کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام على رسولہ و آلہ و صحبہ، وبعد:
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
’’ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا ، پھر عرش (بریں ) پر متمکن ہو گیا ۔ وہ اسے بھی جانتا ہے جو کچھ زمین میںداخل ہوتا ہے اور (اسےبھی جانتا ہے ) جو کچھ اس میں سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمانوں سے اترتا ہے اورجو کچھ اس میں چڑھتاہے ، اور وہ تمہارے ساتھ ہے خواہ تم کہیں بھی ہو ۔ اور جو کچھ بھی تم کیا کرتے ہواسے وہ دیکھتا ہوتا ہے “ (سورہ الحدید :4، الکتاب - ڈاکٹرمحمد عثمان ص 324
اس آیت کریمہ میں وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ کی تشریح میں قدیم مفسرقرآن ، امام محمد بن جریربن یزید
وھوشاھد علیکم ایھاالناس اینما کنتم یعلمکم و یعلم
اعمالکم و متقلبکم و مثواکم وھو علی عرشہ فوق سمٰواتہ السبع
’’ اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنااور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “ (تفسیرطبری ج 27 ص 125)
’’ اور ائے لوگو ! وہ (اللہ ) تم پر گواہ ہے ، تم جہاں بھی ہو وہ تمہیں جانتا ہے ،، وہ تمہارے اعمال ، پھرنااور ٹھکانا جانتاہے اور وہ اپنے سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر ہے “ (تفسیرطبری ج 27 ص 125)
اسی مفہوم کی ایک آیت کریمہ کےبارے میں مفسر ضحاک
بن مزاحم الہلالی الخراسانی رحمہ اللہ (متوفی 106 ھجری ) فرماتے ہیں
ھوفوق العرش وعلمہ معھم اینما کانوا(تفسیرطبری ج 28 ص 10 و سندہ حسن )
“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیںبھی ہوں “
“ وہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان (لوگوں ) کے ساتھ ہے چاہے وہ جہاں کہیںبھی ہوں “
امام مقری محقق محدث اثری ابوعمرمحمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاندلسی رحمہ اللہ (متوفی 429 ھجری ) فرماتےہیںکہ
“اہل سنت مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ ( وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ) وغیرہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ
ان ذلک علمہ وان اللہ فوق السمٰوات بذاتہ ،
مستوعلی عرشہ کیف شاء(شرح حدیث النزول لا بن تیمیہ ص 144، 145)
’’ بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے “
’’ بے شک اس سے اللہ کا علم مراد ہے ، اللہ اپنی ذات کے لحاظ سے آسمانوں پر، عرش پر مستوی ہے جیسے وہ چاہتا ہے “
اس اجماع سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ تراشنا کہ’’ اللہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود یے “ غلط اور باطل ہے اور اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے
مسؤلہ آیت کریمہ میں’’ يَعْلَمُ “ لفظ بھی صاف طور پراسی پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں معیت سے علم و قدرت مراد ہے۔(توحید خالص ، ''بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ '' ص 277 )
حارث بنا اسد المحاسی رحمہ اللہ (متوفی 243 ھجری )فرماتے ہیں کہ :
’’ وکذلک لا یجوز ۔۔۔ “ الخ اور اسی طرح یہ کہنا جائز نہیں کہ ۔۔۔ اللہ زمین پر ہے ۔(فہم القرآن ع معانیہ ، القسم الرابع ، باب مالا یجوزفیہ النسخ )
حافظ ابن اجوزی فرماتے ہیں کہ :
’’ (جہمیہ کے فرقے ) ملتزمہ نے باری تعالٰی کو ہر جگہ (موجود) قرار دیا ہے “ (تلبیس ابلیس 30 ، راقم الحروف کی کتاب ، بدعتی کے پیچھے نماز کا حکم ص 19 )
شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’ اور یوں کہنا جائز نہیں کہ وہ (اللہ ) ہر مکان میںہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ آسمان میںعرش پر ہے “ (غنیتہ الطالبین ج ا ص 100 )
الشیخ محمد بن صالح عثمین رحمہ اللہ
ترجمہ شیخ حافط زبیر علی زئی
ترجمہ شیخ حافط زبیر علی زئی
No comments:
Post a Comment