پاکستانی معاشرے پر بھارتی میڈیا کے اثرات
محمدعاصم حفیظ
ٹیکنالوجی کی ترقی نے میڈیا کو عالمی سیاست میں اہم ترین مقام پر فائز کر دیا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے فوجی ، سیاسی یا اقتصادی طاقت کی بجائے میڈیا کو استعمال کرتی ہیں۔ مغربی ممالک کا خیال ہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے میں سیٹلائیٹ میڈیا نے اہم ترین کردار ادا کیا ۔ اب فوجی طاقت کے زریعے کسی کو غلام دینے کا رواج نہیں رہا بلکہ میڈیا کے زور پر ذہنوں کو غلام بنایا جاتا ہے۔ مغربی طاقتوں کو اس میدان میں کافی کامیابی ملتی رہی ہے اور سوویت یونین کے بعد اسلام کے ساتھ تہذیبوں کی جنگ کے لیے میڈیا ہی اہم ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ”نیوکالونینل ازم “ کا ایک نیا تصور فروغ پا رہا ہے۔ جس کی مثال گلوبل ویلج بنتی دنیا میں ڈھونڈنا مشکل نہیں۔ مغربی طاقتیں چین ، جاپان اور عرب ممالک جیسے مضبوط معاشروں پر میڈیا کی طاقت سے ہی بھرپور انداز میں اثرانداز ہوئی ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں میڈیا اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے ۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستانی میڈیا میں بعض غیر ملکی طاقتوں کی سرمایہ کاری کی باتیں سامنے آ رہی ہیں ۔ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں کہ بعض غیر ملکی عناصر لالچ دیکر ملکی میڈیا کو خریدنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اینکرز کو سفارت خانوں میں مدعو کرکے عیش و عشرت کا بندوبست کرنے کی تصاویر اور ویڈیوز تو منظر عام پر بھی آ چکی ہیں ۔ بعض چینلز اور اخبارات صرف وہی پالیسی اختیار کرتے ہیں کہ جس کی ہدایت ان کے سرمایہ کاروں کی جانب سے دی جاتی ہے ۔ یہ سب واقعی افسوسناک اور ملکی سلامتی کے خلاف ہے ۔کئی معروف کالم نگاروں کی تحریروں کو شائع ہونے سے روک دیا جاتا ہے اور یہ سب اخباری مالکان پر دباؤ کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ غیر ملکی طاقتوں کا ملکی میڈیا میں اثر ورسوخ دن بدن بڑھ رہا ہے لیکن ہمارا موضوع مغربی میڈیا کی کاررستانیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بلکہ ایشیاءپر تسلط کے دعویدار بھارت کی ثقافتی اور پروپیگنڈا یلغار کا تذکرہ کرنا ہے کہ جس نے ہمارے ملک کے ایک بڑے طبقے کے قلوب و اذہان کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ حال ہی میں ورلڈ کپ کے دوران پاک بھارت سیمی فائنل سے پہلے کچھ روز تو میڈیا کے کچھ حلقے بھارت کے گن گانے میں مصروف رہے ۔ جبکہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے ۔ بھارتی میڈیا ہمیشہ سے ریاست کا وفادار رہا ہے اور اس نے ملکی ثقافت کے فروغ میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بالی وڈ اور سینکڑوں کی تعداد میں موجود بھارتی ٹی وی چینلز جہاں ایک طرف ہندوستانی تہذیب کے رکھوالے ثابت ہوئے ہیں وہیں انہوں نے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مخالفانہ جذبات کو محبت میں بدلنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ پاکستانی عوام کا ایک قابل ذکر طبقہ بھارت کی ثقافتی یلغار کے آگے بے بس نظر آتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے ہر پاکستانی کے دل میں ایک چھوٹا بھارت بستا ہے کہ بیان سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بھارتی میڈیا کے وار کچھ خالی نہیں گئے۔ اس سے پہلے سابق صدر پاکستان پرویز مشرف اپنے دورہ بھارت میں بھارتی اداکارہ رانی مکرجی کے ساتھ خصوصی ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکے ہیں۔ شیخ رشید نے مادھوری ڈکشت کو پاکستان میں سفیر لگانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بالی وڈ اداکاروں کے ساتھ پاکستانیوں کو اس قدر لگاو ہے کہ ہمارے نیکی کے کام بھی ان کی شرکت کے بغیر پورے نہیں ہوتے اور عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم کے ہر فنکشن پر کسی نہ کسی بھارتی اداکار کو بلانا فرض سمجھتے ہیں۔ملک بھر میں بھارتی فلموں کی بلاروک ٹوک نمائش، سی ڈیز کی دستیابی اور کیبل پر بھارتی چینلز کی موجودگی نے ملکی معاشرت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب عام روز مرہ زبان میں ہندی کے الفاظ استعمال کرنا معمول کی بات ہے حتی کہ ہمارے اینکرز بھی اپنے مہمانوں کا ”سواگت “ کرتے پائے جاتے ہیں۔ روش خیال گھرانوں کی کوئی شادی بھارتی گانوں کی دھنوں اور ان کے مطابق ناچ کے بغیر پوری نہیں ہوتی اور یہ بھارتی ثقافتی یلغار کا ہی فیض ہے کہ ہماری شادیوں میں مہندی کا فنکشن زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے حالانکہ ہم خوشی کے اس موقعے کو ”نکاح“ کے لیے ہی منعقد کرتے ہیں۔ آپ شہروں اور دیہات میں دکانوں ، بازاروں اور حتی کے گھروں کی دیواروں پر بھارتی اداکاروں کے پوسٹرز لگے دیکھ سکتے ہیں۔ کمپیوٹرز کے سکرین سیورز، وال پیپرز ، موبائیل کے کلپس ، طلبہ کے فائل کورز سمیت کہیں بھی آپ کو بالی وڈ سٹارز ہی چکمتے دمکتے ملیں گے۔ پاکستان کے مختلف کالجز میں ہولی اور راکھی باندھنے جیسے ہندوانہ رسمیں منانے کی خبریں اکثر میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ پاکستانی نوجوان تقریبات میں بھارتی گانوں کی ”انتاکشری“ کھیلتے پائے جاتے ہیں جبکہ ماہر ڈانسرز کی خدمات فراہم کرنیوالی ڈانس اکیڈمیوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا صرف اس لیے ہے کہ معاشرے میں اس چیز کو قبول کرنے کی روایت پروان چڑھ رہی ہے۔ پاکستانی فنکار تو امریکہ میں منعقد ہونیوالی ایک تقریب میں دل دل پاکستان اور جان جان ہندوستان کا خوشنما گیت بھی سنا چکے ہیں۔ بالی وڈ کی کشش ہی ہے کہ بہت سے پاکستانی فنکار وہاں کی فلموں میں گھٹیا سے گھٹیا رول بھی کرنے کو اعزاز سمجھتے ہیں اور یہاں فخر سے بتاتے پائے جاتے ہیں۔کسی بھی اچھے بازار سے آپ سٹار پلس اور دیگر انڈین چینلز پر چلنے والے ڈراموں میں ایکٹرسز کی جانب سے پہنی گئی ساڑھیاں نام لے لے کر خرید سکتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ماتھے پر تلک ، پاو ¿ں میں گھنگرو ، گلے اور ہاتھوں میں قسمت کے پتھروں کی موجودگی بھارتی ثقافتی یلغار کی دین ہے اور اکثر سجاوٹ کی یہ چیزیں عید جیسے اسلامی تہوار پر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ چینلز اتنے مقبول ہیں کہ جب کبھی پاکستانی حکومت ان پر پابندی لگاتی ہے تو بیچارے کیبل آپریٹر عوام کی بھرپور خواہش پر انہیں جعلی ناموں سے چلانے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ ان کا کاروبار ٹھپ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ خواتین تو گھر کے معمولات کو اس طرح ترتیب دیتی ہیں کہیں کوئی ڈرامہ مس نہ ہونے پائے اور اگر اس دوران بجلی چلی جائے تو ساری بددعائیں بیچارے واپڈا کے کھاتے میں چلی جاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح میں گزشتہ چند سالوں کے دوران ایک سو پچیس فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی بڑی وجہ گھریلو جھگڑوں اور ساس بہو کی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کی کہانیوں پر مشتمل یہ ڈرامے بھی بتائے جاتے ہیں۔ہر معاشرے میں کسی فلم یا ڈرامے وغیرہ کی کہانی چرانا جرم اور ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں حالات مختلف ہیں یہاں انڈین فلموں کے پارٹ ٹو انتہائی ذوق و شوق سے بنائے اور دیکھے جاتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی فیشن ، انٹرٹینمنٹ چینلز کو دیکھ کر آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ آپ کوئی ملکی چینل دیکھ رہے ہیں یا بھارتی ۔ پروگرامز کے فارمیٹ اور پرفارمنس تک کو بھارتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے ۔ ” آ جا نچ لے “ ، گھریلو سازشوں پر مشتمل ڈرامے ، ڈانس پروگرامز وغیرہ بھارتی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ یہ بھارتی ثقافتی یلغار اور روز مرہ استعمال میں ہندووانہ جملوں کے استعمال کا ہی اثر ہے کہ انیس سو چھیانوے میں ورلڈ ریکارڈ بنانے کے بعد سعید انور نے کہا تھا کہ ”آج قسمت کی دیوی میرے اوپر مہربان تھی“۔ پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین سٹیج ڈرامے کا نام ”جنم جنم کی میلی چادر“ تھا اور سب جانتے ہیں کہ مختلف جنم ہونے کا نظریہ ہندووانہ عقیدہ ہے۔ بھارت میں سابق مس ورلڈ ایشوریہ رائے کے ساتھ ایک کپ چائے پینے کی بولی ایک پاکستانی نوجوان نے جیتی تھی جس نے ”اعزاز“ صرف چالیس لاکھ کے عوض حاصل کیا۔ بھارتی فلموں نے ہمیں ایک نئی تاریخ بھی سیکھائی ہے اور آج انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کا کوئی مسلمان ہیرو تو کسی کو شائد یاد نہ ہو لیکن منگل پانڈے کا بہت سوں کو پتہ ہے جبکہ بھگت سنگھ اور دیگر کے بارے میں بتا کر ہماری اصلاح کی جا رہی ہے۔کراچی یونیورسٹی کے طلبہ پر کی جانیوالی ایک تحقیق سے کے دوران طلبہ کو مختلف مذہبی مقامات کی تصاویر دیکھائی گئیں۔ حیران کن طور پر یہ طلبہ زیادہ تر ہندو دیوی دیوتاوں اور مندروں کو پہنچاننے میں کامیاب رہے جبکہ انہیں گنبد خضراء، مسجد اقصی سمیت کئی اسلامی مقامات مقدسہ کی پہچان تک نہ تھی۔ ہم اگر آج لکھتے اور بولتے ہوئے کسی نیک انسان کو دیوتا قرار دے دیتے ہیں تو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کے پیچھے بھی ہمارے اوپر مسلط ہوتے ہندووانہ الفاظات اور ثقافتی اظہار تو نہیں۔ آپ پاکستان کے تقریبا ہر اخبار میں ستاروں کا حال پڑھ سکتے ہیں جبکہ دوست بنانے سے پہلے ستاروں کی پوچھ گچھ بھی انڈین فلموں اور ڈراموں میں کنڈیلیاں ملاتے ہندو پنڈتوں کے باعث ہی ممکن ہوا ہے۔ بھارت کے ثقافتی حملہ آوروں نے صرف معاشرت کے میدان میں ہی کاررنامے سرانجام نہیں دئیے بلکہ حالات حاضرہ اور دونوں ممالک کی سیاست میں بھی اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ بعض لوگوں کو شاید یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پڑھے لکھے نام نہاد دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ پاک بھارت تعلقات میں مختلف خیالات کا حامی بن چکا ہے۔ چھاسٹھ فیصد افراد کا خیال ہے کہ کشمیر سمیت دونوں ممالک کے دیگر معاملات میں وہ پہلے جیسے جذباتی نہیں رہے اور اب وہ اپنی رائے کے میں بھارتی موقف کو بھی اہمیت دیتے ہیں۔ شاید ہندوستانی پالیسی سازوں کو بھی اس کا ادراک ہے اور اسی لیے انہوں نے پاکستان کے ساتھ معاملات کو ٹھیک کرنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش ہی نہی کی۔ پاکستانی سینماوں میں انڈین فلموں کی نمائش کے ساتھ ہی فلم بینوں کی بڑی تعداد ان کا رخ کرنے لگی ہے حالانکہ انہی کی بے رخی کی بنا پر پاکستانی شوبز انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے۔ اخبارات کے سپیشل ایڈیشن اور مختلف رسائل ہندوستانی فنکاروں کی رنگ برنگی تصاویر سے سجے نظر آتے ہیں۔ فنکاروں کے اچھے برے سکینڈلز اور نئی آنیوالی فلموں کی تشہیر پاکستانی میڈیا پر اتنے بھرپور انداز میں ہوتی ہے کہ شاید ایسا خود بھارت میں بھی نہ ہوتا ہو ۔ اندرا گاندھی نے تو کئی سال پہلے ہی کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ثقافتی جنگ جیت لی ہے جبکہ ان کی بہو سونیا گاندھی نے انیس سو چھیانوے میں بیان دیا تھا کہ ” پاکستان کا بچہ بچہ ہندوستانی تہذیب کا دلدادہ ہے ، پاکستانی ٹی وی بھی ہمارے رقص بڑے فخر سے دیکھاتا ہے “۔ اور چلتے چلتے شیو سینا کے سربراہ اور گجرات و احمد آباد میں سینکڑوں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بال ٹھاکرے کا تبصرہ بھی پڑھتے جائیں جو کہ انہوں نے دو ہزار ایک میں دئیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کیا۔ بال ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ ” پاکستان میں بسنت کا انتہائی جوش و خروش سے منایا جانا ہندو تہذیب کی بڑی کامیابی ہے۔ پاکستانی بسنت کے حادثات میں مرنیوالوں کو شہید قرار دیتے ہیں۔ اگر مسلمان قیام پاکستان سے پہلے ہی بھارتی ثقافت کو اپنا لیتے تو لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔ بھارتی ثقافتی یلغار اور پروپیگنڈا مہم میں دن بدن تیزی ہی آئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات چاہے ٹھیک ہوں یا دشمنی کا سماں ، ہندوستانی ثقافتی حملہ آوروں نے اپنے ہتھیار کبھی نہیں روکے۔ چند دنوں سے ٹائمز آف انڈیا نے بعض پاکستانی دوستوں کو ساتھ ملا کر”امن کی آشا“ کا خوشنما تصور عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس مہم کے لیے جو ویڈیوز بنائی ہیں ان سے اس کے مقاصد صاف واضح ہوتے ہیں۔ صحرائی علاقے میں لمبی داڑھی والے ایک پاکستانی بوڑھے کو رقص کے ذریعے ایک ہندوستانی فلمی گانے کی بھیک مانگتے دیکھا یا گیا ہے۔ وہ اس کے لیے عجیب و غریب رقص بھی کرتا ہے۔ جیسے ہی آل انڈیا ریڈیو پر وہ گانا چلتا ہے تو پاکستانی شہریوں کا یہ گروہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے ۔۔یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی تو بھارتی فلموں اور گانوں کے لیے جیسے تڑپ رہے ہیں۔ بھارتی پالیسی ساز اس مہم کے پیغام ریکارڈ کرانے کے لیے امیتابھ بچن کو لائے ہیں جبکہ وہاں ہونیوالے ایک میوزیکل پروگرام میں عابدہ پروین کو بلا کر محفل سجائی گئی ۔ گویا سارا قصہ ہی بھارتی ثقافتی روایات کے فروغ کا ہے جو کہ ہر حال میں بھارت کے لیے منافع کا سودا ہے۔ ایک طرف تو بھارتی حکام نے انتہائی ذلت آمیز طریقے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو انڈین پریمئیر لیگ کھلانے سے انکار کر دیا ہے۔ جبکہ دوسرے جانب بالی وڈ والے پاکستان میں فلموں کی نمائش سے دولت کمانے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ ” امن کی آشا“ بھی بھارت کی ثقافتی یلغار سے محفوظ پاکستانیوں کو رام کرنے کی ایک کوشش ہی معلوم ہوتی ہے۔ میڈیا کے ذریعے ذہنوں پر تسلط ہی موجودہ دور میں غلامی کا سب سے بڑا اظہار ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم سب کو ضرور بال ٹھاکرے کی باتوں پر غور کرنے کرنا چاہیے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہب ، تہذیب اور ثقافت کی جنگ ہار کر بھی ہم اس دنیا میں منفرد اور آزاد رہیں گے ۔ ہم ایسے فریب زدہ اپنوں کے لیے ہدایت کی ہی دعا کر سکتے ہیں۔ ملک کو بچانے کی خواہش رکھنے والوں پر بھی فرض ہے کہ جہاں ہمیں ہندو ذہنیت کو راہ راست پر رکھنے کے لیے بھرپور دفاعی صلاحیت کی ضرورت ہے وہیں ثقافتی میدان میں نظریہ پاکستان اور اپنی تہذیب و ثقافت کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ کہیں ”امن کی آشا “ کے نعروں میں کوئی ہمیں اپنی روایات سے ہی محروم نہ کر جائے۔
No comments:
Post a Comment