انکارِ حدیث کرنے والوں کے اعتراضات اور ان کے جوابات
مکرمی جناب
شیخ محمد اقبال صاحب السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
آپ کی کتاب
انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات کا مطالعہ کیا تو چند اشکالات ذہن میں آئے جن
کو رفع کرنے کے لئے یہ خط تحریر کر رہا ہوں برائے مہربانی تشنگی دور کر دیجئے۔
کتاب ھٰذا کے صفحہ نمبر 13پر آپ نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی منزل من اﷲ کہا ہے۔ آپ نے تحریر کیا ہے کہ (یہ بات تو واضح
ہو گئی کہ قرآن کی طرح سنت و حدیث بھی منزل من اﷲ اور وحی الٰہی ہے فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآن کریم کا مضمون بھی ربانی ہے
اور الفاظ بھی ربانی ہیں جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مضمون تو ربانی ہے مگر
الفاظ ربانی نہیں ہیں) اس سلسلے
میں عرض ہے کہ قرآن میں اگر کوئی ایسی بات کہی گئی
ہے کہ دونوں ہی ربانی ہیں تو وہ آیت تحریر کر دیجئے ہاں ایک بات ذہن میں رہے کہ آپ
ی کتاب کے صفحہ نمبر 12 میں ’’حکمت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے جو آپ نے سورۂ احزاب کی
آیت کے حوالے سے بات کی ہے کہ اللہ کی آیات سے مراد تو قرآن اور حکمت سے مراد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں ہوتی تھیں تو اس بات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ
قرآن حکیم میں صرف آیات ہوتی ہیں اور حکمت صرف فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے
یعنی قرآن (نعوذ) حکمت سے خالی ہے لہٰذا آپ کی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیوں کہ قرآن
میں ہے کہ ’’یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدعا صاف صاف بیان کرتی ہے سورۂ یوسف
آیت نمبر1۔ اس آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو آیات اور حکمت کا چونکہ ساتھ ساتھ
ذکر ہوا ہے لہٰذا دونوں ہی من جانب اللہ ہیں۔ علاوہ ازیں سورۃ الحاقۃ میں قرآن کو
ہی رسول کریم کا قول کہا گیا ہے۔ آیت نمبر40۔
مزید یہ کہ
قرآن کے متعلق فرمانِ ربی ہے کہ: ’’کیا یہ لوگ
قرآن پر غور نہیں کرتے اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت
کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی‘‘۔ (82/4)۔ یہاں ایک
بات اور واضح کر رہا ہوں کہ چونکہ رسول کا تعلق براہِ راست رب سے ہوتا ہے لہٰذا
رسول کی بات میں بھی تضاد نہیں ہو سکتا۔ ہاں جو باتیں دوسرے لوگ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم سے منسوب کر دیتے ہیں وہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی
نہیں ہوتیں بلکہ منسوبہ ہوتی ہیں لہٰذا ان میں تضاد و تخالف کثرت سے ملتا ہے ایسی
چند احادیث
ذیل میں
صحیح بخاری سے پیش کی جا رہی ہیں برائے مہربانی یہ بتائیے گا کہ کیا متضاد احادیث
بھی منزل من اللہ ہیں اور یہ مان لیا جائے تو کیا ایمان باقی رہ جاتا ہے؟
1۔ جدید بخاری شریف جلد دوم صفحہ 73 حدیث نمبر116 کتاب الجہاد و السیر پارہ نمبر11 علم و عرفان پبلشرز 34، اردو بازار لاہور۔
ہم سے علی بن حفص نے حدیث بیان کی، ان سے ابن المبارک نے حدیث بیان کی، انہیں طلحہ بن ابی سعید نے خبر دی کہ میں نے سعید مقری سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ابوہریرہؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ اور ان کے وعدہ کو سچا جانتے ہوئے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا بول و براز سب قیامت کے دن اس کی میزان میں ہو گا (یعنی سب پر ثواب ملے گا)۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 74 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر121 مطبوعہ ھٰذا
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، انہیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے: گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔
برائے مہربانی اس بات کو واضح کر دیجئے کہ اگر دونوں ہی احادیث من جانب اللہ نازل ہوئی ہیں تو دونوں میں تضاد کیوں ہے اور یہ کہ نحوست کی تین چیزوں میں صرف کا لفظ استعمال ہوا ہے اور گھوڑے کے علاوہ نحوست عورت اور گھر میں بتائی جا رہی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گھر بھی تھے اور کئی عورتیں بطور ازواج مطہرات اور باندیاں بھی تھیں کیا منحوس ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ چیزیں تھیں ایک طرف تو رب ان چیزوں کو اگر حدیث کو منزل من اللہ تسلیم کیا جائے تو منحوس کہہ رہا ہے اور گھوڑے کو مبارک بھی کہہ رہا ہے اور دوسری جانب قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے اشکال رفع کیجئے۔
2۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 80 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 138مطبوعہ ھٰذا ہم سے محمد بن کثیر نے حدیث بیان کی انہیں سفیان نے خبر دی انہیں معاویہ بن اسحاق نے انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور ان سے اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی اور ان سے معاویہ نے یہی حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 82 پارہ نمبر 11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر144۔ ہم سے علی بن عبداللہ نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن فضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی، ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ (غزوہ) میں شریک ہوئے تھے (مسلمان) زخمیوں کو پانی پلاتے تھے اور جو لوگ شہید ہو جاتے تھے ن کو مدینہ اٹھا کر لاتے تھے۔
حدیث نمبر 145 اس طرح ہے کہ ہم سے مسدود نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن مفضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوے میں شریک ہوئے تھے، مسلمانوں کو پانی پلاتے تھے ان کی خدمت کرتے تھے اور زخمیوں اور شہیدوں کو مدینہ منتقل کرتے تھے۔
جناب مولف صاحب جہاد کی ان تینوں احادیث میں جو تضاد ہے کیا یہ بھی منزل من اللہ ہے؟ کیا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ (نعوذ) اپنے فیصلے تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ تصور تو اہل تشیوع کا ہے کہ (نعوذ) اللہ کو بداء ہوتا ہے جبکہ رب ہر خامی سے پاک ہے۔
3۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔
بخاری جلد دوم صفحہ 311 پارہ نمبر14 کتاب المناقب حدیث نمبر706۔ 707۔
ہم سے قیس بن حفص نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے حدیث بیان کی ان سے کلیب بن وائل نے حدیث بیان کی کہا مجھ سے زینب بنت ابی سلمہ نے بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر پرورش رہ چکی تھیں کلیب نے بیان کیا میں نے آپ سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا پھر کسی سے تھا یقیناًآنحضور مضر کی شاخ بنی النضر بن کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حدیث نمبر707۔ ہم سے موسیٰ نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے بیان کی ان سے کلیب نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دباء و خنتم نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ آنحضور کا تعلق کس قبیلے سے تھا کیا واقعی آپ کا تعلق مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ پھر اور کس سے ہو سکتا ہے یقیناًآپ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا اپ نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔
جناب مولف صاحب کیا آپ بھی آنحضور کو قریش قبیلہ کے بجائے مضر قبیلہ کا فرد مانتے ہیں اور یہ بھی منزل من اللہ ہے اشکال رفع کیجئے۔
4۔ بخاری جلد دوم صفحہ 151 پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 314۔
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے غندر نے حدیث بیان کی ان سے شعبہ نے حدیث بیان کی ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسن بن علیؓ نے صدقہ کی کھجور میں سے (جو بیت المال میں آئی تھی) ایک کھجور اٹھا لی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ کخ کخ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ ابوعبداللہ نے فرمایا کہ اس عورت یعنی اُم خالد کے برابر کی عورت کی عمر نہیں ہوئی۔
نوٹ کیا یہ بات بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منزل من اللہ کہی کیا حسن بن علی فارسی زبان سمجھتے تھے اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فاطمہؓ کے گھر میں فارسی بولتے تھے کیا رب نے آنحضور کو ہدایت کی تھی کہ آپ بچے سے فارسی زبان بولیں۔
5۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 149۔ 148۔ پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 307
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے ابن عددی نے حدیث بیان کی اور سہل بن یوسف نے حدیث بیان کی ان سے سعید نے ان سے قتادہ نے اور ان سے انسؓ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رعل ذکوان عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور یقین دلایا کہ وہ لوگ اسلام لا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کو (اسلامی تعلیمات سمجھانے کے لئے) آپ سے مدد چاہی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر انصار ان کے ساتھ کر دیئے۔ انسؓ نے بیان کیا کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے یہ حضرات ان قبیلہ والوں کے ساتھ چلے گئے لیکن جب بئر معونہ پر پہنچے تو انہوں نے ان صحابہ کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں شہید کر ڈالا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہینہ تک (نماز میں) قنوت پڑھی تھی اور علی ذکوان اور بنو لحیان کے لئے بدعا کی تھی۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہم سے انسؓ نے فرمایا کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ) ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔
جناب مولف صاحب اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے یقیناًپہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان لوگوں نے (نعوذ) اللہ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے اس کے علاوہ قرآن میں جس آیت کی منسوخی کے بارے میں حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اللہ تھی کیونکہ پورا کا پورا قرآن اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا کلام انسانی ہے رب یہ کیسے کہہ سکتا کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے۔۔۔ اگر رب نے یہ آیت نال کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے۔ یہ اشکالات رفع کر دیجئے نوازش ہو گی۔
محترم مولف صاحب پہلا خط لکھ رہا ہوں اسے علاوہ بہت سی احادیث میں اشکال ہے وہ بعد میں لکھوں گا جواب کا منتظر: عبدالمالک خاں۔ صلی اللہ علیہ و سلم -4 پوسٹل کالونی سائٹ کراچی۔
تاریخ:5-11-07۔
1۔ جدید بخاری شریف جلد دوم صفحہ 73 حدیث نمبر116 کتاب الجہاد و السیر پارہ نمبر11 علم و عرفان پبلشرز 34، اردو بازار لاہور۔
ہم سے علی بن حفص نے حدیث بیان کی، ان سے ابن المبارک نے حدیث بیان کی، انہیں طلحہ بن ابی سعید نے خبر دی کہ میں نے سعید مقری سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ انہوں نے ابوہریرہؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ اور ان کے وعدہ کو سچا جانتے ہوئے اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) گھوڑا پالا تو اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا بول و براز سب قیامت کے دن اس کی میزان میں ہو گا (یعنی سب پر ثواب ملے گا)۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 74 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر121 مطبوعہ ھٰذا
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، انہیں شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، آپ نے فرمایا تھا کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے: گھوڑے میں عورت میں اور گھر میں۔
برائے مہربانی اس بات کو واضح کر دیجئے کہ اگر دونوں ہی احادیث من جانب اللہ نازل ہوئی ہیں تو دونوں میں تضاد کیوں ہے اور یہ کہ نحوست کی تین چیزوں میں صرف کا لفظ استعمال ہوا ہے اور گھوڑے کے علاوہ نحوست عورت اور گھر میں بتائی جا رہی ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گھر بھی تھے اور کئی عورتیں بطور ازواج مطہرات اور باندیاں بھی تھیں کیا منحوس ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ چیزیں تھیں ایک طرف تو رب ان چیزوں کو اگر حدیث کو منزل من اللہ تسلیم کیا جائے تو منحوس کہہ رہا ہے اور گھوڑے کو مبارک بھی کہہ رہا ہے اور دوسری جانب قرآن میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے اشکال رفع کیجئے۔
2۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 80 پارہ نمبر11 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 138مطبوعہ ھٰذا ہم سے محمد بن کثیر نے حدیث بیان کی انہیں سفیان نے خبر دی انہیں معاویہ بن اسحاق نے انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور ان سے اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی اور ان سے معاویہ نے یہی حدیث بیان کی۔
صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 82 پارہ نمبر 11 کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر144۔ ہم سے علی بن عبداللہ نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن فضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی، ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ (غزوہ) میں شریک ہوئے تھے (مسلمان) زخمیوں کو پانی پلاتے تھے اور جو لوگ شہید ہو جاتے تھے ن کو مدینہ اٹھا کر لاتے تھے۔
حدیث نمبر 145 اس طرح ہے کہ ہم سے مسدود نے حدیث بیان کی ان سے بشر بن مفضل نے حدیث بیان کی، ان سے خالد بن ذکوان نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیع بنت معوذ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ غزوے میں شریک ہوئے تھے، مسلمانوں کو پانی پلاتے تھے ان کی خدمت کرتے تھے اور زخمیوں اور شہیدوں کو مدینہ منتقل کرتے تھے۔
جناب مولف صاحب جہاد کی ان تینوں احادیث میں جو تضاد ہے کیا یہ بھی منزل من اللہ ہے؟ کیا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ (نعوذ) اپنے فیصلے تبدیل کرتا رہتا ہے۔ یہ تصور تو اہل تشیوع کا ہے کہ (نعوذ) اللہ کو بداء ہوتا ہے جبکہ رب ہر خامی سے پاک ہے۔
3۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔
بخاری جلد دوم صفحہ 311 پارہ نمبر14 کتاب المناقب حدیث نمبر706۔ 707۔
ہم سے قیس بن حفص نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے حدیث بیان کی ان سے کلیب بن وائل نے حدیث بیان کی کہا مجھ سے زینب بنت ابی سلمہ نے بیان کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر پرورش رہ چکی تھیں کلیب نے بیان کیا میں نے آپ سے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا پھر کسی سے تھا یقیناًآنحضور مضر کی شاخ بنی النضر بن کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔
حدیث نمبر707۔ ہم سے موسیٰ نے حدیث بیان کی ان سے عبدالواحد نے بیان کی ان سے کلیب نے حدیث بیان کی اور ان سے ربیعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دباء و خنتم نقیر اور مزفت کے استعمال سے منع فرمایا تھا اور میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ مجھے بتائیے کہ آنحضور کا تعلق کس قبیلے سے تھا کیا واقعی آپ کا تعلق مضر سے تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ پھر اور کس سے ہو سکتا ہے یقیناًآپ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا اپ نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔
جناب مولف صاحب کیا آپ بھی آنحضور کو قریش قبیلہ کے بجائے مضر قبیلہ کا فرد مانتے ہیں اور یہ بھی منزل من اللہ ہے اشکال رفع کیجئے۔
4۔ بخاری جلد دوم صفحہ 151 پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 314۔
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے غندر نے حدیث بیان کی ان سے شعبہ نے حدیث بیان کی ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسن بن علیؓ نے صدقہ کی کھجور میں سے (جو بیت المال میں آئی تھی) ایک کھجور اٹھا لی اور اپنے منہ کے قریب لے گئے لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فارسی زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ کخ کخ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔ ابوعبداللہ نے فرمایا کہ اس عورت یعنی اُم خالد کے برابر کی عورت کی عمر نہیں ہوئی۔
نوٹ کیا یہ بات بھی رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے منزل من اللہ کہی کیا حسن بن علی فارسی زبان سمجھتے تھے اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فاطمہؓ کے گھر میں فارسی بولتے تھے کیا رب نے آنحضور کو ہدایت کی تھی کہ آپ بچے سے فارسی زبان بولیں۔
5۔ صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 149۔ 148۔ پارہ نمبر12 کتاب الجہاد و السیر حدیث نمبر 307
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی ان سے ابن عددی نے حدیث بیان کی اور سہل بن یوسف نے حدیث بیان کی ان سے سعید نے ان سے قتادہ نے اور ان سے انسؓ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رعل ذکوان عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور یقین دلایا کہ وہ لوگ اسلام لا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کو (اسلامی تعلیمات سمجھانے کے لئے) آپ سے مدد چاہی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر انصار ان کے ساتھ کر دیئے۔ انسؓ نے بیان کیا کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے یہ حضرات ان قبیلہ والوں کے ساتھ چلے گئے لیکن جب بئر معونہ پر پہنچے تو انہوں نے ان صحابہ کے ساتھ دھوکہ کیا اور انہیں شہید کر ڈالا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مہینہ تک (نماز میں) قنوت پڑھی تھی اور علی ذکوان اور بنو لحیان کے لئے بدعا کی تھی۔ قتادہ نے بیان کیا کہ ہم سے انسؓ نے فرمایا کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ) ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی۔
جناب مولف صاحب اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے یقیناًپہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان لوگوں نے (نعوذ) اللہ کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے اس کے علاوہ قرآن میں جس آیت کی منسوخی کے بارے میں حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اللہ تھی کیونکہ پورا کا پورا قرآن اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا کلام انسانی ہے رب یہ کیسے کہہ سکتا کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے۔۔۔ اگر رب نے یہ آیت نال کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے۔ یہ اشکالات رفع کر دیجئے نوازش ہو گی۔
محترم مولف صاحب پہلا خط لکھ رہا ہوں اسے علاوہ بہت سی احادیث میں اشکال ہے وہ بعد میں لکھوں گا جواب کا منتظر: عبدالمالک خاں۔ صلی اللہ علیہ و سلم -4 پوسٹل کالونی سائٹ کراچی۔
تاریخ:5-11-07۔
بسم اﷲ الرحمن
الرحیم
جناب
عبدالمالک خان صاحب
السلام علیکم
۔
آپ نے
انکارِ حدیث کرنے والوں سے 50 سوالات کا مطالعہ کیا تو آپ کے ذہن میں چند اشکالات
آئے جن کی وضاحت کے لئے آپ نے خط تحریر کیا۔ آپ کو ان شاء اللہ العزیز ان اشکالات
کے جوابات مل جائیں گے جو کہ آئندہ سطروں میں تحریر ہیں مگر ہماری آپ سے گذارش ہے
کہ آپ نے اپنے اشکالات تو تحریری صورت میں بھیج دیئے مگر جو 50 سوالات اُس رسالے
میں درج ہیں آپ نے اُن میں سے ایک کا بھی جواب نہیں بھیجا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا
کہ آپ اُن سوالات کے جوابات ہم کو ارسال کرتے اور پھر اپنے ان سوالات کے جوابات
طلب کرتے۔ مگر آپ نے ایسا نہ کیا کیونکہ کسی بھی انکارِ حدیث کرنے والے کے پاس ان
سوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ اور حق یہ ہی ہے کہ ہم قرآن اور حدیث پر عمل کرنے کے پابند
ہیں۔ یہ ہی ہمارا دین ہے اور یہ ہی اللہ رب العزت نے نازل کیا ہے۔
اب آپ کے
اعتراضات کے جوابات پیش خدمت ہیں۔
اعتراض
نمبر1۔ آپ نے فرمایا کہ
حدیث اگر منزل من اﷲ ہے تو کوئی آیت تحریر کر دیں۔
جواب: انکارِ حدیث والوں کا اصل اعتراض ہی یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کے فرامین کو وحی نہیں مانتے۔ جب وہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو
وحی نہیں مانتے تو پھر وہ اُس کو دین بھی نہیں مانتے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کا اِرشاد بھی اللہ کی وحی ہے۔ جیسا کہ قرآنی آیات سے واضح ہے۔ اگر
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی نہ مانا جائے تو قرآن کا انکار ہوتا ہے۔
دیکھئے:
1 اللہ
تعالیٰ نے فرمایا:
وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی (النجم:4-3)
اور نہ وہ
اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی خواہش سے بات نہیں
کرتے بلکہ وحی کے ذریعے کلام کرتے ہیں۔
2 اللہ رب
العالمین کا اِرشاد گرامی ہے:
مَا
قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَۃٍ اَوْ تَرَکْتُمُوْھَا قَآءِمَۃً عَلآی اُصُوْلِھَا
فَبِاِذْنِ اﷲِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
جو درخت تم
نے کاٹے اور جو چھوڑ دیئے سب اللہ کے حکم سے تھا۔ (الحشر:۵)۔
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ درخت اللہ کے حکم سے کاٹے گئے تھے اور ہر حکم قرآن میں موجود نہیں
ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی اور وہ فرمان رسول صلی
اللہ علیہ و سلم کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
3 رب
العالمین فرماتا ہے:
وَ مَا
جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ
یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ (سورۃ البقرۃ:۱۳)۔
اور اس
قبلہ (یعنی بیت المقدس) کو جس پر آپ اس وقت ہیں، ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم
جان لیں کون رسول کی اتباع کرتا ہے۔
بیت المقدس
کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں لہٰذا یہ حکم بذریعہ وحی خفی
تھا۔ واضح ہو کہ اس آیت میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے کیونکہ اس سے آگے ارشاد ہے:
فَلَنُوَلِّیَنَّکَ
قِبْلَۃً تَرْضٰھَا
ہم عنقریب
اُس قبلہ کی طرف آپ کو موڑ دیں گے جس قبلہ کی آپ کو خواہش ہے۔
یعنی مسجد
الحرام کی طرف منہ کرنے کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔
4 احکم
الحاکمین لم یزل عزوجل نے فرمایا ہے:
فَلَمَّا
نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَاَکَما ھٰذَا قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ
الْخَبِیْرُ
پس جب نبی صلی
اللہ علیہ و سلم نے اس بیوی سے اس بات کا ذکر کیا تو بیوی نے پوچھا کہ آپ کو کس نے
خبر دی؟ نبی نے فرمایا: مجھ کو اس علیم و خبیر نے خبر دی۔ (التحریم:۳)
قرآن مجید
میں کہیں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مطلع کیا کہ فلاں بی بی نے تمہارا
راز ظاہر کر دیا۔ پھر علیم و خبیر اللہ نے کس طرح خبر دیا؟ ظاہر ہے وحی خفی کے
ذریعہ یعنی وحی خفی ہی حدیث ہے۔
5 اللہ
ذوالجلال والاکرام نے اِرشاد فرمایا:
اَلَمْ تَرَ
اِلَی الَّذِیْنَ نُھُوْا عَنِ النَّجْوٰی ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا نُھُوْا
عَنْہُ
کیا آپ نے
ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشی سے منع کر دیا گیا تھا لیکن وہ اب بھی وہی
کام کر رہے ہیں۔ (سورۂ مجادلہ:)۔
اس آیت کے
نزول سے پہلے سرگوشی سے منع کیا گیا ہو گالیکن ممانعت کا حکم قرآن مجید میں اس آیت
کے بعد ہے۔ پس ثابت ہوا کہ پہلے بذریعہ وحی خفی منع کیا گیا تھا۔
6 اللہ
تعالیٰ نے اہلیہ کے خصوصی تعلقات کے حوالے سے فرمایا:
اُحِلَّ
لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ (البقرۃ:۱۸۷)
اب تم رمضان
کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مل سکتے ہو۔
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ پہلے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا منع تھا لیکن ممانعت کا
حکم قرآن مجید میں کہیں نہیں۔ لہٰذا یہ حکم بذریعہ وحی خفی نازل ہوا تھا اور حدیث
وحی خفی ہوئی۔
7 اللہ
تعالیٰ نے اپنی خاص کتاب اور حکمت کا تذکرہ یوں فرمایا:
وَ اَنْزَلَ
اﷲُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ (النساء:۱۱۳)
اللہ
تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی۔
حکمت اقوال
رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں۔ قرآن میں شفاء بھی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ
نہیں فرمایا کہ آپ پر کتاب اور شفاء نازل کی۔ اسی طرح قرآن میں بھی حکمت ہے مگر
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حکمت کو علیحدہ کر کے بیان کیا جو کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کے فرامین ہیں۔
8 اللہ
احکم الحاکمین نے ارشاد فرمایا:
قَاتِلُوا
الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَا
یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اﷲُ وَرَسُوْلُہٗ (توبہ:۲۹)
ان لوگوں
سے لڑو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے جو اللہ اور اس کے رسول کی
حرام کردہ شے کو حرام نہیں جانتے۔
چنانچہ آپ
لوگوں کے مطابق: اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء تو قرآن مجید میں موجود ہیں۔ لیکن
جو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام کی ہیں اُن کا تذکرہ قرآن میں
کہاں ہے؟اور جو چیزیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام قرار دی ہیں اور لوگ
اُنہیں حرام نہیں مانتے، تو اللہ تعالیٰ اُن لوگوں سے باقاعدہ اعلانِ جنگ کر رہا
ہے۔ معلوم ہوا کہ جو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام کی ہیں وہ بھی
وحی الٰہی پر مبنی ہیں۔ ثابت ہوا کہ حدیث بھی وحی ہے۔
9 رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے اور قوم کو خطاب کیا:
’’میں اللہ
کا رسول ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے بندوں کی طرف مبعوث کیا ہے کہ میں انہیں اس بات
کی دعوت دوں کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ ذرا سا بھی شرک نہ کرو۔ اور مجھ پر
اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی ہے‘‘۔ (مسند احمد)۔
اگر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مندرجہ بالا الفاظ حجت ہیں تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ
آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ بات آپ صلی
اللہ علیہ و سلم کو وحی خفی کے ذریعے بتائی گئی۔ اگر ان الفاظ کو وحی نہ سمجھا
جائے تو پھر آپ کا یہ دعویٰ کس بنیا پر تھا؟
اور جب آپ صلی
اللہ علیہ و سلم پر قرآن نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کے سامنے قرآن بیان۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس کی تشریح اور تفسیر
بھی بیان کی تو کیا کسی کے لئے جائز تھا کہ وہ اس تفسیر کو تسلیم کرنے سے انکار
کرے؟ کیا وہ کہہ سکتا تھا کہ آپ کی بیان کردہ آیت وحی ہے اور تفسیر وحی نہیں؟ آیت
صحیح ہے اور تفسیر غلط۔ (نعوذ باﷲ من ذلک)۔ بس آپ آیت سنا دیں تفسیر ہم خود کر لیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیثیت نبی اور رسول کی ہے۔ کسی ڈاکیا کی طرح
نہیں کہ ڈاکیا آیا، خط دیا اور چلا گیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن دیا
پھر اللہ کی مرضی کے مطابق قرآن پر عمل کیا جیسا کہ سورۂ یونس میں موجود ہے:
اِنْ
اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ (۱۵)۔
میں صرف
اُس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔
آپ صلی
اللہ علیہ و سلم کا عمل بھی وحی کے مطابق تھا اور اہل ایمان کے لئے آپ صلی اللہ
علیہ و سلم کی ذات کو بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا جیسا کہ سورۂ احزاب میں موجود
ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آتی تھی جس پر
آپ صلی اللہ علیہ و سلم عمل کرتے تھے۔
10 آپ نے
خود اپنے خط کے پہلے صفحے پر لکھا ہے کہ رسول کا تعلق براہِ راست رب سے ہوتا ہے
لہٰذا رسول کی بات میں تضاد نہیں ہو سکتا۔
ہم بھی یہ
ہی کہتے ہیں کہ رسول کا تعلق رب سے ہوتا ہے اور رب سے تعلق وحی کے ساتھ ہوتا ہے اور
وحی میں تضاد نہیں۔ اس وجہ سے رسول کی بات میں تضاد نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ
رسول کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔
تلک عشرۃ
کاملۃ
یہ دس
دلائل اس بات پر ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے۔ اب آپ
کے باقی اعتراضات کی طرف آتے ہیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ
جو باتیں دوسرے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منسوب کر دیتے ہیں وہ باتیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نہیں ہوتیں بلکہ منسوبہ ہوتی ہیں۔
ہم بھی یہی
کہتے ہیں کہ جو لوگ احادیث گھڑ کر بیان کرتے تھے یا کرتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم کی باتیں نہیں ہیں۔ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہتان ہے۔ جس کا
انجام جہنم ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ موضوع اور گھڑی ہوئی روایات کا
انکار کرتے ہوئے ہم اُن احادیث کا بھی انکار کر دیں جو کہ صحیح اسناد سے ہم تک پہنچی
ہیں۔ جو بھی حدیث صحیح سند سے ثابت ہے اُس کو ماننا پڑے گا۔ چاہے وہ ہماری عقل میں
آئے یا نہ آئے۔ حقیقت میں صحیح احادیث ایک دوسرے کے خلاف نہیں لیکن اگر بظاہر ایک دوسرے
کے خلاف ہم کو نظر آئیں اور ہم یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ دو حدیثیں ایک دوسرے کے
خلاف ہیں لہٰذا یہ دونوں صحیح نہیں، یہ رَوش اہل ایمان کی نہیں کیونکہ ثابت شدہ
بات کو ماننا پڑتا ہے جیسے قرآن مجید کی دو آیات اگر بظاہر ایک دوسرے کے خلاف ہوں
تو ہم تطبیق دے کر دونوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ انکارِ حدیث کرنے والوں سے پچاس
سوالات رسالے کے سوال نمبر چونتیس اور پینتیس کا دوبارہ مطالعہ کر لیں۔ ہم یہ نہیں
کہتے کہ بظاہر دونوں آیتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں اس وجہ سے ہم نہیں مانتے بلکہ ہم
دونوں آیات کو تسلیم کرتے ہیں اور ایمان کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ثابت شدہ چیزوں کو
مانا جائے۔
اعتراض
نمبر2۔ آپ نے صحیح احادیث کو ایک دوسرے کے خلاف ثابت
کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جبکہ احادیث جو کہ صحیح سند سے ثابت ہیں ایک دوسرے کے
خلاف نہیں۔ آپ نے صحیح بخاری کے حوالے سے لکھا کہ جس نے جہاد کے لئے گھوڑا پالا تو
اس گھوڑے کا کھانا پینا اور اس کا بول و براز سب قیامت کے دن اس کی میزان میں ہو
گا (یعنی سب پر ثواب ملے گا)
دوسری حدیث
نقل کی کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہے؛ گھوڑے میں، گھر میں اور عورت میں۔ (بخاری)۔
براہِ مہربانی اس بات کو واضح کر دیں کہ اگر دونوں ہی احادیث من جانب اللہ نازل
ہوئی ہیں تو دونوں میں تضاد کیوں ہے اور یہ کہ نحوست عورت اور گھر میں بتائی جارہی
ہے جبکہ آپ کے پاس گھر بھی تھے کئی عورتیں بطور ازواج مطہرات اور باندیاں بھی تھیں
کیا منحوس ہونے کے باوجود آپ کے پاس یہ چیزیں تھیں ایک طرف تو رب ان چیزوں کو اگر
حدیث کو منزل من اﷲ تسلیم کیا جائے تو منحوس کہہ رہا ہے اور گھوڑے کو مبارک بھی
کہہ رہا ہے اور دوسری جانب قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ملتی۔ اشکال رفع کریں۔ (آپ
کے خط کا صفحہ نمبر2 میں آپ کا احادیث پر اعتراض)۔
جواب اعتراض
نمبر2۔ آپ کا اشکال حقیقت میں غلط فہمی پر مبنی ہے۔
اس بات کو یوں سمجھیں جیسے کہ قرآن مجید میں ہے کہ:
1 تمہارے
مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ (سورۂ تغابن آیت نمبر ۱۵)۔
2 اے ایمان
والو تمہاری بیویاں اور اولاد تمہاری دشمن ہیں۔ (سورۂ تغابن آیت نمبر۱۴)۔
کیا ہر مال اور
اولاد انسان کے لئے فتنہ ہیں؟
کیا ہر بیوی اور
بچے انسان کے دشمن ہیں؟
ایک مقام
پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَّذِیْنَ
یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّھَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً
فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ
یَحْزَنُوْنَ (سورۂ بقرہ آیت ۲۷۴)
جو لوگ
اپنا مال خرچ کرتے ہیں دن رات کھلے اور چھپے ان کے لئے اجر ہے اُن کے رب کے نزدیک
نہ اُن پر خوف ہو گا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (سورۂ بقرہ آیت۲۷۴)۔
یہاں مال
خرچ کرنے پر فضیلت بتاتی ہے۔ اور انبیاء کو بھی اللہ نے اولاد دی جن میں بعض نبی
ہوئے جیسے اسماعیل علیہ السلام اور اسحق علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام ان کی
اولادوں کے بارے میں ہم کیا نظریہ رکھیں؟
ایک جگہ پر
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَاتِلُوْھُمْ
حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ (انفال:۳۹)
اور (کفار
و مشرکین سے) قتال کرتے رہو حتی کہ فتنہ ختم ہو جائے
مال اور
اولاد کو فتنہ کہا کیا مال اور اولاد ختم کرنے کے لئے بھی قتال کریں؟ ان آیات کو
پڑھ کر ہم کو کہنا پڑے گا کہ ہر مال، ہر بیوی اور ہر اولاد فتنہ نہیں ہے۔ ہر بیوی
اور اولاد دشمن نہیں ہے۔ بلکہ جو مال انسان کو اللہ کی راہ سے ہٹا کر شیطان کے
راستے پر لگا دے جو اولاد اُس کو دین سے دور کر دے جو بیوی اُس کے اور دین کے
درمیان حائل ہو جائے وہ اُس کے لئے فتنہ بھی ہے اور اُن کے دشمن بھی ہیں۔
اسی طرح
اگر انسان گھوڑا پالے اور اُس پر جوئے کھیلے، گھر کو فحاشی اور بے حیائی کا مرکز
بنالے اور عورت کے لئے دین پر عمل کرنا چھوڑ دے تو یہ چیزیں اُس کے لئے منحوس ہوتی
ہیں یا نہیں؟؟ ویسے اگر آپ صحیح بخاری کی اگلی حدیث پڑھتے اور تعصب کی نگاہ نہ رکھتے
تو آپ خود پڑھ لیتے۔ سہل بن سعد ساعدی t فرماتے ہیں کہ اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی
تو عورت، گھوڑا اور گھر میں ہوتی۔ (صحیح بخاری)۔
حدیث خود
اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ اگر نحوست ہوتی تو ان چیزوں میں ہوتی۔ جب حدیث نے
وضاحت کر دی تو پر فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کیوں؟؟؟
اعتراض
نمبر3۔ آپ نے خواتین کے جہاد سے متعلق تین احادیث نقل
کی ہیں کہ:
1 عائشہ r
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا تمہارا جہاد
حج ہے۔
2 ربیع بنت
معوذ r نے بیان کیا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ (غزوہ) میں شریک ہوئے
تھے (مسلمان) زخمیوں کو پانی پلاتے تھے اور جو لوگ شہید ہو جاتے تھے ان کو مدینہ
اٹھا کر لاتے تھے۔
3 دوسری
حدیث بھی ربیع بنت معوذ سے ہی روایت ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ان تینوں احادیث میں جو
تضاد ہے کیا یہ بھی منزل من اﷲ ہے؟ کیا اللہ وقت کے ساتھ ساتھ (نعوذ باﷲ) اپنے فیصلے
تبدیل کرتا رہتا ہے یہ تصور تو اہل تشیع کا ہے کہ نعوذ باﷲ اللہ کو بداء ہوتا ہے
جبکہ رب ہر خامی سے پاک ہے۔ (آپ کا خط صفحہ نمبر۳)۔
جواب اعتراض
نمبر3۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ تینوں احادیث ایک دوسرے
کے خلاف نہیں ہیں۔ سیدہ عائشہ r والی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاد و قتال
عورتوں پر فرض نہیں ہے۔ اُن کے لئے جہاد کے بدلے حج ہے۔ اور دوسری اور تیسری حدیث
سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے اجازت لے کر (کسی محرم کے ساتھ)
جہاد میں شریک ہو جائے (کھانا وغیر پکانے کا اہتمام کرے یا زخمیوں کی مرہم پٹی کر
لے تو ایسا جائز ہے۔ ان میں تضاد نہیں۔ یہ آپ کی عقل کا تضاد ہے۔ ویسے بھی اہل ایمان
کا عقیدہ ہے کہ اللہ جس حکم کو چاہے بدل دے اور اُس کی جگہ دوسرا حکم لے آئے یہ
عیب نہیں ہے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ دیکھیں
قرآن مجید؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ اِذَا
بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اﷲُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ (سورۂ
نحل:۱۰۱)
اللہ
تعالیٰ جس آیت (حکم) کوچاہتا ہے دوسری آیت (حکم) کے ذریعے بدل دیتا ہے۔
مثال کے
لئے بھی قرآن مجید ہی کو دیکھ لیجئے؛ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاَمْسِکُوْھُنَّ
فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ (سورۂ نساء:۱۵)
اللہ
تعالیٰ نے زانی کی سزا قید مقرر کی حتی کہ اُس کو موت آجائے۔
پھر اللہ
تعالیٰ نے اس سزا کو سورۂ نور میں بتائی گئی سزا سے بدل دیا؛ دیکھئے قرآن مجید :
اَلزَّانِیَۃُ
وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَ مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ
زانی مرد
ہو یا عورت؛ اُس کو 100 کوڑے مارو۔ (سورۂ نور:۲)۔
(نوٹ یہ
بات بھی یاد رہے کہ یہ سزا کنواروں کی ہے۔ شادی شدہ کی سزا سنگسار کرنا ہے)۔
اب دیکھیں
یہاں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہی نازل شدہ فیصلہ بدل دیا۔ اول تو احادیث جو آپ نے
نقل کی ہیں۔ اُن میں ایسی کوئی بات نہیں اور اگر ایسی کوئی بات ہو بھی تو آپ کو اب
اعتراض کا کیا حق حاصل ہے؟
اعتراض
نمبر4۔ آپ نے یہ اعتراض کیا ہے کہ بخاری میں ہے: زینب
بنت ابی سلمہ r فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مضر کی شاخ بنی
النصربن کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یقیناًآپ کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا آپ نضر بن
کنانہ کی اولاد میں سے تھے۔ (آپ کا خط صفحہ ۳) پھر آپ لکھتے ہیں کہ کیا آپ بھی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قریش کے بجائے مضر قبیلے کا فرد مانتے ہیں اور
یہ بھی منزل من اللہ ہے۔ اشکال رفع کریں۔ (آپ کے اعتراض کا خط صفحہ نمبر۳)۔
جواب اعتراض
نمبر4۔ پہلے تو یہ بتائیں کہ کیا قرآن میں ہے کہ رسول اﷲ
صلی اللہ علیہ و سلم قریش قبیلے سے تھے؟؟؟ آپ تو احادیث مانتے نہیں؛ یہ بات کیوں
اور کیسے مان لی؟؟؟
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم قریش قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور قریش (بنی ہاشم) نضر بن کنانہ
ہی کی اولاد سے تھے تو اگر کسی نے نضر بن کنانہ کہا تو اس میں کیا حرج ہے؟ امام
بخاری a نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب ذکر کیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے:
محمد صلی اللہ علیہ و سلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن
کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن
مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔
رسول اﷲ صلی
اللہ علیہ و سلم تو نضر بن کنانہ کی اولاد سے ہیں اس میں کیا اعتراض کی بات ہے؟
ہمارے ہاں شیخ برادری موجود ہے مگر شیخ برادری میں کوئی چنیوٹ کا شیخ ہے اور کوئی امرتسر
کا شیخ ہے۔ ان میں لوگوں کو امرتسری بھی کہا جاتا ہے اور شیخ بھی کہا جاتا ہے اسی
طرح کسی کو چنیوٹی کہتے ہیں اور کسی کو شیخ کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم بنی ہاشم کی اولاد تھے۔ کسی نے آپ کو قریش قبیلے کا سپوت کہا اور
کسی نے نضر بن کنانہ کا کہہ دیا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نضر بن کنانہ کی
اولاد سے تھے تو اس میں حر کی کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو ابراہیم اور
اسمٰعیل i کی اولاد سے ہیں۔ اگر کوئی آپ کو ان کی طرف منسوب کر دے تو آپ کیا کہیں
گے؟
دوسری اہم
بات حدیث کے بارے میں ہمارے (مسلمانوں) کے عقائد یہ ہیں کہ حدیث وحی خفی ہے، اقوال
تابعی یا صحابی وحی نہیں ہے۔
اعتراض
نمبر5۔ آپ کا اعتراض ہے کہ حسن بن علی t نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اٹھالی
اور اپنے منہ کے قریب لے گئے لیکن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فارسی
زبان کا یہ لفظ کہہ کر روک دیا کہ کخ کخ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں
کھاتے۔ (آپ لکھتے ہیں کہ) کیا یہ بات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے منزل
من اللہ کہی؟ کیا حسن بن علی فارسی زبان سمجھتے تھے اور کیا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم فاطمہ کے گھر میں فارسی بولتے تھے؟ کیا رب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم کو ہدایت کی تھی کہ آپ بچے سے فارسی بولیں؟
جواب اعتراض
نمبر 5۔ ہمارا (مسلمانوں) کا دعوی ہے کہ احادیث رسول صلی
اللہ علیہ و سلم کا مضمون ربانی ہے اور الفاظ ربانی نہیں۔ یہاں اصل بات مضمون کی
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حسن بن علی t کو صدقہ کی کھجور کھانے سے
منع کیا، یہ حکم ربانی ہے۔ باقی رہی فارسی زبان کے الفاظ استعمال کرنے کی بات تو کسی
بھی زبان کا ایک آدھ لفظ بولنے کا ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ انسان کو اُس
زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ یا اُس کے گھر میں وہ زبان بولی جاتی ہے۔ ہمارے ملک
میں اکثر لوگ گفتگو کے دوران انگریزی کے الفاظ بول جاتے ہیں۔ کیا جو لوگ انگریزی
کے ایک آدھ لفظ اپنی گفتگو میں ادا کرتے ہیں اس کا مطلب آپ کے نزدیک یہ ہے کہ یہ
ایک آدھ لفظ بولنے والا اور جس سے مخاطب ہے وہ دونوں انگریزی پر مکمل عبور رکھتے
ہیں؟؟
ہرگز ایسی
بات نہیں ہے۔ اسی طرح فارسی زبان کا ایک آدھ لفظ بولنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جس
سے مخاطب ہے اور جو مخاطب ہے دونوں فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے
بھی رسول بھیجے وہ رسول اُس قوم ہی کی زبان میں تھے۔ (سورۂ ابراہیم آیت نمبر۴)۔
اللہ
تعالیٰ نے اُن رسولوں کو اُن ہی زبان میں وحی بھیجی۔ مگر جب قرآن میں اُن کے قصے
بیان کئے تو تمام رسولوں کے قصے عربی میں بیان کئے۔ اب آپ کیا کہیں گے کہ جو الفاظ
رسولوں سے کہے تھے قرآن میں وہ الفاظ عربی میں نازل ہوئے اور زبان کی تبدیلی ہوئی۔
آپ الفاظ و زبان کی اس تبدیلی کو کیا کہیں گے؟؟
اور اگر
ایک آدھ لفظ سے یہ معنی اور مفہوم بنتا ہے کہ مخاطب اُس زبان پر مکمل عبور رکھتا
ہے تو سنئے! اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:
اِنَّآ
اَنْزَلْنٰہُ قُرْء اٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (سورۂ یوسف:۲)
ہم نے اس
قرآن کو عربی میں نازل کیا۔
اور سورۂ
بنی اسرائیل آیت نمبر ۳۵ اور سورۂ شعراء میں آیت نمبر ۱۸۲ میں لفظ بالقسطاس آیا
ہے۔ قسطاس رومی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی عدل کے ہیں۔ اب بتائیں قرآن میں رومی
زبان کا لفظ آیا ہے کیا آپ کو قرآن مجید پر بھی اعتراض ہے؟؟؟
قرآن مجید
میں اگر رومی زبان کا لفظ ہے تو ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور کوئی بھی مسلمان
قرآن پر اعتراض نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی بھی مسلمان، اگر کسی حدیث میں فارسی کا
لفظ آیا ہے تو اُس پر اعتراض نہیں کر سکتا بلکہ حدیث پر ایمان رکھتا ہے۔
اعتراض
نمبر6۔ آپ کا آخری اعتراض ہے کہ جب 70 صحابہ کو دھوکے
سے شہید کیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُن پر نماز میں قنوت پڑھی۔ (پھر)
انس tفرماتے ہیں کہ ان شہداء کے متعلق قرآن مجید میں ہم یہ آیت پڑھتے تھے (ترجمہ)
ہاں ہماری قوم (مسلم کو) بتادو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے اور وہ ہم سے راضی ہو گیا
اور ہمیں بھی اس نے اپنی بے پایاں نوازشات سے خوش کیا ہے۔ پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی
تھی۔(پھر آپ لکھتے ہیں)۔ جناب مولف صاحب ! اللہ تعالیٰ نے یہ حدیث واقعہ ہونے سے
یقیناًپہلے نازل کی ہو گی تو کیا آپ کے ساتھ ان (لوگوں نے نعوذ باﷲ) اللہ کو بھی
دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے علاوہ قرآن کی جس آیت کی منسوخی کے بارے میں
حدیث میں بات کی گئی ہے کیا وہ آیت بھی منزل من اﷲ تھی؟ کیونکہ پورا کا پورا قرآن
اللہ کی جانب سے ہے لیکن ان شہداء کا پیغام جو انہوں نے اپنی قوم کو دیا وہ تو پورا
کلام انسانی ہے۔ رب یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے
جا ملے؟ اگر رب نے یہ آیت نازل کی ہے تو کیا رب کی اپنی بھی کوئی قوم ہے؟ یہ
اشکالات رفع کر دیں نوازش ہو گی۔ (آپ کا خط صفحہ نمبر۴)۔
جواب
اعتراض نمبر6۔ یہ اعتراض بھی اپ کی بہت بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ آپ کا پہلا نقطہ
اعتراض اس سوال میں شاید یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر صحابہ رضی
اللہ عنہم کو روانہ کیا تو یہ آپ کا حکم وحی کی بنا پر تھا اور اللہ کو تو علم تھا
کہ یہ ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہو جائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ حکم کیوں دیا کہ صحابہ کو ان کے ساتھ روانہ کر دیں؟
اگر میں آپ
سے پوچھوں کہ اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے سب اللہ کے حکم سے آئے اور اللہ کو علم
تھا کہ بعض انبیاء کو اُن کی قومیں قتل کر دیں گی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
وَ
یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (سورۂ بقرہ:۶۱)
اور نبیوں
کو ناحق قتل کرتے ہیں۔
یَکْفُرُوْنَ
بِاٰیٰتِ اﷲِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ
یہ اللہ کی
آیات کا انکار کرتے تھے اور نبیاء کو ناحق قتل کرتے تھے۔ (آل عمران آیت۱۱۲)۔
قرآن سے
ثابت ہے کہ ان قوموں نے نبیوں کو قتل کیا۔ جب اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انبیاء
قتل کئے جائیں گے مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو بھیجا (اس کی مکمل حکمت
اللہ ہی جانتا ہے مگر ہمارا ان آیات پر ایمان ہے)۔
اسی طرح
ستر صحابہ رضی اللہ عنہم کو شہید کیا جانا تھا، اللہ کے علم میں تھا۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم نے اُن کو روانہ کیا (اس کی حکمت اللہ ہی مکمل جانتا ہے۔ ہمارا ان
احادیث پر ایمان ہے)۔ اگر اس حوالے سے قرآن مجید پر اعتراض نہیں ہے تو حدیث پر
کیوں اعتراض کیا جارہا ہے؟؟؟
آپ نے آیت
کے منسوخ ہونے کی بات کی، یہ بھی قرآن سے ثابت ہے:
مَا نَنْسَخْ
مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا
ہم جس آیت
کو چاہتے ہیں منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اور اسی جیسی یا اس سے بہتر
(کوئی دوسری آیت) نازل فرما دیتے ہیں۔
یہ بات تو
قرآن سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ آیات منسوخ کر سکتا ہے۔ تو اس آیت کے منسوخ ہونے
پر کیا اعتراض؟؟
آپ لوگوں
کا حقیقت میں قرآن پر ہی صحیح ایمان نہیں۔ اسی وجہ سے آپ لوگ محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ و سلم کے فرامین پر اعتراض کرتے ہیں اور دورِ حاضر کے نام نہاد دانشوروں
کے اقوال کو دین سمجھتے ہیں۔ ہم اللہ سے آپ کے لئے ہدایت کا ہی سوال کرتے ہیں کہ
اللہ آپ جیسے لوگوں کو صراطِ مستقیم کی سمجھ عطا کرے۔
پھر اپ نے
لکھا کہ پورا کا پورا قرآن اللہ کا کلام ہے۔ جو شہداء نے پیغام دیا وہ پوراانسانی
کلام ہے۔ کیا رب یہ کہہ سکتا ہے کہ ہماری قوم کو بتا دو ہم اپنے رب سے جا ملے؟
آپ کا یہ
اعتراض بھی قرآنی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بات یہ ہے کہ رب نے صحابہ رضی
اللہ عنہم کے قول کو نازل کیا ہے۔ اگر صحابہ کے اس قول کے نازل ہونے پر اعتراض ہے
تو سنیے: قرآن مجید میں ایک مرد صالح کے اقوال کچھ اس طرح ہیں:
وَ مَا لِیَ
لَآ اَعْبُدُ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ
مجھ کو کیا
ہے کہ میں اُس کی عبادت نہ کروں جس نے مجھ کو پیدا کیا اور مجھ کو اُسی کی طرف لوٹ
کر جانا ہے۔ (سورۂ یٰسین:۲۲)
اگر ہم آپ
کا قانون اور ضابطہ مانیں تو کیا ہم یہ کہیں کہ معاذ اﷲ! اللہ عبادت کی بات کر رہا ہے۔ کیا اللہ بھی عبادت
کرتا ہے؟؟
پھر مزید
دیکھیں:
اِنِّیْٓ
اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمَعُوْنِ
پس تم یہ
سن رکھو! بے شک میں ایمان لایا تمہارے رب پر (سورۂ یٰسین:۲۵)
معاذ اللہ
کیا اللہ کا کوئی رب ہے جس پر اللہ ایمان لایا؟؟؟
مزید
دیکھیں:
قَالَ
ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ
الْمُکْرَمِیْنَ
کہنے لگا
کاش میری قوم جان لے! مجھ کو میرے رب نے معاف کر دیا اور عزت والوں میں شامل کر
دیا۔ (سورۂ یٰسین:۲۷)۔
معاذ اﷲ
کیا اللہ کو کسی نے معاف کر کے عزت والوں میں شامل کیا؟؟؟؟
ہرگز ہرگز
ایسا نہیں۔ یہ تو اللہ نے اُس مردِ صالح کی بات کی جس کو اُس کی قوم نے قتل کر
دیا۔ اگر ان آیات کو بھی ہم کلام رحمن مانتے ہیں تو اس آیت کو جو ستر صحابہ کے
بارے میں نازل ہوئی ہم کلامِ انسان کیوں کہتے ہیں کیا یہ ظلم نہیں کہ ایک جیسی دو
باتوں میں سے ہم ایک کو مانیں اور دوسری کا انکار کر دیں۔
سوچئے! خوب
سوچئے اور حق پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ ہم نے آپ کے بھیجے ہوئے اعتراضات کے
جوابات بھی دے دیئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پہلے آپ ہمارے پچاس سوالات کے
جوابات دیتے پھر ہم سے اپنے جوابات کا مطالبہ کرتے مگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تھے
کیونکہ منکرین احادیث کے پاس ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اب ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں
کہ آپ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دین مان لیں اور مزید شیطان کی پیروی نہ
کریں ورنہ آج صفحات سیاہ کرنے کے آپ کو جوابات مل گئے۔ نامہ اعمال جب سیاہ ہو چکا
ہو گا تو اُس کا کوئی کفارہ نہیں ہو گا۔ اُس کی سزا جہنم ہے۔ اللہ رب العزت سے ہم پھر
دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی تمام پڑھنے والوں کو اور آپ کو بھی حق کو سمجھنے کے
ساتھ قبول کرنے کی اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ یا رب العالمین۔ کیونکہ
توفیق دینے والی ذات تو صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے۔
No comments:
Post a Comment