مزاروں کے بارے میں توہمات
(نوٹ: سعدیہ قمر نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کے لئے یہ مقالہ پیش کیا تھا۔)
اولیاء کرام کے جو مزار بنائے گئے ہیں موجودہ وقت وہ برائی کے اڈے بن چکے ہیں۔ جہاں یہ سب معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے گڑھ بنے ہوئے ہیں وہاں مزاروں کے بارے میں بہت سی توہمات پائی جاتی ہیں جو قابل غور ہیں۔
عام طور پر لوگ جہاں کہیں مزار کے قر یبی درخت ہوتے ہیں ان سے بہت سی خواہشات اور تمنائیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ جو ان کی ذہنی و اخلاقی جاہلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس مزار کے درخت کے نیچے بیٹھنا وہ تقرب من اللہ سمجھتے ہیں اور نیکیوں میں بڑھوتری سمجھتے ہیں اس طرح سر عام ایک مجمع کا سماں ہوتا ہے۔ نعوذ باللہ جس قدر تعظیم وتکرم ان درختوں کو دی جاتی ہے اور جتنا وقت ان درختوں کے لئے وقف کیا جاتا ہے اگر اللہ تعالی کے لئے اتنا وقت نکالا جائے تو خیر کے کاموں میں اضافہ ہو جائے۔
مزار کے درختوں کے پھل سے فال نکلالنا:
مزار کے قریب لگے درختوں پر جو پھل لگے ہوئے ہوتے ہیں ان کو بہت ہی متبرک سمجھا جاتا ہے۔ صحت کی بہتری، بیماریوں کا علاج، ٹونا ٹوٹکا وغیرہ یہ سب امور ان درختوں کے پھلوں سے لیے جاتے ہیں اور ان درختوں کے پھل سے فالیں نکالیں جاتیں ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری اس کےبارے میں لکھتے ہیں:
’’بعض مزارات کے قریب بیری وغیرہ کے درخت ہوتے ہیں جن کے نیچے لوگ چادریں بچھا کر بیٹھتے ہیں اگر بیر گرے تو احترام بجا لاتے ہیں اور اس سے روزہ افطار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں ۔ بیری کے پھل سے بیٹے کی فال نکالتے ہیں اور اگر پتے گریں تو بیٹیوں کی فال نکالتے ہیں اور اگر کوئی خود بیر توٓڑے تو اسے بے ادبی و گستاخی سمجھ کر سخت برا گردانتے ہیں یہ تمام امور توہم پرستی کو فروغ دینے والے ہیں اور بے بنیاد ہیں شرعا ان کی کوئی اصل نہیں لہٰذا علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں۔‘‘(توحید وتعظیم از ڈاکٹر طاہر القادری :ص 268-269)
مزار کی اینٹ:
احمد ر ضا خان لکھتے ہیں:
’’ بعض جہلاء فرضی مزارات بنا کر اصل کی طرح اس کا ادب واحترام بجا لاتے ہیں جس کی شریعت نے بالکل اجازت نہیں دی جس طرح کہ بعض جگہ لوگوں نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے مزارات وغیرہ بنائے ہوئے ہیں جن پر عرس کرتے ہیں۔محدث بریلوی سے اس سلسلے میں پوچھا گیا کہ پیران پیر نام سے بعض جگہ مزار بنا لیا گیا ہے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کےمزار کی اینٹ دفن ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ از حمد رضا خان :4/ 114)
درخت كاٹنے کے بارے میں:
ڈاکٹر طاہر القادری لكھتے ہیں:
’’ بعض اولیاء اللہ کے مزارات کے قریب ایسے درخت ہوتے ہیں جن کے بارے میں لوگوں میں مشہور ہوتا ہے کہ ان کاٹنے سے صاحبان مزار ناراض ہو جاتے ہیں لہٰذا انہیں کاٹنا حرم کی طرح حرام ہے۔‘‘(توحید وتعظیم از ڈاکٹر طاہر القادری :ص 4)
درختوں کے بارے میں توہمات
مزاروں کے درختوں کے علاوہ جو ’’ عام‘‘ درخت ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی لوگوں میں بہت توہم پرستی پائی جاتی ہے جس کی چند ایک مثالیں یہ ہیں:
درختوں پر شہید مرد:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں درخت پر شہید مرد ہیں اور فلاں طاق پر شہید مر د رہتے ہیں اور اس درخت اور اس طاق کے پاس جا کر ہر جمعرات کو فاتحہ شیرینی اور چاول وغیرہ دلاتے ہیں۔ ہار لٹکاتے ہیں، لوبان سلگاتے ہیں مراد یں مانگتے ہیں۔
محدث بریلوی اس کےبارے میں فرماتے ہیں کہ
’’ یہ سب واہیات وخرافات اور جاہلانہ حماقات و بطلات ہیں ان کا ازالہ لازم ہے۔‘‘(احکام شریعت از احمد خان :1/ 32)
درختوں کے نیچے سونا منحوس سمجھنا:
درختوں کے نیچے سونا منحوس سمجھا جاتا ہے۔ یعنی کہ اب درخت جیسی اللہ کی دی گئی انمول نعمت سے بھی کنارہ کشی کی جائے۔ اس کی چھاؤں اور ٹھنڈک کو ترستے رہنا اور اوہام و وسوسہ کے پیش نظر زندگی اجیرن کی جائے۔
انہیں توہمات پر روشنی پاکستان کے ثقافتی انسائیکلو پیڈیا میں بھی ڈالی گئی ہے۔
گرمیوں کے موسم میں رات کو درخت کے نیچے سونے کو بھی منحوس خیال کیا جاتا ہے حالانکہ سائنسی توضیح الگ ہے۔(پاکستان کا ثقافتی انسائیکلو پیڈیا :ص 338)
درختوں پر تعویذ لٹکانا:
ہمارا گھر اس سلسلے میں منہ بولتا ثبوت ہے۔
میری دادی جان نے امرود کے درختوں پر بہت سارے تعویذ لٹکائے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ بہو کے خاتمے کے لئے ، کچھ گمشدہ بیٹے کی تلاش کے لئے کچھ مال و دولت کے لئے اور کچھ اپنے بیٹوں کے درمیان ’’ اتفاق‘‘ کے لئے ہی۔ ان درختوں سے گو کہ میری بہت وابستگی رہی کیونکہ ان درختوں پر میرے علاوہ کسی کو چڑھنا نہیں آتا تھا اس لیے ان تعویذوں کے بارے میں گہرا مشاہدہ رکھتی ہوں۔
اور پاکستان کے بیشتر گھروں میں درختوں پر تعویذ دیکھے جا سکتے ہیں۔مختلف تعویذوں کو مختلف پھلوں والے درختوں پر لٹکایا جاتا ہے جن کو مرادیں بھر لے آنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
درخت کے نیچے بال کھولنا:
تو ہمات پاکستان میں افراد کی زندگیوں میں اتنا گہرا اثر رکھتی ہیں کہ ان کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے وغیرہ ہر چیز میں نحوست اور شگون کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ بزرگ اور بزرگوں کے علاوہ بیشتر لوگ اس بات کو نحوست جانتے ہیں کہ درختوں کے نیچے کھلے بال لے کر جایا جائے۔ کیونکہ ان کے خیال میں جن بھوت درختوں پر رہتے ہیں اور وہ ’’عاشق‘‘ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے گھر والوں کو اس عشق کے بھوت کو اتارنے کے بہت تگ ودو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
No comments:
Post a Comment