قعدہ اولٰی سے اٹھنے
کے بعد رفع یدین کرنا
حدثنا عياش، قال حدثنا عبد الأعلى، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، أن ابن عمر، كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه، وإذا ركع رفع يديه، وإذا قال سمع الله لمن حمده. رفع يديه، وإذا قام من الركعتين رفع يديه. ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم. رواه حماد بن سلمة عن أيوب عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم. ورواه ابن طهمان عن أيوب وموسى بن عقبة مختصرا. حدیث نمبر : 739
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ
تشریح : تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر ساری امت کا اجماع ہے۔ مگر بعد کے مقامات پر ہاتھ اٹھانے میں اختلاف ہے۔ ائمہ کرام و علماءاسلام کی اکثریت حتی کہ اہل بیت سب باالاتفاق ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں، مگر حنفیہ کے ہاں مقامات مذکورہ میں رفع الیدین نہیں ہے کچھ علمائے احناف اسے منسوخ قرار دیتے ہیں، کچھ ترک رفع کو اولیٰ جانتے ہیں کچھ دل سے قائل ہیں مگر ظاہر میں عمل نہیں ہے۔
فریقین نے اس بارے میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر دو جانب سے خاص طور پر آج کے دور پرفتن میں بہت سے کاغذ سیاہ کئے گئے ہیں۔ بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ مگر بات ابھی تک جہاں تھی وہیں پر موجود ہے۔ ایک ایسے جزئی مسئلہ پر اس قدر تشدد بہت ہی افسوسناک ہے۔ کتنے عوام ہیں جو کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں لوگ بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے اس لیے رفع یدین کا حکم ہوا تاکہ ان کے بغلوں کے بت گرجایا کریں۔ استغفرا اللہ! یہ ایسا جھوٹ ہے جو شایدا سلام کی تاریخ میں اس کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس سنت نبوی کو مکھی اڑانے سے تشبیہ دے کر توہین سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔
کاش! علماءاحناف غور کرتے اور امت کے سوادا عظم کو دیکھ کر جواس کے سنت ہونے کے قائل ہیں کم از کم خاموشی اختیار کر لیتے تو یہ فساد یہاں تک نہ بڑھتا۔
حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی تفصیلات کے بعد فیصلہ دیا ہے۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ پیا را ہے۔ اس لیے کہ احادیث رفع بکثرت ہیں اور صحیح ہیں جن کی بنا پر انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ محض بدگمانیوں کے دور کرنے کے لیے کچھ تفصیلات ذیل میں دی جاتی ہیں۔ امید ہے کہ ناظرین کرام تعصب سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کریں گے اور طاقت سے بھی زیادہ سنت رسول کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں باہمی اتفاق کے لیے کوشاں ہوں گے کہ وقت کا یہی فوری تقاضا ہے۔
حضرت امام شافعی فرماتے ہیں :۔ معناہ تظیم للہ و اتباع لسنۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھانے پر رفع یدین کرنے سے ایک تو اللہ کی تعظیم اور دوسرے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع مراد ہے۔ ( نووی ص168 وغیرہ )
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رفع الیدین من زینۃ الصلوۃ کہ یہ رفع یدین نماز کی زینت ہے۔ ( عینی، جلد3ص: 7 وغیرہ )
اور حضرت نعمان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ لکل شیی زینۃ و زینۃ الصلوٰۃ ان ترفع یدیک اذا کبرت و اذا رکعت و اذا رفعت راسک من الرکوع کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا ہے۔ ( جزءبخاری ص21 )
اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہو من تمام الصلوٰۃ کہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ ( جزءبخاری، ص17 )
اور عبدالملک فرماتے ہیں۔ سالت سعید بن جبیر عن رفع الیدین فی الصلوٰۃ فقال ہو شیی تزین بہ صلوتک ( بیہقی، جلد: 2 ص: 75 ) کہ میں نے سعید بن جبیر سے نماز میں رفع یدین کرنے کی نسبت پوچھا، تو انہوں نے کہا یہ وہ چیز ہے کہ تیری نماز کو مزین کردیتی ہے۔
اورحضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ من رفع یدیہ فی الصلوٰۃ لہ بکل اشارۃ عشر حسنات کہ نماز میں ایک دفعہ رفع یدین کرنے سے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ( فتاوی امام ابن تیمیہ، ص: 376 ) گویا دو رکعت میں پچاس اور چار رکعت میں سو نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
مرویات بخاری کے علاوہ مندرجہ ذیل روایات صحیحہ سے بھی رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔
عن ابی بکر الصدیق قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان برفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ہمیشہ شروع نماز میں اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( بیہقی، جلد: 2 ص: 73 )
امام بیہقق، امام سبکی، امام ابن حجر فرماتے ہیں۔ رجالہ ثقات کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ ( بیہقی، جلد:2 ص : 73، تلخیص، ص: 82، سبکی، ص:6 ) و قال الحاکم انہ محفوظ حاکم نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 82 )
عن عمر بن الخطاب انہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برفع یدیہ اذا کبر و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الدار قطنی جزءسبکی: ص6 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ ہمیشہ رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 )
امام بیہقی اور حاکم فرماتے ہیں۔ فقد روی ہذہ السنۃ عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کہ رفع یدین کی حدیث جس طرح حضرت ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ( تعلیق المغنی، ص: 111 ) نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے۔
علامہ سبکی فرماتے ہیں۔ الذین نقل عنہم روایۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و علی وغیرہم رضی اللہ عنہم کہ جن صحابہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کی روایت نقل کی ہے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی انہیں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 9 )
و عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا کبر للصلوٰۃ حذو منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( جزءبخاری، ص: 6 ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( ابوداؤد، جلد: 1ص: 198، مسند احمد، جلد: 3 ص : 165، ابن ماجہ، ص: 62 وغیرہ )
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حذو منکبیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا کبر للرکوع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفعہما کذلک۔ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تحقیق کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( مسلم، ص: 168، ابوداؤد جلد: 1 ص: 192، ترمذی، ص: 36، وغیرہ، ان کے علاوہ اکیس کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ )
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشق سنت نے کان یرفع یدیہ فرما کر اور موجب روایت بیہقی آخر میں حتی لقی اللہ لاکر یہ ثابت کردیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے نبوت سے لے کر اپنی عمر شریف کی آخری نماز تک رفع یدین کرتے رہے۔
حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کان یرفع یدیہ الخ کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ہذا دلیل صریح علی ان رفع الیدین فی ہذہ المواضع سنۃ و ہو الحق و الصواب نقل البخاری فی صحیحہ عقب حدیث ابن عمر ہذا عن شیخہ علی بن المدینی انہ قال حق علی المسلمین ان یرفعوا ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لحدیث ابن عمر ہذا و ہذا فی روایۃ ابن العساکر و قد ذکرہ البخاری فی جزءرفع الیدین و زاد و کان اعلم اہل زمانہ انتہی۔
قلت و الیہ ذہب عامۃ اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم و التابعین و غیرہم قال محمد بن نصر المروزی اجمع علماءالامصار علی مشروعیۃ ذالک الا اہل الکوفۃ و قال البخاری فی جزءرفع الیدین قال الحسن و حمید بن ہلال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یرفعون ایدیہم فی الصلوٰۃ۔
و روی ابن عبدالبر بسندہ عن الحسن البصری قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفعون ایدیہم فی الصلوۃ اذا رکعوا و اذا رفعوا کانہا المراوح و روی البخاری عن حمید بن ہلال قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانما ایدیہم المراوح یرفعونہا اذا رکعوا و اذا رفعوا روسہم قال البخاری و لم یستثن الحسن احدا منہم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسم دون احد و لم یثبت عند اہل العلم عن احد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ لم یرفع یدیہ ثم ذکر البخاری عن عدۃ من علماءاہل مکۃ و اہل الحجاز و اہل العراق و الشام و البصرۃ و الیمن و عدۃ من اہل خراسان و عامۃ اصحاب ابن المبارک و محدثی اہل بخاری و غیرہم ممن لا یحصی انہم کانوا یرفعون ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لا اختلاف منہم فی ذلک الخ ( مرعاۃ ج: 1 ص 529 )
خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ یہ حدیث اس
امر پر صریح دلیل ہے کہ ان مقامات پر رفع الیدین سنت ہے۔ اور یہی حق اور صواب ہے
اورامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ
مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے
دونوں ہاتھوں کو ( کاندھوں تک یا کانوں کی لو تک ) اٹھائیں۔ اصحاب رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے عام اہل علم کا یہی مسلک ہے اورمحمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ
سوائے اہل کوفہ کے تمام علمائے امصار نے اس کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔ جملہ
اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت
رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ امام حسن بصری نے اصحاب نبوی میں اس بارے میں کسی کا
استثناءنہیں کیا۔ پھر بہت سے اہل مکہ واہل حجاز و اہل عراق و اہل شام اور بصرہ اور
یمن اور بہت سے اہل خراسان اور جمیع شاگردان عبداللہ بن مبارک اور جملہ محدثین
بخارا وغیرہ جن کی تعداد شمار میں بھی نہیں آسکتی، ان سب کا یہی عمل نقل کیا ہے کہ
وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔
مندرجہ ذیل احادیث میں مزید وضاحت
موجود ہے۔
عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا دخل فی الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع ( رواہ ابن ماجۃ ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ( جو دس سال دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ و سندہ صحیح۔ سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، بیہقی، جلد: 2 ص74، دار قطنی، ص: 108، جزءبخاری، ص:9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکی، ص: 4 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔ ( تخریج زیلعی، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغنی، ص: 110 )
عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص: 13 ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62 )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
عن ابی الزبیر ان جابر بن عبداللہ کان اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع فعل مثل ذلک و یقول رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل ذلک۔ ( رواہ ابن ماجۃ، ص: 62 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص:12 )
حضرت جابررضی اللہ عنہ ہمیشہ رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس لیے رفع یدین کرتا ہوں کہ میں بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا کرتا تھا۔ ( بیہقی، جدل: 2 ص: 74، جزءسبکی، ص: 5، بخاری، ص: 13)
اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن ابی موسی قال ہل اریکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر و رفع یدیہ ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیہ ثم قال ہذا فاصنعوا ( رواہ الدارمی، جزءرفع الیدین، سبکی، ص: 5 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع واذا رفع راسہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں کہا۔ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی۔ جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔ لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( دارمی، دار قطنی، ص: 109، تلخیص الحبیر ص : 81، جزءبخاری، ص: 13، بیہقی، ص: 74 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔
مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔ ہی صحیحۃ یہ حدیث صحیح ہے۔ ( العرف الشذی، ص: 125 )
عن ابی ہریرۃ انہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر للصلوٰۃ جعل یدیہ حذو منکبیہ و اذا رکع فعل مثل ذلک و اذا رفع للسجود فعل مثل ذلک و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( رواہ ابوداود )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔ ( ابوداؤد، جلد:1 ص: 197، بیہقی، جلد:2 ص: 74، و رجالہ رجال صحیح تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعی، جلد:1 ص: 315 )
عن عبیدبن عمیرعن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عندالرکوع واذا رفع راسہ۔ ( جزءبخاری، ص: 3 ) حضرت عبیدبن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔
عن البراءبن عازب قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ و اذا ارار ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الحاکم و البیہقی )
براءبن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( حاکم، بیہقی، جلد: 2 ص: 77 )
عن قتادۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا رکع و اذا رفع رواہ عبدالرزاق فی جامعہ۔ ( سبکی، ص: 8 ) قال الترمذی و فی الباب عن قتادۃ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ترمذی ص36 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع آیاہے جو دوام اور ہمشیگی کی دلیل ہے۔
عن سلیمان ابن یسار ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ فی الصلوٰۃ ( رواہ مالک فی الموطا جلد: 1ص: 98، سبکی، : 8 ) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے اور اسی طرح عمیر لیثی سے بھی روایت آئی ہے ( ابن ماجہ، ص: 62، جزءسبکی، ص: 7 )
وفی الباب عن عمیر اللیثی ( ترمذی، ص: 36، تحفۃ الاحوذی، ج: 1ص219 )
وعن وائل بن حجر قال قلت لا نظرن الی صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف یصلی فنظرت الیہ قام فکبر و رفع یدیہ حتی حاذتا اذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ فلما اراد ان یرکع رفع یدیہ مثلہا فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ مثلہا ( رواہ احمد ) حضرت وائل بن حجر ( جو ایک شہزادے تھے ) فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے تو رفع یدین کرتے اور سینہ پر ہاتھ رکھ لیتے، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ ( مسند احمد وغیرہ ) سینہ پر ہاتھ کا ذکر مسند ابن خزیمہ میں ہے۔
عن ابی حمید قال فی عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا اعلمکم بصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا فاذکر قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلوۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت ہکذا کان یصلی بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 4 )
اس حدیث میں کان یصلی قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ ( جزءبخاری، ص: 8، ابوداؤد، ص : 194 )
عن عبداللہ بن الزبیر انہ صلی بہم یشیر بکفیہ حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینہض فقال ابن عباس من احب ان ینظر الی صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیقتد بابن الزبیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ ( ابوداؤد، ص: 198 )
عن الحسن ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا اراد ان یکبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ ( رواہ ابونعیم، جزءسبکی، ص: 8 ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82 )
صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رفع یدین کیا کرتے تھے:
عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف ابی بکر فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر مثلہ۔ ( رواہ البیہقی و رجالہ ثقات، جلد: 2 ص: 73 )
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔ ( تلخیص، ص: 82، سبکی، ص: 6 ) اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار ( کان یرفع ) موجود ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے
و عن عمر نحوہ رواہ الدار قطنی فی غرائب مالک و البیہقی و قال الحاکم انہ محفوظ ( تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82 ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر فاروق بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔
عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج فیہم عمر فقال اقبلوا علی بوجوہکم اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی یصلی ویامر بہا فقام و رفع یدیہ حتی حاذی بھما منکبیہ ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلک حین رفع کہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ فقال القوم ہکذا رسول اللہ صلی اللہ یصلی بنا پھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے۔ ( اخرجہ البیہقی فی الخلافیات تخرییج زیلعی و قال الشیخ تقی الدین رجال اسنادہ معرفون ) ( تحقیق الراسخ، ص: 38 )
حضرت عمر فاروق، حضرت علی و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم
عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا دخل فی الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع ( رواہ ابن ماجۃ ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ( جو دس سال دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ و سندہ صحیح۔ سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، بیہقی، جلد: 2 ص74، دار قطنی، ص: 108، جزءبخاری، ص:9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکی، ص: 4 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔ ( تخریج زیلعی، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغنی، ص: 110 )
عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص: 13 ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62 )
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔
عن ابی الزبیر ان جابر بن عبداللہ کان اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع فعل مثل ذلک و یقول رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل ذلک۔ ( رواہ ابن ماجۃ، ص: 62 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص:12 )
حضرت جابررضی اللہ عنہ ہمیشہ رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس لیے رفع یدین کرتا ہوں کہ میں بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے دیکھا کرتا تھا۔ ( بیہقی، جدل: 2 ص: 74، جزءسبکی، ص: 5، بخاری، ص: 13)
اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن ابی موسی قال ہل اریکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر و رفع یدیہ ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیہ ثم قال ہذا فاصنعوا ( رواہ الدارمی، جزءرفع الیدین، سبکی، ص: 5 )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع واذا رفع راسہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں کہا۔ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی۔ جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔ لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( دارمی، دار قطنی، ص: 109، تلخیص الحبیر ص : 81، جزءبخاری، ص: 13، بیہقی، ص: 74 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔
مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔ ہی صحیحۃ یہ حدیث صحیح ہے۔ ( العرف الشذی، ص: 125 )
عن ابی ہریرۃ انہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر للصلوٰۃ جعل یدیہ حذو منکبیہ و اذا رکع فعل مثل ذلک و اذا رفع للسجود فعل مثل ذلک و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( رواہ ابوداود )
و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔ ( ابوداؤد، جلد:1 ص: 197، بیہقی، جلد:2 ص: 74، و رجالہ رجال صحیح تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعی، جلد:1 ص: 315 )
عن عبیدبن عمیرعن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عندالرکوع واذا رفع راسہ۔ ( جزءبخاری، ص: 3 ) حضرت عبیدبن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔
عن البراءبن عازب قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ و اذا ارار ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الحاکم و البیہقی )
براءبن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( حاکم، بیہقی، جلد: 2 ص: 77 )
عن قتادۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا رکع و اذا رفع رواہ عبدالرزاق فی جامعہ۔ ( سبکی، ص: 8 ) قال الترمذی و فی الباب عن قتادۃ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ترمذی ص36 )
اس حدیث میں بھی کان یرفع آیاہے جو دوام اور ہمشیگی کی دلیل ہے۔
عن سلیمان ابن یسار ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ فی الصلوٰۃ ( رواہ مالک فی الموطا جلد: 1ص: 98، سبکی، : 8 ) حضرت سلیمان بن یسار فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے اور اسی طرح عمیر لیثی سے بھی روایت آئی ہے ( ابن ماجہ، ص: 62، جزءسبکی، ص: 7 )
وفی الباب عن عمیر اللیثی ( ترمذی، ص: 36، تحفۃ الاحوذی، ج: 1ص219 )
وعن وائل بن حجر قال قلت لا نظرن الی صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف یصلی فنظرت الیہ قام فکبر و رفع یدیہ حتی حاذتا اذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ فلما اراد ان یرکع رفع یدیہ مثلہا فلما رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ مثلہا ( رواہ احمد ) حضرت وائل بن حجر ( جو ایک شہزادے تھے ) فرماتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ دیکھوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب آپ اللہ اکبر کہتے تو رفع یدین کرتے اور سینہ پر ہاتھ رکھ لیتے، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ ( مسند احمد وغیرہ ) سینہ پر ہاتھ کا ذکر مسند ابن خزیمہ میں ہے۔
عن ابی حمید قال فی عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا اعلمکم بصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا فاذکر قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلوۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت ہکذا کان یصلی بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 4 )
اس حدیث میں کان یصلی قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ ( جزءبخاری، ص: 8، ابوداؤد، ص : 194 )
عن عبداللہ بن الزبیر انہ صلی بہم یشیر بکفیہ حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینہض فقال ابن عباس من احب ان ینظر الی صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیقتد بابن الزبیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ ( ابوداؤد، ص: 198 )
عن الحسن ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا اراد ان یکبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ ( رواہ ابونعیم، جزءسبکی، ص: 8 ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82 )
صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رفع یدین کیا کرتے تھے:
عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف ابی بکر فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر مثلہ۔ ( رواہ البیہقی و رجالہ ثقات، جلد: 2 ص: 73 )
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔ ( تلخیص، ص: 82، سبکی، ص: 6 ) اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار ( کان یرفع ) موجود ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے
و عن عمر نحوہ رواہ الدار قطنی فی غرائب مالک و البیہقی و قال الحاکم انہ محفوظ ( تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82 ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر فاروق بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔
عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج فیہم عمر فقال اقبلوا علی بوجوہکم اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی یصلی ویامر بہا فقام و رفع یدیہ حتی حاذی بھما منکبیہ ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلک حین رفع کہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ فقال القوم ہکذا رسول اللہ صلی اللہ یصلی بنا پھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے۔ ( اخرجہ البیہقی فی الخلافیات تخرییج زیلعی و قال الشیخ تقی الدین رجال اسنادہ معرفون ) ( تحقیق الراسخ، ص: 38 )
حضرت عمر فاروق، حضرت علی و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم
امام بخاری فرماتے ہیں: ( 1 ) عمر بن
خطاب ( 2 ) علی بن ابی طالب ( 3 ) عبداللہ بن عباس ( 4 ) ابوقتادہ ( 5 ) ابواسید (
6 ) محمد بن مسلمہ ( 7 ) سہل بن سعد ( 8 ) عبداللہ بن عمر ( 9 ) انس بن مالک ( 10
) ابوہریرہ ( 11 ) عبداللہ بن عمرو ( 12 ) عبداللہ بن زبیر ( 13 ) وائل بن حجر (
14 ) ابوموسی ( 15 ) مالک بن حویرث ( 16 ) ابوحمید ساعدی ( 17 ) ام درداءانہم
کانوا یرفعون عند الرکوع ( جزءبخاری، ص: 6 ) کہ یہ سب کے سب رکوع جانے اور سر اٹھانے
کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔
طاؤس و عطاءبن رباح کی شہادت:
عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون ایدیہم اذا افتتحوا الصلوٰۃ و اذا رکعوا کہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )
حضرت طاؤس کہتے ہیں رایت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون ایدیہم کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ :
عن عاصم قال رایت انس بن مالک اذا افتتح الصلوۃ کبر و رفع یدیہ و برفع کلما رکع و رفع راسہ من الرکوع عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 12 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ :
انہ کان اذا کبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )
حضرت ام درداءرضی اللہ عنہا:
سلیمان بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رایت ام درداءترفع یدیہا فی الصلوۃ حذو منکبیہا حین تفتتح الصلوۃ و حین ترکع فاذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدہا کہ میں نے ام درداءکو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔ ( جزءرفع الیدین، امام بخاری، ص: 12 )
ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔ جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔ چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔
عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون ایدیہم اذا افتتحوا الصلوٰۃ و اذا رکعوا کہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )
حضرت طاؤس کہتے ہیں رایت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون ایدیہم کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ :
عن عاصم قال رایت انس بن مالک اذا افتتح الصلوۃ کبر و رفع یدیہ و برفع کلما رکع و رفع راسہ من الرکوع عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 12 )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ :
انہ کان اذا کبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 )
حضرت ام درداءرضی اللہ عنہا:
سلیمان بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رایت ام درداءترفع یدیہا فی الصلوۃ حذو منکبیہا حین تفتتح الصلوۃ و حین ترکع فاذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدہا کہ میں نے ام درداءکو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔ ( جزءرفع الیدین، امام بخاری، ص: 12 )
ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔ جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔ چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔
منکرین رفع یدین کے دلائل اور ان کے جوابات:
( 1 ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مالی اراکم رافعی ایدیکم کانہا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوۃ ( صحیح مسلم باب الامر بالسکون فی الصلوۃ والنہی عن الاشارۃ
بالید ورفعہما عند السلام ) یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں
کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں حرکت نہ کیا کرو۔
منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ
( 1 ) اول تو منکرین کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔
( ب ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و اشار بیدہ الی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماشانکم تشیرون بایدکم کانہا اذناب خیل شمس تمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو ویسلم علی اخیہ من علی یمینہ و شمالہ اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو اذا سلم احدکم فلیلتفت الی صاحبہ و لا یومی ( یرمی ) بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔ ( مسلم شریف )
( ج ) تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔ جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں من احتج بحدیث جابر بن سمرۃ علی منع الرفع عند الرکوع فلیس لہ حظ من العلم کہ جو شخص جابر بن سمرہ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔ کیوں کہ اسکنوا فی الصلوۃ فانما کان فی التشہد لا فی القیام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکنوا فی الصلوٰۃ تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں ( جزءرفع یدین، بخاری، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفہ ، صئ223 )
اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔
( 2 ) منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی فلم یرفع الا مرۃ اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے ( ابوداؤد، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36 )
اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس ہو بصحیح علی ہذا اللفظ یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔
اور ترمذی میں ہے یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں ( ترمذی، ص:36، تلخیص ، ص: 83 )
اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ( مسند احمد، جلد: 3ص: 16 ) اور حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
( 3 ) تیسری دلیل
براءبن عازب کی حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار رفع یدین کیا۔ ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔ اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں ہذا الحدیث لیس بصحیح کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ ( ابوداؤد جلد: 1 ص: 200 )
و قد رواہ ابن المدینی و احمد و الدار قطنی و ضعفہ البخاری اس حدیث کو بخاری رحمۃ اللہ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔ ( تنویر، ص: 16 )
( 4 ) چوتھی دلیل
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے ( طحاوی ) اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔ کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیہ ہے۔
نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔ فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔ وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ ( تعلیق الممجد، ص: 193 )
انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔
( 5 ) پانچویں دلیل۔
کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلی بار ہی کرتے تھے۔ ( دار قطنی )
دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات میں لکھا ہے۔ لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 83 )
ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا اصل لہم ان کا اصل و ثبوت نہیں ( تلخیص الممجد، ص: 83 )
آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2 ص: 8 )
اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔ حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیہ میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ
( 1 ) اول تو منکرین کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔
( ب ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و اشار بیدہ الی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماشانکم تشیرون بایدکم کانہا اذناب خیل شمس تمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو ویسلم علی اخیہ من علی یمینہ و شمالہ اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو اذا سلم احدکم فلیلتفت الی صاحبہ و لا یومی ( یرمی ) بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔ ( مسلم شریف )
( ج ) تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔ جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں من احتج بحدیث جابر بن سمرۃ علی منع الرفع عند الرکوع فلیس لہ حظ من العلم کہ جو شخص جابر بن سمرہ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔ کیوں کہ اسکنوا فی الصلوۃ فانما کان فی التشہد لا فی القیام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکنوا فی الصلوٰۃ تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں ( جزءرفع یدین، بخاری، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفہ ، صئ223 )
اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔
( 2 ) منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی فلم یرفع الا مرۃ اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے ( ابوداؤد، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36 )
اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس ہو بصحیح علی ہذا اللفظ یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔
اور ترمذی میں ہے یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں ( ترمذی، ص:36، تلخیص ، ص: 83 )
اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ( مسند احمد، جلد: 3ص: 16 ) اور حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔
( 3 ) تیسری دلیل
براءبن عازب کی حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار رفع یدین کیا۔ ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔ اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں ہذا الحدیث لیس بصحیح کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ ( ابوداؤد جلد: 1 ص: 200 )
و قد رواہ ابن المدینی و احمد و الدار قطنی و ضعفہ البخاری اس حدیث کو بخاری رحمۃ اللہ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔ ( تنویر، ص: 16 )
( 4 ) چوتھی دلیل
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے ( طحاوی ) اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔ کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیہ ہے۔
نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔ فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔ وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ ( تعلیق الممجد، ص: 193 )
انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔
( 5 ) پانچویں دلیل۔
کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلی بار ہی کرتے تھے۔ ( دار قطنی )
دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات میں لکھا ہے۔ لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 83 )
ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا اصل لہم ان کا اصل و ثبوت نہیں ( تلخیص الممجد، ص: 83 )
آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2 ص: 8 )
اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔ حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیہ میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین
No comments:
Post a Comment