محبت رسولﷺ کے تقاضے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: النَّبِیُّ أَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہُ أُمَّہَاتُہُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللَّہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُہَاجِرِینَ إِلَّا أَنْ تَفْعَلُوا إِلَی أَوْلِیَائِکُمْ مَعْرُوفًا کَانَ ذَلِکَ فِی الْکِتَابِ مَسْطُورًا (الاحزاب:۶) نبی ﷺ مومنوں پر ان کی ذات سے زیادہ حق رکھتا ہے اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں اور رشتہ دار اللہ کی کتاب کے مطابق ایک دوسرے کیلئے مومنوں اور مہاجروں سے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں کیلئے پسندیدہ طور پر کچھ کرو ۔ یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے ۔
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس سے بڑ ھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نہیں ہوتی ۔اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو ، جب تک انسان رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے ، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظم ﷺ فرماتے ہیں : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ہماری خواہشیں ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑ ھ کر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمہیں اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں رستہ دکھاتے ہی نہیں لہذا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے بڑ ھ کر محبت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہیں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پہلی چیز اللہ اور اس کے حبیب ﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شہد میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہوجاتا ہے جب وہ شہد کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہد کڑ وا نہیں بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کامزاج بگڑ چکا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نہیں رہا ۔شہد میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمارکو تو شہد کڑ وا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے ۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کرڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مہم میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہوگئے ۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا ، اس کے وارثوں نے انہیں خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انہیں قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھایا جائے گا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے ۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ایک گڑ ھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹالیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتارہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مرجاتا ہے لمحے کی بات ہوتی ہے یا چند لمحوں کی مگر سولی والی موت بہت المناک سزا ہوتی ہے سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے ، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑ ا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہیں یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے ۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھا دیا گیا انہیں ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کہنے لگا ، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ میں چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کہنے لگے ، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پہلی چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے ، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے ۔ جوشخص دنیا کی طمع رکھتا ہے ، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نہیں ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جہاں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑ ھ جاتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی وایمانی ۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹناآگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی ا کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ بہادر اور دلیر تھے ۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نہایت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پہلے ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کہاں ہیں پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انہیں نکال کر مدینہ لانا ہے ۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جہاں کوئی مونس ومددگار نہیں ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے ، ڈاکے مارتے رہے تھے ۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگادی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق ومحبت کرتے تھے ) اس نے کہا مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کہتی ہے مرحباً۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزارلو ، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے ۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑ ا ہو گیا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شورمچائے گی ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی ۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے ۔ فرماتے ہیں میں جس جگہ چھپا ہوا تھأ وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھأ اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑ ھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یہ آیت پڑ ھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو ۔ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کہا ٹھیک ہے ۔اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہیں اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے ۔ اگر دولت چاہتے ہوتو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بہت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبی ﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپ ا نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر یہی تینوں باتیں دہرائیں ۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺتشریف لائے تو اس نے پھر یہی الفاظ دھرائے نبی ﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے ۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کہا غسل کرو کلمہ پڑ ھو تو مسلمان ہوجاؤگے ۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑ ھا ۔ اشہد ان لا إلہ إلا اللہ واشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پہلے اس روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ ﷺ سے زیادہ برا چہرہ نظر نہیں آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ ﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب چہرہ میری نظر میں کوئی نہیں ۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپ ﷺ کی شکل وصورت سے کس حد تک پیار ہے ۔ ایک ہم بھی مسلمان ہیں ۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے ، جانتے بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑ ھی پوری رکھی تھی ۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبی ﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نہیں ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبی ﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنالیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔ آمین
اسلام اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا نام ہے اور اس ایمان کی سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ انسان کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہو اللہ کی محبت ایسی محبت کہ اس کے ساتھ کوئی بڑ ے سے بڑ ا انسان بھی اس محبت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللَّہِ وَالَّذِینَ آَمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ البقرۃ:۱۶۵
کچھ لوگوں نے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جن کے ساتھ وہ ایسی محبت کرتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کرنی چاہیے ۔ایمان والوں کی محبت تو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس سے بڑ ھ کر کسی کے ساتھ بھی ایمان والوں کی محبت نہیں ہوتی ۔اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ کی محبت ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف اللہ کے رسول ﷺ ہوں اور دوسری طرف کائنات کی کوئی بھی چیز ہو ، جب تک انسان رسول اللہ ﷺ کی محبت پر کسی دوسرے کو ترجیح دیتا ہے ، وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی چنانچہ رسول معظم ﷺ فرماتے ہیں : وَالَّذِی نَفسِی بِیَدِہِ لاَ یُومِنُ اَحَدُکُم حَتَّی اَکُونَ اَحَبَّ إِلَیہِ مِن وَّالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجمَعِینَ ۔
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ جب تک میں تم میں سے اپنے بیٹے اور والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک کوئی شخص صاحب ایمان اور مسلمان نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے ہمیں پیدا فرمایا ہے ہماری خواہشیں ، ہماری دلچسپیاں اور ہماری محبتیں اللہ تعالیٰ سے بڑ ھ کر کوئی نہیں جانتا۔ اللہ نے فرمایا :
﴿قُلْ إِنْ کَانَ آَبَاؤُکُمْ وَأَبْنَاؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْکُمْ مِنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾(التوبہ:۲۴)
کہہ دیجئے اگر تمہیں اپنے والدین اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور رشتہ دار اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس میں گھاٹے سے ڈرتے ہو اور تمہارے مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو ، تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ انہیں رستہ دکھاتے ہی نہیں لہذا ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے سب سے بڑ ھ کر محبت ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین چیزیں جس شخص میں آ جاتی ہیں ، وہ ایمان کی لذت پالیتا ہے اور ایمان کا ذائقہ چکھ لیتا ہے ان میں پہلی چیز اللہ اور اس کے حبیب ﷺ محبت رکھتا ہے
اس حدیث کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے :
شہد میٹھا ہے لیکن جو شخص بیمار ہوجاتا ہے جب وہ شہد کو منہ میں ڈالتا ہے تو اسے کڑ وا محسوس ہوتا ہے حالانکہ شہد کڑ وا نہیں بلکہ بیمار کے منہ کا ذائقہ خراب ہے اور اس کامزاج بگڑ چکا ہے ۔ بیماری کی وجہ سے اس کا احساس درست نہیں رہا ۔شہد میٹھا اسے ہی محسوس ہو گا جو تندرست ہو گا بیمارکو تو شہد کڑ وا ہی محسوس ہو گا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان لانا بڑ ی ہی عزیز چیز ہے ۔
خبیب رضی اللہ عنہ نے بدر میں قریش کا ایک سردار قتل کرڈالا اس کے بعد ایک اور موقعہ پر وہ ایک جنگی مہم میں شامل ہوے تو اس میں گرفتار ہوگئے ۔ جس آدمی کو قتل کیا تھا ، اس کے وارثوں نے انہیں خرید لیا اور اعلان کر دیا کہ ہم انہیں قتل کر کے اپنا بدلہ لیں گے ایک دن مقرر ہو گیا کہ فلاں دن خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھایا جائے گا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ، وہ یہ کہ پھانسی اور چیز ہے سولی اور چیز ہے ۔ پھانسی یہ ہے کہ گلے میں ایک رسی ڈال کر نیچے تختہ رکھا جاتا ہے ۔ اس کے نیچے ایک گڑ ھا ہوتا ہے وہ تختہ ہٹالیا جاتا ہے تو وہ شخص پھندے کے ساتھ جھولتارہتا ہے اس کا گلا گھٹتا ہے اور یوں وہ مرجاتا ہے لمحے کی بات ہوتی ہے یا چند لمحوں کی مگر سولی والی موت بہت المناک سزا ہوتی ہے سولی کے لیے ایک اونچا لمبا کھمبا گاڑ دیا جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ایک آڑ ی ترچھی لکڑ ی رکھی جاتی ہے جیسے صلیب ہوتی ہے پھر جس شخص کو سولی دینا ہوتی ہے ، اس کے جسم کو سیدھی لکڑ ی کے ساتھ اور ہاتھ ترچھی لکڑ ی کے ساتھ باندھ دیئے جاتے ہیں پھر اس کو نیزوں اور تلواروں کے کچو کے دے دے کر مارا جاتا ہے یا بعض کو اسی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ دھوپ میں پڑ ا رہے اور پرندے اور درندے اسے آ کر نوچتے رہتے ہیں یہ بڑ ی ہی خوفناک سزا ہے ۔
اب خبیب رضی اللہ عنہ کو سولی چڑ ھا دیا گیا انہیں ایک ظالم کافر نے نیزے سے کچو کہ مارا اور کہنے لگا ، آج تو پسند کرتا ہو گا کہ تیری جگہ محمد ﷺ ہوتے اور تو ان کے بدلہ میں چھوڑ دیا جاتا تیرا کیا خیال ہے ؟ وہ کہنے لگے ، میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمد ﷺ کو کانٹا بھی چبھے اور میری جان بچ جائے حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اتنا کسی اور کے ساتھ ایسا مضبوط تعلق نہیں ہو سکتا۔ اگر ہوتو پھر سمجھ لو کہ اس کے ایمان میں کمی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ایمان کا ذائقہ وہ شخص چکھتا ہے جس میں تین چیزیں ہوں : پہلی چیز یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ۔ دوسری یہ کہ کسی شخص سے محبت رکھے تو صرف اللہ کے لیے محبت رکھے ، یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس سے مسلمان محبت رکھے اللہ کی خاطر رکھے ۔ جوشخص دنیا کی طمع رکھتا ہے ، وہ ایمان کی لذت سے کسی صورت آشنا نہیں ہو سکتا۔ ایسا آدمی طامع اور لالچی ہے جہاں لالچ نظر آتا ہے اس طرف بڑ ھ جاتا ہے ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور ایمان سے اس کا کیا واسطہ؟ اس قسم کا شخص بھی ایمان کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا۔ یہاں ایک بات سمجھنے کی ہے ایک حب طبعی ہوتی ہے اور ایک حب عقلی وایمانی ۔ حب طبعی کا معنی طبیعت کے تقاضے کی وجہ سے محبت ہے حب عقلی وایمانی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا ہے کہ اس سے محبت کی جائے جیسا کہ ہمیں بے شمار دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ اللہ کا ہم پر یہ سب سے بڑ ا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کیا اس لیے اس کا حق ہے کہ اس سے محبت رکھیں اور اس کی عبادت کریں اس کے بعد رسول اللہ ﷺ اور یہ اس کا ہم پر احسان ہے کہ ان کے ذریعے ہمیں سیدھا راستہ معلوم ہوا ان کاحق ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کی اطاعت کریں چونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہمارے تمام دوستوں اور عام لوگوں سے زیادہ ہمارے خیر خواہ ہیں اس لئے جب ہماری طبیعت کی محبوب چیزوں اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان مقابلہ ہوتو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں کسی چیز کو ترجیح نہ دیں ۔ وہ ہمارے ان تمام رشتوں ، لوگوں اور چیزوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں کہ ایک طرف بیٹے ، بیوی کی محبت کا تقاضا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا تقاضا ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ ایسی حالت میں پتہ چلتا ہے کہ بندہ کس طرف جاتا ہے ؟ تیسری چیز یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد مومن کو کفر کی طرف لوٹناآگ میں گرائے جانے سے برا معلوم ہو۔
سنن ترمذی میں ایک حدیث ہے کہ نبی ا کے ایک صحابی مرثد رضی اللہ عنہ بہادر اور دلیر تھے ۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی ذمہ داری ایک نہایت مشکل کام پر لگا دی۔ مکے میں کافروں نے اپنے کچھ عزیزوں کو ہجرت سے روک کر ان کو زنجیروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے مرثد! تم نے پہلے ان کا پتہ کرنا ہے کہ قیدی کہاں ہیں پھر ان کے نکالنے کی سبیل کرنی ہے پھر وہاں سے انہیں نکال کر مدینہ لانا ہے ۔ بھائیو! دشمنوں کے گھر میں جا کر جہاں کوئی مونس ومددگار نہیں ، وہاں اکیلے شخص کا ایسی ڈیوٹی کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ وہ زمانہ جاہلیت میں نقب زنی کرتے رہے تھے ، ڈاکے مارتے رہے تھے ۔ قدرت نے وہ ساری تربیت ایک سیدھے کام کی طرف لگادی یہ مکہ میں ایک دیوار کی اوٹ میں چھپ کر کھڑ ے تھے تو عناق نامی ایک عورت نے انہیں دیکھ لیا (یہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ایک دوسرے سے عشق ومحبت کرتے تھے ) اس نے کہا مرثد ہو؟ فرمایا: ہاں مرثد ہوں کہتی ہے مرحباً۔ آؤ پھر آج رات ہمارے پاس گزارلو ، اب دیکھتے خواہش نفس پوری کرنے کا مکمل موقع ہے ۔ مرثد نے کیا ایمان افروز جواب دیا۔ فرمایا اے عناق! اسلام میرے اور تیرے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑ ا ہو گیا ہے ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَد حَرَّمَ الزِّنَا۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
حالانکہ مرثد کو خوب معلوم تھا کہ اگر اس کی خواہش پوری نہ کروں گا تو یہ شورمچائے گی ایک طرف رسول اللہ ﷺ کے فرامین ہیں کہ زنا حرام ہے تو دوسری طرف پرانی محبت چھوڑ دی ۔
قارئین کرام! ایسی محبت مصیبت ہوتی ہے مرثد کی اللہ اور اس کے رسول سے ایمانی محبت تھی۔ اس لئے انہوں نے کافرہ عورت سے تعلقات توڑ ڈالے اور بھاگ کر ایک جگہ چھپ گئے ۔ فرماتے ہیں میں جس جگہ چھپا ہوا تھأ وہاں ایک کافر نے پیشاب کیا تو اس کی دھار مجھ پر پڑ ی لیکن اللہ نے کافر کو اندھا کر دیا اور وہ مجھے دیکھ نہ سکا۔ اس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں وہ قیدی تھا جسے نکالنا تھأ اس کی زنجیریں کھولیں اور اپنے ساتھ مدینہ لے آیا۔ پھر میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! میں عناق سے نکاح کر لوں ؟ آپ ﷺ نے یہ آیت پڑ ھی۔
﴿ الزَّانِی لَا یَنْکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ ﴾(النور:۳)
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک اور یہ چیز مومنوں پر حرام کر دی گئی ہیں ۔
یہ آیت پڑ ھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : اس سے نکاح مت کرو اس آیت میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کیا گیا کیونکہ مشرک بے غیرت ہوتا ہے ، اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور زانی بھی بے غیرت ہوتا ہے جو اپنی محبوبہ میں غیر کی شرکت کو برداشت کرتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نجد کے بادشاہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو گرفتار کر کے لے آئے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دو ۔ نبی ﷺ مسجد میں تشریف لائے پوچھا: ثمامہ کیا حال ہے ؟ کہا ٹھیک ہے ۔اگر آپ قتل کریں گے تو اس شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا بدلہ لینے والے موجود ہیں اور اگر احسان کر دو تو ایک قدر دان شکر گزار پر احسان کرو گے ۔ اگر دولت چاہتے ہوتو میں دولت منگوا کر دے دیتا ہوں ۔ نبی ﷺ نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ۔ مقصود یہ تھا کہ یہ مسجد میں مسلمانوں کی عبادت باہمی محبت اور اخلاق دیکھے کیونکہ سنا سنایا تو بہت کچھ ہوتا ہے جو خلاف اسلام ہوتا ہے لیکن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے چنانچہ نبی ﷺ دوسرے دن پھر تشریف لائے تو آپ ا نے پھر اس سے احوال دریافت فرمایا: اس نے پھر یہی تینوں باتیں دہرائیں ۔ تیسرے دن پھر آپ ﷺتشریف لائے تو اس نے پھر یہی الفاظ دھرائے نبی ﷺ نے فرمایا : اَطلِقُوا ثَمَامَۃَ ثمامہ کو آزاد کر دو۔
اس کے بعد ثمامہ ایک آدمی سے پوچھتا ہے ۔ بھائی جان ! بتاؤ مسلمان ہونے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس نے کہا غسل کرو کلمہ پڑ ھو تو مسلمان ہوجاؤگے ۔ اس آدمی نے قریب کے چشمہ کی طرف رہنمائی کی۔ وہ وہاں گیا غسل کیا اور آ کر کلمہ پڑ ھا ۔ اشہد ان لا إلہ إلا اللہ واشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ ۔ اب جو میں بات کرنا چاہتا ہوں ، وہ اس سے آگے ہے ۔ ثمامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ایمان لانے سے پہلے اس روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ ﷺ سے زیادہ برا چہرہ نظر نہیں آتا تھا مجھے سب سے زیادہ نفرت آپ ﷺ سے تھی۔ اب یہ حال ہے کہ اس دنیا میں آپ کے چہرے سے زیادہ محبوب چہرہ میری نظر میں کوئی نہیں ۔
ذرا غور کرنا ہے کہ اسلام قبول کیے ثمامہ رضی اللہ عنہ کو کتنی مدت ہوئی ہے ؟ لیکن آپ ﷺ کی شکل وصورت سے کس حد تک پیار ہے ۔ ایک ہم بھی مسلمان ہیں ۔ 60,50,40اور70 سال عمر گزار چکے ، جانتے بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کیسی تھی؟ آپ نے داڑ ھی پوری رکھی تھی ۔ آپ سیدھی مانگ نکالتے تھے آپ کا لباس کیسا تھا؟ مگر عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ہم میں نبی ﷺ کے ساتھ اتنی محبت بھی پیدا نہیں ہو سکی کہ ہم اپنی شکل ہی نبی ﷺ کی شکل مبارک کے مطابق بنالیں ۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کرنے والا بنا دے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے ۔ آمین
No comments:
Post a Comment