Unicode Text Sahih Bukhari Urdu

Unicode Text Sunan Abu Dawood - Urdu

Tuesday, April 19, 2011

Media Ka Mazhabi Istemaal (Online Books)

میڈیا کا مذہبی استعمال

دور حاضر میں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث ہونیوالی معاشرتی تبدیلیوں نے میڈیا کی اہمیت کو مزید اجاگر کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ معاشرے کے ہر طبقے کے لیے ضروری ہو چکا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور نظریات سے آگاہی اور ان کے فروغ کے لیے ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں صرف وہی اقوام اور نظریات عالمی منظر نامے پر حاوی نظر آتے ہیں کہ جو میڈیا کے میدان میں بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ میڈیا میں کم سرگرمی کا مظاہرہ کرنیوالے دینی ، سیاسی ، سماجی غرض ہر قسم کے طبقات کی مقبولیت میں کمی آئی ہے ۔ عالمی سطح پر اور خاص کر پاکستان میں دینی طبقے نے بھی ذرائع ابلاغ کو اپنے لیے مواقف بنانے پر زیادہ توجہ نہیں دی ۔ اسلام کی سچی تعلیمات اور قرآن و سنت کا بھرپور علم ہونے کے باوجود اس کے ابلاغ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کی کوششیں نہیں کی گئیں جس کے باعث ملک میں سیکولر طبقہ حاوی نظر آتا ہے اور خاص کر میڈیا کے میدان میں تو اس کی کافی حد تک اجارہ داری قائم ہو چکی ہے ۔ بلخصوص الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے انتہائی کم توجہ دی گئی ہے ۔ اس مضمون کا مقصد عالمی سطح پر اور خاص کر مغربی ممالک میں الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے دینی مقاصد کے لیے استعمال کو زیر بحث لانا ہے ۔ مغربی دنیا میں ذرائع ابلاغ کے تمام قابل ذکر اور بڑے اداروں پر یہود ی مالکان یا تو قابض ہیں یا پھر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا ہی یہودی مذہب اور عیسائی مذہب کی جدید تشریحات کا ترجمان نظر آتا ہے ۔ سیکولرازم کے سب سے بڑے دعویدار امریکہ میں میڈیا کو کس حد تک مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے لیے سابق امریکی صدر جانس کی تقریر نویس خاتون صحافی گریس ہالسلز کی ” نئی صلیبی جنگ سے متعلق کتاب Forcing God's Hand سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں ۔ یہ کتاب دو ہزار ایک میں لکھی گئی ۔ کتاب میں اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے کہ کس طرح امریکی کی اندرونی اور بیرونی پالیسیاں عیسائی بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے زیر اثر بنتی ہیں ۔ یہ طبقہ میڈیا کے میدان میں بھی بھرپور اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ کتاب کے اکتسابات مندرجہ ذیل ہیں ۔
رائل اولس شیگن کے جیک وین امپی ہر ہفتے اپنی تقریر نشر کرتے ہیں اور نوے سے زیادہ چینل پر خطاب کرتے ہیں ۔ ان میں ٹرینی براڈ کاسٹنگ مذہبی نیٹ ورک ، امریکہ کے ۳۴ ریڈیو سٹیشن اور ٹرانس ورلڈ ریڈیو ، جو دنیا بھر میں سنا جاتا ہے ، شامل ہے
چارلس ٹیلر جن کا تعلق ننگٹن بیچ ( کیلیفورنیا) سے ہے۔ اپنے نشرئیے میں ” بائبل کی پیشن گوئی آج کے لئے “ نامی پروگرام کرتے ہیں جو کہ سٹیلائیٹ کے ذریعے بیس سے زیادہ نشرگاہوں سے دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے ۔
چک اسمتھ کا ریڈیو پروگرام سینکڑوں نشرگاہوں سے سنا جاتا ہے اور کالوری سیٹلائیٹ نیٹ ورک سے بھی نشر ہوتا ہے۔ کوسٹامیسا ( کیلیفورنیا) میں ان کا ” کالوری چینل “ ہے جس کے ۵۲ ہزار ارکان ہیں ۔ امریکہ میں ان کے چھ سو سے زائد کالوری چینل ہیں اور بین الاقوامی طور پر ایک سو سے بھی زائد کالوری چینل ہیں۔
پال کراو ¿چ کا ٹرینٹی براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک ہے جو یوم قیامت کے بارے میں پیش گوئیاں نشر کرتا ہے۔ یہ پورے امریکہ میں دیکھا جاتا ہے۔
کراو ¿چ کا لاس اینجلز میں ہفتے کی صبح کو اپنا ریڈیو پروگرام ہوتا ہے۔ جبکہ وہ کاو ¿نٹ ڈاو ¿ن نیوز جرنل بھی شائع کرتے ہیں۔
جیمز ڈالبسن ، کولوریڈو میں مذہبی پروگرام کے براڈ کاسٹر ہیں ۔ وہ ایک تحریک کے بانی بھی ہیں ” خاندان پر توجہ “ کے بانی ہیں ۔ اس کے ارکان بیس لاکھ سے زائد اور پورے ملک میں ۴۳ شاخیں ہیں۔ وہ ہر ہفتے دو کروڑ ۸ لاکھ افراد تک پیغام پہنچاتے ہیں۔
لیوس پلاو ¿ ایک مذہبی مبلغ ہیں ۔ انہوں نے ۷۶ اقوام سے خطاب کرتے ہوئے ایک کروڑ بیس لاکھ سے گفتگو کی ہے ۔۔ ان کا ہفتہ وار ٹی وی پروگرام ہے ۔۔ وہ ہر روز تین ریڈیو پروگرام نشر کرتے ہیں جنہیں بائیس ملکوں میں سنا جاتا ہے۔
پیٹ رابرٹسن نے ورجینا بیچ میں کرسچن براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک تعمیر کیا جس کی ہر سال نو کروڑ ستر لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔۔ اس کے منافع پر کوئی ٹیکس بھی نہیں۔۔

اپنے بی سی این میں انہوں نے فیملی چینل بنایا جو کہ امریکہ میں ساتواں سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔۔ وہ خود پروگرام بھی کرتا ہے۔ بعد میں اس نے اپنا فیملی چینل فاکس ٹیلی ویژن کو ایک ارب نوے کروڑ میں بیچ دیا۔ مصنفہ کی تحقیق کے مطابق مذہبی سرگرمیاں زیادہ تر کرسچن کولیشن نامی تنظیم کے ذریعے ہوتی ہے اور اسے ملک کی سب سے بڑی سماجی تنظیم قرار دیا جا سکتا ہے جوکہ داخلہ و خارجہ پالیسی اور سیاست پر گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پانچ کروڑ سے زائد بنیاد پرست عیسائی موجود ہیں جو کہ دنیا کے جلد سے جلد خاتمے کے لیے سرگرم ہیں ۔ یہی افراد یہودیوں کی بھرپور مدد کرتے ہیں ۔ امریکی میڈیا میں یہودی سب سے زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں اور اس کی بھی مذہبی وجوہات ہیں ۔ بائبل کی نئی تشریحات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حضرت عیسی ؑ کی دوبارہ آمد اور نجات کے لیئے ضروری ہے کہ یہودیوں کا ہیکل تعمیر ہو۔ انہی نظریات کا اثر ہے کہ عیسائی دنیا آج اسرائیل کی حمایتی نظر آتی ہے اور ایسا سیاسی نہیں بلکہ مذہبی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے۔۔بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ازم کے نام نہاد نعرے کے تحت مغربی ذرائع ابلاغ مذہب سے دوری کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ بہت سے سکالرز اپنی تحقیق سے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ سیکولرازم کہ جس کو مذہب بیزاری کا نام دیا جاتا ہے بذات خود ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے باقاعدہ اصول و ضوابط ہیں کہ جن کی پیروی بلکل ایسے ہی کی جاتی ہے کہ جیسے مذہبی احکام و مسائل کی ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی معاشرے کے مذہبی رجحان کو بدلنے کے لیے ہمیشہ یہی ضروری نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کی جائے بلکہ بعض اوقات لوگوں کو ان کے عقائد اور نظریات سے دور کر دینے کے لیے بھی ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ میں اس کی مثال پاکستان میں قائم مشنری تعلیمی اداروں سے دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہمارے ملک میں کرسچن مشنری تنظیموں کی جانب سے اعلی طبقے کے لیے بڑے ہی پرکشش انداز میں تعلیمی اداروں کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ وافر فنڈز اور بیرونی سرمائے کی بدولت یہ تعلیمی ادارے اپنے معیار کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے ہاں کی اشرافیہ اپنے ہونہار بچوں کو ان اداروں میں بھیجتے ہیں ۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں میں سے بہت کم ہی عیسائیت کو قبول کرتے ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی اکثریت اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر ناآشنا ہو چکی ہوتی ہے ۔ انتہائی چالاکی اور مہارت سے ان بچوں کے معصوم ذہنوں میں ایسا بیج بویا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا باقی ماندہ حصہ مذہب سے دور ہی گزارتے ہیں ۔ یہی لوگ بعد میں ملک کا عنان حکومت سنبھالتے ہیں اور سکولوں میں ہونیوالی نشوونما کے زیر اثر ہی ان کے ذہن دینی طبقے سے قربت پر کبھی بھی مائل ہی نہیں ہوتے۔ ٹھیک ایسے ہی بعض طاقتیں میڈیا کی طاقت کو مسلمانوں کے دلوں سے دینی روایات اور احکام و مسائل کی عزت اور اور محبت ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یعنی ان کو عیسائی ، یہودی یا ہندو نہیں بنایا جا رہا لیکن ایسا مواد پیش کیا جا رہا ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح سے بیگانہ ہو جائیں ۔ دوسرا ایک بہت ہی اہم حربہ اسلامی قوانین ، تاریخ ، شخصیات ، تحریکوں وغیرہ کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا نا ہے ۔ انٹرنیٹ پر قرآن پاک کے غلط تراجم حتی کہ غلط متن تک موجود ہیں اور انتہائی منصوبہ بندی سے ان کو پھیلایا جا رہا ہے ۔ اسلام مخالف میڈیا بھرپور طریقے سے لوگوں کے دلوں میں مذہب سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ پاکستان میں حدود بل کے خلاف میڈیا ٹرائل ، ناموس رسالت ﷺ کے قانون اور اسلامی سزاو ¿ں وغیرہ کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ دینی جذبات رکھنے والا بندہ بھی ان سے متنفر ہو جائے ۔ اس طرح معاشرے میں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے ہی ان قوانین کو ختم کرنے کے کوشش ہو تو زیادہ سخت ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ مغربی میڈیا نے حالیہ دنوں میں توہین آمیز مواد کی اشاعت کو بھی ایک مذہبی حربے کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کے واقعات میں میڈیا سے منسلک افراد کے واضح مذہبی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے ۔ مذہبی جماعتوں کو اور دنیا بھر میں سرگرم اسلامی تنظیموں کو انتہائی گھٹیا انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل مذہب کے داعیوں سے دور ہو سکیں ۔ ایک اہم حربہ یہ بھی ہے کہ ٹی وی شوز میں ایسے سکالرز کو پروموٹ کیا جاتا ہے کہ جو مرضی کے مطابق تشریحات کر سکتے ہوں۔ اس سے مختلف مقاصد حاصل ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخلص دینی قیادت کو عوام کی نظروں سے ہٹا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب نام نہاد مذہبی سکالرز کے ذریعے دینی مسائل کی ایسی تشریح پیش کی جاتی ہے کہ جس سے مزید الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرے کا ایک بڑا طبقہ دین کو بوجھ سمجھ کر مذہبی روایات سے دور ہوتا جا تا ہے ۔ پاکستان میں غیر مسلم قرار دئیے جانیوالے قادیانی میڈیا کے میدان میں انتہائی سرگرم دیکھائی دیتے ہیں اور ان کے سیٹلائیٹ چینلز ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد سے بھی کئی سال پہلے سے ہی سرگرم ہیں ۔ قادیانی چینلز الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال استعمال کرتے ہیں ۔ بھارتی میڈیا بھی ہندو مذہب کی ترویج کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ڈراموں، فلموں اور مختلف پروگرامز میں مذہبی عنصر لازمی طور پر شامل کیا جاتا ہے ۔ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا تعارف ، پوجا ، مذہبی گیت ، مذہبی


روایات وغیرہ کی بھرپور طریقے سے عکاسی نظر آتی ہے ۔ بھجن ، تلک ، گھنگرو ، پائل ، ساڑھیاں اور ایسی ہی بہت سی ہندو مت سے منسلک اشیاءمیڈیا کی بدولت ہی آج ہمارے معاشرے کا بھی حصہ بنتی نظر آتی ہیں ۔ مغربی اور ہندو میڈیا سے مقابلے کے لیے اسلامی حلقوں کو بھی اس میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بات کافی خوش آئند ہے کہ چاہے دیر سے ہی سہی لیکن اب دینی طبقے کو الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے اور اب اس سلسلے میں تگ و دو جاری ہے۔ کسی کو بھی اس قدرتی اصول سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ گنوائے ہوئے وقت کا ازالہ ممکن نہیں اور اب دینی طبقے کو الیکٹرانک میڈیا کے میدان میں اپنا پیغام پیش کرنے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بہتے ہوئے دریا کا منہ موڑنا ۔۔ بہرحال اگر نیت خالص ہو اور محنت کا جذبہ بھرپور ہو تو آج کے دور میں یہ کام ناممکن ہرگز نہیں ہے ۔

دینی طبقہ کے میڈیا فیلڈ میں سرگرمی دیکھاتے ہی ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اک نئی بحث نے بھی جنم لیا ہے ۔ اسلام اور اس کی تعلیمات سے تعصب رکھنے والے لوگ مختلف الزامات کے تحت دینی اور نظریات افراد کو میڈیا سے دور رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اگر دینی علم رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں میڈیا ٹیکنالوجی آ گئی تو اس سے معاشرے میں کوئی بہت بڑا طوفان جنم لے سکتا ہے ۔ فرقہ واریت ، گروہ بندی ، اشتعال انگیز مواد وغیرہ جیسے موضوعات کو لیکر دینی ذرائع ابلاغ کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں نیوز اور تفریحی چینل کی اجازت تو بہ آسانی مل جاتی ہے جبکہ دینی چینل کے لیے اجازت نامہ ملنا انتہائی مشکل کام ہے ۔ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک میں میڈیا کے اتنے بڑے پیمانے پر مذہبی استعمال سے کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی تو انشاءاللہ ہمارے ملک میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مذہبی حلقوں کے میڈیا میں آنے سے بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ الیکٹرانک میڈیا میں ناظرین کا حلقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور ہر مقرر اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ اس کی گفتگو صرف ایک خاص طبقے تک نہیں پہنچ رہی بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگ سن یا دیکھ سکتے ہیں ۔ اس سے احساس ذمہ داری میں اضافہ ہوتا ہے ۔ کوئی بھی عالم دین یا سکالر من گھڑت اور اشتعال انگیز بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا کیونکہ فوری طور پر ردعمل آنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس لیے نہ صرف دینی جماعتوں کو چاہیے کہ میڈیا کے استعمال میں اضافہ کریں بلکہ حکومت کو بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ انشاءاللہ آئندہ مضمون میں ان نقاط پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ جو دینی حلقوں کو میڈیا میں کامیابی دلا سکتے ہییں

No comments:

Post a Comment