توہین آمیز خاکے
ڈاکٹرحافظ حسن مدنی
مسلمان دنيا بهر ميں ان دنوں توہين آميز كارٹونوں كى اشاعت كے خلاف پرزور احتجاج كررہے ہيں اور اس سلسلے ميں ميڈيا پر ہرطرح كى خبريں، مظاہرے ومباحثے، مضامين اور مقالات شائع ہو رہے ہيں اورعملاً يہ احتجاج روز بروز بڑھتا جارہا ہے-اس كے بالمقابل اس ظلم كا ارتكاب كرنے والے اپنى زيادتى پر بهى اصرار جارى ركهے ہوئے ہيں-
توہين آميز خاكوں ميں كئى چيزيں ايسى ہيں جن سے مسلمانوں كا اشتعال ميں آنا لابدى امر ہے- دنيا بهر كے مسلمانوں ميں اس بارے ميں جواتفاقِ رائے سامنے آيا ہے، اس كى مثال ماضى قريب ميں نہيں ملتى- پهر ان خاكوں كى مذمت كرنے والوں ميں صرف مسلمان ہى پيش پيش نہيں،بلكہ ہر مذہب سے تعلق ركهنے والے بهى ان كے ہم آواز ہيں، حتىٰ كہ دين ومذہب سے بالا ہو كر آزاد خيال ليكن سنجيدہ فكر لوگ بهى ان خاكوں كى مذمت كررہے ہيں-
توہين آميز خاكے اوراسلام
جہاں تك اس احتجاج كا تعلق ہے تو يہ اس ظلم وزيادتى كا رد عمل ہے، ليكن ان خاكوں يا كارٹونوں ميں كونسى چيزيں ايسى پائى جاتى ہيں، جن پر اعتراض كيا جارہا ہے؟ اكثر مضامين ميں اس پر كوئى روشنى نہيں ڈالى گئى، ذيل ميں ہم ان وجوہات كا تذكرہ كرتے ہيں جن كى بنا پر يہ كارٹون دنيا بهر كے سليم الفكر لوگوں كى دلآزارى كا سبب بنے ہيں ، مثلاً
1-ديگر مذاہب كے ماننے والے تو اپنى مقدس شخصيات كى تصاوير بنانے ميں كوئى حرج نہيں سمجهتے جيساكہ عيسائى حضرت مريم علیہ السلام ا اور حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى تصاوير اكثر وبيشتر اپنے چرچوں يا گهروں ميں آويزاں كرتے ہيں، حتىٰ كہ ان كے مجسمات بنانے ميں كوئى حرج بهى محسوس نہيں كيا جاتا،بلكہ بعض مذاہب ميں تو انہى مجسّموں كى ہى عبادت كى جاتى ہے مثلاً ہندو اور بدہ مت وغيرہ- البتہ اسلام جو الہامى مذاہب كى آخرى اور مكمل ترين شكل ہے، اس كى رو سے مقدس شخصيات كى تصوير كشى كرنا يا ان كے مجسّمے بنانا بذاتِ خود خلافِ شرع ہے جب كہ اس تصوير يا مجسّمے ميں اہانت يا رسوائى كا كوئى پہلو بهى نہ پايا جاتا ہو!!
اسلام كى رو سے تصوير بنانا ناجائز او رمجسمہ سازى حرام ہے- اور تصوير سازوں كے لئے زبانِ رسالت سے مختلف وعيديں بيان ہوئى ہيں- ايسے ہى مجسمہ سازى بهى حرام ہے اور آج تك مسلم معاشروں كى تاريخ اس تصور سے يكسر خالى رہى ہے- تصوير بنانے كى اس حرمت كى مختلف وجوہات ہوسكتى ہيں، جن ميں بطورِ خاص شرك كا تذكرہ كيا جاسكتا ہے-
چونكہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس شخصيات كى تصاوير ميں ’شرك كے نكتہ آغاز بننے كا يہ امكان‘ قوى تر ہوجاتا ہے، اس لئے عام آدمى كى تصاوير پر تو كوئى بحث مباحثہ ہو سكتا ہے ليكن متبرك شخصيات كى تصاوير كى اسلام ميں كليتاًكوئى گنجائش نہيں نكل سكتى-
2 -تصوير سازى كے عنصر كے علاوہ مقدس شخصيات كى تصاوير ميں ايك پہلو ان پر تہمت طرازى كا بهى ہے- كيونكہ جب ان كى تصوير كے بارے ميں كوئى يقين سے يہ نہيں كہہ سكتا كہ يہ فلاں نبى علیہ السلام كى تصوير ہے بلكہ وہ تصوير يا مجسمہ محض مصور كے ذ ہنى تخيل پر مبنى اور اس شخصيت كے بارے ميں اس كے ذاتى احساسات وتصورات كا عكاس ہے جو ظاہر ہے كہ محض اس كے ذاتى تصور سے زيادہ كوئى واقعاتى يا مستند حيثيت نہيں ركهتا-اگر يہى مصور اس تصوير كو كسى اور شخصيت سے منسوب كردے تو ناظرين كے پاس اس كو تسليم كرنے كے سوا بهى كوئى چارہ نہيں ہوگا-
علاوہ ازيں اسلام كا معمولى علم ركهنے والے بهى جانتے ہيں كہ نبى آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم كى محبت مسلمانوں كے ايمان كا جز ہے، اور آپ كا ہرقول وفعل ايك شرعى حيثيت ركهتا ہے، ايسے ہى اس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى سيرت بهى آپ پر ايمان ركهنے والوں كى توجہ كا مركز ومحور اور ان كے لئے اُسوئہ حسنہ ہے- اس سيرت كى اتباع كرنا، ان كے تصورِايمان ميں داخل ہے- ايك تصوير يا مجسمہ ايك شخصيت كا عكاس ہوتا ہے، جس ميں اس شخصيت كى سيرت كے كئى پہلو جهلكتے ہيں- آپ كى ایسی صورت وسيرت سے محبت جو مبنى برحقيقت نہيں بلكہ محض كسى انسان كے تخيل كى پرواز كا نتيجہ ہے، اسلامى احكام اور اُسوئہ حسنہ كے تصور ميں خلل كا باعث بنے گى-
انبيا كرام علیہ السلام كى مبارك صورتوں كو اللہ تعالىٰ نے خاص وقار عطا كيا ہے- اور شيطان كو بهى اس امر پر قدرت نہيں دى كہ وہ انبياكى صورت اختيار كرسكے- جيسا كہ صحيح بخارى ومسلم ميں نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرما ن موجود ہے: ”جو شخص خواب ميں ميرى زيارت سے مشرف ہوا، اس نے مجهے ہى ديكها كيونكہ شيطان ميرى صورت اختيار كرنے پر قادر نہيں-“ (مسلم: ٢٢٦٦)
اہانت ِانبيا پر مسلم اداروں كا مشہور موقف: ہمارا يہ موقف نيا نہيں كہ غير مسلموں كو لاعلمى كى رعايت مل سكے- بلكہ نہ صرف انبياء كرام بلكہ صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم الجمعین كى تصاوير اور فلموں ميں اداكارى كے حوالے سے بهى عالم اسلام كے مسلمہ دينى اداروں كا موقف بهى اہل علم ميں مشہور ومعروف ہے- اس سلسلے كى ايك تفصيلى بحث ٣١ برس قبل سعودى عرب كى وزارت مذہبى اُمور كے ايك تفصيلى فتوىٰ ميں شائع كى جا چكى ہے-
چونكہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم اور مقدس شخصيات كى تصاوير ميں ’شرك كے نكتہ آغاز بننے كا يہ امكان‘ قوى تر ہوجاتا ہے، اس لئے عام آدمى كى تصاوير پر تو كوئى بحث مباحثہ ہو سكتا ہے ليكن متبرك شخصيات كى تصاوير كى اسلام ميں كليتاًكوئى گنجائش نہيں نكل سكتى-
2 -تصوير سازى كے عنصر كے علاوہ مقدس شخصيات كى تصاوير ميں ايك پہلو ان پر تہمت طرازى كا بهى ہے- كيونكہ جب ان كى تصوير كے بارے ميں كوئى يقين سے يہ نہيں كہہ سكتا كہ يہ فلاں نبى علیہ السلام كى تصوير ہے بلكہ وہ تصوير يا مجسمہ محض مصور كے ذ ہنى تخيل پر مبنى اور اس شخصيت كے بارے ميں اس كے ذاتى احساسات وتصورات كا عكاس ہے جو ظاہر ہے كہ محض اس كے ذاتى تصور سے زيادہ كوئى واقعاتى يا مستند حيثيت نہيں ركهتا-اگر يہى مصور اس تصوير كو كسى اور شخصيت سے منسوب كردے تو ناظرين كے پاس اس كو تسليم كرنے كے سوا بهى كوئى چارہ نہيں ہوگا-
علاوہ ازيں اسلام كا معمولى علم ركهنے والے بهى جانتے ہيں كہ نبى آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم كى محبت مسلمانوں كے ايمان كا جز ہے، اور آپ كا ہرقول وفعل ايك شرعى حيثيت ركهتا ہے، ايسے ہى اس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى سيرت بهى آپ پر ايمان ركهنے والوں كى توجہ كا مركز ومحور اور ان كے لئے اُسوئہ حسنہ ہے- اس سيرت كى اتباع كرنا، ان كے تصورِايمان ميں داخل ہے- ايك تصوير يا مجسمہ ايك شخصيت كا عكاس ہوتا ہے، جس ميں اس شخصيت كى سيرت كے كئى پہلو جهلكتے ہيں- آپ كى ایسی صورت وسيرت سے محبت جو مبنى برحقيقت نہيں بلكہ محض كسى انسان كے تخيل كى پرواز كا نتيجہ ہے، اسلامى احكام اور اُسوئہ حسنہ كے تصور ميں خلل كا باعث بنے گى-
انبيا كرام علیہ السلام كى مبارك صورتوں كو اللہ تعالىٰ نے خاص وقار عطا كيا ہے- اور شيطان كو بهى اس امر پر قدرت نہيں دى كہ وہ انبياكى صورت اختيار كرسكے- جيسا كہ صحيح بخارى ومسلم ميں نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرما ن موجود ہے: ”جو شخص خواب ميں ميرى زيارت سے مشرف ہوا، اس نے مجهے ہى ديكها كيونكہ شيطان ميرى صورت اختيار كرنے پر قادر نہيں-“ (مسلم: ٢٢٦٦)
اہانت ِانبيا پر مسلم اداروں كا مشہور موقف: ہمارا يہ موقف نيا نہيں كہ غير مسلموں كو لاعلمى كى رعايت مل سكے- بلكہ نہ صرف انبياء كرام بلكہ صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم الجمعین كى تصاوير اور فلموں ميں اداكارى كے حوالے سے بهى عالم اسلام كے مسلمہ دينى اداروں كا موقف بهى اہل علم ميں مشہور ومعروف ہے- اس سلسلے كى ايك تفصيلى بحث ٣١ برس قبل سعودى عرب كى وزارت مذہبى اُمور كے ايك تفصيلى فتوىٰ ميں شائع كى جا چكى ہے-
يوں تو اس فتوىٰ ميں براہ راست اس موضوع كو زير بحث بنايا گيا ہے كہ كيا صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم كے كردار كو فلمايا جاسكتا ہے، ليكن اسى ضمن ميں انبيا كرام علیہ السلام كى تصاوير اور ان كے مجسمات پر بهى سير حاصل بحث موجود ہے- اس بحث ميں رابطہ عالم اسلامى مكہ مكرمہ، المنظمات الإسلامية العالمية، ازہر كى فتوىٰ كونسل
اور سعودى عرب كى كبار علما كونسل كے فتاوىٰ كو بنياد بناتے ہوئے سعودى عرب كى فتوىٰ كميٹى نے
شيخ محمد بن ابراہيم آلِ شيخ كى سربراہى ميں ان تمام چيزوں كى حرمت كا فتوىٰ ديا ہے اور اسے ان مقدس شخصيات كى اہانت سے تعبير كيا ہے- اس مضمون ميں حرمت كى بنياد بننے والے نقصانات اور مفاسد كا تفصيل سے تذكرہ كرتے ہوئے قرآنِ كريم كى آيات اور احاديث ِنبويہ سے بهى استدلال كيا گيا ہے، تفصيل كے شائقين كے لئے ٢٥ فل سكيپ صفحات پر پهيلے ہوئے اس فتوىٰ كا مطالعہ مفيد ہوگا- ( ديكھيں: مجلة البحوث الإسلامية: عدد اوّل، رمضان ١٣٩٥ہ، ص ٢١١ تا ٢٣٦)
3-مذكورہ بالا دو نكات سے يہ پتہ چلتا ہے كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى تصاوير بنانا بذاتِ خود اسلامى احكامات سے متصادم ہے گو كہ ان ميں اہانت كا كوئى پہلو بهى نہ پايا جائے-ايسى تصاوير شرك كا پيش خيمہ، صريح فرامين ِرسالت كى مخالفت اور نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى صورت وسيرت پر اتہام كى قبيل سے ہيں-يہى وجہ ہے كہ ہمارى روايات ميں مقدس شخصيات كى تصاوير كا كوئى وجود نہيں پايا جاتا- البتہ حاليہ واقعات ميں جب ان تصاوير ميں اہانت او راسلامى تعليمات كے مذاق كا پہلو بهى بطورِ خاص شامل كرليا جائے تو يہ مكروہ فعل شرعى گناہ سے بڑھ كر ايك عظيم جسارت كا روپ اختيار كرليتا ہے- جس كا مرتكب اگر مسلمان ہو تو وہ دائرئہ اسلام سے خارج ہوكر مرتد ہو جاتا ہے اوراگر غير مسلم ہو تو تب بهى اس كو كسى طو رپر گوارا نہيں كيا جاسكتا-
اس كى وجہ يہ ہے كہ نبى آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم رہتى دنيا تك تمام انسانيت كے نبى ہيں، جملہ مذاہب كے ماننے والوں كے ہاں تو آپ كاتذكرہ كسى نہ كسى صورت ميں پايا جاتا ہى ہے جبكہ باقى انسانيت كى فطرتِ سليم ميں قرآن كى رو سے ربّ كى توحيد كا اقرار اور اسلام كى حقانيت كا اثبات موجود ہے- آج اگر بعض كم نصيبوں كو آپ كى رسالت قبول كرنے كا شرف حاصل نہيں ہوا اور وہ آپ كى اُمت ِاجابت ميں شامل ہونے سے محروم ہيں تو پهر بهى وہ آپ كى اُمت ِدعوت ميں ضرور شامل ہيں- اور يہ بات كئى فرامين نبوى صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت كے ساتھ ثابت ہے-
آپ نے ديگر انبيا كرام علیہ السلام سے اپنے امتيازات كا تذكرہ كرتے ہوئے اس امتياز كا بهى تذكرہ فرمايا كہ ”پہلے انبيا ايك مخصوص قوم كى طرف بهيجے جاتے تهے اور ميں تمام انسانيت كے لئے بهيجا گيا ہوں-“(بخارى: ٤٣٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم كى رحمت انسانوں سے بڑھ كر جانوروں كو بهى شامل ہے اور آپ كا لقب رحمتہ للعالمين ہے-آپ شرفِ انسانيت اور اللہ عزوجل كے محبوب ِگرامى ہيں، اس لئے آپ كى توہين انسانيت كى توہين كے مترادف ہے، جس كى كسى غير مسلم كو بهى اجازت نہيں دى جاسكتى- دور نبوى كے متعدد واقعات اس پر شاہد ہيں كہ توہين كے مرتكب يہوديوں كو بهى آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے جانثاروں كو بهيج كر قتل كروايا- يہ شانِ رسالت كا تقاضا ہے كہ كل انسانيت كے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى ناموس كا تحفظ كى جائے- حضرت ابو بكر رضی اللہ عنہ كا فرمان ہے :
لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلي الله عليه وسلم (سنن ابوداؤد: ٤٣٦٣) مختصراً
”اپنى توہين كرنيوالے كو قتل كروا دينا محمدصلی اللہ علیہ وسلم كے علاوہ كسى كے لئے روا نہيں ہے-“
اسلام نے يہ اعزاز صرف نبى آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم كے لئے مخصوص نہيں كيا بلكہ ناموسِ رسالت كے اس تحفظ ميں تمام انبياے كرام كو بهى شامل كيا- ايك طرف مسلمانوں كو ہر قوم كى مقدس شخصيات اور شعائر كے احترام كا درس ديا اور دوسرى طرف تمام انبياكا يہ حق بنا ديا كہ ان كى شان ميں توہين كرنے والوں كو زندگى كے حق سے محروم كرديا جائے-اس سلسلے ميں امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے حضرت موسىٰ علیہ السلام كے ايك قصے پر اپنى كتاب الصارم المسلول ميں تفصيلى بحث كرتے ہوئے بڑا بليغ استدلال كيا ہے :
حارث بن نوفل سے مروى ہے كہ موسىٰ عليہ السلام كے خلاف ان كے عم زاد بهائى قارون نے سازش تيار كى اور ايك فاحشہ عورت كو مال وزر كے لالچ سے اس بات پر آمادہ كرليا كہ جب ميں اپنے حواريوں ميں بيٹها ہوں تو ميرے پاس آكر فرياد كرنا كہ موسىٰ نے ميرى عزت پرہاتھ ڈالا ہے- اس عورت نے ايسے ہى كيا اور حضرت موسىٰ كو برسرمجمع رسوا كيا- رسوائى كى يہ خبر جب حضرت موسىٰ كو پہنچى تو اُنہوں سے ربّ تعالىٰ سے سجدے ميں گر كر فريا د كى اور اپنى عزت كے دفاع كے لئے اس كى مدد طلب كى- اس دعا كے بعد آپ علیہ السلام قارون كى مجلس ميں گئے اور اس كے حواريوں كى موجودگى ميں كہا كہ تو نے ميرے بارے ميں فلاں فلاں سازش كى، اے زمين! اس كو پكڑ لے- حضرت موسىٰ علیہ السلام كى اس بددعا كا يہ اثر تها كہ زمين نے ان سب كو اپنے اندر دہنسانا شروع كرديا اور ديكهتے ہى ديكهتے اُنہيں گهٹنوں، كمر اور سينے تك اندر كهينچ ليا- ان كى چيخ وپكار كے باوجود حضرت موسىٰ علیہ السلام نے اپنى دعا جارى ركهى جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ قارون اور اس كے سب ساتهى زمين ميں دہنس گئے-“ مختصراً (ص: ٤١٢،٤١٣)
قارون اور اس كى جماعت كے دہنسنے كا يہ واقعہ قرآن ميں بهى ذكر ہوا اور نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے كہ وہ قيامت تك دہنستے رہيں گے اور قارون كا خزانہ ان كے سر پربوجہ بن كر ان كے ساتھ ہوگا- يہ اوراس جيسے كئى واقعات اسلامى شريعت كے اس تصور كى تائيد كرتے ہيں كہ ناموسِ رسالت كى حفاظت كا يہ حق ديگر انبيا كو بهى حاصل ہے- جو شخص ان كى شان ميں گستاخى كا ارتكاب كرے گا، اس كو بهى شديد سزا كا سامنا كرنا ہوگا-
حضرت على رضی اللہ عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
((من سبَّ نبيا قُتِل ومن سبَّ أصحابه جُلِدَ)) (الصارم المسلول: ص٩٢)
”جس نے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو گالى دى، اسے قتل كيا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ رضی اللہ عنہم كو گالى دى تو اسے كوڑے مارے جائيں-“
حضرت عمر رضی اللہ كے پاس ايك آدمى لايا گيا كہ وہ نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو برا بهلا كہتا تها تو فرمايا:
((من سبّ الله أو سبّ أحدا من الأنبياء فاقتلوه)) (الصارم المسلول: ص٤١٩)
”جس نے اللہ كويا انبيا كرام ميں سے كسى كو گالى دى تو اسے قتل كرديا جائے-“
يہى وجہ ہے كہ پاكستان ميں نافذ العمل توہين رسالت كى سزا تمام انبيا كى توہين كرنے والوں كے لئے عام ہے- (ناموسِ رسول اور قانون توہين رسالت : ص ٣٣٦، طبع سوم)
ديگر مذاہب كے ماننے والے اپنى مقدس شخصيات سے جو بهى سلوك كريں ليكن مسلمانوں نے ماضى ميں بهى كبهى اہل كتاب كو بهى اس امر كى اجازت نہيں دى كہ وہ اپنے انبيا كى تصوير كشى يا ان كو كسى ڈرامہ كى منظر كشى ميں پيش كرسكيں- خلافت ِعثمانيہ كے آخرى سالوں ميں شام كے بعض ممالك ميں بعض عيسائيوں نے حضرت يوسف علیہ السلام كے كردار كو كسى ڈرامہ ميں پيش كرنا چاہا تو اس وقت اس مسئلہ پر اہل علم كے ہاں بہت لے دے ہوئى اور بالآخر سلطان عبد الحميد نے عيسائيوں كو بلادِ اسلاميہ ميں انبيا كى اس اہانت سے حكما ًروك ديا- (مجلة البحوث الإسلامية سعودى عرب، عدد اوّل، مجريہ ١٣٩٥ہ، ص ٢٢٢)
ايسے ہى بيسيويں صدى كے آغاز ميں ہى لندن ميں ايك ڈرامے ميں نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سميت بعض ديگر انبيا كے كردار كو بهى پيش كئے جانے كى خبر ملى، اس موقع پر بهى اسى خليفہ نے پہلے سفارتكارى اور بعد ازاں يہ دہمكى دے كر اس مذموم فعل كو رو بہ عمل آنے سے روك ديا كہ وہ بحيثيت ِخليفہ ”پورى اُمت ِمسلمہ كو برطانيہ كے خلاف جنگ كا حكم جارى كريں گے-“
4 -ان توہين آميز خاكوں كے ذريعے جہاں ناموسِ رسالت پر حرف آيا ہے، وہاں اللہ كے آخرى دين اور اكمل شريعت كى بے حرمتى كا بهى ارتكاب كيا گيا ہے- ان كارٹونوں كے بارے ميں جو تفصيلات بعض ذرائع ابلاغ ميں چهپى ہيں، ان سے پتہ چلتاہے كہ باقاعدہ منظم منصوبہ بندى كے ذريعے قرآنِ كريم، فرامين ِنبويہ اور شريعت ِمطہرہ كا تمسخر اُڑانے كے لئے يہ سارى سازش عمل ميں لائى گئى- اوراس تمسخر كو كارٹون يا خاكوں كى ذو معنى شكل ميں پورى دنيا ميں پهيلايا گيا ہے- فرامين نبوى اور آياتِ قرآنى كى اس تضحيك كے علاوہ اسلام سے ديگر مذاہب كو بدترين تعصب ميں مبتلا كرنے كے لئے يہوديوں كے بارے ميں بعض واقعات كى مضحكہ خيز منظر كشى بهى كى گئى، تاكہ ديگر مذاہب كے ماننے والوں كو اسلام سے بدظن كياجائے-
يہ تمام خاكے اس امر كا بهى واضح ثبوت ہيں كہ اسلام كو قبو ل كرنے كى جو روايت امريكہ اوريورپ ميں جڑ پكڑ رہى ہے، اس سے اسلام دشمن برى طرح خائف ہيں اور وہ ہر حيلے بہانے سے اسلام كى بڑہتى مقبوليت كے آگے بند باندہنا چاہتے ہيں اور اسى لئے وہ اسلام كو دہشت گردى، تنگ نظرى اورتعصب وجبر كا دين ثابت كرنے پر تلے ہوئے ہيں- قرآن كہتا ہے :
((يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِوٴُوْا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِه وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ)) (الصف:٨))
”يہ اپنى پهونكوں سے اللہ كے نور كى شمع گل كرنا چاہتے ہيں، حالانكہ اللہ نے اپنے نور كو تمام كركے ہى رہنا ہے، چاہے كافر اسے لاكہ ناپسند كريں -“
اللہ كے كامل واكمل دين كے ساتھ كفار كا يہ رويہ شديد ہٹ دہرمى اور بدترين تعصب كى نشاندہى كرتا ہے اور قرآنِ كريم كى زبانى اللہ تعالىٰ نے اپنى شريعت ِمطہرہ كا مذاق اُڑانے والوں پر لعنت كى اور اُنہيں عذابِ اليم كا وعدہ ديا ہے :
((ذٰلِكَ جَزَاوٴُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْا آيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا)) (الكہف: ١٠٦)
”ان كى سزا جہنم اس لئے ہے كيونكہ اُنہوں نے اسلام سے كفر كيا اور اللہ كى آيات اور اس كے رسولوں كا مذاق اُڑايا-“
((وَلَقَدِ اسْتُهْزِىَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ )) (الرعد: ٣٢)
”رسولوں كا اس سے پہلے بهى مذاق اُڑايا جاتا رہا- تو ميں كافروں كو ڈہيل ديتا رہا، پهر ميں نے ان كو اپنى گرفت ميں لے ليا … پهر كيسا رہا ميرا عذاب!!“
اللہ تعالىٰ نے قرآن كريم ميں جابجا كفار كى اس قبيح عادت كا تذكرہ كيا ہے كہ وہ اللہ اور اس كے رسول كا مذاق اُڑاتے ہيں(المائدة: ٥٧) پهر ان سے يہ سوال كيا ہے كہ اللہ اور اس كے رسول ہى تمہيں اس تمسخر كے لئے ملتے ہيں، تم فكر نہ كرو، تمہارا انجام عنقريب اس ربّ كے ہاتھ ميں جانے والا ہے- ( التوبہ: ٦٥) نبى كريم كا يہ موٴثر اندازِ دعوت ملاحظہ فرمائيں :
((يٰحَسْرَةً عَلى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ كَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُ وْنَ)) (يٰسين:٣٠)
”ان بندوں (كى نامرادى ) پر افسوس و حسرت! ان كے پاس جو رسول بهى آتا ہے ، تو يہ اس كا تمسخر اُڑانے سے نہيں چوكتے-“
الغرض اللہ كے دين كا تمسخر اُڑانا اور اس كى آيات سے ہنسى مذاق كرنا ايك مسلمان كو لمحہ بهر ميں دائرئہ اسلام سے خارج كركے مرتد بناديتا ہے اور كفار كے لئييہ قبيح حركت اللہ كو چيلنج كرنے اور اس كے عذاب كو دعوت دينے كے مترادف ہے-
يہ ہيں بالاختصار وہ چار وجوہات جن كى وجہ سے مسلمان ان توہين آميز خاكوں پر دنيا بهر ميں اپنا ردّ عمل ظاہر كررہے ہيں- اور يہ ردّ عمل اس ظلم وزيادتى كے بالمقابل بڑا ہى ادنىٰ گويا مجبور و مظلوم كى فرياد كے مصداق ہے- اسلام اورنبى رحمت صلی اللہ علیہ وسلم كى يہ توہين مسلمانوں كے حكمرانوں كى اس كيفيت كا برملا اظہار ہيں كہ جس نبى كى اطاعت كا دم بهر كر اسلام كے تمغے وہ سينوں پر سجائے بيٹهے ہيں، اس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى ناموس كے تحفظ كے لئے مخلصانہ جذبات سے ان كے دل ودماغ عارى ہيں اور اپنے اقتدار كے تحفظ كے لئے وہ شانِ نبوت اور اسلام سے ہر طرح كى مضحكہ خيزى گوارا كرنے كے لئے آمادہ ہيں، وگرنہ ايسے نازك لمحات پر ان كى اسلاميت جوش ميں آتى اور دنيا بهر كے مسلمانوں كے جذبات كى پاسدارى كرتے ہوئے وہ ہرممكن ايسا اُسلوب اختيار كرتے كہ نبى كريم فداہ اَبى واُمى كى ناموس كى طرف بڑہنے والے ہاتھ توڑ ديے جاتے-
يہ تصاوير اور توہين آميز خاكے مسلم حكمرانوں كى اسلام سے عدم وابستگى كا نوحہ ہيں، جس كا ادراك كرنے كے بعدہى غيرمسلموں كو اس مكروہ حركت كى جسارت ہوئى !!
اس كى وجہ يہ ہے كہ نبى آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم رہتى دنيا تك تمام انسانيت كے نبى ہيں، جملہ مذاہب كے ماننے والوں كے ہاں تو آپ كاتذكرہ كسى نہ كسى صورت ميں پايا جاتا ہى ہے جبكہ باقى انسانيت كى فطرتِ سليم ميں قرآن كى رو سے ربّ كى توحيد كا اقرار اور اسلام كى حقانيت كا اثبات موجود ہے- آج اگر بعض كم نصيبوں كو آپ كى رسالت قبول كرنے كا شرف حاصل نہيں ہوا اور وہ آپ كى اُمت ِاجابت ميں شامل ہونے سے محروم ہيں تو پهر بهى وہ آپ كى اُمت ِدعوت ميں ضرور شامل ہيں- اور يہ بات كئى فرامين نبوى صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت كے ساتھ ثابت ہے-
آپ نے ديگر انبيا كرام علیہ السلام سے اپنے امتيازات كا تذكرہ كرتے ہوئے اس امتياز كا بهى تذكرہ فرمايا كہ ”پہلے انبيا ايك مخصوص قوم كى طرف بهيجے جاتے تهے اور ميں تمام انسانيت كے لئے بهيجا گيا ہوں-“(بخارى: ٤٣٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم كى رحمت انسانوں سے بڑھ كر جانوروں كو بهى شامل ہے اور آپ كا لقب رحمتہ للعالمين ہے-آپ شرفِ انسانيت اور اللہ عزوجل كے محبوب ِگرامى ہيں، اس لئے آپ كى توہين انسانيت كى توہين كے مترادف ہے، جس كى كسى غير مسلم كو بهى اجازت نہيں دى جاسكتى- دور نبوى كے متعدد واقعات اس پر شاہد ہيں كہ توہين كے مرتكب يہوديوں كو بهى آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے جانثاروں كو بهيج كر قتل كروايا- يہ شانِ رسالت كا تقاضا ہے كہ كل انسانيت كے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى ناموس كا تحفظ كى جائے- حضرت ابو بكر رضی اللہ عنہ كا فرمان ہے :
لا والله ما كانت لبشر بعد محمد صلي الله عليه وسلم (سنن ابوداؤد: ٤٣٦٣) مختصراً
”اپنى توہين كرنيوالے كو قتل كروا دينا محمدصلی اللہ علیہ وسلم كے علاوہ كسى كے لئے روا نہيں ہے-“
اسلام نے يہ اعزاز صرف نبى آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم كے لئے مخصوص نہيں كيا بلكہ ناموسِ رسالت كے اس تحفظ ميں تمام انبياے كرام كو بهى شامل كيا- ايك طرف مسلمانوں كو ہر قوم كى مقدس شخصيات اور شعائر كے احترام كا درس ديا اور دوسرى طرف تمام انبياكا يہ حق بنا ديا كہ ان كى شان ميں توہين كرنے والوں كو زندگى كے حق سے محروم كرديا جائے-اس سلسلے ميں امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے حضرت موسىٰ علیہ السلام كے ايك قصے پر اپنى كتاب الصارم المسلول ميں تفصيلى بحث كرتے ہوئے بڑا بليغ استدلال كيا ہے :
حارث بن نوفل سے مروى ہے كہ موسىٰ عليہ السلام كے خلاف ان كے عم زاد بهائى قارون نے سازش تيار كى اور ايك فاحشہ عورت كو مال وزر كے لالچ سے اس بات پر آمادہ كرليا كہ جب ميں اپنے حواريوں ميں بيٹها ہوں تو ميرے پاس آكر فرياد كرنا كہ موسىٰ نے ميرى عزت پرہاتھ ڈالا ہے- اس عورت نے ايسے ہى كيا اور حضرت موسىٰ كو برسرمجمع رسوا كيا- رسوائى كى يہ خبر جب حضرت موسىٰ كو پہنچى تو اُنہوں سے ربّ تعالىٰ سے سجدے ميں گر كر فريا د كى اور اپنى عزت كے دفاع كے لئے اس كى مدد طلب كى- اس دعا كے بعد آپ علیہ السلام قارون كى مجلس ميں گئے اور اس كے حواريوں كى موجودگى ميں كہا كہ تو نے ميرے بارے ميں فلاں فلاں سازش كى، اے زمين! اس كو پكڑ لے- حضرت موسىٰ علیہ السلام كى اس بددعا كا يہ اثر تها كہ زمين نے ان سب كو اپنے اندر دہنسانا شروع كرديا اور ديكهتے ہى ديكهتے اُنہيں گهٹنوں، كمر اور سينے تك اندر كهينچ ليا- ان كى چيخ وپكار كے باوجود حضرت موسىٰ علیہ السلام نے اپنى دعا جارى ركهى جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ قارون اور اس كے سب ساتهى زمين ميں دہنس گئے-“ مختصراً (ص: ٤١٢،٤١٣)
قارون اور اس كى جماعت كے دہنسنے كا يہ واقعہ قرآن ميں بهى ذكر ہوا اور نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے كہ وہ قيامت تك دہنستے رہيں گے اور قارون كا خزانہ ان كے سر پربوجہ بن كر ان كے ساتھ ہوگا- يہ اوراس جيسے كئى واقعات اسلامى شريعت كے اس تصور كى تائيد كرتے ہيں كہ ناموسِ رسالت كى حفاظت كا يہ حق ديگر انبيا كو بهى حاصل ہے- جو شخص ان كى شان ميں گستاخى كا ارتكاب كرے گا، اس كو بهى شديد سزا كا سامنا كرنا ہوگا-
حضرت على رضی اللہ عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
((من سبَّ نبيا قُتِل ومن سبَّ أصحابه جُلِدَ)) (الصارم المسلول: ص٩٢)
”جس نے نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو گالى دى، اسے قتل كيا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے صحابہ رضی اللہ عنہم كو گالى دى تو اسے كوڑے مارے جائيں-“
حضرت عمر رضی اللہ كے پاس ايك آدمى لايا گيا كہ وہ نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو برا بهلا كہتا تها تو فرمايا:
((من سبّ الله أو سبّ أحدا من الأنبياء فاقتلوه)) (الصارم المسلول: ص٤١٩)
”جس نے اللہ كويا انبيا كرام ميں سے كسى كو گالى دى تو اسے قتل كرديا جائے-“
يہى وجہ ہے كہ پاكستان ميں نافذ العمل توہين رسالت كى سزا تمام انبيا كى توہين كرنے والوں كے لئے عام ہے- (ناموسِ رسول اور قانون توہين رسالت : ص ٣٣٦، طبع سوم)
ديگر مذاہب كے ماننے والے اپنى مقدس شخصيات سے جو بهى سلوك كريں ليكن مسلمانوں نے ماضى ميں بهى كبهى اہل كتاب كو بهى اس امر كى اجازت نہيں دى كہ وہ اپنے انبيا كى تصوير كشى يا ان كو كسى ڈرامہ كى منظر كشى ميں پيش كرسكيں- خلافت ِعثمانيہ كے آخرى سالوں ميں شام كے بعض ممالك ميں بعض عيسائيوں نے حضرت يوسف علیہ السلام كے كردار كو كسى ڈرامہ ميں پيش كرنا چاہا تو اس وقت اس مسئلہ پر اہل علم كے ہاں بہت لے دے ہوئى اور بالآخر سلطان عبد الحميد نے عيسائيوں كو بلادِ اسلاميہ ميں انبيا كى اس اہانت سے حكما ًروك ديا- (مجلة البحوث الإسلامية سعودى عرب، عدد اوّل، مجريہ ١٣٩٥ہ، ص ٢٢٢)
ايسے ہى بيسيويں صدى كے آغاز ميں ہى لندن ميں ايك ڈرامے ميں نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سميت بعض ديگر انبيا كے كردار كو بهى پيش كئے جانے كى خبر ملى، اس موقع پر بهى اسى خليفہ نے پہلے سفارتكارى اور بعد ازاں يہ دہمكى دے كر اس مذموم فعل كو رو بہ عمل آنے سے روك ديا كہ وہ بحيثيت ِخليفہ ”پورى اُمت ِمسلمہ كو برطانيہ كے خلاف جنگ كا حكم جارى كريں گے-“
4 -ان توہين آميز خاكوں كے ذريعے جہاں ناموسِ رسالت پر حرف آيا ہے، وہاں اللہ كے آخرى دين اور اكمل شريعت كى بے حرمتى كا بهى ارتكاب كيا گيا ہے- ان كارٹونوں كے بارے ميں جو تفصيلات بعض ذرائع ابلاغ ميں چهپى ہيں، ان سے پتہ چلتاہے كہ باقاعدہ منظم منصوبہ بندى كے ذريعے قرآنِ كريم، فرامين ِنبويہ اور شريعت ِمطہرہ كا تمسخر اُڑانے كے لئے يہ سارى سازش عمل ميں لائى گئى- اوراس تمسخر كو كارٹون يا خاكوں كى ذو معنى شكل ميں پورى دنيا ميں پهيلايا گيا ہے- فرامين نبوى اور آياتِ قرآنى كى اس تضحيك كے علاوہ اسلام سے ديگر مذاہب كو بدترين تعصب ميں مبتلا كرنے كے لئے يہوديوں كے بارے ميں بعض واقعات كى مضحكہ خيز منظر كشى بهى كى گئى، تاكہ ديگر مذاہب كے ماننے والوں كو اسلام سے بدظن كياجائے-
يہ تمام خاكے اس امر كا بهى واضح ثبوت ہيں كہ اسلام كو قبو ل كرنے كى جو روايت امريكہ اوريورپ ميں جڑ پكڑ رہى ہے، اس سے اسلام دشمن برى طرح خائف ہيں اور وہ ہر حيلے بہانے سے اسلام كى بڑہتى مقبوليت كے آگے بند باندہنا چاہتے ہيں اور اسى لئے وہ اسلام كو دہشت گردى، تنگ نظرى اورتعصب وجبر كا دين ثابت كرنے پر تلے ہوئے ہيں- قرآن كہتا ہے :
((يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِوٴُوْا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُوْرِه وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ)) (الصف:٨))
”يہ اپنى پهونكوں سے اللہ كے نور كى شمع گل كرنا چاہتے ہيں، حالانكہ اللہ نے اپنے نور كو تمام كركے ہى رہنا ہے، چاہے كافر اسے لاكہ ناپسند كريں -“
اللہ كے كامل واكمل دين كے ساتھ كفار كا يہ رويہ شديد ہٹ دہرمى اور بدترين تعصب كى نشاندہى كرتا ہے اور قرآنِ كريم كى زبانى اللہ تعالىٰ نے اپنى شريعت ِمطہرہ كا مذاق اُڑانے والوں پر لعنت كى اور اُنہيں عذابِ اليم كا وعدہ ديا ہے :
((ذٰلِكَ جَزَاوٴُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوْا وَاتَّخَذُوْا آيٰتِيْ وَرُسُلِيْ هُزُوًا)) (الكہف: ١٠٦)
”ان كى سزا جہنم اس لئے ہے كيونكہ اُنہوں نے اسلام سے كفر كيا اور اللہ كى آيات اور اس كے رسولوں كا مذاق اُڑايا-“
((وَلَقَدِ اسْتُهْزِىَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ )) (الرعد: ٣٢)
”رسولوں كا اس سے پہلے بهى مذاق اُڑايا جاتا رہا- تو ميں كافروں كو ڈہيل ديتا رہا، پهر ميں نے ان كو اپنى گرفت ميں لے ليا … پهر كيسا رہا ميرا عذاب!!“
اللہ تعالىٰ نے قرآن كريم ميں جابجا كفار كى اس قبيح عادت كا تذكرہ كيا ہے كہ وہ اللہ اور اس كے رسول كا مذاق اُڑاتے ہيں(المائدة: ٥٧) پهر ان سے يہ سوال كيا ہے كہ اللہ اور اس كے رسول ہى تمہيں اس تمسخر كے لئے ملتے ہيں، تم فكر نہ كرو، تمہارا انجام عنقريب اس ربّ كے ہاتھ ميں جانے والا ہے- ( التوبہ: ٦٥) نبى كريم كا يہ موٴثر اندازِ دعوت ملاحظہ فرمائيں :
((يٰحَسْرَةً عَلى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ إِلاَّ كَانُوْا بِهَا يَسْتَهْزِءُ وْنَ)) (يٰسين:٣٠)
”ان بندوں (كى نامرادى ) پر افسوس و حسرت! ان كے پاس جو رسول بهى آتا ہے ، تو يہ اس كا تمسخر اُڑانے سے نہيں چوكتے-“
الغرض اللہ كے دين كا تمسخر اُڑانا اور اس كى آيات سے ہنسى مذاق كرنا ايك مسلمان كو لمحہ بهر ميں دائرئہ اسلام سے خارج كركے مرتد بناديتا ہے اور كفار كے لئييہ قبيح حركت اللہ كو چيلنج كرنے اور اس كے عذاب كو دعوت دينے كے مترادف ہے-
يہ ہيں بالاختصار وہ چار وجوہات جن كى وجہ سے مسلمان ان توہين آميز خاكوں پر دنيا بهر ميں اپنا ردّ عمل ظاہر كررہے ہيں- اور يہ ردّ عمل اس ظلم وزيادتى كے بالمقابل بڑا ہى ادنىٰ گويا مجبور و مظلوم كى فرياد كے مصداق ہے- اسلام اورنبى رحمت صلی اللہ علیہ وسلم كى يہ توہين مسلمانوں كے حكمرانوں كى اس كيفيت كا برملا اظہار ہيں كہ جس نبى كى اطاعت كا دم بهر كر اسلام كے تمغے وہ سينوں پر سجائے بيٹهے ہيں، اس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كى ناموس كے تحفظ كے لئے مخلصانہ جذبات سے ان كے دل ودماغ عارى ہيں اور اپنے اقتدار كے تحفظ كے لئے وہ شانِ نبوت اور اسلام سے ہر طرح كى مضحكہ خيزى گوارا كرنے كے لئے آمادہ ہيں، وگرنہ ايسے نازك لمحات پر ان كى اسلاميت جوش ميں آتى اور دنيا بهر كے مسلمانوں كے جذبات كى پاسدارى كرتے ہوئے وہ ہرممكن ايسا اُسلوب اختيار كرتے كہ نبى كريم فداہ اَبى واُمى كى ناموس كى طرف بڑہنے والے ہاتھ توڑ ديے جاتے-
يہ تصاوير اور توہين آميز خاكے مسلم حكمرانوں كى اسلام سے عدم وابستگى كا نوحہ ہيں، جس كا ادراك كرنے كے بعدہى غيرمسلموں كو اس مكروہ حركت كى جسارت ہوئى !!
توہين آميز خاكے اور عصر حاضركے قوانين
توہين كے ان واقعات پر غير مسلم حكومتوں كا رويہ بهى ہٹ دہرمى، تكبر وتمسخر اور انانيت كا مظہرہے- اس نوعيت كے واقعات پر ان كى پيش كردہ بعض معذرت آرائياں بهى منافقت كے پردے ميں لپٹى ہوئى ہيں-ان اخبارات كے سابقہ رويے، ان ممالك كے اپنے قوانين اور اقوامِ متحدہ وديگر عالمى قوانين ان كے اس دوہرے معيار كى كسى طو رحمايت نہيں كرتے، ليكن اس كے باوجود ميڈيا كے بل بوتے پر ان كى تكرار جارى وسارى ہے-
1-جہاں تك توہين آميز خاكے شائع كرنے والے اخبار كاتعلق ہے … جس كى پيشانى پر يہوديوں كا عالمى نشان ’سٹار آف ڈيوڈ‘ اس كے متعصب يہودى ہونے كابرملا اظہار ہے … تو اسى اخبار نے ٢ برس قبل حضرت عيسىٰ كے بارے ميں بعض متنازعہ خاكے شائع كرنے سے انكار كيا تها، كيونكہ ان كى نظر ميں اس سے ان كے بعض قارئين كے جذبات متاثر ہونے كا خدشہ تها- وہ خاكے كرسٹوفرزيلر نامى كارٹونسٹ نے بنائے تهے- مذكورہ خاكوں كى اشاعت كے عمل كا بهى اگر جائزہ ليا جائے تو حادثہ كى بجائے ايك منظم سازش كا پتہ چلتا ہے- (تفصيلات: روزنامہ ’جنگ‘ ١٦/ فرورى ’زير وپوائنٹ‘ جاويد چودہرى )
لمحہ بہ لمحہ اس سازش كو جس طرح پروان چڑهايا گيا، اور جن جن مراحل سے اسے گزارا گيا، اس كا تفصيلى تذكرہ ہفت روزہ ’ندائے خلافت‘ كے يكم مارچ ٢٠٠٦ء كے شمارے ميں ايك مستقل مضمون ميں كيا گيا ہے- يوں بهى يہ ڈنمارك سكنڈے نيوين ممالك ميں سب سے زيادہ يہوديت نواز ملك ہے، كيونكہ تاريخى طور پر يورپ سے نكالے جانے كے بعد سب سے زيادہ يہودى ڈنمارك ميں ہى رہائش پذير ہوئے تهے- اس لئے اسى ملك ميں اس سازش كا بيج ڈالا گيا ہے- اس سازش كا مختصر تذكرہ اپنے الفاظ ميں حسب ِذيل ہے:
”ان خاكوں كى اشاعت كے دو بنيادى كردار ہيں: پہلا ڈينيل پائبس نامى امريكى عيسائى جو صدر بش كے ساتھ گہرے سياسى وتجارتى مراسم ركهنے كے علاوہ بعض كميٹيوں كا بهى ركن ہے اور امريكى اخبار اسے ’اسلام فوبيا كا مريض‘ اورمغربى دانشور ’اسلام دشمن‘ قرار ديتے ہيں- اسلام كے نام پر دنيا بهر ميں جہاں كوئى سرگرمى ہو تووہ اس كے لئے ہرقسم كى مدد دينے كے لئے آمادہ رہتا ہے- دوسرا اہم كردار جيلانڈ پوسٹن نامى اخبار كا يہودى كلچر ايڈيٹر فليمنگ روز- مسلمانوں كے خلاف يہ دہشت گردى عيسائيوں اور يہوديوں كى ملى بہگت كا نتيجہ ہے- يہ ايڈيٹر كافى عرصہ سے توہين رسالت كے موقع كى تلاش ميں تها كہ كرے بلوٹكن نامى ايك ڈينش مصنف نے نبى صلی اللہ علیہ وسلم پر ايك مختصر كتاب ميں شائع كرنے كے لئے اس سے آپ كا كوئى خاكہ طلب كيا- اس تقاضے پر فليمنگ نے ڈينيل كى حمايت اور تعاون كے بل بوتے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے خاكے بنانے كيلئے اپنے اخبار ميں اشتہار شائع كرا ديا- ٤٠ ميں سے ١٢ بدبخت كارٹونسٹ اس مذموم حركت كے لئے آمادہ ہوئے اور ان ميں سے ويسٹر گارڈ نامى ملعون كارٹونسٹ نے توہين آميز خاكے تيار كئے- اپنے قتل كا فتوىٰ ملنے كے بعد سے يہ شخص روپوش يا ڈينش پوليس كى حفاظت ميں ہے جبكہ فليمنگ ميامى(امريكہ) ميں اپنے دوست ڈينيل كى ميزبانى اور تحفظ سے محظوظ ہورہا ہے-“ ( ہفت روزہ فيملى ميگزين: ٥ مارچ٢٠٠٦ء’سازش كے اصل مجرم‘)
ڈينش اخبار كا يہ واقعہ كوئى حادثہ نہيں بلكہ ايك سوچى سمجهى ذہنيت ہے جيساكہ واشنگٹن پوسٹ نے بهى يہى قرارد يا ہے- اور خود فليمنگ روز سے جب اپنے طرزِ عمل پر افسوس كے بارے ميں پوچها گيا تو اس نے جواب دياكہ ايسى كوئى بات نہيں، ان خاكوں كى اشاعت كے پس پردہ ايك جذبہ كار فرما ہے او روہ ہے ’دہشت گردى ‘ جسے اسلام سے روحانى اسلحہ فراہم ہوتا ہے- (روزنامہ ڈان: ١٩ فرورى ٢٠٠٦ء)
2 -جہاں تك ڈنمارك كے قوانين كا تعلق ہے تو اس حركت ميں اس كے اپنے طے شدہ كئى قوانين كى مخالفت پائى جاتى ہے- مثلاً ڈنمارك كے كريمنل كوڈ كے سيكشن ١٤٠ كے مطابق
”ہر وہ شخص جوملك ميں قانونى طورپر مقيم كسى فرد يا كميونٹى كے مذہب يا عبادات اور ديگر مقدس علامات كى تضحيك كرے گا، اسے زيادہ سے زيادہ چار ماہ كى قيد يا جرمانہ كى سزا دى جا سكے گى-“
غور طلب امر يہ ہے كہ جيلانڈ پوسٹن نامى اخبار اوراس كے ايڈيٹر كو اس قانون سے كيوں بالاتر ركها جارہا ہے؟ جبكہ ڈنمارك كى سركارى ويب سائٹ پر خود اس اخبار پر اس قانون كے تحت كاروائى كرنے كا امكان ظاہر كيا گيا ہے، ليكن ابهى تك كسى قانونى اقدام سے گريز كا رويہ زير عمل ہے-
ايسے ہى ڈنمارك ہى كے پينل كوڈ كے سيكشن ٢٦٦ بى كے مطابق ” ايسا كوئى بهى بيان يا سرگرمياں جرم ہيں، جو كسى بهى كميونٹى كے افراد كے لئے رنگ ، نسل، قوميت، مذہب يا جنس كے حوالے سے دل آزار ہوں-“ ڈنمارك كے يہ اخبارات وجرائد اس دفعہ كى خلاف ورزى كے بهى مرتكب ہوئے ہيں ليكن يہاں بهى قانون كو حركت ميں نہيں لايا جارہا-
1-جہاں تك توہين آميز خاكے شائع كرنے والے اخبار كاتعلق ہے … جس كى پيشانى پر يہوديوں كا عالمى نشان ’سٹار آف ڈيوڈ‘ اس كے متعصب يہودى ہونے كابرملا اظہار ہے … تو اسى اخبار نے ٢ برس قبل حضرت عيسىٰ كے بارے ميں بعض متنازعہ خاكے شائع كرنے سے انكار كيا تها، كيونكہ ان كى نظر ميں اس سے ان كے بعض قارئين كے جذبات متاثر ہونے كا خدشہ تها- وہ خاكے كرسٹوفرزيلر نامى كارٹونسٹ نے بنائے تهے- مذكورہ خاكوں كى اشاعت كے عمل كا بهى اگر جائزہ ليا جائے تو حادثہ كى بجائے ايك منظم سازش كا پتہ چلتا ہے- (تفصيلات: روزنامہ ’جنگ‘ ١٦/ فرورى ’زير وپوائنٹ‘ جاويد چودہرى )
لمحہ بہ لمحہ اس سازش كو جس طرح پروان چڑهايا گيا، اور جن جن مراحل سے اسے گزارا گيا، اس كا تفصيلى تذكرہ ہفت روزہ ’ندائے خلافت‘ كے يكم مارچ ٢٠٠٦ء كے شمارے ميں ايك مستقل مضمون ميں كيا گيا ہے- يوں بهى يہ ڈنمارك سكنڈے نيوين ممالك ميں سب سے زيادہ يہوديت نواز ملك ہے، كيونكہ تاريخى طور پر يورپ سے نكالے جانے كے بعد سب سے زيادہ يہودى ڈنمارك ميں ہى رہائش پذير ہوئے تهے- اس لئے اسى ملك ميں اس سازش كا بيج ڈالا گيا ہے- اس سازش كا مختصر تذكرہ اپنے الفاظ ميں حسب ِذيل ہے:
”ان خاكوں كى اشاعت كے دو بنيادى كردار ہيں: پہلا ڈينيل پائبس نامى امريكى عيسائى جو صدر بش كے ساتھ گہرے سياسى وتجارتى مراسم ركهنے كے علاوہ بعض كميٹيوں كا بهى ركن ہے اور امريكى اخبار اسے ’اسلام فوبيا كا مريض‘ اورمغربى دانشور ’اسلام دشمن‘ قرار ديتے ہيں- اسلام كے نام پر دنيا بهر ميں جہاں كوئى سرگرمى ہو تووہ اس كے لئے ہرقسم كى مدد دينے كے لئے آمادہ رہتا ہے- دوسرا اہم كردار جيلانڈ پوسٹن نامى اخبار كا يہودى كلچر ايڈيٹر فليمنگ روز- مسلمانوں كے خلاف يہ دہشت گردى عيسائيوں اور يہوديوں كى ملى بہگت كا نتيجہ ہے- يہ ايڈيٹر كافى عرصہ سے توہين رسالت كے موقع كى تلاش ميں تها كہ كرے بلوٹكن نامى ايك ڈينش مصنف نے نبى صلی اللہ علیہ وسلم پر ايك مختصر كتاب ميں شائع كرنے كے لئے اس سے آپ كا كوئى خاكہ طلب كيا- اس تقاضے پر فليمنگ نے ڈينيل كى حمايت اور تعاون كے بل بوتے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے خاكے بنانے كيلئے اپنے اخبار ميں اشتہار شائع كرا ديا- ٤٠ ميں سے ١٢ بدبخت كارٹونسٹ اس مذموم حركت كے لئے آمادہ ہوئے اور ان ميں سے ويسٹر گارڈ نامى ملعون كارٹونسٹ نے توہين آميز خاكے تيار كئے- اپنے قتل كا فتوىٰ ملنے كے بعد سے يہ شخص روپوش يا ڈينش پوليس كى حفاظت ميں ہے جبكہ فليمنگ ميامى(امريكہ) ميں اپنے دوست ڈينيل كى ميزبانى اور تحفظ سے محظوظ ہورہا ہے-“ ( ہفت روزہ فيملى ميگزين: ٥ مارچ٢٠٠٦ء’سازش كے اصل مجرم‘)
ڈينش اخبار كا يہ واقعہ كوئى حادثہ نہيں بلكہ ايك سوچى سمجهى ذہنيت ہے جيساكہ واشنگٹن پوسٹ نے بهى يہى قرارد يا ہے- اور خود فليمنگ روز سے جب اپنے طرزِ عمل پر افسوس كے بارے ميں پوچها گيا تو اس نے جواب دياكہ ايسى كوئى بات نہيں، ان خاكوں كى اشاعت كے پس پردہ ايك جذبہ كار فرما ہے او روہ ہے ’دہشت گردى ‘ جسے اسلام سے روحانى اسلحہ فراہم ہوتا ہے- (روزنامہ ڈان: ١٩ فرورى ٢٠٠٦ء)
2 -جہاں تك ڈنمارك كے قوانين كا تعلق ہے تو اس حركت ميں اس كے اپنے طے شدہ كئى قوانين كى مخالفت پائى جاتى ہے- مثلاً ڈنمارك كے كريمنل كوڈ كے سيكشن ١٤٠ كے مطابق
”ہر وہ شخص جوملك ميں قانونى طورپر مقيم كسى فرد يا كميونٹى كے مذہب يا عبادات اور ديگر مقدس علامات كى تضحيك كرے گا، اسے زيادہ سے زيادہ چار ماہ كى قيد يا جرمانہ كى سزا دى جا سكے گى-“
غور طلب امر يہ ہے كہ جيلانڈ پوسٹن نامى اخبار اوراس كے ايڈيٹر كو اس قانون سے كيوں بالاتر ركها جارہا ہے؟ جبكہ ڈنمارك كى سركارى ويب سائٹ پر خود اس اخبار پر اس قانون كے تحت كاروائى كرنے كا امكان ظاہر كيا گيا ہے، ليكن ابهى تك كسى قانونى اقدام سے گريز كا رويہ زير عمل ہے-
ايسے ہى ڈنمارك ہى كے پينل كوڈ كے سيكشن ٢٦٦ بى كے مطابق ” ايسا كوئى بهى بيان يا سرگرمياں جرم ہيں، جو كسى بهى كميونٹى كے افراد كے لئے رنگ ، نسل، قوميت، مذہب يا جنس كے حوالے سے دل آزار ہوں-“ ڈنمارك كے يہ اخبارات وجرائد اس دفعہ كى خلاف ورزى كے بهى مرتكب ہوئے ہيں ليكن يہاں بهى قانون كو حركت ميں نہيں لايا جارہا-
مزيد برآں ڈنمارك كے آئين ميں آزادىٴ اظہار كے حوالے سے سيكشن ٧٧ كى رو سے
”ہر شخص كواپنے خيالات كے اظہار اور اُنہيں چهاپنے كى مكمل آزادى ہے ليكن وہ اپنے خيالات كے حوالے سے ’كورٹ آف جسٹس‘ كو ضرور جواب دہ ہے‘‘
اگر ان اخبارات كى اس حركت كو آزادىٴ اظہار كے زمرے ميں لانے كو بهى بفرضِ محال تسليم كرلياجائے تب بهى اس ’كورٹ آف جسٹس‘ نے دنيا بهر كے مظاہروں كے بعد ان اخبارات سے كسى جواب طلبى سے تاوقت كيوں گريز كيا ہے ؟
3 -ڈينش اخبارات وجرائد كے بعد جب يہ كارٹون مغربى ميڈيا ميں شائع ہوئے ہيں تو اس امر كا جائزہ لينے كى بهى ضرورت محسوس ہوتى ہے كہ كيا عالمى قوانين اور مغر ب كے مسلمہ تصورات مغربى ميڈيا كو بهى انہيں شائع كرنے كى اجازت ديتے ہيں يا نہيں؟
اس سلسلے ميں ميڈيا ہر جگہ آزادىٴ اظہار كے حق كا تذكرہ كر رہا ہے ، يوں بهى مغرب ميں اس فلسفے كو بعض وجوہ سے ايك مسلمہ كى حيثيت حاصل ہوچكى ہے- باوجود اس امر كہ اسلام آزادىٴ اظہار كے مغربى تصور كا قائل نہيں ليكن حاليہ خاكے مغرب كے اپنے پيش كردہ تصور پر بهى پورا نہيں اُترتے كيونكہ ہر انسان كو اس حد تك ہى آزادىٴ اظہار حاصل ہوتا ہے جب تك يہ اظہار دوسرے كى حدود ميں داخل نہ ہوجائے- آزادىٴ اظہار كا يہ مطلب قطعاً نہيں ہے كہ دوسروں كى حدود ميں دخل اندازى كى جائے- ايك انسان جب آزادىٴ اظہار كے ذريعے دوسروں كے مقدس تصورات و نظريات اور رہنما شخصيات پر تنقيد كرے گا تو يہ آزادى كے بجائے كهلم كهلا جارحيت كا ارتكاب كہلائے گا- دوسرے كے جذبات سے كهيلنا آزادىٴ اظہار كے بجائے ’دہشت گردى كا ارتكاب‘ ہے- جرمن مفكر ايمانويل كانٹ كا مشہور مقولہ ہے كہ
”ميں اپنے ہاتھ كو حركت دينے ميں آزاد ہوں، ليكن جہاں سے تمہارى ناك شروع ہوتى ہے ، ميرے ہاتھ كى آزادى ختم ہوجاتى ہے-“ ايسے ہى
”ہر انسان كى آزادى وہاں جا كر ختم ہوجاتى ہے ، جہاں دوسرے كى شروع ہوتى ہے-“
اس لحاظ سے بهى ان اخبارات كا يہ رويہ آزادىٴ اظہار كے مغربى تصور كے استحصال اور كهلى مخالفت پر مبنى ہے-آزادىٴ اظہار كى يہ حد بندى صرف ايك مسلمہ حقيقت نہيں بلكہ يورپى كنونشن كا چارٹر (مجريہ ١٩٥٠، روم) اس كو قانونى حيثيت بهى عطا كرتاہے- جس كى رو سے
” آزادىٴ خيالات كے ان حقوق پر معاشرے ميں موجود قوانين كے دائرہ كار كے اندر ہى عمل كرنا ہوگا، تاكہ يہ آزادياں كسى دوسرے فرد ياكميونٹى كے تحفظ ، امن وامان او رديگر افراد يا كميونٹى كے حقوق اور آزاديوں كو سلب كرنے كا ذريعہ نہ بنيں- “
مزيد برآں اسى چارٹر كے سيكشن ١، آرٹيكل ١٠ كى شق اول ودوم ميں يہ بهى درج ہے كہ
” آزادىٴ اظہار كے حوالے سے ملكى قوانين پامال نہيں كئے جائيں گے، تاكہ جمہورى روايات علاقائى سلامتى، قومى مفادات، دوسروں كے حقوق كى پاسدارى اور باہمى اعتماد كو نقصان نہ پہنچے-“
”آزادى اظہار كا يہ تصور فرض شناسى اور ذمہ دارانہ رويے سے مشروط ہے-“
”آزادىٴ اظہار كا حق نہايت حزم واحتياط او رذمہ دارى كے ساتھ استعمال كيا جانا چاہئے، اس كے ذريعے كسى كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ ملك ميں معاشرے كى اخلاقى اقدار، دوسروں كى عزتِ نفس، اور ان كے بنيادى حقوق كو گزندپہنچائے- “
آزادىٴ اظہار كا يہ حق ’انٹرنيشنل كنونشن آن سول اينڈ پوليٹكل رائٹس‘ ICCPRكے ذريعے بهى محدود كرديا گيا ہے- مزيد تفصيلات كے لئے حسب ِذيل مضمون ديكهيں :
اگر ان اخبارات كى اس حركت كو آزادىٴ اظہار كے زمرے ميں لانے كو بهى بفرضِ محال تسليم كرلياجائے تب بهى اس ’كورٹ آف جسٹس‘ نے دنيا بهر كے مظاہروں كے بعد ان اخبارات سے كسى جواب طلبى سے تاوقت كيوں گريز كيا ہے ؟
3 -ڈينش اخبارات وجرائد كے بعد جب يہ كارٹون مغربى ميڈيا ميں شائع ہوئے ہيں تو اس امر كا جائزہ لينے كى بهى ضرورت محسوس ہوتى ہے كہ كيا عالمى قوانين اور مغر ب كے مسلمہ تصورات مغربى ميڈيا كو بهى انہيں شائع كرنے كى اجازت ديتے ہيں يا نہيں؟
اس سلسلے ميں ميڈيا ہر جگہ آزادىٴ اظہار كے حق كا تذكرہ كر رہا ہے ، يوں بهى مغرب ميں اس فلسفے كو بعض وجوہ سے ايك مسلمہ كى حيثيت حاصل ہوچكى ہے- باوجود اس امر كہ اسلام آزادىٴ اظہار كے مغربى تصور كا قائل نہيں ليكن حاليہ خاكے مغرب كے اپنے پيش كردہ تصور پر بهى پورا نہيں اُترتے كيونكہ ہر انسان كو اس حد تك ہى آزادىٴ اظہار حاصل ہوتا ہے جب تك يہ اظہار دوسرے كى حدود ميں داخل نہ ہوجائے- آزادىٴ اظہار كا يہ مطلب قطعاً نہيں ہے كہ دوسروں كى حدود ميں دخل اندازى كى جائے- ايك انسان جب آزادىٴ اظہار كے ذريعے دوسروں كے مقدس تصورات و نظريات اور رہنما شخصيات پر تنقيد كرے گا تو يہ آزادى كے بجائے كهلم كهلا جارحيت كا ارتكاب كہلائے گا- دوسرے كے جذبات سے كهيلنا آزادىٴ اظہار كے بجائے ’دہشت گردى كا ارتكاب‘ ہے- جرمن مفكر ايمانويل كانٹ كا مشہور مقولہ ہے كہ
”ميں اپنے ہاتھ كو حركت دينے ميں آزاد ہوں، ليكن جہاں سے تمہارى ناك شروع ہوتى ہے ، ميرے ہاتھ كى آزادى ختم ہوجاتى ہے-“ ايسے ہى
”ہر انسان كى آزادى وہاں جا كر ختم ہوجاتى ہے ، جہاں دوسرے كى شروع ہوتى ہے-“
اس لحاظ سے بهى ان اخبارات كا يہ رويہ آزادىٴ اظہار كے مغربى تصور كے استحصال اور كهلى مخالفت پر مبنى ہے-آزادىٴ اظہار كى يہ حد بندى صرف ايك مسلمہ حقيقت نہيں بلكہ يورپى كنونشن كا چارٹر (مجريہ ١٩٥٠، روم) اس كو قانونى حيثيت بهى عطا كرتاہے- جس كى رو سے
” آزادىٴ خيالات كے ان حقوق پر معاشرے ميں موجود قوانين كے دائرہ كار كے اندر ہى عمل كرنا ہوگا، تاكہ يہ آزادياں كسى دوسرے فرد ياكميونٹى كے تحفظ ، امن وامان او رديگر افراد يا كميونٹى كے حقوق اور آزاديوں كو سلب كرنے كا ذريعہ نہ بنيں- “
مزيد برآں اسى چارٹر كے سيكشن ١، آرٹيكل ١٠ كى شق اول ودوم ميں يہ بهى درج ہے كہ
” آزادىٴ اظہار كے حوالے سے ملكى قوانين پامال نہيں كئے جائيں گے، تاكہ جمہورى روايات علاقائى سلامتى، قومى مفادات، دوسروں كے حقوق كى پاسدارى اور باہمى اعتماد كو نقصان نہ پہنچے-“
”آزادى اظہار كا يہ تصور فرض شناسى اور ذمہ دارانہ رويے سے مشروط ہے-“
”آزادىٴ اظہار كا حق نہايت حزم واحتياط او رذمہ دارى كے ساتھ استعمال كيا جانا چاہئے، اس كے ذريعے كسى كو يہ حق حاصل نہيں كہ وہ ملك ميں معاشرے كى اخلاقى اقدار، دوسروں كى عزتِ نفس، اور ان كے بنيادى حقوق كو گزندپہنچائے- “
آزادىٴ اظہار كا يہ حق ’انٹرنيشنل كنونشن آن سول اينڈ پوليٹكل رائٹس‘ ICCPRكے ذريعے بهى محدود كرديا گيا ہے- مزيد تفصيلات كے لئے حسب ِذيل مضمون ديكهيں :
روزنامہ پاكستان، لاہور’نسلى ومذہبى منافرت اور عالمى قوانين‘ از آغا شاہى
توہين آميز خاكوں كى اشاعت كى مخالفت ان متعدد فيصلہ جات سے بهى ہوتى ہے جو ماضى ميں مغرب كى مختلف عدالتيں سنا چكى ہيں- اس كے باوجود ڈينشحكمرانوں كا يہ عذر ’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘ كا مصداق اور ديگر حكمرانوں كى ان سے ہم نوائى دراصل اسلام سے دشمنى كا برملا اظہار ہے- ميڈيا كے بل بوتے پر اسلام كے بارے ميں پيدا كيا جانے والا تعصب مختلف مراحل پر اپنا رنگ دكها رہا ہے اور اس كو اپنے لبرل قوانين كا تحفظ پہنانے كى ناكام كوشش كى جارہى ہے-
يورپى يونين كى ہيومن رائٹس كى اعلىٰ ترين عدليہ نے سال ١٩٩٦ء ميں برطانيہ كے ہاؤس آف لارڈز كے توہين مسيح كے مقدمہ ميں فيصلہ پر اوپر درج شدہ آرٹيكل ١٠ كے تحت اپيل كى سماعت كے بعد ايك اہم اور دلچسپ مقدمہ ’ونگرو بنام مملكت ِبرطانيہ ‘ميں بڑا معركہ آرا فيصلہ صادر كياہے جو يورپى يونين كے تمام ممبر ممالك پر لاگو ہے-
يہ كيس ايك ايسى فلم كے بارے ميں تها جس سے حضرت عيسىٰ كى توہين كا تاثر اُبهرتا ہے اور اس كو برطانوى سنسر بورڈ نے اس بنا پر نمائش سے روك ديا كہ اس سے عيسائى شہريوں كے جذبات مشتعل ہونے كا انديشہ تها- سنسربورڈ كے اس فيصلہ كے خلاف فلمساز نے برطانيہ كى سب سے بڑى عدالت ’ہاؤس آف لارڈز‘ ميں اپيل كى، جہاں اس عدالت ِعظمى كے ايك لبرل جج اسكارمين نے يہ قرار ديا كہ ”توہين ِمسيح كا قانون برطانيہ كے لئے ناگزير ہے-“ اس ہاؤس نے بهى فلم كو نمائش سے روكنے كا فيصلہ برقرار ركها- فلمساز نے پهر اس فيصلہ كے خلاف حكومت برطانيہ كو فريق بناتے ہوئے حقوقِ انسانى كى اعلىٰ ترين عدالت ميں اس فيصلہ كو اوپر درج شدہ آرٹيكل ١٠ كى رو سے چيلنج كرديا- يورپى يونين كى اس اعلىٰ ترين عدالت نے اس آرٹيكل كى تشريح كرتے ہوئے يہ قرارد يا كہ ”توہين ِمسيح كے قانون كى بدولت حقوقِ انسانى كا تحفظ برقرار رہتا ہے-“ اور سابقہ فيصلوں كو برقرار رركها-
ہيومن رائٹس كميشن كے ايك مشہور كيس Faurisson VS Franceكا عدالتى فيصلہ ملاحظہ ہو:
”ايسے بيانات پرجو يہوديت دشمن جذبات كو ابهاريں يا انہيں تقويت ديں، پابنديوں كى اجازت ہوگى، تاكہ يہودى آباديوں كے مذہبى منافرت سے تحفظ كے حق كو بالادست بنايا جاسكے-“
روزنامہ نوائے وقت لاہور ميں شائع ہونے والے مضمون ’يورپ اور توہين انبيا‘ ميں مجاہد ناموسِ رسالت جناب محمد اسمٰعيل قريشى لكهتے ہيں :
”يورپ كى عيسائى اور نام نہاد سيكولر حكومتوں كا شروع سے يہ عجيب وغريب دوہرا معيار رہاہے كہ اپنے ملكوں ميں تو توہين مسيح كے جرم كى سنگين سزا، سزاے موت نافذ رہى ہے جو اب بهى عمر قيد كى صورت ميں موجود ہے ليكن وہ چاہتے ہيں كہ پاكستان يا دوسرے مسلمان ملكوں ميں پيغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم كى اہانت كى سزا كا سرے سے وجود ہى نہ رہے كيونكہ اس سے عيسائى اور ديگر اقليتوں كے انسانى حقوق مجروح ہوتے ہيں-“
مغرب كى منافقانہ روش: ان خاكوں كى اشاعت كے لئے بہت سے اخبارات نے يہ موقف بهى اختيار كيا كہ سيكولر معاشرے كے نمائندہ ہونے كى وجہ سے وہ مذہبى نظريات كے تحفظ كے پابند نہيں- دوسرى طرف ان ممالك كے آئين اس امر كى ضمانت بهى ديتے ہيں كہ وہ اپنے ہاں بسنے والوں ميں كسى مذہبى امتياز كو جگہ نہيں ديں گے، ليكن ان ممالك كا عملى رويہ اس دعوىٰ كے برعكس ہے- ان ممالك ميں عيسائيت اور يہوديت كو جوتحفظ حاصل ہے اور قوانين ميں ان كى جو ترجيحى حيثيت موجودہے، اسلام كو يہ تحفظ كسى مرحلہ ميں بهى ميسر نہيں-
ڈنمارك اور ديگر يورپى ممالك ميں يہوديوں كے جرمنى ميں قتل عام كى خود ساختہ تاريخ اور ان كى مظلوميت كو پورا تحفظ ديا گياہے- اس مزعومہ قتل ِعام(ہولوكاسٹ) ميں مقتولين كى تعداد كو ٥٠ لاكہ سے كم بيان كرنا كسى كے مجرم بننے كے لئے كافى ہے-حتىٰ كہ اس كہانى كے كسى جز كا بهى انكار كرنا ٢٠ سال تك قيد كى سزا كا مستوجب ہے- ان ممالك كا يہ قانون مذہبى امتياز پر واضح دليل اور آزادىٴ اظہار پر صاف قدغن ہے- ليكن چونكہ اس سے يہوديوں كى دل شكنى ہوتى ہے، اس لئے اس كو تو قانونى تحفظ عطا كيا گيا ہے، ليكن مسلمانوں كى دنيا بهر ميں او رخود ڈنمارك ميں دل شكنى كوئى جرم نہيں- يہ تضاد مغربى لبرل ازم كا پورا پول كهولتا ہے…!
برطانيہ ميں حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين پر موت كى سزا موجود ہے اور اس سزا كو عالمى عدالت ِانصاف بهى مختلف موقعوں پر تسليم كرچكى ہے گويا وہ برطانيہ كے اس تصورِ قانون كى موٴيد ہے جيساكہ اس كى تفصيل اوپر گزر چكى ہے-غور طلب امر يہ ہے كہ حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين كو آزادىٴ اظہار كے دائرے ميں لانا كيوں برطانوى حكومت كو گوارا نہيں- علاوہ ازيں برطانيہ كے اس قانون كا دائرہ صرف چرچ كے تحفظ تك ہى كيوں محدود ہے؟ يہ قوانين شہريوں ميں عدم مساوات اور مذہبى امتياز پر واضح دليل ہيں-
حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين كا ايك كيس آسٹريا ميں بهى ١٩٩٠ء ميں زير سماعت لايا گيا ہے، جس سے پتہ چلتاہے كہ يہ قانون ديگر مغربى ممالك ميں بهى موجود ہے-اس كيس ’اوٹو پريمنگر انسٹيٹيوٹ بنام آسٹريا‘ كے فيصلہ ميں عدالت نے تحرير كيا كہ
”دفعہ ٩ كے تحت مذہبى جذبات كے احترام كى جو ضمانت فراہم كى گئى ہے ، اس كے مطابق كسى بهى مذہب كى توہين پر مبنى اشتعال انگيز بيانات كو بدنيتى اور مجرمانہ خلاف ورزى قرار ديا جاسكتا ہے- جمہورى معاشرے كے اوصاف ميں يہ وصف بهى شامل ہے كہ اس نوعيت كے بيانات ، اقوال يا افعال كو تحمل ، بردبارى اور برداشت كى روح كے منافى خيال كيا جائے اور دوسروں كے مذہبى عقائد كے احترام كو صد فى صد يقينى بنايا جائے-“
اس واقعہ ميں ’ہمہ قسم كے نسلى امتياز (يا تعصبات) كے خاتمے پر عالمى كنونشن‘ ICERD كى بهى صريحاً خلاف ورزى كى گئى ہے- جس كى رو سے نسلى برترى، نفرت انگيز تقارير اور نسلى تعصب كو ابهارنے كے عمل كوغير قانونى قرارديا گيا ہے- اور اقوام متحدہ پر لازم ہے كہ اس قسم كے قابل تعزير اقدامات كے ذمہ داروں كو قرارِ واقعى سزا دے-
ايسے معاشرے جہاں مذاہب كى بنياد پر تفريق ممنوع ہے، وہاں اسلام كو نظر انداز كركے ديگر مذاہب كو يہ تقدس عطا كرنا بذاتِ خود قابل موٴاخذہ اور مذہبى امتياز كا مظہرہے- يہ مغرب كى اس منافقت كا پول كهولتا ہے جو آئے روز مذہبى مساوات كا دعوىٰ كرتى اور مسلم ممالك كو ا س كا درس ديتى رہتى ہے-بالخصوص اس وقت جب جمہورى اُصولوں كى دعويدار حكومتيں اس حقيقت كے علىٰ الرغم اس زيادتى كا ارتكاب كريں كہ يہ دنيا ميں پائے جانے والے ڈيڑھ ارب يعنى دنيا بهر كى چوتہائى آبادى كے مذہبى جذبات كا تمسخر اُڑانا ہے- ١٩٨٩ء ميں ايك فلم Visions of Ecstasy كو برطانوى سنسر بورڈ نے اس بنياد پر نمائش سے روك ديا كيونكہ اس ميں چرچ كى توہين پائى جاتى تهى- حالانكہ بعدازاں وہ يہ ثابت نہيں كرسكے كہ اس ميں توہين آميز اور قابل اعتراض چيزيں كہاں پائى جاتى ہيں ؟
يورپى يونين كى ہيومن رائٹس كى اعلىٰ ترين عدليہ نے سال ١٩٩٦ء ميں برطانيہ كے ہاؤس آف لارڈز كے توہين مسيح كے مقدمہ ميں فيصلہ پر اوپر درج شدہ آرٹيكل ١٠ كے تحت اپيل كى سماعت كے بعد ايك اہم اور دلچسپ مقدمہ ’ونگرو بنام مملكت ِبرطانيہ ‘ميں بڑا معركہ آرا فيصلہ صادر كياہے جو يورپى يونين كے تمام ممبر ممالك پر لاگو ہے-
يہ كيس ايك ايسى فلم كے بارے ميں تها جس سے حضرت عيسىٰ كى توہين كا تاثر اُبهرتا ہے اور اس كو برطانوى سنسر بورڈ نے اس بنا پر نمائش سے روك ديا كہ اس سے عيسائى شہريوں كے جذبات مشتعل ہونے كا انديشہ تها- سنسربورڈ كے اس فيصلہ كے خلاف فلمساز نے برطانيہ كى سب سے بڑى عدالت ’ہاؤس آف لارڈز‘ ميں اپيل كى، جہاں اس عدالت ِعظمى كے ايك لبرل جج اسكارمين نے يہ قرار ديا كہ ”توہين ِمسيح كا قانون برطانيہ كے لئے ناگزير ہے-“ اس ہاؤس نے بهى فلم كو نمائش سے روكنے كا فيصلہ برقرار ركها- فلمساز نے پهر اس فيصلہ كے خلاف حكومت برطانيہ كو فريق بناتے ہوئے حقوقِ انسانى كى اعلىٰ ترين عدالت ميں اس فيصلہ كو اوپر درج شدہ آرٹيكل ١٠ كى رو سے چيلنج كرديا- يورپى يونين كى اس اعلىٰ ترين عدالت نے اس آرٹيكل كى تشريح كرتے ہوئے يہ قرارد يا كہ ”توہين ِمسيح كے قانون كى بدولت حقوقِ انسانى كا تحفظ برقرار رہتا ہے-“ اور سابقہ فيصلوں كو برقرار رركها-
ہيومن رائٹس كميشن كے ايك مشہور كيس Faurisson VS Franceكا عدالتى فيصلہ ملاحظہ ہو:
”ايسے بيانات پرجو يہوديت دشمن جذبات كو ابهاريں يا انہيں تقويت ديں، پابنديوں كى اجازت ہوگى، تاكہ يہودى آباديوں كے مذہبى منافرت سے تحفظ كے حق كو بالادست بنايا جاسكے-“
روزنامہ نوائے وقت لاہور ميں شائع ہونے والے مضمون ’يورپ اور توہين انبيا‘ ميں مجاہد ناموسِ رسالت جناب محمد اسمٰعيل قريشى لكهتے ہيں :
”يورپ كى عيسائى اور نام نہاد سيكولر حكومتوں كا شروع سے يہ عجيب وغريب دوہرا معيار رہاہے كہ اپنے ملكوں ميں تو توہين مسيح كے جرم كى سنگين سزا، سزاے موت نافذ رہى ہے جو اب بهى عمر قيد كى صورت ميں موجود ہے ليكن وہ چاہتے ہيں كہ پاكستان يا دوسرے مسلمان ملكوں ميں پيغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم كى اہانت كى سزا كا سرے سے وجود ہى نہ رہے كيونكہ اس سے عيسائى اور ديگر اقليتوں كے انسانى حقوق مجروح ہوتے ہيں-“
مغرب كى منافقانہ روش: ان خاكوں كى اشاعت كے لئے بہت سے اخبارات نے يہ موقف بهى اختيار كيا كہ سيكولر معاشرے كے نمائندہ ہونے كى وجہ سے وہ مذہبى نظريات كے تحفظ كے پابند نہيں- دوسرى طرف ان ممالك كے آئين اس امر كى ضمانت بهى ديتے ہيں كہ وہ اپنے ہاں بسنے والوں ميں كسى مذہبى امتياز كو جگہ نہيں ديں گے، ليكن ان ممالك كا عملى رويہ اس دعوىٰ كے برعكس ہے- ان ممالك ميں عيسائيت اور يہوديت كو جوتحفظ حاصل ہے اور قوانين ميں ان كى جو ترجيحى حيثيت موجودہے، اسلام كو يہ تحفظ كسى مرحلہ ميں بهى ميسر نہيں-
ڈنمارك اور ديگر يورپى ممالك ميں يہوديوں كے جرمنى ميں قتل عام كى خود ساختہ تاريخ اور ان كى مظلوميت كو پورا تحفظ ديا گياہے- اس مزعومہ قتل ِعام(ہولوكاسٹ) ميں مقتولين كى تعداد كو ٥٠ لاكہ سے كم بيان كرنا كسى كے مجرم بننے كے لئے كافى ہے-حتىٰ كہ اس كہانى كے كسى جز كا بهى انكار كرنا ٢٠ سال تك قيد كى سزا كا مستوجب ہے- ان ممالك كا يہ قانون مذہبى امتياز پر واضح دليل اور آزادىٴ اظہار پر صاف قدغن ہے- ليكن چونكہ اس سے يہوديوں كى دل شكنى ہوتى ہے، اس لئے اس كو تو قانونى تحفظ عطا كيا گيا ہے، ليكن مسلمانوں كى دنيا بهر ميں او رخود ڈنمارك ميں دل شكنى كوئى جرم نہيں- يہ تضاد مغربى لبرل ازم كا پورا پول كهولتا ہے…!
برطانيہ ميں حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين پر موت كى سزا موجود ہے اور اس سزا كو عالمى عدالت ِانصاف بهى مختلف موقعوں پر تسليم كرچكى ہے گويا وہ برطانيہ كے اس تصورِ قانون كى موٴيد ہے جيساكہ اس كى تفصيل اوپر گزر چكى ہے-غور طلب امر يہ ہے كہ حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين كو آزادىٴ اظہار كے دائرے ميں لانا كيوں برطانوى حكومت كو گوارا نہيں- علاوہ ازيں برطانيہ كے اس قانون كا دائرہ صرف چرچ كے تحفظ تك ہى كيوں محدود ہے؟ يہ قوانين شہريوں ميں عدم مساوات اور مذہبى امتياز پر واضح دليل ہيں-
حضرت عيسىٰ علیہ السلام كى توہين كا ايك كيس آسٹريا ميں بهى ١٩٩٠ء ميں زير سماعت لايا گيا ہے، جس سے پتہ چلتاہے كہ يہ قانون ديگر مغربى ممالك ميں بهى موجود ہے-اس كيس ’اوٹو پريمنگر انسٹيٹيوٹ بنام آسٹريا‘ كے فيصلہ ميں عدالت نے تحرير كيا كہ
”دفعہ ٩ كے تحت مذہبى جذبات كے احترام كى جو ضمانت فراہم كى گئى ہے ، اس كے مطابق كسى بهى مذہب كى توہين پر مبنى اشتعال انگيز بيانات كو بدنيتى اور مجرمانہ خلاف ورزى قرار ديا جاسكتا ہے- جمہورى معاشرے كے اوصاف ميں يہ وصف بهى شامل ہے كہ اس نوعيت كے بيانات ، اقوال يا افعال كو تحمل ، بردبارى اور برداشت كى روح كے منافى خيال كيا جائے اور دوسروں كے مذہبى عقائد كے احترام كو صد فى صد يقينى بنايا جائے-“
اس واقعہ ميں ’ہمہ قسم كے نسلى امتياز (يا تعصبات) كے خاتمے پر عالمى كنونشن‘ ICERD كى بهى صريحاً خلاف ورزى كى گئى ہے- جس كى رو سے نسلى برترى، نفرت انگيز تقارير اور نسلى تعصب كو ابهارنے كے عمل كوغير قانونى قرارديا گيا ہے- اور اقوام متحدہ پر لازم ہے كہ اس قسم كے قابل تعزير اقدامات كے ذمہ داروں كو قرارِ واقعى سزا دے-
ايسے معاشرے جہاں مذاہب كى بنياد پر تفريق ممنوع ہے، وہاں اسلام كو نظر انداز كركے ديگر مذاہب كو يہ تقدس عطا كرنا بذاتِ خود قابل موٴاخذہ اور مذہبى امتياز كا مظہرہے- يہ مغرب كى اس منافقت كا پول كهولتا ہے جو آئے روز مذہبى مساوات كا دعوىٰ كرتى اور مسلم ممالك كو ا س كا درس ديتى رہتى ہے-بالخصوص اس وقت جب جمہورى اُصولوں كى دعويدار حكومتيں اس حقيقت كے علىٰ الرغم اس زيادتى كا ارتكاب كريں كہ يہ دنيا ميں پائے جانے والے ڈيڑھ ارب يعنى دنيا بهر كى چوتہائى آبادى كے مذہبى جذبات كا تمسخر اُڑانا ہے- ١٩٨٩ء ميں ايك فلم Visions of Ecstasy كو برطانوى سنسر بورڈ نے اس بنياد پر نمائش سے روك ديا كيونكہ اس ميں چرچ كى توہين پائى جاتى تهى- حالانكہ بعدازاں وہ يہ ثابت نہيں كرسكے كہ اس ميں توہين آميز اور قابل اعتراض چيزيں كہاں پائى جاتى ہيں ؟
اسلام كى توہين؛ ايك جرمِمسلسل
توہين آميز خاكوں كى اشاعت كوئى وقتى مسئلہ نہيں كہ اس پر مسلمان اپنے غم وغصہ كا اظہار كركے اپنا احتجاج ريكارڈ كراليں اور اسے ہى كافى سمجهيں- بلكہ اگر صرف گذشتہ چند برس كى تاريخ كو پيش نظر ركها جائے تو پتہ چلتا ہے كہ توہين ِاسلام غيرمسلموں كا ايك مسلسل رويہ ہے ، جس كا ارتكاب غير مسلم ايك تسلسل سے كررہے ہيں اور اس كو كافر حكومتيں لگاتار تحفظ عطا كرتى ہيں- ا س جرم كے مرتكبين ان كى آنكھ كا تارا اور ان كى عنايتوں كا مركز ومحور ٹهہرتے ہيں-
ان واقعات كے بارے ميں حسب ِذيل اشارے اس مسلسل رجحان كى عكاسى كرنے كے لئے كافى ہيں جس كے تدارك كے لئے اُمت ِمسلمہ كو سنجيدگى سے غور كرنا، اس كى وجوہات تلاش كرنا اور اس كے خاتمے كے لئے ٹهوس اقدامات بروئے كار لانا ہوں گے :
نواز حكومت كے دوسرے دور ميں دو مسيحيوں كا توہين رسالت كا ارتكاب اور راتوں رات اُنہيں جرمنى كى حكومت كے تحفظ ميں دينے كے لئے پاكستانى ائيرپورٹوں سے باعزت روانگى
جنورى ٢٠٠٠ء ميں انٹرنيٹ پر ايك حياباختہ لڑكى كے سامنے مسلمان نمازيوں كو اس حالت ميں سجدہ ميں گرا ہوا دكهايا گيا كہ وہ اس كى عبادت كررہے ہيں- اس پر ہفت روزہ ’وجود‘ كراچى ميں توجہ دلائى گئى-
ستمبر ٢٠٠٠ء ميں انٹرنيٹ پر قرآن كى دو جعلى سورتيں ’دى چيلنج‘كے عنوان سے شائع ہوئيں اور يہ دعوىٰ كيا گيا كہ يہ وہ مظلوم سورتيں ہيں جنہيں مسلمانوں نے اپنے مقاصد كى راہ ميں ركاوٹ سمجهتے ہوئے قرآن سے نكال باہر كيا ہے- معاذ اللہ
اكتوبر ٢٠٠١ء ميں ’دى رئيل فيس آف اسلام‘ نامى ويب سائٹ پر نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چہ تصاوير كے ساتھ ہتك آميز مضامين شائع كئے گئے، جس ميں اسلامى تعليمات كو مسخ كركے يہ تاثر اُبهارا گيا كہ مسلمان اپنے سوا تمام ديگر انسانوں بالخصوص يہود ونصارى كوواجب القتل سمجهتے ہيں- نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاوير منسوب كركے يہ دعوىٰ كيا گيا كہ آپ دنيا ميں قتل وغارت اور دہشت گردى كا سبب ہيں-نعوذ الله
نومبر ٢٠٠٤ء ميں ہالينڈ كے شہر ہيگ ميں Submission نامى فلم ميں اسلامى احكامات كا مذاق اُڑايا گيا اور برہنہ فاحشہ عورتوں كى پشت پر قرآنى آيات تحريركى گئيں- قرآنى احكام كو ظالمانہ قرار دينے كى منظر كشى كرتے ہوئے مغرب ميں بسنے والے انسانوں كو يہ پيغام ديا گيا كہ اس دين سے كسى خير كى توقع نہيں كى جاسكتى- اس كے نتيجے ميں وہاں مسلم كش فسادات شروع ہوگئے- آخر كار ايك مراكشى نوجوان محمد بوہيرى نے اس گستاخِ قرآن ’وان گوغ‘ كو اس كے انجام تك پہنچايا-
يادر ہے كہ اس فلم كا سكرپٹ نائيجريا كى سياہ فام مرتد عورت عايان ہرشى على نے لكها تها، جب يہ عورت ہالينڈ ميں سكونت پذير ہوئى تو مسلمانوں نے اس كى سرگرميوں پر احتجاج كيا، آخر كار ڈچ حكومت نے ا س عورت كے تحفظ كے لئے اسے سركارى پروٹوكول فراہم كرديا-
جنورى ٢٠٠٥ء ميں فُرقان الحق نامى كتاب شائع كركے اس كو مسلمانوں كا نيا قرآن باور كرانے كى مذموم مساعى شروع كى گئيں - ٣٦٤ صفحات پر مشتمل ا س كتاب ميں ٨٨آيات ميں خود ساختہ نظريات داخل كئے گئے جس كى قيمت ٢٠ ڈالر ركهى گئى-
مارچ ٢٠٠٥ء ميں امينہ ودود نامى عورت نے اسرىٰ نعمانى كى معيت ميں امامت ِزن كے فتنے كا آغاز كيا اور مغربى پريس نے اس كو خوب اُچهالا-
مئى ٢٠٠٥ء ميں نيوز ويك نے امريكى فوجيوں كى گوانتا ناموبے ميں توہين ِقرآن كے ٥٠ سے زائد واقعات كى رپورٹ شائع كى جس كے بعد دنيا بهر كے مسلمانوں ميں اشتعال پهيل گيا-
ستمبر ٢٠٠٥ء ميں جيلانڈ پوسٹن نامى ڈينش اخبار ميں توہين رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا ارتكاب كيا گيا- جس كے بعد وہاں كے كئى جرائد نے اُنہيں دوبارہ شائع كيا - بعد ازاں فرورى ٢٠٠٦ء ميں كئى مغربى اخبارات نے ان توہين آميز كارٹونوں كو اپنے صفحہ اوّل پر شائع كيا-
نبى رحمت محمد عربى صلی اللہ علیہ وسلم كى شان ميں گستاخيوں كا يہ سلسلہ ان چند سالوں پر محيط نہيں بلكہ دشمنانِ اسلام نے آپ كى شانِ رسالت كو ہميشہ اپنى كم ظرفى اور كمينگى كے اظہار كے لئے نشانہ بنانے ميں كوئى كسر نہيں چهوڑى - قرونِ وسطىٰ ميں جان آف دمشقى (٧٠٠ تا ٧٥٤ء) وہ پهلا نامراد شخص ہے جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات كا طومار باندها اور بعد ازاں اكثر وبيشتر مستشرقين نے انہى الزامات كو دہرايا- منٹگمرى واٹ نے ’محمد ايٹ مكہ‘ ميں لكها ہے كہ
”مغربى مصنّفين محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے بارے ميں بدترين چيز پر بهى يقين كرنے كو ہردم آمادہ رہتے ہيں- دوسرى طرف جہاں كہيں اپنے كسى مذموم فعل كى كوئى ممكنہ توجيہ اُنہيں ميسر آئے، اسے حقيقت تسليم كرنے ميں لمحہ بهر تامل نہيں كرتے-“
انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا (١٩٨٤) كا مقالہ نگار لكهتا ہے:
”بہت كم لوگ اتنے بدنام كئے گئے جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو بدنام كيا گيا، قرونِ وسطى كے عيسائيوں نے ان كے ساتھ ہر الزام كو روا ركها ہے-“
”اس حقيقت سے انكار ممكن نہيں كہ پيغمبر عربى كو عيسائيوں نے كبهى ہمدردى اور توجہ كى نظر سے نہيں ديكها، جن كے لئے حضرت عيسىٰ كى ہستى ہى شفيق و آئيڈيل رہى ہے- صليبى جنگوں سے آج تك محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو متنازعہ حيثيت سے ہى پيش كيا جاتا رہا او ران كے متعلق بے سروپا حكايتيں او ربے ہودہ كہانياں پهيلائى جاتى رہيں-“ ( ص ٣٤،٣٥، لندن ١٩٦٥)
عيسائيوں اور غيرمسلموں نے اسلام كى راہ روكنے كے لئے تاجدارِ رسالت كى شان ميں توہين كے علاوہ تنقيد كا رويہ بهى اپنايا ليكن اس تنقيد كا جواب ہميشہ سے مسلم علما نے مبرہن انداز ميں ديتے ہوئے ان كے اعتراضات كا خاتمہ كيا- مذكورہ بالا واقعات كى نشاندہى اور اقتباسات كى پيشكش كا يہ مطلب ہرگز نہيں كہ مسلمان اسلام يا نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كى سيرت پر علمى تبادلہ خيال بهى گوارا نہيں كرتے ليكن تنقيد اور توہين ميں بڑے بنيادى فرق ہيں- مسلمانوں نے مستشرقين كے اعتراضات كا جواب دلائل وبراہين كے ساتھ ديا ہے ليكن توہين رسالت كے مرتكبين كے خلاف ہميشہ ہی صداے احتجاج بلندكى او راُنہيں كيفر كردار تك پہنچانے كى جہدوسعى بروے كار لائے-
مذكورہ بالا واقعات كا تسلسل جہاں مغرب كى تنگ نظرى اور تعصب كا آئينہ دار ہے وہاں اس ميں مسلمانوں كے لئے غور وفكر كا كافى سامان بهى موجود ہے-كسى قوم كے مذہبى تصورات، شعائر اور مقدس شخصيات كى بے حرمتى كے لگاتار واقعات اس امر كا بين ثبوت ہيں كہ اس كا جسد ِملى كهوكهلا ہوچكا ہے- اسلام جو كئى صدياں دنيا كى قيادت كے منصب پر فائز رہا ہے، آج ايك مظلوم مذہب ميں تبديل ہوچكا ہے- مسلمانوں كى روز بروز بڑہتى عددى اكثريت اور ہر قسم كے وسائل سے مالا مال ہونے كے باوجود اسلام كى عالمى پيمانے پر قدر ووقعت روز بروز كم كيوں ہوتى جارہى ہے؟ اس كى وجہ غيروں كى بجائے خود ہمارے اپنے اندر پوشيدہ ہے-
توہين كى ايك شكل تو وہ ہے جس كا ارتكاب آئے روز غير مسلم كر رہے ہيں اور ايك توہين وہ ہے جس كا ہم اللہ كے احكامات اورنبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كے مقدس فرامين كو رو بہ عمل نہ لا كر ، ان كى نافرمانى كرتے ہوئے ہر مرحلہ زندگى ميں مرتكب ہو رہے ہيں- توہين كے اس مسلسل ارتكاب كى بنا پر غيروں كو يہ ہمت پيدا ہوئى كہ وہ اسلام اور اس كے مقدس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو اپنا تختہ مشق وستم بنا سكيں- آج دنيا ميں ٦٠ كے لگ بهگ اسلامى حكومتيں پائى جاتى ہے ليكن مقامِ عار يہ ہے كہ كسى ايك جگہ بهى اسلامى معاشرہ اپنى كامل شكل ميں موجود نہيں- ايك آدہ جزوى استثنا كے ساتھ تمام ممالك ميں غيراسلامى نظام ہائے معاشرت كى بهر مار ہے اور عملاً اسلام تاريخ كے صفحات پر نظر آتا ہے يا كتابوں كے اوراق ميں مدفون ہے !!
اسلام ايك عظيم نظريہٴ حيات اور طرزِ زندگى ہے، جبكہ كفر ايك كم تر معاشرت اور تہذيب وتمدن كا حامل ہے ، ليكن اس كى برترى يہ ہے كہ وہ جس امر كو درست سمجهتے ہيں، اس كو رو بہ عمل لانے سے ہچكچاتے نہيں اور ہم جس كو حق جانتے ہيں، اس كى تعريف و توصيف كرتے تو ہمارى زبان تهكتى نہيں ليكن اس كو روبہ عمل لانے او راپنے اجتماع وافراد پر نافذ كرنے كى ہم ميں ہمت نہيں- ہم عملى منافقت كى بدترين صورت كا شكار ہيں جس ميں قول وفعل ميں بعد المشرقين پايا جاتا ہے- اگر اسلام پر ہمارا دل وجان سے يقين ہے تو ہمارى خير وفلاح اسى پر عمل كرنے ميں مضمر ہے ليكن اسلام سے محض ايك جذباتى تعلق استوار كرنے كے بعد ہم ہر تصور ونظريہ كے لئے مغرب سے بهيك مانگتے ہيں- قرآن كريم كے ہر ہر لفظ پر ہميں ايمان ركهنے كا دعوىٰ ہے ، ليكن اس قرآن كا يہ حكم ہمارى نظروں سے كيوں اوجہل ہوچكا ہے … ٨٠ اور ٩٠ كى دہائيوں ميں سلمان رشدى كى شيطانى آيات اور تسليمہ نسرين كے ناولوں كى اشاعت او رمغرب ميں ان كى ريكارڈ تعداد ميں فروخت، بعد ازاں ان دونوں ملعون شخصيات كو مغربى حكومتوں كا سركارى پروٹوكول پيش كرنا اور ان كے گرد حفاظتى حصار قائم كركے مقبولِ عام شخصيتوں كا درجہ دينا- A History of Medievalكا مصنف جے جے سانڈرز لكهتا ہے:
ان واقعات كے بارے ميں حسب ِذيل اشارے اس مسلسل رجحان كى عكاسى كرنے كے لئے كافى ہيں جس كے تدارك كے لئے اُمت ِمسلمہ كو سنجيدگى سے غور كرنا، اس كى وجوہات تلاش كرنا اور اس كے خاتمے كے لئے ٹهوس اقدامات بروئے كار لانا ہوں گے :
نواز حكومت كے دوسرے دور ميں دو مسيحيوں كا توہين رسالت كا ارتكاب اور راتوں رات اُنہيں جرمنى كى حكومت كے تحفظ ميں دينے كے لئے پاكستانى ائيرپورٹوں سے باعزت روانگى
جنورى ٢٠٠٠ء ميں انٹرنيٹ پر ايك حياباختہ لڑكى كے سامنے مسلمان نمازيوں كو اس حالت ميں سجدہ ميں گرا ہوا دكهايا گيا كہ وہ اس كى عبادت كررہے ہيں- اس پر ہفت روزہ ’وجود‘ كراچى ميں توجہ دلائى گئى-
ستمبر ٢٠٠٠ء ميں انٹرنيٹ پر قرآن كى دو جعلى سورتيں ’دى چيلنج‘كے عنوان سے شائع ہوئيں اور يہ دعوىٰ كيا گيا كہ يہ وہ مظلوم سورتيں ہيں جنہيں مسلمانوں نے اپنے مقاصد كى راہ ميں ركاوٹ سمجهتے ہوئے قرآن سے نكال باہر كيا ہے- معاذ اللہ
اكتوبر ٢٠٠١ء ميں ’دى رئيل فيس آف اسلام‘ نامى ويب سائٹ پر نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب چہ تصاوير كے ساتھ ہتك آميز مضامين شائع كئے گئے، جس ميں اسلامى تعليمات كو مسخ كركے يہ تاثر اُبهارا گيا كہ مسلمان اپنے سوا تمام ديگر انسانوں بالخصوص يہود ونصارى كوواجب القتل سمجهتے ہيں- نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصاوير منسوب كركے يہ دعوىٰ كيا گيا كہ آپ دنيا ميں قتل وغارت اور دہشت گردى كا سبب ہيں-نعوذ الله
نومبر ٢٠٠٤ء ميں ہالينڈ كے شہر ہيگ ميں Submission نامى فلم ميں اسلامى احكامات كا مذاق اُڑايا گيا اور برہنہ فاحشہ عورتوں كى پشت پر قرآنى آيات تحريركى گئيں- قرآنى احكام كو ظالمانہ قرار دينے كى منظر كشى كرتے ہوئے مغرب ميں بسنے والے انسانوں كو يہ پيغام ديا گيا كہ اس دين سے كسى خير كى توقع نہيں كى جاسكتى- اس كے نتيجے ميں وہاں مسلم كش فسادات شروع ہوگئے- آخر كار ايك مراكشى نوجوان محمد بوہيرى نے اس گستاخِ قرآن ’وان گوغ‘ كو اس كے انجام تك پہنچايا-
يادر ہے كہ اس فلم كا سكرپٹ نائيجريا كى سياہ فام مرتد عورت عايان ہرشى على نے لكها تها، جب يہ عورت ہالينڈ ميں سكونت پذير ہوئى تو مسلمانوں نے اس كى سرگرميوں پر احتجاج كيا، آخر كار ڈچ حكومت نے ا س عورت كے تحفظ كے لئے اسے سركارى پروٹوكول فراہم كرديا-
جنورى ٢٠٠٥ء ميں فُرقان الحق نامى كتاب شائع كركے اس كو مسلمانوں كا نيا قرآن باور كرانے كى مذموم مساعى شروع كى گئيں - ٣٦٤ صفحات پر مشتمل ا س كتاب ميں ٨٨آيات ميں خود ساختہ نظريات داخل كئے گئے جس كى قيمت ٢٠ ڈالر ركهى گئى-
مارچ ٢٠٠٥ء ميں امينہ ودود نامى عورت نے اسرىٰ نعمانى كى معيت ميں امامت ِزن كے فتنے كا آغاز كيا اور مغربى پريس نے اس كو خوب اُچهالا-
مئى ٢٠٠٥ء ميں نيوز ويك نے امريكى فوجيوں كى گوانتا ناموبے ميں توہين ِقرآن كے ٥٠ سے زائد واقعات كى رپورٹ شائع كى جس كے بعد دنيا بهر كے مسلمانوں ميں اشتعال پهيل گيا-
ستمبر ٢٠٠٥ء ميں جيلانڈ پوسٹن نامى ڈينش اخبار ميں توہين رسول صلی اللہ علیہ وسلم كا ارتكاب كيا گيا- جس كے بعد وہاں كے كئى جرائد نے اُنہيں دوبارہ شائع كيا - بعد ازاں فرورى ٢٠٠٦ء ميں كئى مغربى اخبارات نے ان توہين آميز كارٹونوں كو اپنے صفحہ اوّل پر شائع كيا-
نبى رحمت محمد عربى صلی اللہ علیہ وسلم كى شان ميں گستاخيوں كا يہ سلسلہ ان چند سالوں پر محيط نہيں بلكہ دشمنانِ اسلام نے آپ كى شانِ رسالت كو ہميشہ اپنى كم ظرفى اور كمينگى كے اظہار كے لئے نشانہ بنانے ميں كوئى كسر نہيں چهوڑى - قرونِ وسطىٰ ميں جان آف دمشقى (٧٠٠ تا ٧٥٤ء) وہ پهلا نامراد شخص ہے جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم پرالزامات واتہامات كا طومار باندها اور بعد ازاں اكثر وبيشتر مستشرقين نے انہى الزامات كو دہرايا- منٹگمرى واٹ نے ’محمد ايٹ مكہ‘ ميں لكها ہے كہ
”مغربى مصنّفين محمد صلی اللہ علیہ وسلم كے بارے ميں بدترين چيز پر بهى يقين كرنے كو ہردم آمادہ رہتے ہيں- دوسرى طرف جہاں كہيں اپنے كسى مذموم فعل كى كوئى ممكنہ توجيہ اُنہيں ميسر آئے، اسے حقيقت تسليم كرنے ميں لمحہ بهر تامل نہيں كرتے-“
انسائيكلوپيڈيا برٹانيكا (١٩٨٤) كا مقالہ نگار لكهتا ہے:
”بہت كم لوگ اتنے بدنام كئے گئے جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو بدنام كيا گيا، قرونِ وسطى كے عيسائيوں نے ان كے ساتھ ہر الزام كو روا ركها ہے-“
”اس حقيقت سے انكار ممكن نہيں كہ پيغمبر عربى كو عيسائيوں نے كبهى ہمدردى اور توجہ كى نظر سے نہيں ديكها، جن كے لئے حضرت عيسىٰ كى ہستى ہى شفيق و آئيڈيل رہى ہے- صليبى جنگوں سے آج تك محمد صلی اللہ علیہ وسلم كو متنازعہ حيثيت سے ہى پيش كيا جاتا رہا او ران كے متعلق بے سروپا حكايتيں او ربے ہودہ كہانياں پهيلائى جاتى رہيں-“ ( ص ٣٤،٣٥، لندن ١٩٦٥)
عيسائيوں اور غيرمسلموں نے اسلام كى راہ روكنے كے لئے تاجدارِ رسالت كى شان ميں توہين كے علاوہ تنقيد كا رويہ بهى اپنايا ليكن اس تنقيد كا جواب ہميشہ سے مسلم علما نے مبرہن انداز ميں ديتے ہوئے ان كے اعتراضات كا خاتمہ كيا- مذكورہ بالا واقعات كى نشاندہى اور اقتباسات كى پيشكش كا يہ مطلب ہرگز نہيں كہ مسلمان اسلام يا نبى اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كى سيرت پر علمى تبادلہ خيال بهى گوارا نہيں كرتے ليكن تنقيد اور توہين ميں بڑے بنيادى فرق ہيں- مسلمانوں نے مستشرقين كے اعتراضات كا جواب دلائل وبراہين كے ساتھ ديا ہے ليكن توہين رسالت كے مرتكبين كے خلاف ہميشہ ہی صداے احتجاج بلندكى او راُنہيں كيفر كردار تك پہنچانے كى جہدوسعى بروے كار لائے-
مذكورہ بالا واقعات كا تسلسل جہاں مغرب كى تنگ نظرى اور تعصب كا آئينہ دار ہے وہاں اس ميں مسلمانوں كے لئے غور وفكر كا كافى سامان بهى موجود ہے-كسى قوم كے مذہبى تصورات، شعائر اور مقدس شخصيات كى بے حرمتى كے لگاتار واقعات اس امر كا بين ثبوت ہيں كہ اس كا جسد ِملى كهوكهلا ہوچكا ہے- اسلام جو كئى صدياں دنيا كى قيادت كے منصب پر فائز رہا ہے، آج ايك مظلوم مذہب ميں تبديل ہوچكا ہے- مسلمانوں كى روز بروز بڑہتى عددى اكثريت اور ہر قسم كے وسائل سے مالا مال ہونے كے باوجود اسلام كى عالمى پيمانے پر قدر ووقعت روز بروز كم كيوں ہوتى جارہى ہے؟ اس كى وجہ غيروں كى بجائے خود ہمارے اپنے اندر پوشيدہ ہے-
توہين كى ايك شكل تو وہ ہے جس كا ارتكاب آئے روز غير مسلم كر رہے ہيں اور ايك توہين وہ ہے جس كا ہم اللہ كے احكامات اورنبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كے مقدس فرامين كو رو بہ عمل نہ لا كر ، ان كى نافرمانى كرتے ہوئے ہر مرحلہ زندگى ميں مرتكب ہو رہے ہيں- توہين كے اس مسلسل ارتكاب كى بنا پر غيروں كو يہ ہمت پيدا ہوئى كہ وہ اسلام اور اس كے مقدس نبى صلی اللہ علیہ وسلم كو اپنا تختہ مشق وستم بنا سكيں- آج دنيا ميں ٦٠ كے لگ بهگ اسلامى حكومتيں پائى جاتى ہے ليكن مقامِ عار يہ ہے كہ كسى ايك جگہ بهى اسلامى معاشرہ اپنى كامل شكل ميں موجود نہيں- ايك آدہ جزوى استثنا كے ساتھ تمام ممالك ميں غيراسلامى نظام ہائے معاشرت كى بهر مار ہے اور عملاً اسلام تاريخ كے صفحات پر نظر آتا ہے يا كتابوں كے اوراق ميں مدفون ہے !!
اسلام ايك عظيم نظريہٴ حيات اور طرزِ زندگى ہے، جبكہ كفر ايك كم تر معاشرت اور تہذيب وتمدن كا حامل ہے ، ليكن اس كى برترى يہ ہے كہ وہ جس امر كو درست سمجهتے ہيں، اس كو رو بہ عمل لانے سے ہچكچاتے نہيں اور ہم جس كو حق جانتے ہيں، اس كى تعريف و توصيف كرتے تو ہمارى زبان تهكتى نہيں ليكن اس كو روبہ عمل لانے او راپنے اجتماع وافراد پر نافذ كرنے كى ہم ميں ہمت نہيں- ہم عملى منافقت كى بدترين صورت كا شكار ہيں جس ميں قول وفعل ميں بعد المشرقين پايا جاتا ہے- اگر اسلام پر ہمارا دل وجان سے يقين ہے تو ہمارى خير وفلاح اسى پر عمل كرنے ميں مضمر ہے ليكن اسلام سے محض ايك جذباتى تعلق استوار كرنے كے بعد ہم ہر تصور ونظريہ كے لئے مغرب سے بهيك مانگتے ہيں- قرآن كريم كے ہر ہر لفظ پر ہميں ايمان ركهنے كا دعوىٰ ہے ، ليكن اس قرآن كا يہ حكم ہمارى نظروں سے كيوں اوجہل ہوچكا ہے … ٨٠ اور ٩٠ كى دہائيوں ميں سلمان رشدى كى شيطانى آيات اور تسليمہ نسرين كے ناولوں كى اشاعت او رمغرب ميں ان كى ريكارڈ تعداد ميں فروخت، بعد ازاں ان دونوں ملعون شخصيات كو مغربى حكومتوں كا سركارى پروٹوكول پيش كرنا اور ان كے گرد حفاظتى حصار قائم كركے مقبولِ عام شخصيتوں كا درجہ دينا- A History of Medievalكا مصنف جے جے سانڈرز لكهتا ہے:
((وَأَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِه عُدُوَّ الله وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ لاَ تَعْلَمُوْنَهُمْ الله يَعْلَمُهُمْ )) (الانفال: ٦٠)
”اور تم غيرمسلموں كے لئے بقدرِ استطاعت قوت تيار ركهو ، ايسے ہى گهوڑوں كى تيارى بهى (جس كا فائدہ يہ ہوگا كہ ) تم اس سے اللہ كے اوراپنے دشمنوں پر اور ان پر رعب طارى كر سكو گے جن كو تم تو نہيں جانتے ، ليكن اللہ جانتا ہے-“
اس آيت ميں يہ حقيقت واضح الفاظ ميں بيان كى گئى ہے كہ اسلام كو دنيا كا كوئى لادين تصور ونظريہ كبهى گوارا نہيں كرسكتا اور سب لوگ ان كى مخالفت ميں يكجان ہيں- كفار سے مبنى برانصاف رويے كى واحد بنياد يہ ہے كہ مسلمان اپنى حربى قوت سے ان پر رعب وہيبت برقرار ركهيں وگرنہ سب غير مسلم قوميں مل كر اسلام پر حملہ آور ہوجائيں گى-
ہمارى نظر ميں توہين كے ان مسلسل واقعات كا واحد حل يہ ہے كہ مسلمان خلوصِ دل سے اسلام كو اپنى زندگيوں اور اپنے معاشروں پر نافذ كريں، اپنى حد تك اسلام كى پابندى كو اپنے اوپر لازمى قرارديں اور اسلام كى اس پابندى ميں ہرقسم كے شرعى فرض كى تكميل داخل ہے، جن ميں علوم ميں اپنى كهوئى ہوئى ميراث كو حاصل كرنا اور مسلم قوم كى ہر ميدان ميں تعمير كركے ان كو ايك مضبوط قوم بنانا بهى شامل ہے- اگر ہم اسلام كو حرزِ جان بنائيں اور نبى صلی اللہ علیہ وسلم كے فرامين ہمارى آنكهوں كا سرمہ ہوں تو اس كے بعد غير مسلموں كو يہ جرات ہرگز نہيں ہوسكے گى كہ وہ مسلمانوں كے مقدس شعائر اور نامور شخصيات كى بے حرمتى كا خيال بهى دل ميں لائيں-
آج آياتِ الٰہى اور فرامين نبويہ كى بے حرمتى كے پس پردہ مغرب كا يہ طنز چهپا ہوا ہے كہ وہ ہميں اپنے شعائر كى حرمت كے تحفظ پر قادر ہى نہيں خيال كرتے وگرنہ ان كو لگاتار يہ رويہ اپنانے كا موقع كيوں كر ملتا-
مغربى ميڈيا اور حكومتوں كى يہ اسلام سے يہ مضحكہ آرائى مسلم حكمرانوں كى بے حميتى اور مفاد پرستى كا بهى نوحہ ہے !! مسلم حكمران اگر آج بهى غيروں كى كاسہ ليسى چهوڑ كر اپنے مسلمان عوام كى رائے كا احترام كريں اور عوام كو اپنى مقبوضہ جاگير سمجهنے كى بجائے ان كى نمائندگى كا راستہ اختيار كريں تو نہ صرف اس سانحہ سے بلكہ اُمت ِمسلمہ كو درپيش متعدد مسائل سے نجات حاصل كرنے كا باعزت راستہ مل سكتا ہے-
غور طلب امر يہ ہے كہ مغربى طرزِ حكومت ملكى حد بنديوں اور چارديواريوں ميں مقيد نظامِ حكومت كا تصور پيش كرتا ہے، جبكہ اسلام اللہ كے ماننے والے تمام مسلمانوں كو ايك ملت اسلاميہ اورجسد ِواحد كا تصور ديتا ہے- ليكن دنيا كى عملى صورتحال آج بالكل اس كے برعكس ہے- اسلام كا يہ سياسى نظريہ آج مغرب نے اپنے حرزِ جان بنايا ہوا ہے- خود تو امريكہ رياستوں كے ساتھ پورے بر اعظم كو ايك حكومت ميں سميٹے بيٹها ہے اوردوسرى طرف يورپى ممالك نے يورپى يونين كے ذريعے آپس ميں ايك دوسرے كو متحد كرركها ہے- آپس ميں آمد ورفت كى پابنديوں اور تجارتى بندشوں سے آزاد يورپى ممالك فقط انتظامى لكيروں كى حد تك متعدد ممالك ہيں جبكہ مشتركہ كرنسى، كثيرالقومى تجارتى كمپنيوں،مشتركہ عدالت ہائے انصاف اوريورپى يونين كے قوانين كے ذريعے يہ تمام ملك داخلى تشخص كے ساتھ ساتھ ايك بڑى اكائى ميں متحد و يكجان ہيں- ان كى قوت كا راز اسى ميں پوشيدہ ہے!!
جبكہ دوسرى طرف مسلمان ممالك اپنے جهوٹے مفادات كے لئے، اقوام متحدہ اور عالمى تنظيموں كے بل بوتے پر آپس ميں تقسيم د رتقسيم ہورہے ہيں-اور اس تمام تر تقسيمكو مغرب كے پروردہ اسلامى حكمران ہر طرح سے تحفظ فراہم كررہے ہيں-يہاں ملكى لكيريں كو اتنا گہرا تقدس بخش ديا گيا اور وطنيت پرستى كا وہ صور پهونكا گيا ہے كہ آپس ميں ملى مفادات كے لئے مل بيٹهنے كے امكانات دور دور تك نظر نہيں آتے- نسلى وحدت اور تہذيبى مماثلتوں كے علاوہ سب سے بڑھ كر ان مسلمانوں كا مذہبى ودينى تشخص اور نظريات وتصورات بالكل ايك ہيں، ليكن ان كے ملى مسائل حل كرنے اور اُنہيں آپس ميں متحد كرنے كے لئے ٹهوس اقدامات بروئے كار نہيں لا جارہے-مسلمانوں كا سياسى ادارہ ’خلافت‘ جو اسلام كى عظمت وسطوت كا نشان تها، اس كى بساط اس طرح لپيٹى گئى ہے كہ دوبارہ اس طرف كوئى مسلم حكومت پلٹ كر بهى نہيں ديكهنا چاہتى!!
اس المناك سانحے كے مرحلے پر بهى ايك بار پهر يورپى يونين نے اپنے اتحاد واشتراك كے بل بوتے پر اُمت ِمسلمہ كو رنج والم كى كيفيت سے دوچار كر دياہے- ڈنمارك كے بعد ديگر يورپى ممالك ميں ان خاكوں كى اشاعت كسى حادثہ يا محض اتفاق پر مبنى نہيں بلكہ ڈينش وزير اعظم كى ديگر يورپى ممالك سے رابطوں كا نتيجہ ہے- ديگر ممالك ميں ان كارٹونوں كو شائع كرانے كے پس پردہ يہ ہدف كارفرما ہے كہ اُمت ِمسلمہ كسى ايك ملك كى مصنوعات كا بائيكاٹ كرنے پر تو قدرت ركهتى ہے ليكن ان تمام ممالك او ريورپى يونين كى مصنوعات كو ترك كرنے كى اہليت نہيں ركهتى- گويا اس طرح وہ اس جرم ميں بهى اپنے ساتهى كى معاونت سے پيچهے نہيں ہٹتے!
اس واقعہ پر جس طرح دنيا بهر ميں مسلمانوں نے اپنے دلى جذبات كا واضح اظہار كيا ہے، اور تمام اُمت ميں كلى اتفاق رائے حاصل ہوا ہے، اس موقع سے فائدہ اُٹها كر امت ِمسلمہ كو كسى ايسے مركزى نظم ميں پرويا جاسكتا ہے جس كے بعد مغربى ممالك كى اس ثقافتى جارحيت كے علاوہ ان كى سياسى جارحيت كا توڑ بهى ہوسكے گا- جس طرح يورپى يونين نے يہ اعلان كيا كہ كسى ايك ملك پر حملہ تمام ممبر ممالك پر حملہ سمجها جائے گا او رسب مل كر اس كا جواب ديں گے، اسى طرح مسلمانوں كو اپنے ہى سياسى فلسفے ’ملى وحدت‘ كے احيا كے اس نادر موقع سے فائدہ اٹهانا چاہئے-
مسلم حكمرانوں كى كاسہ ليسى، اقتدار پرستى اور مغرب نوازى اب ايك پختہ روايت بن چكى ہے، جن سے بہت سى توقعات وابستہ كرنے كى بجائے اُمت ِمسلمہ كے بين الاقوامى اداروں كو اپنا كردار ادا كرنے كے لئے ميدانِ عمل ميں آنا ہوگا- اُمت ِمسلمہ كے بين الاقوامى ادارے اپنا مقصد ِجواز كهو ديں گے ، اگر وہ اس مرحلے پر اُمت كے اس اجتماعى موقف كو كوئى نتيجہ خيز شكل دينے پر قادر نہيں ہوتے-
الغرض ہمارى نظر ميں اس مرحلہ پر مسلمانوں كا اسلام كى طرف رجوع، اجتماعى وانفرادى سطح پر اسلامى احكامات كو اپنانا، مسلم حكمرانوں كو پوريمسلم اُمہ كو سياسى وحدت ميں پرونے اور مشتركہ قوت كى طرف بڑہنے كے لئے اس موقع سے فائدہ اُٹهانا اور عالمى اسلامى تنظيموں كو اس موقع پر اُمت كے اجتماعى موقف سے مستقل نوعيت كے فوائد كى طرف پيش بندى كرنا ہى ايسا حاصل ہے، جس كے نتيجے ميں مستقل نوعيت كے تحفظ كى توقع كى جاسكتى ہے-
جہاں تك نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى شان وعظمت كا تعلق ہے تو ان كفار ملحدين كے كہنے سے اس ميں كوئى كمى واقع نہيں ہوسكتى- جس نبى كو كائنات كا ربّ ذو الجلال ((وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ)) كى نويد سناتا ہے اور اس كے دشمنوں كو((إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاَبْتَر))كى وعيد ديتا ہو، اس كى شان كو ايسے حقير ہتهكنڈوں سے كوئى خطرہ نہيں- اللہ تعالىٰ كا اپنے نبى صلی اللہ علیہ وسلم سے يہ وعدہ ہے :
((إِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللهِ إِلٰهًا آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَأْتِيَكَ الْيَقِيْنُ)) (الحجر:٩٥ تا ٩٩)
”ہم تيرى توہين كرنے والوں كو خوب كافى ہيں- يہ وہ لوگ ہيں جو اللہ كے ساتھ بهى دوسرا الٰہ كهڑا كرتے ہيں، عنقريب اُنہيں پتہ چل جائے گا- ہميں خوب علم ہے كہ ان كى اس تمسخرانہ حركتوں سے تيرا سينہ تنگ ہوتا ہے (ليكن ان كى پرواہ مت كر) اور اپنے ربّ كى تسبيح بيان كر اور سجدہ كرنيوالوں ميں سے ہوجا- پهر اپنے ربّ كى عبادت كرتا رہ تاآنكہ تجهے موت آجائے-“
”اور تم غيرمسلموں كے لئے بقدرِ استطاعت قوت تيار ركهو ، ايسے ہى گهوڑوں كى تيارى بهى (جس كا فائدہ يہ ہوگا كہ ) تم اس سے اللہ كے اوراپنے دشمنوں پر اور ان پر رعب طارى كر سكو گے جن كو تم تو نہيں جانتے ، ليكن اللہ جانتا ہے-“
اس آيت ميں يہ حقيقت واضح الفاظ ميں بيان كى گئى ہے كہ اسلام كو دنيا كا كوئى لادين تصور ونظريہ كبهى گوارا نہيں كرسكتا اور سب لوگ ان كى مخالفت ميں يكجان ہيں- كفار سے مبنى برانصاف رويے كى واحد بنياد يہ ہے كہ مسلمان اپنى حربى قوت سے ان پر رعب وہيبت برقرار ركهيں وگرنہ سب غير مسلم قوميں مل كر اسلام پر حملہ آور ہوجائيں گى-
ہمارى نظر ميں توہين كے ان مسلسل واقعات كا واحد حل يہ ہے كہ مسلمان خلوصِ دل سے اسلام كو اپنى زندگيوں اور اپنے معاشروں پر نافذ كريں، اپنى حد تك اسلام كى پابندى كو اپنے اوپر لازمى قرارديں اور اسلام كى اس پابندى ميں ہرقسم كے شرعى فرض كى تكميل داخل ہے، جن ميں علوم ميں اپنى كهوئى ہوئى ميراث كو حاصل كرنا اور مسلم قوم كى ہر ميدان ميں تعمير كركے ان كو ايك مضبوط قوم بنانا بهى شامل ہے- اگر ہم اسلام كو حرزِ جان بنائيں اور نبى صلی اللہ علیہ وسلم كے فرامين ہمارى آنكهوں كا سرمہ ہوں تو اس كے بعد غير مسلموں كو يہ جرات ہرگز نہيں ہوسكے گى كہ وہ مسلمانوں كے مقدس شعائر اور نامور شخصيات كى بے حرمتى كا خيال بهى دل ميں لائيں-
آج آياتِ الٰہى اور فرامين نبويہ كى بے حرمتى كے پس پردہ مغرب كا يہ طنز چهپا ہوا ہے كہ وہ ہميں اپنے شعائر كى حرمت كے تحفظ پر قادر ہى نہيں خيال كرتے وگرنہ ان كو لگاتار يہ رويہ اپنانے كا موقع كيوں كر ملتا-
مغربى ميڈيا اور حكومتوں كى يہ اسلام سے يہ مضحكہ آرائى مسلم حكمرانوں كى بے حميتى اور مفاد پرستى كا بهى نوحہ ہے !! مسلم حكمران اگر آج بهى غيروں كى كاسہ ليسى چهوڑ كر اپنے مسلمان عوام كى رائے كا احترام كريں اور عوام كو اپنى مقبوضہ جاگير سمجهنے كى بجائے ان كى نمائندگى كا راستہ اختيار كريں تو نہ صرف اس سانحہ سے بلكہ اُمت ِمسلمہ كو درپيش متعدد مسائل سے نجات حاصل كرنے كا باعزت راستہ مل سكتا ہے-
غور طلب امر يہ ہے كہ مغربى طرزِ حكومت ملكى حد بنديوں اور چارديواريوں ميں مقيد نظامِ حكومت كا تصور پيش كرتا ہے، جبكہ اسلام اللہ كے ماننے والے تمام مسلمانوں كو ايك ملت اسلاميہ اورجسد ِواحد كا تصور ديتا ہے- ليكن دنيا كى عملى صورتحال آج بالكل اس كے برعكس ہے- اسلام كا يہ سياسى نظريہ آج مغرب نے اپنے حرزِ جان بنايا ہوا ہے- خود تو امريكہ رياستوں كے ساتھ پورے بر اعظم كو ايك حكومت ميں سميٹے بيٹها ہے اوردوسرى طرف يورپى ممالك نے يورپى يونين كے ذريعے آپس ميں ايك دوسرے كو متحد كرركها ہے- آپس ميں آمد ورفت كى پابنديوں اور تجارتى بندشوں سے آزاد يورپى ممالك فقط انتظامى لكيروں كى حد تك متعدد ممالك ہيں جبكہ مشتركہ كرنسى، كثيرالقومى تجارتى كمپنيوں،مشتركہ عدالت ہائے انصاف اوريورپى يونين كے قوانين كے ذريعے يہ تمام ملك داخلى تشخص كے ساتھ ساتھ ايك بڑى اكائى ميں متحد و يكجان ہيں- ان كى قوت كا راز اسى ميں پوشيدہ ہے!!
جبكہ دوسرى طرف مسلمان ممالك اپنے جهوٹے مفادات كے لئے، اقوام متحدہ اور عالمى تنظيموں كے بل بوتے پر آپس ميں تقسيم د رتقسيم ہورہے ہيں-اور اس تمام تر تقسيمكو مغرب كے پروردہ اسلامى حكمران ہر طرح سے تحفظ فراہم كررہے ہيں-يہاں ملكى لكيريں كو اتنا گہرا تقدس بخش ديا گيا اور وطنيت پرستى كا وہ صور پهونكا گيا ہے كہ آپس ميں ملى مفادات كے لئے مل بيٹهنے كے امكانات دور دور تك نظر نہيں آتے- نسلى وحدت اور تہذيبى مماثلتوں كے علاوہ سب سے بڑھ كر ان مسلمانوں كا مذہبى ودينى تشخص اور نظريات وتصورات بالكل ايك ہيں، ليكن ان كے ملى مسائل حل كرنے اور اُنہيں آپس ميں متحد كرنے كے لئے ٹهوس اقدامات بروئے كار نہيں لا جارہے-مسلمانوں كا سياسى ادارہ ’خلافت‘ جو اسلام كى عظمت وسطوت كا نشان تها، اس كى بساط اس طرح لپيٹى گئى ہے كہ دوبارہ اس طرف كوئى مسلم حكومت پلٹ كر بهى نہيں ديكهنا چاہتى!!
اس المناك سانحے كے مرحلے پر بهى ايك بار پهر يورپى يونين نے اپنے اتحاد واشتراك كے بل بوتے پر اُمت ِمسلمہ كو رنج والم كى كيفيت سے دوچار كر دياہے- ڈنمارك كے بعد ديگر يورپى ممالك ميں ان خاكوں كى اشاعت كسى حادثہ يا محض اتفاق پر مبنى نہيں بلكہ ڈينش وزير اعظم كى ديگر يورپى ممالك سے رابطوں كا نتيجہ ہے- ديگر ممالك ميں ان كارٹونوں كو شائع كرانے كے پس پردہ يہ ہدف كارفرما ہے كہ اُمت ِمسلمہ كسى ايك ملك كى مصنوعات كا بائيكاٹ كرنے پر تو قدرت ركهتى ہے ليكن ان تمام ممالك او ريورپى يونين كى مصنوعات كو ترك كرنے كى اہليت نہيں ركهتى- گويا اس طرح وہ اس جرم ميں بهى اپنے ساتهى كى معاونت سے پيچهے نہيں ہٹتے!
اس واقعہ پر جس طرح دنيا بهر ميں مسلمانوں نے اپنے دلى جذبات كا واضح اظہار كيا ہے، اور تمام اُمت ميں كلى اتفاق رائے حاصل ہوا ہے، اس موقع سے فائدہ اُٹها كر امت ِمسلمہ كو كسى ايسے مركزى نظم ميں پرويا جاسكتا ہے جس كے بعد مغربى ممالك كى اس ثقافتى جارحيت كے علاوہ ان كى سياسى جارحيت كا توڑ بهى ہوسكے گا- جس طرح يورپى يونين نے يہ اعلان كيا كہ كسى ايك ملك پر حملہ تمام ممبر ممالك پر حملہ سمجها جائے گا او رسب مل كر اس كا جواب ديں گے، اسى طرح مسلمانوں كو اپنے ہى سياسى فلسفے ’ملى وحدت‘ كے احيا كے اس نادر موقع سے فائدہ اٹهانا چاہئے-
مسلم حكمرانوں كى كاسہ ليسى، اقتدار پرستى اور مغرب نوازى اب ايك پختہ روايت بن چكى ہے، جن سے بہت سى توقعات وابستہ كرنے كى بجائے اُمت ِمسلمہ كے بين الاقوامى اداروں كو اپنا كردار ادا كرنے كے لئے ميدانِ عمل ميں آنا ہوگا- اُمت ِمسلمہ كے بين الاقوامى ادارے اپنا مقصد ِجواز كهو ديں گے ، اگر وہ اس مرحلے پر اُمت كے اس اجتماعى موقف كو كوئى نتيجہ خيز شكل دينے پر قادر نہيں ہوتے-
الغرض ہمارى نظر ميں اس مرحلہ پر مسلمانوں كا اسلام كى طرف رجوع، اجتماعى وانفرادى سطح پر اسلامى احكامات كو اپنانا، مسلم حكمرانوں كو پوريمسلم اُمہ كو سياسى وحدت ميں پرونے اور مشتركہ قوت كى طرف بڑہنے كے لئے اس موقع سے فائدہ اُٹهانا اور عالمى اسلامى تنظيموں كو اس موقع پر اُمت كے اجتماعى موقف سے مستقل نوعيت كے فوائد كى طرف پيش بندى كرنا ہى ايسا حاصل ہے، جس كے نتيجے ميں مستقل نوعيت كے تحفظ كى توقع كى جاسكتى ہے-
جہاں تك نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى شان وعظمت كا تعلق ہے تو ان كفار ملحدين كے كہنے سے اس ميں كوئى كمى واقع نہيں ہوسكتى- جس نبى كو كائنات كا ربّ ذو الجلال ((وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ)) كى نويد سناتا ہے اور اس كے دشمنوں كو((إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الاَبْتَر))كى وعيد ديتا ہو، اس كى شان كو ايسے حقير ہتهكنڈوں سے كوئى خطرہ نہيں- اللہ تعالىٰ كا اپنے نبى صلی اللہ علیہ وسلم سے يہ وعدہ ہے :
((إِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللهِ إِلٰهًا آخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَأْتِيَكَ الْيَقِيْنُ)) (الحجر:٩٥ تا ٩٩)
”ہم تيرى توہين كرنے والوں كو خوب كافى ہيں- يہ وہ لوگ ہيں جو اللہ كے ساتھ بهى دوسرا الٰہ كهڑا كرتے ہيں، عنقريب اُنہيں پتہ چل جائے گا- ہميں خوب علم ہے كہ ان كى اس تمسخرانہ حركتوں سے تيرا سينہ تنگ ہوتا ہے (ليكن ان كى پرواہ مت كر) اور اپنے ربّ كى تسبيح بيان كر اور سجدہ كرنيوالوں ميں سے ہوجا- پهر اپنے ربّ كى عبادت كرتا رہ تاآنكہ تجهے موت آجائے-“
No comments:
Post a Comment