Unicode Text Sahih Bukhari Urdu

Unicode Text Sunan Abu Dawood - Urdu

Saturday, June 25, 2011

Eid e Milad Par Taqseem Khaane Ka Hukm - Online Books

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عید میلاد النبی کے موقع پرتقسیم کردہ کھانے کا حکم؟

حكم أكل الطعام الذي يوزع يوم المولد النبوي الشريف

محمد صالح المنجد
مراجعہ : شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی

ميلاد النبى كے روز تقسم كردہ اشياءکے كھانے كا حكم

کیا محمد صلى اللہ علیہ وسلم کی میلاد کے سلسلہ میں تقسیم کردہ اشیاء اورکھانے وغیرہ کھانا جائز ہیں؟
کچھ لوگ اسکی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ابولہب نے جب نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی میلاد میں لونڈی آزاد کی تواللہ تعالى نے اس روزاسکے عذاب میں کمی کردی؟

الحمد للہ:
اولاً:
شريعت اسلاميہ ميں كوئى ايسى عيد نہيں جسے عيد ميلاد النبى كے نام سے موسوم كيا جاتا ہو، صحابہ كرام اور تابعين عظام حتى كہ آئمہ اربعہ اور دوسرے بھى اپنےدين ميں اس دن كو جانتے تك نہ تھے، بلكہ اس عيد كو تو باطنيہ ميں سے بعض جاہل اور بدعتى لوگوں نے ايجاد كيا، اور پھر لوگ اس بدعت پر عمل كرنے لگے اور ہر دور اورہر جگہ علماء كرام اس كو برا جانتے اور اس سے روكتے رہےہیں.

دوم:
اس بنا پر جو اعمال بھى لوگ اس دن کے ساتھ خاص كرتے ہيں وہ حرام اور بدعی اعمال ميں شمار ہوتے ہيں، كيونكہ وہ ہمارى اس شريعت ميں اس بدعتى عيد كو جارى كرنا چاہتے ہيں، مثلا جشن منانا يا كھانے وغيرہ تقسيم كرنے جيسےاعمال.
شيخ فوزان حفظہ اللہ اپنى كتاب " البيان لاخطاء بعض الكتاب " ميں بيان كرتے ہيں: كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارے میں جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ » [ آل عمران: 31]
"كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا"
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے: اتَّبِعُواْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاء قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ» [ الأعراف:3]
"جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو"
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ »[ الأنعام:153]
"اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ كے راستہ سے جدا كرديں گے"

اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات كى ايجاد ہے"

اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 )

اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ:
" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے"

اور لوگوں نے جو بدعات ايجاد كى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن منانا بھى شامل ہے اور لوگ اس جشن كو منانے ميں كئى انواع اور اقسام ميں تقسيم ہوتے ہيں:
كچھ لوگ تو صرف اس جشن كو اجتماع بناتے ہيں اور اس ميں اكٹھے ہو كر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس مناسبت سے تقارير اور قصيدے پڑھتے ہيں.
اور كچھ لوگ اس مناسبت سے كھانا وغيرہ اور مٹھائى تيار كر كے حاضرين كو پيش كرتے ہيں.
اور كچھ لوگ مساجد ميں قيام كرتے ہيں، اور كچھ لوگ اپنے گھروں ميں قيام اور عبادت كرتے ہيں.
اور كچھ ايسے بھى ہيں جو مندرجہ بالا امور پر ہى اقتصار اور بس نہيں كرتے بلكہ ان كا يہ اجتماع امور حرام اور برائيوں پر مشتمل ہوتا ہے جس ميں مرد و عورت كا اختلاط اور رقص و سرور كى محفل اور گانا بجانا بھى شامل ہے، يا پھر وہ شركيہ اعمال مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور آپ كو دشمن كے خلاف مدد كےليے پكارتےہيں.

اور يہ سب اشكال و انواع اور اس كے كرنے والوں كے مختلف اغراض و مقاصد مختلف ہونے كے باوجود بلاشك و شبہ يہ حرام اور بدعت ہے جو دين ميں قرون مفضلہ كے كئى دور كے بعد ايجاد كى گئى ہے.
اس بدعت كو ايجاد كرنے والا سب سے پہلا شخص ملك المظفر ابو سعيد كوكپورى ہے جو چھٹى صدى كے آخر يا ساتويں صدى كےشروع ميں اربل كا بادشاہ تھا، جيسا كہ مؤرخين مثلا ابن كثير اور ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے.

اور ابو شامہ كہتے ہيں:
موصل ميں اس كو منانے والا سب سے پہلا شخص عمر بن محمد ملا تھا جو صالحين ميں سے ايك مشہور صالح تھا، اور اربل كے بادشاہ نے اس كى پيروى ميں يہ جشن منايا تھا.
ديكھيں: البيان لاخطاء بعض الكتاب ( 268 - 270 ).

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ ابو سعيد كوكپورى كے ترجمہ ميں كہتے ہيں:
" يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد النبى كا بہت بڑا جشن منايا كرتا تھا...
پھر كہتے ہيں: سبط كا كہنا ہے: مظفر كے جشن ميلاد النبى ميں حاضر ہونے والوں ميں سے ايك كا بيان ہے كہ: اس جشن اور كھانے ميں ملك مظفر پانچ ہزار بكرے اور دس ہزار مرغياں بھون كر اور ايك لاكھ زبديہ اور تيس ہزار حلوے كى پليٹيں پيش كرتا....

يہاں تك كہتے ہيں:
اور صوفيوں كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع قائم كرتا اور ان كے ساتھ خود بھى رقص كرتا تھا " اھـ
ديكھيں: البداية والنهايةلابن كثير ( 13 / 137 ).

اور " وفيات الاعيان " ميں ابن خلكان كہتے ہيں:
اور جب صفر شروع ہوتا تو وہ ان قبوں كو بيش قيمت اشياء سے مزين كرتے، اور ہر قبہ ميں مختلف قسم كے گروپ بيٹھ جاتے، ايك گروپ گانے والوں كا، اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والوں كا، ان قبوں ميں سے كوئى بھى قبہ خالى نہ رہنے ديتے، بلكہ اس ميں وه گروپ ترتيب دئے ہوتےتھے.
اور اس دوران لوگوں كے كام كاج بند ہوتے، اور صرف ان قبوں اور خيموں ميں جا كر گھومنے پھرنے كے علاوہ كوئى اور كام نہ كرتے...


اس كے بعد وہ يہاں تك كہتے ہيں:
اور جب جشن ميلاد ميں ايك يا دو روز باقى رہتے تو اونٹ، گائے، اور بكرياں وغيرہ كى بہت زيادہ تعداد باہر نكالتے جن كا وصف بيان سے باہر ہے، اور جتنے ڈھول، اور گانے بجانے، اور كھيل تماشے كے آلات اس كے پاس تھے وہ سب ان كے ساتھ لا كر انہيں ميدان ميں لے آتے...
اس كے بعد يہ كہتے ہيں:
اور جب ميلاد كى رات ہوتى تو قلعہ ميں نماز مغرب كے بعد محفل سماع منعقد كرتا. ديكھيں: وفيات الاعيان لابن خلكان ( 3 / 274 ).

تو پھر اس دن بدعتى لوگ جو سب سے بڑا كام كرتے ہيں اور اس كا احياء كرتے ہيں وہ مختلف قسم كےكھانے پكا كر تقسيم كرنا اور لوگوں كو كھانے كی دعوت دينا ہے، اس ليے اگر مسلمان اس عمل ميں شريك ہو كر ان كا كھانا كھائے اور ان كے دستر خوان پر بيٹھے تو بلا شك و شبہ وہ اس بدعت كو زندہ كرنے ميں معاون اور شريك ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ[سورة المائدة:2]
"اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو"
اسى ليے اہل علم كے فتاوى جات ميں اس روز اور بدعتيوں كے دوسرے تہواروں ميں تقسيم كيا جانے والا كھانا اور اشياء تناول كرنے كو حرام بيان كيا گيا.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميلاد النبى كے موقع پر ذبح كردہ گوشت كھانےكا كيا حكم ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اگر وہ ميلاد والے ( يعنى جس كا ميلاد منايا جا رہا ہے ) كے ليے ذبح كيا گيا ہے تو يہ شرك اكبر ہے، ليكن اگر اس نے كھانے كے ليے ذبح كيا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اسے كھانا نہيں چاہيے، اور نہ ہى مسلمان اس مجلس اور ميلاد ميں حاضر ہو، تا كہ وہ برائى كا عملى اور قولى طور پر انكار كر سكے؛ مگرانہیں نصیحت کرنے کیلئے حاضرہواوران کے ساتھ کھانے وغیرہ میں شریک نہ ہو. " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 9 / 74 ).
واللہ اعلم .

No comments:

Post a Comment