، ہرگز نہیں ۔
غرض یہ کہ کسی چیز کے ایک سے زائد نام رکھنے سے اس کا تعدد لازم نہیں آتا۔
قران نے مسلم نام رکھا:
بعض لوگوں کہتے ہیں قران نے ہمارا نام مسلم رکھاہے، اللہ کا ارشاد ہے:
{ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا} [الحج: 78]
عرض ہے کہ اس آیت میں بے شک قران نے ہمارا نام مسلم رکھا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس آیت میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا نام صرف اورصرف مسلم ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرانام نہیں رکھ سکتے ۔
خود اللہ نے مذکورہ آیت میں ہمیں اور ہم سے پہلے لوگوں کا نام مسلم بتایا ہے اوراللہ نے ہم سے پہلے لوگوں میں سے ایک گروہ کو اسی قران میں اہل الانجیل بھی کہا ہے ، ارشاد ہے:
{ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ } [المائدة: 47]۔
اورصحابہ میں سے ایک گروہ کو مہاجر اور ایک گروہ کو انصار بھی کہا ہے ارشاد ہے:
{ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ } [التوبة: 117]۔
معلوم ہوا کہ مسلم نام کے ساتھ ساتھ دوسرے نام بھی رکھے جاسکتے ہیں۔
اوراگریہ مان لیا جائے کہ اس آیت میں مسلم نام رکھا گیا ہے اب اس کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں رکھ سکتے تو یہ اعتراض فرد کے ناموں پر بھی وارد ہوگا !!!
یعنی اب کوئی بھی مسلم اپنے لئےمسلم کے علاوہ کوئی اورنام نہیں منتخب کرسکتا مثلا خورشید ، انجم ، وغیرہ۔
اگرکہا جائے کہ فرد کے نام رکھنے کے دلائل موجود ہیں تو عرض ہے کہ جماعت کے نام رکھنے کے دلائل بھی موجود ہیں جیساکہ اوپر تفصیل پیش کی گئی۔
خلاص کلام یہ کہ جس طرح فرد کا نام رکھنا قران وحدیث سے ثابت ہے اس طرح جماعت کا نام رکھنا بھی قران وحدیث سے ثابت ہے ۔
اورجس طرح فرد کے نام کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجود ہو۔
اسی طرح جماعت کے نام کے صحیح ہونے کے لئے بھی ضروری نہیں کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجود ہو۔
البتہ فرد اورجماعت دونوں کے نام میں یہ ضروری ہے کہ یہ قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔
اوراہل حدیث نام قران وحدیث کی کسی بھی تعلیم کے خلاف نہیں ، لہٰذا اس نام پر اعتراض لغو ہے۔
اکثر لوگ اس بنیاد سے غافل ہیں اوریہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نام کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجودہو، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے اور بعض شاطر ذہن کی مغالطہ بازی بھی ہے۔
جماعت کے ناموں پر ہم بعد میں بات کریں گے ، سب پہلے فرد کے ناموں کا مسئلہ لیتے ہیں۔
فرد کا نام
قران و حدیث میں فرد کے ناموں کا تذکرہ ملتاہے:
قران :
مثلا اللہ تعالی قران میں کہتاہے:
{ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا } [الأحزاب: 37]۔
احادیث:
اور احادیث بے شمار ہیں جن میں فرد کے ناموں کا تذکرہ ہے۔
ہمارے یہاں آئے دن افراد کے نام رکھے جاتے ہیں اور اس بات کا بھی لحاظ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ نام قران وحدیث کے مطابق ہو اسی لئے لوگ نام رکھتے وقت اکثر علماء سے سوال کرتے رہتے ہیں، اوربعض ناموں کو علماء کے سامنے رکھ کر پوچھتے ہیں کہ یہ نام صحیح ہے یا غلط ؟ اور اہل علم الحمدللہ اس کاجواب بھی دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ جب فرد کے نام کامسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کے صحیح یا غلط کا فیصلہ کیسے ہوتا ہے۔
کیا ہراس نام کو غلط کہہ دیا جاتا ہے جس کا وجود قران وحدیث میں نہ ہو ؟؟
یا اس نام کو غلط کہا جاتا ہے جو قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہو ؟؟؟
یقینا دوسری صورت ہی پر عمل ہوتا ہے یعنی نام کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس کا نام قران وحدیث میں ہے یا نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ نام قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے یا نہیں ۔
چنانچہ ہراس نام کواہل علم کی طرف سے صحیح کہا جاتا ہے جو قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ، گرچہ اس نام کا قران وحدیث یاعہدصحابہ میں اثر ونشان تک نہ ، حتی کہ ایسے ناموں کو بھی صحیح اور درست تسلیم کیا جاتا ہے جو سرے سے عربی زبان کے الفاظ ہی نہیں ہوتے بلکہ کسی اور زبان کے الفاظ ہوتےہیں۔
سوال یہ ہے کہ فرد کے نام کے سلسلے میں ایسا کیوں؟ یہاں پر یہ مطالبہ کیوں نہیں کہ بعینہ اسی نام کا قران وحدیث میں ہونا ضروری ہے؟؟
جواب اس کا یہ ہے کہ عہدرسالت میں فرد کے ناموں کے سلسلے میں ایساہی عمل تھا یعنی صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ فرد کا نام اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہو ، چنانچہ جو نام اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتے تھے انہیں تبدیل کردیا جاتا تھا اورجونام ایسے نہ ہوتے تھے انہیں صحیح تسلیم کیا جاتا تھا۔
جماعت کانام
قران وحدیث میں جماعتی ناموں کا بھی تذکرہ ملتاہے:
قران :
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ }[التوبة: 117]۔
احادیث:
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عہدرسالت میں جماعتی نام بھی رکھے جاتے تھے یعنی عہد رسالت میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی گروہ کے اندر کوئی خاص خوبی ہے تو اس خوبی کے حوالے سے ان کا نام رکھا جاتا تھا، مثلا چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
اہل الہجرہ:
عن مُجَاشِعٌ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَخِي بَعْدَ الفَتْحِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُكَ بِأَخِي لِتُبَايِعَهُ عَلَى الهِجْرَةِ. قَالَ: «ذَهَبَ أَهْلُ الهِجْرَةِ بِمَا فِيهَا» . فَقُلْتُ: " عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُبَايِعُهُ؟ قَالَ: «أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلاَمِ، وَالإِيمَانِ، وَالجِهَادِ» فَلَقِيتُ مَعْبَدًا بَعْدُ، وَكَانَ أَكْبَرَهُمَا، فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: «صَدَقَ مُجَاشِعٌ»[صحيح البخاري 5/ 152]
اہل بدر:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ "[صحيح البخاري 4/ 76]
اہل احد:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلاَتَهُ عَلَى المَيِّتِ[صحيح البخاري 4/ 198]
اہل الصفہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ لَبَنًا فِي قَدَحٍ، فَقَالَ: «أَبَا هِرٍّ، الحَقْ أَهْلَ الصُّفَّةِ فَادْعُهُمْ إِلَيَّ» قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فَدَعَوْتُهُمْ، فَأَقْبَلُوا فَاسْتَأْذَنُوا، فَأُذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا[صحيح البخاري 8/ 55]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں اگرکسی مخصوص گروہ کے اندرکوئی امتیازی خوبی ہوتی تھی تو اس امتیازی خوبی کے حوالے سے اس گروہ کانام رکھا جاتا تھا یعنی عہد رسالت میں جس طرح افراد کے نام رکھے جاتے تھے اسی طرح جماعات کے بھی نام رکھے جاتے تھے
ان دلائل سے اس بات کا ثبوت ملا کہ مسلمانوں کی کسی بھی گروہ میں اگر کوئی امتیازی خوبی ہے تو اس خوبی کے حوالہ سے اس کا نام رکھا جاسکتاہے۔
آج مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ہے جس کے اندر یہ امتیازی خوبی ہے کہ وہ صرف حدیث (کتاب وسنت ) کی پیروی کرتا ہے چونکہ یہ اس گروہ کی امتیازی خوبی ہے اس لئے اس امتیازی خوبی کی بناپر اگراس گروہ کا نام اہل حدیث رکھا گیا تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
اب یہاں کسی کو یہ اعتراض کرنے کاحق نہیں ہے کہ بعینہ یہی نام قران یا حدیث میں دکھا ؤ ، کیونکہ اگر یہ اعتراض بجاہے تو یہی اعتراض فرد کے ناموں پر بھی وارد ہوگا، اور ہر وہ نام غلط قرار پائے گا جس کا ہو بہو ذکر قران وحدیث میں نہ ہو ۔
اب اگر فرد کے ناموں پر اس طرح کا اعتراض غلط ہے تو جماعت کے ناموں پر بھی اس طرح کا اعتراض غلط ہے، اوردونوں کی وجہ ایک ہی ہے۔
چندشبہات کا ازالہ
ایک ہی جماعت کے کئی نام:
کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اہل حدیث کے کئی نام ہیں ، مثلا اہل حدیث ، سلفی ، محمدی وغیرہ ، لہٰذا ایہ لوگ مختلف ٹولیوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
عرض ہے کہ ایک ہی چیز کے کئی نام ہونا اس کے تعدد کی دلیل نہیں ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی کئی نام ہیں پھر کیا یہ الگ الگ نبیوں کے نام ہیں ، بلکہ اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں تو کیا یہ بھی الگ الگ الہ کے نام ہیں ، ہرگز نہیں ۔
غرض یہ کہ کسی چیز کے ایک سے زائد نام رکھنے سے اس کا تعدد لازم نہیں آتا۔
قران نے مسلم نام رکھا:
بعض لوگوں کہتے ہیں قران نے ہمارا نام مسلم رکھاہے، اللہ کا ارشاد ہے:
{ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَذَا} [الحج: 78]
عرض ہے کہ اس آیت میں بے شک قران نے ہمارا نام مسلم رکھا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس آیت میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا نام صرف اورصرف مسلم ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرانام نہیں رکھ سکتے ۔
خود اللہ نے مذکورہ آیت میں ہمیں اور ہم سے پہلے لوگوں کا نام مسلم بتایا ہے اوراللہ نے ہم سے پہلے لوگوں میں سے ایک گروہ کو اسی قران میں اہل الانجیل بھی کہا ہے ، ارشاد ہے:
{ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ } [المائدة: 47]۔
اورصحابہ میں سے ایک گروہ کو مہاجر اور ایک گروہ کو انصار بھی کہا ہے ارشاد ہے:
{ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ } [التوبة: 117]۔
معلوم ہوا کہ مسلم نام کے ساتھ ساتھ دوسرے نام بھی رکھے جاسکتے ہیں۔
اوراگریہ مان لیا جائے کہ اس آیت میں مسلم نام رکھا گیا ہے اب اس کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں رکھ سکتے تو یہ اعتراض فرد کے ناموں پر بھی وارد ہوگا !!!
یعنی اب کوئی بھی مسلم اپنے لئےمسلم کے علاوہ کوئی اورنام نہیں منتخب کرسکتا مثلا خورشید ، انجم ، وغیرہ۔
اگرکہا جائے کہ فرد کے نام رکھنے کے دلائل موجود ہیں تو عرض ہے کہ جماعت کے نام رکھنے کے دلائل بھی موجود ہیں جیساکہ اوپر تفصیل پیش کی گئی۔
خلاص کلام یہ کہ جس طرح فرد کا نام رکھنا قران وحدیث سے ثابت ہے اس طرح جماعت کا نام رکھنا بھی قران وحدیث سے ثابت ہے ۔
اورجس طرح فرد کے نام کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجود ہو۔
اسی طرح جماعت کے نام کے صحیح ہونے کے لئے بھی ضروری نہیں کہ بعینہ وہی نام قران وحدیث میں موجود ہو۔
البتہ فرد اورجماعت دونوں کے نام میں یہ ضروری ہے کہ یہ قران وحدیث کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔
اوراہل حدیث نام قران وحدیث کی کسی بھی تعلیم کے خلاف نہیں ، لہٰذا اس نام پر اعتراض لغو ہے۔
جزاک اللہ خیرا ....................
ReplyDelete