Unicode Text Sahih Bukhari Urdu

Unicode Text Sunan Abu Dawood - Urdu

Friday, September 7, 2012

Faizail Ashrah Zil-Hajj Aur Hamare Karne Ke Kaam - فضائل عشرۂ ذی الحجہ اور ہمارے کرنے کے کام - Online Books



فضائل عشرۂ ذی الحجہ اور ہمارے کرنے کے کام

حافظ طاہر اسلام عسکری
اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ خصوصی فضل و کرم ہے کہ اس نے نیکی و اطاعت کے لیے کچھ خاص اوقات مقرر فرما دیے ہیں جن میں اعمالِ صالحہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور باری تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ بطورِ خاص بنی نوع انسان کی طرف متوجہ ہوتی ہے‘ تاکہ لوگ اس میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کر کے اپنے پروردگار کا قرب حاصل کر سکیں۔ بڑے ہی خوش قسمت اور سعادت مند ہیں وہ افراد جو ایسے لمحات کی قدر کر کے ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور لاپرواہی‘ سستی اور کوتاہی کی بجائے خوب محنت کرتے ہیں۔ ان اشرف و اعلیٰ اوقات میں عشرئہ ذی الحجہ بھی شامل ہے۔ قرآن اور سنت رسولؐ میں ذی الحجہ کے پہلے دس ایام کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ذیل میں عشرئہ ذی الحجہ کے فضائل‘ اس میں عمل کی فضیلت اور مستحب اعمال کا ذکر کیا جاتا ہے۔

عشرئہ ذی الحجہ کا استقبال
جو اوقات و لمحات خصوصی اہمیت و فضیلت کے حامل ہوں ان کے شایانِ شان اہتمام

سے ان کا استقبال کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں چند امور بطورِ خاص قابل لحاظ ہیں:

(۱) سچی توبہ:
مسلمان کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ وہ نیکی واطاعت کی ان بابرکت گھڑیوں کا استقبال سچی توبہ سے کرے اور اللہ کی طرف رجوع کا پکا ارادہ کرے کیونکہ توبہ ہی میں بندئہ مؤمن کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ وَتُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیـُّـھَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘ (النور)
’’اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو تاکہ فلاح پائو۔‘‘


(۲) ایامِ فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا پختہ عزم:
مسلمان کو چاہیے کہ ان ایام میں زیادہ سے زیادہ صالح اعمال و اقوال کے ذریعے رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش کرے اور اس بات کا عزمِ مصمم کرے کہ ان مبارک اوقات میں وہ بڑھ چڑھ کر نیکی کرے گا۔ جو شخص کسی چیز کا پختہ قصد کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتاہے اور ایسے اسباب مہیا فرما دیتا ہے جو عمل کی تکمیل میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
’’ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَـنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط‘‘ (العنکبوت:۶۹)
’’اور جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنے (قرب کے) راستے دکھلائیں گے۔‘‘


(۳)معاصی سے اجتناب:
جس طرح اعمالِ صالحہ قربِ الٰہی کا موجب ہیں اسی طرح معصیت اور نافرمانی کے کام اللہ تعالیٰ سے دُوری اور رحمت خداوندی سے بُعد کا سبب بنتے ہیں۔ انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے گناہ بخشے جائیں اور جہنم سے نجات حاصل ہو تو اسے ان ایامِ رحمت میں خصوصاً اور دیگر دنوں میں عموماً اللہ کی نافرمانی اور حدودِ الٰہی کی پامالی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالا تینوں امور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ‘جنہیں پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان بابرکت لمحات سے فائدہ اٹھائیں اور احسن طریقے سے ان کا استقبال کریں ‘ قبل اس کے کہ یہ دن گزر جائیں اور ہم حسرت وندامت سے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ لیکن اُس وقت پچھتانے کا کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!


  (۳)معاصی سے اجتناب:
جس طرح اعمالِ صالحہ قربِ الٰہی کا موجب ہیں اسی طرح معصیت اور نافرمانی کے کام اللہ تعالیٰ سے دُوری اور رحمت خداوندی سے بُعد کا سبب بنتے ہیں۔ انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ جل شانہ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے گناہ بخشے جائیں اور جہنم سے نجات حاصل ہو تو اسے ان ایامِ رحمت میں خصوصاً اور دیگر دنوں میں عموماً اللہ کی نافرمانی اور حدودِ الٰہی کی پامالی سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
مذکورہ بالا تینوں امور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ‘جنہیں پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان بابرکت لمحات سے فائدہ اٹھائیں اور احسن طریقے سے ان کا استقبال کریں ‘ قبل اس کے کہ یہ دن گزر جائیں اور ہم حسرت وندامت سے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ لیکن اُس وقت پچھتانے کا کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!


عشرئہ ذی الحجہ کی فضیلت
ذو الحجہ کے عشرئہ اوّل کی فضیلت کئی پہلوؤں سے اجاگر ہوتی ہے:
(
۱) خدا تعالیٰ نے ان دنوں کی قسم کھائی ہے: اللہ عزوجل کا کسی شے کی قسم کھانا اس کی عظمت و فضیلت کی واضح دلیل ہےاس لیے کہ جو ذات خود عظیم ہو وہ صاحب عظمت شے ہی کی قسم کھاتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
’’ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ‘‘ (الفجر) ’’قسم ہے فجر کی‘ اور دس راتوں کی۔‘‘
مفسرین کی عظیم اکثریت کے مطابق ان دس راتوں سے مرادذو الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ امام ابن کثیرؒنے بھی اپنی تفسیر میں اسی کو صحیح کہا ہے۔
(
۲) یہی ’’ایام معلومات‘‘ ہیں: قرآن مجید میں جن اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ میں ذکر الٰہی کا بیان خصوصیت سے کیا گیا ہے جمہور اہل علم کے نزدیک وہ یہی دس دن ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْم بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِج‘‘ (الحج:۲۸)
’’اور چند معلوم دنوں میں جو چوپائے جانور اللہ نے ان کو دیے ہیں ان پر اللہ کا نام لیں۔‘‘
سیدنا ابن عمراور سیدنا ابن عباسنے بھی ان ایامِ معلومات سے ذو الحجہ کے دس دن ہی مراد لیے ہیں۔
(
۳) رسول اکرمﷺ کی شہادت: حضور نبی کریمﷺ نے ان دنوں کو سب سے اعلیٰ و افضل قرار دیا ہے۔ پیغمبر اعظمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’دنیا کے افضل ترین دن ایام العشر (یعنی ذوالحجہ کے دس دن) ہیں۔ دریافت کیا گیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ کے ایام بھی ان کی مثل نہیں؟ فرمایا:’’جہاد فی سبیل اللہ میں بھی ان کی مثل نہیں سوائے اس شخص کے جس کا چہرہ مٹی میں لتھڑ جائے (یعنی وہ شہید ہو جائے)‘‘۔ (بزار‘ ابن حبان)
(۴) ان میں ’’یومِ عرفہ‘‘ ہے: حج کا رکن اعظم یومِ عرفہ بھی انہی ایام میں ہے۔ یہ دن انتہائی شرف و فضیلت کا حامل ہے ۔یہ گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے آزادی کا دن ہے۔ اگر عشرئہ ذی الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے اور کوئی قابل ذکر یا اہم شے نہ بھی ہوتی تو یہی اس کی فضیلت کے لیے کافی تھا۔اس سلسلے میں کئی احادیث مروی ہیں۔ حضرت عائشہسے روایت ہے کہ رسولِ معظمﷺ نے فرمایا:
(مَا مِنْ یَوْمٍ اَکْثَرَ مِنْ اَنْ یُعْتِقَ اللّٰہُ فِیْہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمٍ عَرَفَۃَ) (۱)
’’اللہ تعالیٰ جس قدر عرفہ کے دن لوگوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہے اس سے زیادہ کسی اور دن آزاد نہیں کرتا۔‘‘
ایک اور حدیث نبویؐ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’شیطان یومِ عرفہ کے علاوہ کسی اور دن میں اپنے آپ کو اتنا چھوٹا حقیر‘ ذلیل اور غضبناک محسوس نہیں کرتا جتنا اس دن کرتا ہے۔ یہ محض اس لیے ہے کہ اس دن میں وہ اللہ کی رحمت کے نزول اور انسانوں کے گناہوں سے صرفِ نظر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ البتہ بدر کے دن شیطان نے اس سے بھی بڑی شے دیکھی تھی ‘‘۔ عرض کیا گیا یارسول اللہﷺ! یومِ بدر اس نے کیا دیکھا؟ فرمایا: ’’جبرئیل کو جو فرشتوں کی صفیں ترتیب دے رہے تھے‘‘۔ (مالک‘ عبدالرزاق ۔یہ روایت مرسل صحیح ہے)
یوم عرفہ کے روزے کی بھی بہت فضیلت ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
(
۵) انہی ایام میں ’’یومِ نحر‘‘ ہے: بعض علماء کے نزدیک یومِ نحر پورے سال میں سب سے افضل ہے۔ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے :
(اِنَّ اَعْظَمَ الْاَیَّامِ عِنْدَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ یَوْمُ الْقَرِّ) (۲)
’’اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے عظمت والا دن یومِ نحر (دس ذی الحجہ) ہے ‘پھر یوم القر (یعنی اس سے اگلا گیارہ ذی الحجہ کا دن)ہے۔‘‘
تنبیہ:
’’القر‘‘ قرار (ٹھہرنے) سے ہے۔ اس میں لوگ منیٰ میں قیام کرتے ہیں۔ اس وجہ سے اسے ’’یوم القر‘‘ کہتے ہیں۔
(
۶) اسی عشرہ میں عظیم عبادات جمع ہوتی ہیں: شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ
ظاہری طو رپر عشرئہ ذی الحجہ کے امتیاز کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں ‘یعنی نماز‘ روزہ‘ صدقہ اور حج۔ ان کے علاوہ دیگر ایام میں ایسا نہیں ہوتا۔ (فتح الباری)


عشرئہ ذی الحجہ میں عمل کی فضیلت
سیدنا ابن عباسسے مروی ہے کہ رسولِ معظم نے فرمایا:
(مَا الْعَمَلُ فِیْ اَیَّامٍ اَفْضَلَ مِنْھَا فِیْ ھٰذِہٖ) قَالُوْا: وَلَا الْجِھَادُ؟ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ اِلاَّ رَجُلٌ خَرَجَ یُخَاطِرُ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ بَشَیْئٍ) (۳)
’’ذی الحجہ کے دس دنوں میں خدا کو نیک عمل جتنا محبوب ہے اس کے علاوہ دیگر دنوںمیں نہیں‘‘۔ صحابہؓ نے عرض کیا:کیا اللہ کے راستے میں جہاد بھی (ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر نہیں)؟ فرمایا :’’نہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیںسوائے اس شخص کے جواپنی جان و مال کے ساتھ نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا (یعنی شہید ہوگیا) ‘‘۔
اسی مفہوم کی روایت سیدنا ابن عمرؓ کے حوالے سے مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ ذوالحجہ کے پہلے دس ایام میں کیا گیا عمل دیگر دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے اللہ تبارک و تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے۔ یہ اس کے افضل ہونے کی دلیل ہے۔ نیز یہ بھی پتا چلا کہ عشرئہ ذی الحجہ میں اعمالِ صالحہ بجالانے والا اس مجاہد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اجر و فضیلت کا مستحق ہے جو اپنے مال و جان کے ساتھ بخیریت میدانِ جنگ سے واپس آ جاتا ہے۔


عشرئہ ذی الحجہ میں مستحب اعمال
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ دن اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی عنایت و شفقت کا باعث اور اللہ عزوجل کی جانب سے اپنے بندوں پر اس کے فضل کا موجب ہے تو ہمیں ان بابرکت لمحات میں بڑھ چڑھ کر نیک اعمال کرنے چاہئیں۔ اجر و ثواب کے خاص خاص اوقات کے بارے میں سلف صالحینؒ کا یہی طریقہ کار تھا۔
ابوعثمان الہندیؒ فرماتے ہیں:
’’سلف تین عشروں کو بہت عظیم سمجھتے تھے: (
۱) رمضان المبارک کا آخری عشرہ (۲)ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ۔اور (۳) ماہِ محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ ‘‘


عشرئہ ذی الحجہ میں جو اعمال مستحب ہیں اور جنہیں زیادہ سے زیادہ بجا لانا چاہیے وہ یہ ہیں:
(۱) حج و عمرہ کی ادائیگی:
عشرئہ ذی الحجہ میں کیے جانے والے تمام اعمالِ صالحہ میں سے افضل عمل حج بیت اللہ اور عمرہ کی ادائیگی ہے ۔جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلوص و اخلاص کے ساتھ حج اور عمرہ ادا کرنے کی توفیق میسر آ جائے اس کی جزا صرف جنت ہے۔ حضور نبی کریم
کا ارشاد ہے:
(اَلْعُمْرَۃُ اِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہٗ جَزَائٌ اِلَّا الْجَنَّۃُ) (۴)
’’ایک عمرے کے بعد دوسرے عمرے کی ادائیگی ان دونوں کے مابین کیے گئے گناہوں کا کفار ہ بن جاتی ہے‘ اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں۔‘‘
حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جو سنت نبویؐ کے مطابق کیا جائے‘ جس میں ریاکاری ‘ نمود و نمائش‘ شہوت کی بات اور کسی قسم کی معصیت و نافرمانی نہ کی جائے‘ بلکہ نیکی اور بھلائی کے کام زیادہ سے زیادہ کیے جائیں۔

(۲) روزہ رکھنا:
روزہ بھی نیک اعمال میں شامل ہے ‘بلکہ افضل ترین عمل ہے۔ اس کی عظمت شان اور علو مرتبت کی وجہ سے اللہ جل شانہ نے اسے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے ‘ رسول اللہ
نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ لَہٗ اِلاَّ الصَّوْمَ فَاِنَّہٗ لِیْ وَاَنَا اَجْزِیْ بِہٖ) (۵)
’’ابن آدم کا ہر عمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے ‘کہ وہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
نبی مکرم نے عشرئہ ذی الحجہ کے دیگر ایام میں سے ۹ ذی الحجہ (یومِ عرفہ) کے روزے کا بطورِ خاص ذکر کیا ہے اور اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
(صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّکَفِّرَ السَّنَۃَ الَّتِیْ قَبْلَہٗ وَالسَّنَۃَ الَّتِیْ بَعْدَہٗ) (۶)
’’یومِ عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے خدا سے امید ہے کہ یہ ایک سال پہلے کے اور ایک آئندہ آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔‘‘
لہٰذا ۹ ذو الحجہ کا روزہ رکھنا سنت اور مستحب ہے ‘کیونکہ رسول اکرم نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ امام نوویؒ کے نزدیک پورے عشرے کے روزے رکھنا مستحب ہے۔ فرماتے ہیں:
صیامھا مستحب استحبابا شدیدا
  ’’عشرئہ ذی الحجہ کے روزے انتہائی درجے میں مستحب ہیں‘‘۔
(۳) نماز اور نوافل:
نماز بھی جلیل القدر اور افضل ترین عبادات میں شامل ہے۔ لہٰذا ہرمسلمان کو بروقت اور باجماعت نماز ادا کر کے اس پر محافظت اور ہمیشگی کرنی چاہیے۔ عشرئہ ذی‘الحجہ میں فرض نمازوں پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ کثرت سے نوافل بھی ادا کرنے چاہئیں۔ یہ بہت اعلیٰ درجے کی نیکی ہے۔ رسول اکرم
پروردگارِ عالم سے روایت کرتے ہیں:
(وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہٗ) (۷)
’’بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے تاآنکہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔‘‘

(۴) تکبیر ‘ تحمید ‘ تہلیل اور ذکر :
ذو الحجہ کے ان پرانوار ایام میں ذکرالٰہی اور تکبیر و تحمید کا بھی کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے۔ سیدنا ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ نبی ٔ‘مکرم
نے فرمایا:
’’ان دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں کہ جس میں کیا گیا عمل خدا تعالیٰ کے ہاں ان سے زیادہ عظیم اور محبوب ہو‘ پس تم ان دنوں میں تہلیل (لا الٰہ الا اللہ)تکبیر (اللہ اکبر) اور تحمید (الحمد للہ) کی کثرت کرو‘‘۔ (مسند احمد)
یاد رہے کہ جونہی ذی الحجہ کا چاند نظر آ جائے تکبیرات شروع کر دینی چاہئیں اور اس سارے عشرے میں یہ معمول جاری رہنا چاہیے۔ امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ:
’’سیدنا ابن عمرؓ اور سیدنا ابوہریرہؓ ‘عشرئہ ذی الحجہ کے دوران بازار میں نکلتے تو تکبیرات کہتے اور انہیں سن کر لوگ بھی تکبیرات کہتے۔سیدنا عمر فاروق ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ آپؓ‘ منیٰ میں اپنے خیمے میں تکبیرات کہتے اور مسجد والے لوگ ان کی آواز سن کر اس میں شریک ہو جاتے۔
اس طرح ایام منیٰ میں سیدنا ابن عمرؓ نمازوں کے بعد‘ اپنے بستر پراپنے خیمے میں‘ اپنی مجلس میں اور چلتے ہوئے تکبیرات میں مشغول رہتے۔ لہٰذا ان تمام ایام میں زیادہ سے زیادہ بآوازِ بلند تکبیرات کہنی چاہئیں۔ البتہ اجتماعی انداز میں تکبیرات کہنے کا رسول اکرم اور سلف صالحین سے کوئی ثبوت نہیں‘لہٰذااس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر تکبیرات کہے‘‘۔

(۵) صدقہ و خیرات :
صدقہ و خیرات بھی عمومی طو رپر ان اعمالِ صالحہ میں شامل ہے جو اِس عرصہ میں کثرت سے کرنے چاہئیں۔ اللہ جل جلالہ نے اس کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
’’ یٰٓاَیہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّۃٌ وَّلاَ شَفَاعَۃٌط وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ‘‘ (البقرۃ)
’’اے اہل ایمان! جو کچھ مال و متاع ہم نے تم کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے کہ جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی ‘نہ دوستی کام آئے گی اورنہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔‘‘
صدقہ و خیرات کی فضیلت و برکت کے بارے میںنبی مکرم کا ارشادِ گرامی ہے :
(مَا نَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ) (۸) ’’صدقہ مال کو کم نہیں کرتا۔‘‘

(6)  قربانی:
۱۰ ذی الحجہ یعنی عیدالاضحی کے دن قربانی کرنا بھی افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ یہ سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا محمد مصطفی کی سنت ہے۔ اگرچہ فرض تو نہیں تاہم سنت مؤکدہ ہے۔ لہٰذا صاحب حیثیت مسلمان کو قربانی ضرور کرنی چاہیے ۔ قربانی کا جانور عیوب و نقائص سے پاک ہونا چاہیے۔ اس کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے اور فقراء ومساکین اور عزیز و رشتہ دار افراد میں بھی تقسیم‘کرنا چاہیے۔ یاد رہے کہ حدیث نبویؐ ہے کہ جو شخص قربانی کرنا چاہے وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ اس حوالے سے ایک سنت یہ بھی ہے کہ رسول اکرم عید الاضحی کے دن نماز سے پہلے کچھ نہیں کھاتے تھے‘ بلکہ بعد میں کھاتے تھے۔

(7)   نماز عید کی ادائیگی:
قربانی کرنے سے پہلے عیدالاضحی کی نماز کی ادائیگی بھی ایکبڑی عظیم سنت ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے افراد عید نماز ادا کرنے میں کوتاہی و سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور عید کے بعد دعا سے بھی محروم رہ جاتے ہیں ۔یہ بڑی کم نصیبی ہے۔ رسول معظم
نے تو ان خواتین کو بھی عید کے بعد کی دعا میں شامل ہونے کی ترغیب دلائی ہے جو اپنے مخصوص ایام کی وجہ سے نمازِ عید الاضحی ادانہیں کر سکتیں۔ لہٰذا اس باب میں ذوق و شوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس عبادت میں شامل ہونا چاہیے۔

(۸) متفرق اعمال :
علاوہ ازیں ان ایام میں دیگرتمام نیک اعمال کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت کرنی چاہیے اور مجاہدئہ نفس کے ذریعے خوشنودی ٔ رب کی تلاش میں منہمک ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں درج ذیل اعمال پر بطورِ خاص توجہ دینی چاہیے: تلاوت و تعلّم قرآن‘ استغفار‘ والدین سے حسن سلوک‘ صلہ رحمی‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ زبان اور شرم گاہ کی حفاظت‘ ہمسایوں سے حسن سلوکاکرامِ ضیف‘ لوگوں کے کام آنا (خدمت خلق)‘ رسول اکرم
پر کثرت سے درود و سلام‘ کسب حلال کے لیے محنت کرنا‘ عیادتِ مریض‘ کفالت یتامیٰ وغیرہ۔
باری تعالیٰ ہمیں ان مبارک لمحات سے بھرپور استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری جملہ عبادات کو شرفِ قبولیت سے نواز کر ذریعۂ نجات بنائے۔آمین!
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما مزیدا


حواشی
(۱)صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ۔
(
۲)سنن ابی داوٗد‘ کتاب المناسک‘ باب فی الھدی اذا عطب قبل ان یبلغ۔
(
۳)صحیح البخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب فضل العمل فی ایام التشریق۔
(
۴)صحیح البخاری‘کتاب الحج‘ باب وجوب العمرۃ وفضلھا۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب فی فضل الحج والعمرۃ ویوم عرفۃ۔
(
۵)صحیح البخاری‘ کتاب اللباس‘ باب ما یذکر فی المسک۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب فی فضل الصیام۔
(
۶)صحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام من کل شھر وصوم یوم‘عرفۃ
(
۷)صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب التواضع۔
(
۸)صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘باب استحباب العفو والتواضع۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment