Unicode Text Sahih Bukhari Urdu

Unicode Text Sunan Abu Dawood - Urdu

Monday, May 16, 2011

America Khoon Ka Taajir - Online Books

دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار امریکہ کی ابتدائی تاریخ سیاہ فام افریقی اور مقامی باشندوں کے خون سے لکھی گئی ۔۔۔ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہنے والے زیادہ تر خون کا ذمہ دار امریکہ ہی ہے۔۔۔ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہو کہ جہاں امریکی خونریزی کی مثالیں موجود نہ ہوں۔ امریکہ میں یورپ کے جرائم پیشہ افراد کو بسایا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ آنے والے دور میں زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے باوجود امریکی مہم جوو ¿ں کی فطرت نہ بدل سکی اور آج دنیا بھر میں اس مملکت کا تاثر محض ایک سامراجی ذہنیت کی قاتل ریاست کا ہے۔ امریکہ کی جانب
سے امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر دنیا بھر میں اس قدر خون بہایا گیا۔۔کہ اب ہر کوئی ان الفاظ سے ڈرتا پایا جاتا ہے۔ امریکہ کی جنگی مہموںاور قتل و غارت کے لیے بدترین طریقے استعمال کرنے کے باعث دنیا بھر میں نفرت پائی جاتی ہے اور خود امریکی ذرائع ابلاغ اپنی رپورٹوں سے اس کی تصدیق کر چکے ہیں۔امریکہ آج کے دور کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے ۔ اس کی فوج چودہ لاکھ پچاس ہزار سے زائد جوانوں پر مشتمل ہے جبکہ ریزرو فوجیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ لاکھ کے قریب ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ سالانہ آٹھ سو ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ خفیہ اداروں کو بھی اربوں ڈالر دئیے جاتے ہیں ۔ سی آئی اے کا بجٹ چوالیس لاکھ جبکہ ایف بی آئی سالانہ پندرہ ارب ڈالر خرچ کرتی ہے۔ اس وقت انتالیس ممالک میں امریکہ کے آٹھ سو بیس مستقل فوجی اڈے موجود ہیں جبکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک میں امریکی فوجی کسی نہ کسی طرح موجود ہیں۔ امریکی بحری بیڑے دنیا بھر میں اس کے مفادات کے تحفظ کے ضامن ہیں جبکہ میزائل ڈیفنس سسٹم اور خلای ¿ی ٹیکنالوجی کے زریعے امریکی تسلط کے تحفظ کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ کے خونین کارناموں کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ سترہ سو پجھتر سے سترہ سوتیراسی تک امریکیوں نے جنگ آزادی لڑی۔ برطانیہ سے آزاد ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنایا اور آس پاس موجود کئی جزیروں اور چھوٹے چھوٹے ممالک پر قبضے شروع کر دئیے۔ اٹھارہ سو اکسٹھ میں امریکہ کو سول وار کا سامنا کرنا پڑا جوکہ چار سال تک جاری رہی ۔ سول وار پر قابو پانے کے بعد امریکہ کے سامراجی عزائم کا آغاز ہوا۔ امریکہ نے پہلی سامراجی جنگ سپین کی کالونیاں حاصل کرنے کے لیے لڑی ۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ امریکہ نے براعظم سے باہر قدم رکھا اور فلپائن ،گوام سمیت کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تیرہ تک فلپائن میں ہزاروںافراد کو امریکی قبضہ مضبوط کرنے کی غرض سے قتل کر دیا گیا۔۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی شہروں پر ایٹم بم گرا کر امریکہ نے نہ صرف سامراجی عزای ¿م کا اظہار کیا بلکہ ایک وحشی ریاست کے طور پر اپنی شناخت کرا لی۔چند سالوں کے بعد انیس سو پچاس میں امریکہ کورین جزیرے پر مفادات کی جنگ لڑنے کے لیے موجود تھا۔ اب کی بار کیمونسٹ شمالی کوریا کو سبق سکھانے کا اعلان کیا گیا اور اپنے ورلڈ آرڈر کی مضبوطی اور اس کے اظہار کی خاطر لاکھوں کورین باشندوں کا خون بہا دیا گیا۔
۔انیس سو اٹھاون میں لبنانی صدر کامیلی چیمون نے فلسطینی مہاجرین کی کارروای ¿یوں کے خلاف امریکہ کی مدد مانگی ۔ اس طرح امریکہ کو مشرق وسطی میں فوجی مداخلت کا موقعہ ملا۔ انیس سو ستاون میں شروع ہونیوالی ویت نام جنگ میں تین لاکھ سے زائد مقامی باشندوں کو خون کی قربانی دینا پڑی۔تاہم امریکہ اور اتحادیوں کی بھرپور کوشش کے باوجود شمالی ویت نام میں اٹھنے والی کمیونسٹ لہر کو دبایا نہ جا سکا اور امریکہ کو ایک تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ انیس سو اسی میں روس افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکہ نے اس موقعے پر اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی تشویش سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ افغانی عوام پاکستانی بھائیوں کی مدد سے روسی ظلم کے خلاف ڈٹ گئے جبکہ امریکہ اس صورتحال کو اپنے سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ امریکہ نے روس پر افغانستان سے قبضہ ختم کرنے کے لیے دباو ¿ ڈالنے کی بجائے اس جنگ کو بڑھکانے کا فیصلہ کیا۔ افغانیوں اور مسلم ممالک سے آنیوالے مجاہدین کی اسلحہ کی صورت میں مدد کی جانے لگی۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب امریکی پالیسی ساز اپنے خطرناک منصوبوں کی خاطر اس خطے کے کروڑوں انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے تھے ۔ روس کی شکست پر افغانوں کا مشکور ہونے کی بجائے امریکہ نے جنیوا میں ایک ایسا معاہدہ کرایا کہ جس کی وجہ سے مختلف مسلح گروپ آپس میںلڑ پڑے ۔ اس طر ح امریکی مفادات کے لیے بڑھکائی گئی اس جنگ میں ہزاروں افغان ہلاک ہوئے۔
اب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا تھا اور طاقت کے نشے میں دھت یہ ملک پانامہ کے صدر مینول نوریجا پر منشیات کی تجارت میں ملوث ہونے کا الزام اور انتخابات سے پیدا ہونے والے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس علاقے میں بحری آمدورفت پر اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سے اگلے سال امریکی فوجیں مشرق وسطی پہنچی اور کویت پر قبضے کی آڑ میں اپنے پرانے اتحادی صدام حسین کے خلاف نبردآزما ہوئیں۔ گلف وار کا میڈیا کے زریعے خوب چرچا ہوا اور ایسے لگتا تھا کہ امریکی چند دنوں کی بھرپور کارروائی کرکے صدام حسین کی طاقت کا صفایا کر دیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔صرف تین دن کی لڑائی کے بعد جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ بعض حلقوں کے خیال میں اس جنگ کا مقصد امریکہ کو مشرق وسطی میں فوجی اڈے فراہم کرنا تھا اور اس سازش میں امریکی صدر بش سینئر کے ساتھ ساتھ صدام حسین بھی شامل تھا۔ اگر صدام حسین کویت پر حملہ نہ کرتا تو امریکیوں کے پاس مشرق وسطی میں آنے کا بہانہ نہ ہوتا اس طرح صدام حسین نے دوستی نبھائی اور امریکہ کو کو یت میں مستقل ٹھکانہ مل گیا۔ گلف وار کے نتیجے میں صدام حسین کویت سے پسپا ہو کر عراقی سرحدوں میں محدود ہو گیا جبکہ امریکہ کویت اور سعودی عرب کے خرچے پر یہاں مستقل قیام کی سہولیات حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ انیس سو بانوے میں افریقہ کو امریکی بربریت کا سامنا کرنا پڑا اور صومالیہ کی سرزمین پر اس کے ظلم کی داستان لکھی جانے لگی۔ اسلام پسند فرح عدید کے ساتھ کشیدگی کی سزا صومالی عوام کی زندگی سے کھیل کر دی گئی۔امریکی فوج کو تو عوامی دباو پر واپس بلا لیا گیا تاہم صومالیہ کے اسلام پسند عوام کی آزمائش ختم نہ ہوئی اور امریکی ایما پر ایتھوپیا کے ذریعے ان کا قتل عام جاری ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کی خونین کارروائیوں کا کچھ تذکرہ اگلے کالم میں کرنے کی کوشش کروں گا۔

امریکی براہ راست حملوں کے علاوہ بعض اوقات مقامی تنظیموں یا اپنے حامی حکمرانوں کے ذریعے بھی قتل و غارت کراتا ہے۔ چلی کے جنرل پنوشے کی بربریت ہو یا اسرائیل کا ظلم ہر موقعے پر امریکی حمایت ظلم کرنیوالے کے ساتھ ہی رہی ہے۔امریکی خفیہ ایجنسیاں دنیا بھر میں پرتشدد کارروای ¿یوں کے حوالے سے بدنام ہیں گوانتانا موبے اور ابو غریب جیل کے قصے امریکیوں کے وحشیانہ رویے کی مثال ہیں ۔نائن الیون کے بعد شروع ہونیوالی دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکی قیادت میں دنیا کی تاریخ کی سب سے خونی کارروائی بنتی جا رہی ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے مشکوک ہونے کی باتیں اب بیرونی دنیا سے بھی کہیں بڑھ کر خود امریکہ کے اندر سے اٹھ رہی ہیں ۔ دنیا بھر کے تجزئیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پرل ہاربر کی طرح نائن الیو ن بھی امریکی سامراجی عزائم کی تکمیل کا ایک حربہ تھا۔ پرل ہاربر میں جاپانیوں کو موقعہ دیا گیا تاکہ امریکہ دوسری جنگ عظیم سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے فائدہ اٹھا سکے جبکہ نائن الیون بھی ایک ایسی ہی کوشش تھی کہ جس کا مقصد دنیا میں کمزور پڑتے امریکی تسلط کو تقویت دینا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب اسلام مدمقابل تھا۔ صدر بش نے اس جنگ کو کروسیڈ قرار دیا ۔اور اس طرح دنیا کی سب سے بڑی طاقت مسلمانوں کا شکار کرنے نکل کھڑی ہوئی۔ بغیر کسی تحقیق کے القاعدہ نامی ایک دہشت گرد تنظیم پر الزام لگا۔ ملزم نامزد کیے گئے۔ اقوام متحدہ نے اجازت نامہ دیا اور اس طرح امریکی مفادات کی خاطر سوویت یونین کو توڑنے والی سرزمین افغانستان میزائلوں اور ڈرٹی بموں سے لرزنے لگی۔ نائن الیون کے چند ملزموں کی تلاش میں ہزاروں افغانیوں کا قتل عام شروع ہوا۔ ملزم ابھی تک نہیں ملے۔۔ تاہم پاکستانی عوام ڈرون حملوں اور خودکش بم دھماکوں، عراقی عوام فرقہ واریت جبکہ افغان باشندے بمباری اور تباہ کن اسلحے کے استعما ل سے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ یہ جنگ اب تک دس لاکھ سے زای ¿د انسانوں کو نگل چکی ہے۔ پاکستان ، افغانستان اور عراق کی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ چکی ہے جبکہ غربت بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی بیماریوں کے باعث بھی ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں ۔۔لیکن امریکہ کا جنگی جنون ابھی تک ختم نہیں ہوا اور وہ اب یہ جنگ ایک نئی حکمت عملی کے تحت لڑنا چاہتا ہے۔ بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ عسکری تنظیمیوں اور ڈرون حملوں کے کردار کو بڑھایا جا رہا ہے جس سے یہی خدشہ ہے کہ ابھی چند مزید سال ان ممالک کے عوام کو قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گوانتاناموبے جیل اور ابو غریب جیل کے واقعات امریکی دہشت گردی کی ایک ہلکی سی جھلک ہیں ۔واشنگٹن کے قصر سفید (وائٹ ہاﺅس) سے جب بھی کوئی نیا حکم نامہ آتا ہے یا اس پراسرار عمارت میں بیٹھے صاحب اقتدار پالیسی میں تبدیلی کرتے ہیں تو سمجھ لیں کہ اب دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں ضرور خون بہے گا۔ کچھ ہنستے بستے انسانوں کو ایک سپر پاور کی خاطر قربانی دینا ہوگی۔ کہیں نہ کہیں بم یا میزائل گرے گا یا پھر بلاوجہ پابندیوں کے باعث کسی خطے کے انسانوں کی زندگی اجیرن بنا دی جائےگی۔ یہ سلسلہ دو صدیوں سے زائد عرصے سے جاری ہے اور شاید اس وقت تک جاری رہے گا جب تک واشنگٹن میں بیٹھے جنگجوﺅں کا ہاتھ روکنے والے دنیا کی باگ دوڑ نہیں سنبھال لیتے۔ جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی ہوں یا فلپائن کا منیلا، ابوغریب جیل ہو یا کیوبا کی گوانتاناموبے، صومالیہ میں قحط سے مرتے انسان ہوں یا عراق میں جان بچانے والی ادویات نہ ملنے سے ہلاک ہوتے بچے۔ کانگو میں زیادتی کا شکار ہوئی بے گناہ عورتیں ہوں یا بوسنیا میں انسانیت سوز نظام کا قصہ۔ فلسطین کے بے یارومددگار مہاجر ہوں یا پاک افغان سرحد پر زندگی کی جنگ ہارتے ہوئے افغان شہری۔ سوڈان کی تباہ ہوتی زراعت ہو یا زمبابوے کی عبرتناک معیشت، کشمیر میں لاکھوں شہداءسے آباد ہوتے قبرستان ، بھارت میں جنوبی ہندوﺅں کے ہاتھوں جلتے مسلمان اور عیسائی، الجزائر میں جمہوریت کا خون، غزہ میں حماس کی عوامی حکومت کا خاتمہ، قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا شکار ہوتے بے گناہ پاکستانی ہوں یا لاہور و کراچی کی سڑکوں پر لخت جگر فروخت کرتی ہوئی مائیں۔ امریکہ کو ان میں سے کسی میں بھی دلچسپی نہیں کیونکہ طاقت کے نشے میں مگن اس طاقتور قوم کو صرف اپنی حاکمیت سے غرض ہے۔ دنیا کی اس امیر قوم کو اپنا GDP برقرار رکھنا ہے۔ اسے اپنی اسلحہ کی فیکٹریوں کو چلانا ہے اور یہاں بننے والے آتش و بارود کے چلنے کا انتظام کئے رکھنا ہے۔ اسے کرہ ارضِ کے ہر حصے سے اپنے لئے خام مال چاہئے، امریکہ کو ہر ملک میں واشنگٹن کی خوشنودی کے آگے سر جھکانے والا حکمران چاہئے، اس کےلئے جو بھی حربہ اختیار کرنا پڑے امریکہ کو ضرور اختیار کرنا ہے۔ وہ انسانی حقوق کی آواز ہو، منشیات کے خاتمے کا نعرہ، جمہوریت کی بحالی کا مشن اور یا پھر تباہ کن ہتھیاروں کا خاتمہ، امریکہ کسی بھی جگہ حملے کےلئے کوئی نہ کوئی بہانہ ضرور ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ بہت سی جنگیں صرف اس لئے لڑی گئیں کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے اسلحے کے برآمدکنندہ کےلئے گاہک فراہم کرنا تھا۔ دنیا نے یہ بھی تماشہ دیکھا کہ امریکہ سرکاری طور پر عراق کا حامی ہے جبکہ امریکی اسلحہ ساز کمپنیاں مڈل مین کے ذریعے ایران کو اسلحہ بیچ رہی ہیں۔ ایتھوپیا، صومالیہ، سوڈان، بھارت اور دیگر کئی ممالک میں کروڑوں لوگ قحط سالی کا شکار ہیں لیکن ان کو کچھ ایسے جھگڑوں کا سامنا ہے کہ جن کی بنیاد پر یہ سب امریکی اسلحے کے محتاج ہیں۔ کیا شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں صلح ہو سکتی ہے! دارفر میں سوڈان اور عیسائی باغی جنگ بندی کر سکتے ہیں! صومالیہ میں مسلح گروہ مذاکرات کی میز پر آسکتے ہیں۔ چین کے صوبے سنکیانگ میں بان اور بغور مسلمان یقینا ایک پرامن معاشرہ بنا سکتے ہیں لیکن مشکل تو یہ ہے کہ ان سب مسائل کے حل کے بعد اسلحے کا استعمال بند ہو جائےگا اور جن کی کھربوں ڈالر کی آمدن کا انحصار اس تجارت پر ہے وہ طاقتیں کبھی دنیا میں امن قائم نہ ہونے دیں گے۔ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کوعوام کی غذائی اور دیگر بنیادی ضروریات کےلئے بھی شاید کچھ کروڑ ڈالر دیئے ہوں گے لیکن اسلحہ اربوں ڈالر کا بیچا ہے۔ پاکستان تو ایسے تلخ تجربے سے بھی گزر چکا ہے کہ کئی سال اربوں روپے کے حصول کے باوجود اسے F-16طیارے نہ دیئے گئے۔ امریکہ کی یہ پالیسی بھی کچھ کم دلچسپ نہیں کہ یہ زیادہ تر دونوں حریفوں کو مضبوط بناتا ہے۔ تاکہ اس پر انحصار بڑھتا رہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ امریکہ وقتی طور پر کسی ایک کے ساتھ ہو تاہم اگر آپ ماضی کا جائزہ لیں اور یا پھر امریکی اداروں کی بغور مانیٹرنگ کریں تو یہ بات ثابت ہوگی کہ امریکی اس مسئلے کے حل کی بجائے معاملات کو الجھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس پالیسی کو سمجھنے کےلئے پاکستان اور بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات‘ عراق، ایران تنازعہ‘ فلسطین اور اسرائیل کی کشمکش مصر، لبنان اور اسرائیل کے تعلقات ماضی کے ہیرو افغانیوں کا اب سب سے بڑا دشمن بن جانا اور ایسی ہی کئی مثالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ علاقائی جھگڑوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ عراق کے سعودی عرب اور کویت سے خراب تعلقات کی وجہ سے اسے مشرق وسطٰی میں آنے کا موقع ملا۔ ایران، عراق جنگ میں اس کا اسلحہ فروخت ہوا۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی کشیدگی اسے مالی فوائد پہنچا رہی ہے اور اسی طرح پاکستان اور بھارت کا ٹکراو، ایتھوپیا اور صومالیہ کو لڑا کر افریقی تیل پر قبضے کی کوشش بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

No comments:

Post a Comment