بسم الله الرحمن الرحيم
زکاۃ اوراسکے فوائد
أردو- الأردية] : محمد بن صالح بن عثيمين
ترجمة : عطاءالرحمن ضياء الله
مراجعه : شفيق الرحمن ضياء الله المدني
ترجمة : عطاءالرحمن ضياء الله
مراجعه : شفيق الرحمن ضياء الله المدني
زکاۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک عظیم فریضہ اورشہادتین اورنماز کے بعد اسکے ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن ہے,اسکے واجب ہونے پراللہ تعالى کی کتاب,اسکے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی سنت اورمسلمانوں کا اجماع دلالت کرتا ہے-
جس نے اس کے وجوب کا انکارکیا وہ اسلام سے مرتد اورکافرہے ,اس سے توبہ کروایا جائے گا,اگروہ توبہ کرلیتا ہے توٹھیک ,ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا- اورجوشخص اسکی ادائیگی میں بخیلی کرتا ہے یا اسمیں سے کچھ کمی کرتا ہے تووہ ظالموں میں سے ہے اوراللہ تعالى کی سزا کا مستحق ہے,اللہ تعالى کا ارشاد گرامی ہے:
{وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} (سورة آل عمران: 180)
"جنہیں اللہ تعالى نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اسمیں اپنی کنجوسی کواپنے لیے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ,عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیزکے کے طوق ڈالے جائیں گے ,آسمانوں اورزمین کی میراث اللہ تعالى ہی کے لئے ہے,اورجوکچھ تم کررہے ہو,اس سے اللہ تعالى آگاہ ہے"
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کواللہ تعالى نے مال سے نوازا ہے اوروہ اسکی زکاۃ ادانہیں کرتا ہے توقیامت کے دن اس (مال )کو اسکے لئے ایک زہریلے سانپ کی شکل میں بنایا جائےگاجس کی آنکھ کے اوپردوسیاہ نقطے ہوں گے ,جواسکے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا,پھروہ اسکی دونوں باچھیں (جبڑوں کو) پکڑکہے گا :میں تیرا مال ہوں ,میں تیراخزانہ ہوں"-
(شجاع: نرسانپ کوکہتے ہیں, اوراقرع: اس سانپ کوکہتے جس کے زہرکی کثرت کیوجہ سے اسکے سرکے بال گرگئے ہوں)
اوراللہ تعالى کا فرمان ہے : { وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ} (سورة التوبة 34-35)
"اورجولوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اوراللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبرپہنچادیجئے- جس دن اس خزانے کوآتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھراس سے ان کی پیشانیاں اورپہلو اورپیٹھیں داغی جائیں گی(ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بناکررکھا تھا, پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو"-(التوبہ:34-35)
صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جوبھی سونایا چاندی والا شخص اپنے اس مال کا حق (زکاۃ) ادانہیں کرتا ہے ,اسکے لئے قیامت کے دن آگ کی تختیاں تیارکی جائیں گی اور انھیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا,پھراس سے اسکے پہلو,اسکی پیشانی اورپشت کوداغا جائے گا,جب جب بھی وہ ٹھنڈی ہوجائے گی دوبارہ اسی طرح عمل کیا جائے گا,یہ عذاب ایک ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدارپچاس ہزارسال کی ہوگی,(یہ حالت اس وقت تک رہے گی) یہاں تک بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے"-
زکاۃ کے کچھ دینی,اخلاقی اورمعاشرتی فائدے ہیں,جن میں سے درج ذیل کا ہم تذکرہ کررہے ہیں:
زکاۃ کے دینی فائدے:
1- یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن کی ادائیگی ہے جس پردنیا وآخرت میں بندہ کی نیک بختى اورکامیابی وکامرانی کا دارومدارہے-
2- یہ بندہ کواسکے رب سے قریب کردیتی ہے اوراسکے ایمان میں اضافہ کرتی ہے,بالکل اسی طرح جس طرح کی دیگرطاعتوں (نیکیوں) کے انجام دینے سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے-
3- زکاۃ کی ادائیگی پربہت بڑااجروثواب حاصل ہوتا ہے,اللہ تعالى کا فرمان گرامی ہے:
4- {يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ}
5- "اللہ تعالى سود کومٹاتا ہے اورصدقہ کوبڑھاتا ہے"-(سورة البقرة : 276 )
اورفرمایا:
{وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ}
"تم جوسود پردیتے ہوکہ لوگوں کےمال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالى کے ہاں نہیں بڑھتا- اورجوکچھ صدقہ وزکاۃ تم اللہ تعالى کی خوشنودی کے لئے دوتوایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچندکرنے والے-(سورة الروم : 39)
اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جوشخص پاکیزہ (حلال) کمائی سے ایک کھجورکے برابرصدقہ کرتا ہے – اوراللہ تعالى صرف پاک چیزہی کوقبول فرماتا ہے- تواللہ تعالى اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے ,پھراسکی اسی طرح پرورش (افزائش) کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شحص اپنے بچھیرے(گھوڑے کے بچے) کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ کیا ہوامال ) پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے "-(صحیح بخاری ومسلم)-
4-اللہ تعالى اسکے سبب خطاؤوں کومعاف کردیتا ہے ,جیسا کہ " نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے صدقہ "گناہ کوایسے ہی مٹادیتا ہے جسطرح پانی آگ کوبجھادیتی ہے۔
یہاں پرصدقہ سے (واجبی )زکاۃ اورعام (نفلی) صدقات وخیرات سب مراد ہیں-
زکاۃ کے اخلاقی فوائد:
1- یہ زکاۃ اداکرنے والے کوسخی وفیاض اورارباب جودوکرم کے زمرے سے ملادیتی ہے
2- زکاۃ کی وجہ سے زکاۃ اداکرنے والے اپنے فقیرومحتاج بھائیوں پرمہربانی وہمدردی کرنے کی خوبی سے آراستہ ہوجاتے ہیں,اورمہربانی کرنے والوں پراللہ رحم فرماتا ہے –
3- اس بات کا مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں کومالی اورجسمانی نفع پہنچانے سے شرح صدراوردل کا سروروانبساط حاصل ہوتا ہے اوراسکے سبب انسان اپنے بھائیوں کونفع پہنچانےکے بقدرمحبوب اورمعززومکرم ہوجاتا ہے –
4- زکاۃ کی ادائیگی سے صاحب زکاۃ کا اخلاق بخیلى اورکنجوسی سے پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے: {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا } (سورة التوبة : 103)
"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے ,جس کے ذریعہ سے آپ انکوپاک وصاف کردیں" (التوبۃ: 103)
زکاۃ کے معاشرتی فائدے
1-زکاۃ سے غریبوں کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے جن کی بیشترممالک میں اکثریت ہے-
2-زکاۃ کے اندرمسلمانوں کی تقویت اورانکے شان کی بلندی ہے,اسی لئے زکاۃ کا ایک مصرف جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے جسے ہم ان شاء اللہ عنقریب ذکرکریں گے-
3- فقیرومحتاج وبدحال لوگوں کے دلوں میں جوکینہ وکپٹ اورعداوت ودشمنی ہوتی ہے زکاۃ کے ذریعہ اسکا خاتمہ ہوجاتا ہے ,کیونکہ جب فقیرومحتاج لوگ مالداروں کومال ودولت سے محظوظ ہوتے دیکھتے ہیں اورتھوڑایازیادہ کچھ بھی انھیں اس سے فائدہ نہیں پہنچتا ہے توبسا اوقات انکے دلوں میں مالداروں کے خلاف کینہ وعداوت جنم لیتا ہے کہ انہوں نے انکے حقوق کی رعایت نہیں کی اورانکی کسی ضرورت کوپورانہیں کیا,لیکن اگرمالدارلوگ اپنے اموال میں سے کچھ حصہ ہرسال ان پرخرچ کرتے ہیں تویہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں اورانکے مابین محبت والفت پیداہوجاتی ہے-
4-اس سے مال کے اندرنمووبڑھوتری ہوتی ہے اوراسکی برکت میں اضافہ ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:"صدقہ سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے"-
یعنى اگرچہ صدقہ سے مال کے اندرتعداد کے اعتبارسے توکمی واقع ہوتی ہے لیکن اسکی برکت اورمستقبل میں اسمیں زیادتی اوراضافہ ہونے میں ہرگزکمی واقع نہیں ہوتی ہے ,بلکہ اللہ تعالى اسکا نعم البدل عطافرماتا ہے اوراسکے مال میں برکت دیتا ہے-
5-زکاۃ سے مال کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے,اسلئے کہ جب مال کا کچھ حصہ خر چ کیا جاتا ہے تواسکا دائرہ بڑھ جاتا ہے اوراس سے بہت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں ,برخلاف اسکے کہ اگروہ مالداروں کے بیچ ہی گردش کرتا رہے ,فقیرومحتاج لوگوں کواس سے کچہ بھی نہ ملے-
زکاۃ کے یہ تمام فوائد اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ فردومعاشرہ کی اصلاح کیلئے زکاۃ ایک ضروری چیزہے ,اورپاک ہے اللہ کی ذات جوعلم وحکمت والی ہے-
زکاۃ کچھ مخصوص مالوں کے اندرواجب ہے ,انہی میں سے سونا اورچاندی ہے بشرطیکہ وہ نصاب تک پھنچ جائیں ,سونے کانصاب گیارہ سعودی جنیہ(سونےکاسکہ)اورایک جنیہ کا تین ساتواں (3/7) حصہ ہے –اورچاندی کا نصاب چاندی کا چھپن سعودی ریال یا اسکے مساوی بینک نوٹس (کرنسیاں) ہیں,اسکے اندرزکاۃ کی واجب مقداراڑھائی فیصد ہے اوراسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ سونا اورچاندی سکوں یا بغیرڈھلے ہوئے ڈھیلے یا زیورکی شکل میں ہوں- بنابریں عورت کے سونے اورچاندی کے زیورمیں بھی زکاۃ واجب ہے اگروہ نصاب تک پہنچ جائے ,اگرچہ وہ اسکوپہنتی یاعاریت (منگنی) دیتی ہو-
اسلئے کہ سونا اورچاندی کے زکاۃ کوواجب کرنے والی دلیلیں بغیرکسی تفصیل کے عام ہیں,اوراسلئے کہ کچھ خاص حدیثیں بھی واردہوئی ہیں جوزیورمیں زکاۃ کے واجب ہونے پردلالت کرتی ہیں اگرچہ اسے پھنا جانا ہو, مثال کے طورپرعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورانکی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دوموٹے کنگن تھے ,توآپ نے فرما:"کیاتم اسکی زکاۃ دیتی ہو"؟ اس نی کہا :نہیں ,آپ نے فرمایا :"کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تجھے ان دونوں کے بدلے آگ کے دوکنگن پہنائے "؟ چنانچہ اس عورت نے وہ دونوں کنگن نکال کرپھینک دئے اورکہا:"یہ دونوں اللہ اوراسکے رسول کیلئے ہیں"-
صاحب بلوغ المرام نے کہا ہےکہ اس حدیث کوائمہ ثلاثہ (یعنى ابوداؤد,نسائی ترمذی)نے روایت کیا ہے ,اوراسکی اسناد قوی ہے-
اوراسلئے بھی کہ اسمیں احتیاط کا پہلوزیادہ ہے ,اورجس کے اندراحتیاط کا پہلوزیادہ ہووہی اولی وبہترہے-
جن اموال میں زکاۃ واجب ہے انہى میں سے تجارت کا سامان بھی ہے ,اوراسمیں ہروہ چیزداخل ہے جسے تجارت کےلئے تیا رکیا گیا ہو,جیسے زمین وجائداد ,گاڑیاں ,مویشی ,کپڑے اوراسکے علاوہ مال کے دیگراصناف واقسام ,اسکے اندرزکاۃ کی واجب مقداراڑھائی فیصد ہے,سال کے اختتام پراسکی قیمت کا اندازہ لگایا جائے گا ,اوراسکی اڑھائی فیصد نکالی جائے گی ,خواہ اسکی مالیت ,قیمت خرید سے کم ,یا اس سے زیادہ ,یا اسکے مساوی ہو-
البتہ جس چیزکواسنے اپنی حاجت کیلئے ,یا کرایہ پردینے کیلئے رکھا ہے جیسے زمینی جائداد,گاڑیاں ,سازوسامان وغیرہ تواسمیں زکاۃ نہیں ہے,اسلئے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :"مسلمان پراسکے غلام اورگھوڑے میں زکاۃ واجب نہیں ہے"- لیکن سال پوراہونے پرکرایہ سے حاصل ہونے والی اجرت میں زکاۃ واجب ہے, اسی طرح سابقہ دلیلوں کی بنیاد پرسونے اورچاندی کے زیورمیں بھی زکاۃ واجب ہے –
ساتویں فصل:
اہل زکاۃ کے بیان میں
اہل زکاۃ سے مراد وہ جہات (مصارف ) ہیں جنہیں زکاۃ دی جاتی ہے ,اللہ تعالى نے زکاۃ کے مستحقین کا بیان ازخود فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} (سورة التوبة: 60)
" صدقے (زکاۃ )صرف فقیروں کیلئے ہے اورمسکینوں کیلئے اورانکے اصول کرنے والوں کیلئے اورانکے لئے جن کے دل پرجائے جاتے ہوں اورگردن چھڑانے میں اورقرض داروں کیلئے اوراللہ کی راہ میں اورراہرومسافروں کیلئے ,فرض ہے اللہ کی طرف سے اوراللہ علم وحکمت والا ہے"-
اس طرح زکاۃ کے آٹھ مصارف ہیں:
اول: فقراء یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی کفایت کی روزی میں سے صرف تھوڑی چیزیعنى نصف سے بھی کم میسرہوتی ہے,اگرانسان کے پاس اپنے نفس اوراہل وعیال پرخرچ کرنے کیلئے آدھے سال کا بھی انتظام نہیں ہے تووہ فقیرہے اوراسے اتنی زکاۃ دی جائے گی جواسکے اوراسکے اہل وعیا ل کیلئے سال بھرکیلئے کافی ہو-
دوم : مساکین,یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی کفایت کی آدھی یا اس سے زیادہ روزی میسرہوتی ہے,لیکن انکے پاس پورے سال کی روزی کا بندوبست نہیں ہوتا, چنانچہ انکے سال بھرکا خرچ زکاۃ کے رقم سے پوراکردیا جائے گا-
اگرآدمی کے پاس نقود نہ ہوں ,لیکن اسکے پاس آمدنی کا کوئی دوسراذریعہ جیسے صنعت وحرفت,یا تنخواہ یا کوئی اورکام ہوجس سے وہ اپنی کفایت بھرروزی کا بندوبست کرسکتا ہے تواسے زکاۃ نہیں دی جائے گی-اسلئے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :مالدارکیلئے اورکمانے کی طاقت رکھنےوالے تواناشخص کے لئے زکاۃ کے مال میں سے کوئی حصہ (حق) نہیں ہے"-
تیسرا: کارکنان زکاۃ ,یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ملک کا عام حکمراں زکاۃ وصول کرنے ,اسے اس کے مستحقین پرتقسیم کرنے اوراسکی حفاظت ونگہداشت کرنے وغیرہ ذمہ داری سونپتا ہے,ایسے لوگوں کوانکے کام(محنت) کے مطابق زکاۃ کے مال سے دیا جائے گا اگرچہ وہ لوگ مالدارہی کیوں نہ ہوں-
چوتھا: وہ لوگ جنکے دلوں کی تالیف( دل جوئی ) مقصودہو,اس سے مراد وہ سرداران قبائل ہیں جن کے ایمان میں مضبوطی وپختگی نہ ہوایسے لوگوں کوزکاۃ کے مال سے دیا جائے تاکہ انکے ایمان مضبوط وپختہ ہوجائیں اوروہ اسلام کے داعی اورایک قدوہ ونمونہ بن جائیں- اگرانسان کااسلام کمزورہولیکن وہ قابل اطاعت سرداروں (بااثرورسوخ لوگوں) میں سے نہ ہو,بلکہ عام لوگوں میں سے ہوتوکیا اسکے ایمان کومضبوط بنانے کیلئے اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا کہ نہیں؟
بعض علماء کا خیال ہے کہ اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا؛اسلئے کہ دین کی مصلحت جسم کی مصلحت سے عظیم ترہے,اورجب اسے فقیرہونے کی صورت میں اسکے جسم کوغذاوخوراک بہم پہنچانے کےلئے زکاۃ دی جاتی ہے تواسکے دل کوایمان کی غذابہم پہنچانا زیادہ نفع بخش اوربڑھکرہے – جبکہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اسے زکاۃ نہیں دی جائے گی؛اسلئے کہ اسکے ایمان کی تقویت سے حاصل ہونے والی مصلحت انفرادی اوراسی کے ساتھ مخصوص ہے-
پانچواں: گردن آزاد کرنا,اس مصرف میں زکاۃ کے مال سے غلام خریدکرآزاد کرنا,مکاتب غلام(جس نے اپنے مالک سے آزادی کا معاہدہ طے کررکھا ہے ) کی مددکرنا اورمسلمان قیدیوں کوچھڑانا داخل ہے-
چھٹا: قرض دار,اس سے مراد وہ قرض دارلوگ ہیں جنکے پاس اپنے قرض کی ادائیگی کی طاقت نہ ہو,ایسے لوگوں کوزکاۃ کے مد سے اتنی رقم دی جائے گی جس سے وہ اپنے قرض کی ادائیگی کرسکیں خواہ وہ قرض تھوڑا ہویا زیادہ ,اگرچہ وہ روزی کے اعتبارسے مالدارہی کیوں نہ ہوں,اگرمان لیاجائے کہ کوئی ایسا شخص ہے جسکے پاس کوئی ذریعہ آمدنی ہے جواسکی اوراسکے اہل وعیال کی روزی کیلئے کافی ہے,مگراسکے اوپراتنا قرض ہے جسکی ادائیگی کی وہ طاقت نہیں رکھتا ہے,تواسے اتنى زکاۃ دی جائے گی جس سے اسکے قرض کی ادائیگی ہوسکے-
آدمی کیلئے یہ جائزنہیں ہے کہ وہ اپنےفقیرمقروض شخص سے قرض کوساقط کردےاوریہ نیت کرے کہ وہی اسکے مال کا زکاۃ ہے-
علماء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگرقرض دارشخص آدمی کا باپ یا بیٹا ہو,توکیا اسے اپنےقرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے ؟صحیح قول یہ ہے کہ اسے زکاۃ کا مال دے سکتے ہیں-
اگرصاحب زکاۃ جانتا ہے کہ قرض دارشخص اپنے قرض کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا ہے,تواسکے لئے جائزہے کہ وہ صاحب حق کے پاس جائے اوراسکے حق کی ادائیگی کردے اگرچہ قرض دارکواسکا علم نہ ہو-
ساتواں: فی سبیل اللہ( اللہ کے راستہ میں) ,اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے,چنانچہ مجاہدین کوزکاۃ کی اتنی رقم دی جائے گی جوان کے جہاد کیئلئے کافی ہو,اسی طرح زکاۃ کے مال سے جہاد فی سبیل اللہ کیلئے جنگی سازوسامان خریدے جائیں گے-
اللہ کے راستے میں شرعی علم بھی داخل ہے ,چنانچہ شرعی علم حاصل کرنے والے طلباء کوزکاۃ کا مال دیا جائے گا تاکہ وہ علم حاصل کرنے کیلئے کتابیں وغیرہ فراہم کرسکے,الا یہ کہ خود اسکے پاس مال ہوجس سے وہ تحصیل علم کرسکے-
آٹھواں: ابن سبیل( مسافر) ,اس سے مراد وہ مسافرہے جسکا سفرمنقطع ہوگیا ہویعنى دوران سفراسکا زادراہ ختم ہوگیا ہو,چنانچہ اسے زکاۃ کے مال سے اتنی رقم دی جائے گی جس سے وہ اپنے شہر(وطن) تک پہنچ سکے-
یہی لوگ زکاۃ کے مستحقین ہیں جنکا ذکراللہ تعالى نے اپنی کتاب میں کیا ہے,اوراس بات کی خبردی ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے جوعلم وحکمت سے صادرہواہے اوراللہ تعالى علم وحکمت والا ہے-
زکاۃ کی رقم کواسکے مذکورہ مستحقین کے علاوہ کسی اورمصرف مثلا مساجد کی تعمیراورراستے کی اصلاح وغیرہ میں خرچ کرنا جائزنہیں ہے ,اسلئے کہ اللہ تعالى نے اسکے مستحقین کوحصرکے طورپرذکرکیا ہے,اورحصرکا فائدہ یہ ہے کہ وہ غیرمحصورسے حکم کی نفی کرتا ہے-
زکاۃ کے مذکورہ بالا مصارف میں جب ہم غوروفکرکرتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جوبذات خودزکاۃ کے ضرورت مند ہوتے ہیں ,اورکچھ ایسے ہیں جن کی مسلمانوں کوضرورت پڑتی ہے,اس سے ہمیں اس بات کا بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ زکاۃ کے واجب قراردیےجانے میں کسقدرحکمت ہے,اسکی حکمت ایک مکمل صالح معاشرہ کی تعمیرہے جوبقدرامکان خود کفیل ہو,اوریہ کہ اسلام نے مال ودولت کواورمال ودولت پرمبنی ممکن مصلحتوں کونظراندازنہیں کیا ہے,اورنہ ہی لالچی اوربخیل نفوس کے لئے ان کی کنجوسی اورہواپرستی کی آزادی چھوڑی ہے ,بلکہ اسلا م خیروبھلائی کا سب سے بڑا راہنما اورقوموں کی اصلاح کا سب سے بڑا علمبردارہے, اورہرقسم کی تعریف اللہ رب العالمین کےلئے ہے-
زکاۃ الفطر
زکاۃ فطرایک فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے اختتام پرفرض قراردیا ہے- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے غلام اورآزاد,مرد اورعورت ,چھوٹے اوربڑے تمام مسلمانوں پررمضان کے اختتام پرزکاۃ فطرفرض قراردیا ہے"-(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
زکاۃ فطرلوگوں کی عام خوراک کی انواع واصناف میں سے ایک صاع کی مقدارہے, ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"ہم نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید الفطرکے دن ایک اشیائے خوراک میں سے ایک صاع نکالتےتھے,اور(اسوقت) ہماراخوراک جو,کشمش,پنیراورکھجورتھا"-(صحیح بخاری)
لہذا روپئےپیسے (نقدی),بستربچھونے ,لباس,چوپایوں کے خوراک ,سازوسامان وغیرہ سے زکاۃ فطرنکالنا کفایت نہیں کرےگا ,کیونکہ یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے ,اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پرہماراحکم نہیں ہے تووہ عمل مردود(ناقابل قبول) ہے"-
صاع کی مقداراچھے قسم کے گندم سے دوکلوچالیس گرام (2.040kg) ہے ,یہی صاع نبوی کی مقدارہے جسکے ذریعہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فطرہ (فطرانہ) کی مقدارمقررکی ہے-
صدقہ فطرنمازعید سے پہلے نکالنا واجب ہے ,افضل یہ ہے کہ اسے عید کے دن نمازعید سے پہلے نکالا جائے,عید سےایک یا دودن پہلے بھی نکالنا کافی (جائز) ہے,البتہ نمازعید کے بعد نکالنا کفایت نہیں کرے گا,اسلئے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ:
"نبی صلى اللہ علیہ وسلم نےروزہ دارکولغوورفث سے پاک کرنے اورمساکین کوخوراک مہیا کرنے کیلئے زکاۃ فطرقرض قراردیا ہے,چنانچہ جس نے اسکی ادائیگی نمازعید سے پہلے کردی تووہ مقبول زکاۃ ہے ,اورجسنے اسے نمازعید کے بعد اداکیا تووہ عام صدقات وخیرات کی طرح ایک صدقہ ہے"-(ابوداود,ابن ماجہ)
لیکن اگراسے عید کا پتہ نمازکے بعد چلے ,یا وہ اسکے نکالنے کے وقت شہرسے باہرصحرا(بیابان) میں یا ایسے شہرمیں تھا جہاں اسکا کوئی مستحق نہیں,تواسے نمازکے بعدنکالنا کفایت کرے گااگروہ نکالنے پرقادرہے- واللہ اعلم وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ صحبہ.
جس نے اس کے وجوب کا انکارکیا وہ اسلام سے مرتد اورکافرہے ,اس سے توبہ کروایا جائے گا,اگروہ توبہ کرلیتا ہے توٹھیک ,ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا- اورجوشخص اسکی ادائیگی میں بخیلی کرتا ہے یا اسمیں سے کچھ کمی کرتا ہے تووہ ظالموں میں سے ہے اوراللہ تعالى کی سزا کا مستحق ہے,اللہ تعالى کا ارشاد گرامی ہے:
{وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ} (سورة آل عمران: 180)
"جنہیں اللہ تعالى نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اسمیں اپنی کنجوسی کواپنے لیے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ,عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیزکے کے طوق ڈالے جائیں گے ,آسمانوں اورزمین کی میراث اللہ تعالى ہی کے لئے ہے,اورجوکچھ تم کررہے ہو,اس سے اللہ تعالى آگاہ ہے"
صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کواللہ تعالى نے مال سے نوازا ہے اوروہ اسکی زکاۃ ادانہیں کرتا ہے توقیامت کے دن اس (مال )کو اسکے لئے ایک زہریلے سانپ کی شکل میں بنایا جائےگاجس کی آنکھ کے اوپردوسیاہ نقطے ہوں گے ,جواسکے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا,پھروہ اسکی دونوں باچھیں (جبڑوں کو) پکڑکہے گا :میں تیرا مال ہوں ,میں تیراخزانہ ہوں"-
(شجاع: نرسانپ کوکہتے ہیں, اوراقرع: اس سانپ کوکہتے جس کے زہرکی کثرت کیوجہ سے اسکے سرکے بال گرگئے ہوں)
اوراللہ تعالى کا فرمان ہے : { وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ} (سورة التوبة 34-35)
"اورجولوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اوراللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خبرپہنچادیجئے- جس دن اس خزانے کوآتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھراس سے ان کی پیشانیاں اورپہلو اورپیٹھیں داغی جائیں گی(ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بناکررکھا تھا, پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو"-(التوبہ:34-35)
صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جوبھی سونایا چاندی والا شخص اپنے اس مال کا حق (زکاۃ) ادانہیں کرتا ہے ,اسکے لئے قیامت کے دن آگ کی تختیاں تیارکی جائیں گی اور انھیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا,پھراس سے اسکے پہلو,اسکی پیشانی اورپشت کوداغا جائے گا,جب جب بھی وہ ٹھنڈی ہوجائے گی دوبارہ اسی طرح عمل کیا جائے گا,یہ عذاب ایک ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدارپچاس ہزارسال کی ہوگی,(یہ حالت اس وقت تک رہے گی) یہاں تک بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے"-
زکاۃ کے کچھ دینی,اخلاقی اورمعاشرتی فائدے ہیں,جن میں سے درج ذیل کا ہم تذکرہ کررہے ہیں:
زکاۃ کے دینی فائدے:
1- یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن کی ادائیگی ہے جس پردنیا وآخرت میں بندہ کی نیک بختى اورکامیابی وکامرانی کا دارومدارہے-
2- یہ بندہ کواسکے رب سے قریب کردیتی ہے اوراسکے ایمان میں اضافہ کرتی ہے,بالکل اسی طرح جس طرح کی دیگرطاعتوں (نیکیوں) کے انجام دینے سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے-
3- زکاۃ کی ادائیگی پربہت بڑااجروثواب حاصل ہوتا ہے,اللہ تعالى کا فرمان گرامی ہے:
4- {يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ}
5- "اللہ تعالى سود کومٹاتا ہے اورصدقہ کوبڑھاتا ہے"-(سورة البقرة : 276 )
اورفرمایا:
{وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ}
"تم جوسود پردیتے ہوکہ لوگوں کےمال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالى کے ہاں نہیں بڑھتا- اورجوکچھ صدقہ وزکاۃ تم اللہ تعالى کی خوشنودی کے لئے دوتوایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچندکرنے والے-(سورة الروم : 39)
اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جوشخص پاکیزہ (حلال) کمائی سے ایک کھجورکے برابرصدقہ کرتا ہے – اوراللہ تعالى صرف پاک چیزہی کوقبول فرماتا ہے- تواللہ تعالى اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے ,پھراسکی اسی طرح پرورش (افزائش) کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شحص اپنے بچھیرے(گھوڑے کے بچے) کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ وہ (صدقہ کیا ہوامال ) پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے "-(صحیح بخاری ومسلم)-
4-اللہ تعالى اسکے سبب خطاؤوں کومعاف کردیتا ہے ,جیسا کہ " نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے صدقہ "گناہ کوایسے ہی مٹادیتا ہے جسطرح پانی آگ کوبجھادیتی ہے۔
یہاں پرصدقہ سے (واجبی )زکاۃ اورعام (نفلی) صدقات وخیرات سب مراد ہیں-
زکاۃ کے اخلاقی فوائد:
1- یہ زکاۃ اداکرنے والے کوسخی وفیاض اورارباب جودوکرم کے زمرے سے ملادیتی ہے
2- زکاۃ کی وجہ سے زکاۃ اداکرنے والے اپنے فقیرومحتاج بھائیوں پرمہربانی وہمدردی کرنے کی خوبی سے آراستہ ہوجاتے ہیں,اورمہربانی کرنے والوں پراللہ رحم فرماتا ہے –
3- اس بات کا مشاہدہ ہے کہ مسلمانوں کومالی اورجسمانی نفع پہنچانے سے شرح صدراوردل کا سروروانبساط حاصل ہوتا ہے اوراسکے سبب انسان اپنے بھائیوں کونفع پہنچانےکے بقدرمحبوب اورمعززومکرم ہوجاتا ہے –
4- زکاۃ کی ادائیگی سے صاحب زکاۃ کا اخلاق بخیلى اورکنجوسی سے پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالى کا فرمان ہے: {خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا } (سورة التوبة : 103)
"آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے ,جس کے ذریعہ سے آپ انکوپاک وصاف کردیں" (التوبۃ: 103)
زکاۃ کے معاشرتی فائدے
1-زکاۃ سے غریبوں کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے جن کی بیشترممالک میں اکثریت ہے-
2-زکاۃ کے اندرمسلمانوں کی تقویت اورانکے شان کی بلندی ہے,اسی لئے زکاۃ کا ایک مصرف جہاد فی سبیل اللہ بھی ہے جسے ہم ان شاء اللہ عنقریب ذکرکریں گے-
3- فقیرومحتاج وبدحال لوگوں کے دلوں میں جوکینہ وکپٹ اورعداوت ودشمنی ہوتی ہے زکاۃ کے ذریعہ اسکا خاتمہ ہوجاتا ہے ,کیونکہ جب فقیرومحتاج لوگ مالداروں کومال ودولت سے محظوظ ہوتے دیکھتے ہیں اورتھوڑایازیادہ کچھ بھی انھیں اس سے فائدہ نہیں پہنچتا ہے توبسا اوقات انکے دلوں میں مالداروں کے خلاف کینہ وعداوت جنم لیتا ہے کہ انہوں نے انکے حقوق کی رعایت نہیں کی اورانکی کسی ضرورت کوپورانہیں کیا,لیکن اگرمالدارلوگ اپنے اموال میں سے کچھ حصہ ہرسال ان پرخرچ کرتے ہیں تویہ چیزیں ختم ہوجاتی ہیں اورانکے مابین محبت والفت پیداہوجاتی ہے-
4-اس سے مال کے اندرنمووبڑھوتری ہوتی ہے اوراسکی برکت میں اضافہ ہوتا ہے جیساکہ حدیث میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:"صدقہ سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے"-
یعنى اگرچہ صدقہ سے مال کے اندرتعداد کے اعتبارسے توکمی واقع ہوتی ہے لیکن اسکی برکت اورمستقبل میں اسمیں زیادتی اوراضافہ ہونے میں ہرگزکمی واقع نہیں ہوتی ہے ,بلکہ اللہ تعالى اسکا نعم البدل عطافرماتا ہے اوراسکے مال میں برکت دیتا ہے-
5-زکاۃ سے مال کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے,اسلئے کہ جب مال کا کچھ حصہ خر چ کیا جاتا ہے تواسکا دائرہ بڑھ جاتا ہے اوراس سے بہت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں ,برخلاف اسکے کہ اگروہ مالداروں کے بیچ ہی گردش کرتا رہے ,فقیرومحتاج لوگوں کواس سے کچہ بھی نہ ملے-
زکاۃ کے یہ تمام فوائد اس بات پردلالت کرتے ہیں کہ فردومعاشرہ کی اصلاح کیلئے زکاۃ ایک ضروری چیزہے ,اورپاک ہے اللہ کی ذات جوعلم وحکمت والی ہے-
زکاۃ کچھ مخصوص مالوں کے اندرواجب ہے ,انہی میں سے سونا اورچاندی ہے بشرطیکہ وہ نصاب تک پھنچ جائیں ,سونے کانصاب گیارہ سعودی جنیہ(سونےکاسکہ)اورایک جنیہ کا تین ساتواں (3/7) حصہ ہے –اورچاندی کا نصاب چاندی کا چھپن سعودی ریال یا اسکے مساوی بینک نوٹس (کرنسیاں) ہیں,اسکے اندرزکاۃ کی واجب مقداراڑھائی فیصد ہے اوراسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ سونا اورچاندی سکوں یا بغیرڈھلے ہوئے ڈھیلے یا زیورکی شکل میں ہوں- بنابریں عورت کے سونے اورچاندی کے زیورمیں بھی زکاۃ واجب ہے اگروہ نصاب تک پہنچ جائے ,اگرچہ وہ اسکوپہنتی یاعاریت (منگنی) دیتی ہو-
اسلئے کہ سونا اورچاندی کے زکاۃ کوواجب کرنے والی دلیلیں بغیرکسی تفصیل کے عام ہیں,اوراسلئے کہ کچھ خاص حدیثیں بھی واردہوئی ہیں جوزیورمیں زکاۃ کے واجب ہونے پردلالت کرتی ہیں اگرچہ اسے پھنا جانا ہو, مثال کے طورپرعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ ایک خاتون نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورانکی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دوموٹے کنگن تھے ,توآپ نے فرما:"کیاتم اسکی زکاۃ دیتی ہو"؟ اس نی کہا :نہیں ,آپ نے فرمایا :"کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تجھے ان دونوں کے بدلے آگ کے دوکنگن پہنائے "؟ چنانچہ اس عورت نے وہ دونوں کنگن نکال کرپھینک دئے اورکہا:"یہ دونوں اللہ اوراسکے رسول کیلئے ہیں"-
صاحب بلوغ المرام نے کہا ہےکہ اس حدیث کوائمہ ثلاثہ (یعنى ابوداؤد,نسائی ترمذی)نے روایت کیا ہے ,اوراسکی اسناد قوی ہے-
اوراسلئے بھی کہ اسمیں احتیاط کا پہلوزیادہ ہے ,اورجس کے اندراحتیاط کا پہلوزیادہ ہووہی اولی وبہترہے-
جن اموال میں زکاۃ واجب ہے انہى میں سے تجارت کا سامان بھی ہے ,اوراسمیں ہروہ چیزداخل ہے جسے تجارت کےلئے تیا رکیا گیا ہو,جیسے زمین وجائداد ,گاڑیاں ,مویشی ,کپڑے اوراسکے علاوہ مال کے دیگراصناف واقسام ,اسکے اندرزکاۃ کی واجب مقداراڑھائی فیصد ہے,سال کے اختتام پراسکی قیمت کا اندازہ لگایا جائے گا ,اوراسکی اڑھائی فیصد نکالی جائے گی ,خواہ اسکی مالیت ,قیمت خرید سے کم ,یا اس سے زیادہ ,یا اسکے مساوی ہو-
البتہ جس چیزکواسنے اپنی حاجت کیلئے ,یا کرایہ پردینے کیلئے رکھا ہے جیسے زمینی جائداد,گاڑیاں ,سازوسامان وغیرہ تواسمیں زکاۃ نہیں ہے,اسلئے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :"مسلمان پراسکے غلام اورگھوڑے میں زکاۃ واجب نہیں ہے"- لیکن سال پوراہونے پرکرایہ سے حاصل ہونے والی اجرت میں زکاۃ واجب ہے, اسی طرح سابقہ دلیلوں کی بنیاد پرسونے اورچاندی کے زیورمیں بھی زکاۃ واجب ہے –
ساتویں فصل:
اہل زکاۃ کے بیان میں
اہل زکاۃ سے مراد وہ جہات (مصارف ) ہیں جنہیں زکاۃ دی جاتی ہے ,اللہ تعالى نے زکاۃ کے مستحقین کا بیان ازخود فرمایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} (سورة التوبة: 60)
" صدقے (زکاۃ )صرف فقیروں کیلئے ہے اورمسکینوں کیلئے اورانکے اصول کرنے والوں کیلئے اورانکے لئے جن کے دل پرجائے جاتے ہوں اورگردن چھڑانے میں اورقرض داروں کیلئے اوراللہ کی راہ میں اورراہرومسافروں کیلئے ,فرض ہے اللہ کی طرف سے اوراللہ علم وحکمت والا ہے"-
اس طرح زکاۃ کے آٹھ مصارف ہیں:
اول: فقراء یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی کفایت کی روزی میں سے صرف تھوڑی چیزیعنى نصف سے بھی کم میسرہوتی ہے,اگرانسان کے پاس اپنے نفس اوراہل وعیال پرخرچ کرنے کیلئے آدھے سال کا بھی انتظام نہیں ہے تووہ فقیرہے اوراسے اتنی زکاۃ دی جائے گی جواسکے اوراسکے اہل وعیا ل کیلئے سال بھرکیلئے کافی ہو-
دوم : مساکین,یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنی کفایت کی آدھی یا اس سے زیادہ روزی میسرہوتی ہے,لیکن انکے پاس پورے سال کی روزی کا بندوبست نہیں ہوتا, چنانچہ انکے سال بھرکا خرچ زکاۃ کے رقم سے پوراکردیا جائے گا-
اگرآدمی کے پاس نقود نہ ہوں ,لیکن اسکے پاس آمدنی کا کوئی دوسراذریعہ جیسے صنعت وحرفت,یا تنخواہ یا کوئی اورکام ہوجس سے وہ اپنی کفایت بھرروزی کا بندوبست کرسکتا ہے تواسے زکاۃ نہیں دی جائے گی-اسلئے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :مالدارکیلئے اورکمانے کی طاقت رکھنےوالے تواناشخص کے لئے زکاۃ کے مال میں سے کوئی حصہ (حق) نہیں ہے"-
تیسرا: کارکنان زکاۃ ,یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ملک کا عام حکمراں زکاۃ وصول کرنے ,اسے اس کے مستحقین پرتقسیم کرنے اوراسکی حفاظت ونگہداشت کرنے وغیرہ ذمہ داری سونپتا ہے,ایسے لوگوں کوانکے کام(محنت) کے مطابق زکاۃ کے مال سے دیا جائے گا اگرچہ وہ لوگ مالدارہی کیوں نہ ہوں-
چوتھا: وہ لوگ جنکے دلوں کی تالیف( دل جوئی ) مقصودہو,اس سے مراد وہ سرداران قبائل ہیں جن کے ایمان میں مضبوطی وپختگی نہ ہوایسے لوگوں کوزکاۃ کے مال سے دیا جائے تاکہ انکے ایمان مضبوط وپختہ ہوجائیں اوروہ اسلام کے داعی اورایک قدوہ ونمونہ بن جائیں- اگرانسان کااسلام کمزورہولیکن وہ قابل اطاعت سرداروں (بااثرورسوخ لوگوں) میں سے نہ ہو,بلکہ عام لوگوں میں سے ہوتوکیا اسکے ایمان کومضبوط بنانے کیلئے اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا کہ نہیں؟
بعض علماء کا خیال ہے کہ اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا؛اسلئے کہ دین کی مصلحت جسم کی مصلحت سے عظیم ترہے,اورجب اسے فقیرہونے کی صورت میں اسکے جسم کوغذاوخوراک بہم پہنچانے کےلئے زکاۃ دی جاتی ہے تواسکے دل کوایمان کی غذابہم پہنچانا زیادہ نفع بخش اوربڑھکرہے – جبکہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اسے زکاۃ نہیں دی جائے گی؛اسلئے کہ اسکے ایمان کی تقویت سے حاصل ہونے والی مصلحت انفرادی اوراسی کے ساتھ مخصوص ہے-
پانچواں: گردن آزاد کرنا,اس مصرف میں زکاۃ کے مال سے غلام خریدکرآزاد کرنا,مکاتب غلام(جس نے اپنے مالک سے آزادی کا معاہدہ طے کررکھا ہے ) کی مددکرنا اورمسلمان قیدیوں کوچھڑانا داخل ہے-
چھٹا: قرض دار,اس سے مراد وہ قرض دارلوگ ہیں جنکے پاس اپنے قرض کی ادائیگی کی طاقت نہ ہو,ایسے لوگوں کوزکاۃ کے مد سے اتنی رقم دی جائے گی جس سے وہ اپنے قرض کی ادائیگی کرسکیں خواہ وہ قرض تھوڑا ہویا زیادہ ,اگرچہ وہ روزی کے اعتبارسے مالدارہی کیوں نہ ہوں,اگرمان لیاجائے کہ کوئی ایسا شخص ہے جسکے پاس کوئی ذریعہ آمدنی ہے جواسکی اوراسکے اہل وعیال کی روزی کیلئے کافی ہے,مگراسکے اوپراتنا قرض ہے جسکی ادائیگی کی وہ طاقت نہیں رکھتا ہے,تواسے اتنى زکاۃ دی جائے گی جس سے اسکے قرض کی ادائیگی ہوسکے-
آدمی کیلئے یہ جائزنہیں ہے کہ وہ اپنےفقیرمقروض شخص سے قرض کوساقط کردےاوریہ نیت کرے کہ وہی اسکے مال کا زکاۃ ہے-
علماء کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگرقرض دارشخص آدمی کا باپ یا بیٹا ہو,توکیا اسے اپنےقرض کی ادائیگی کیلئے زکاۃ کا مال دیا جاسکتا ہے ؟صحیح قول یہ ہے کہ اسے زکاۃ کا مال دے سکتے ہیں-
اگرصاحب زکاۃ جانتا ہے کہ قرض دارشخص اپنے قرض کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا ہے,تواسکے لئے جائزہے کہ وہ صاحب حق کے پاس جائے اوراسکے حق کی ادائیگی کردے اگرچہ قرض دارکواسکا علم نہ ہو-
ساتواں: فی سبیل اللہ( اللہ کے راستہ میں) ,اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے,چنانچہ مجاہدین کوزکاۃ کی اتنی رقم دی جائے گی جوان کے جہاد کیئلئے کافی ہو,اسی طرح زکاۃ کے مال سے جہاد فی سبیل اللہ کیلئے جنگی سازوسامان خریدے جائیں گے-
اللہ کے راستے میں شرعی علم بھی داخل ہے ,چنانچہ شرعی علم حاصل کرنے والے طلباء کوزکاۃ کا مال دیا جائے گا تاکہ وہ علم حاصل کرنے کیلئے کتابیں وغیرہ فراہم کرسکے,الا یہ کہ خود اسکے پاس مال ہوجس سے وہ تحصیل علم کرسکے-
آٹھواں: ابن سبیل( مسافر) ,اس سے مراد وہ مسافرہے جسکا سفرمنقطع ہوگیا ہویعنى دوران سفراسکا زادراہ ختم ہوگیا ہو,چنانچہ اسے زکاۃ کے مال سے اتنی رقم دی جائے گی جس سے وہ اپنے شہر(وطن) تک پہنچ سکے-
یہی لوگ زکاۃ کے مستحقین ہیں جنکا ذکراللہ تعالى نے اپنی کتاب میں کیا ہے,اوراس بات کی خبردی ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے جوعلم وحکمت سے صادرہواہے اوراللہ تعالى علم وحکمت والا ہے-
زکاۃ کی رقم کواسکے مذکورہ مستحقین کے علاوہ کسی اورمصرف مثلا مساجد کی تعمیراورراستے کی اصلاح وغیرہ میں خرچ کرنا جائزنہیں ہے ,اسلئے کہ اللہ تعالى نے اسکے مستحقین کوحصرکے طورپرذکرکیا ہے,اورحصرکا فائدہ یہ ہے کہ وہ غیرمحصورسے حکم کی نفی کرتا ہے-
زکاۃ کے مذکورہ بالا مصارف میں جب ہم غوروفکرکرتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جوبذات خودزکاۃ کے ضرورت مند ہوتے ہیں ,اورکچھ ایسے ہیں جن کی مسلمانوں کوضرورت پڑتی ہے,اس سے ہمیں اس بات کا بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ زکاۃ کے واجب قراردیےجانے میں کسقدرحکمت ہے,اسکی حکمت ایک مکمل صالح معاشرہ کی تعمیرہے جوبقدرامکان خود کفیل ہو,اوریہ کہ اسلام نے مال ودولت کواورمال ودولت پرمبنی ممکن مصلحتوں کونظراندازنہیں کیا ہے,اورنہ ہی لالچی اوربخیل نفوس کے لئے ان کی کنجوسی اورہواپرستی کی آزادی چھوڑی ہے ,بلکہ اسلا م خیروبھلائی کا سب سے بڑا راہنما اورقوموں کی اصلاح کا سب سے بڑا علمبردارہے, اورہرقسم کی تعریف اللہ رب العالمین کےلئے ہے-
زکاۃ الفطر
زکاۃ فطرایک فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ماہ رمضان کے اختتام پرفرض قراردیا ہے- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے غلام اورآزاد,مرد اورعورت ,چھوٹے اوربڑے تمام مسلمانوں پررمضان کے اختتام پرزکاۃ فطرفرض قراردیا ہے"-(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
زکاۃ فطرلوگوں کی عام خوراک کی انواع واصناف میں سے ایک صاع کی مقدارہے, ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"ہم نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید الفطرکے دن ایک اشیائے خوراک میں سے ایک صاع نکالتےتھے,اور(اسوقت) ہماراخوراک جو,کشمش,پنیراورکھجورتھا"-(صحیح بخاری)
لہذا روپئےپیسے (نقدی),بستربچھونے ,لباس,چوپایوں کے خوراک ,سازوسامان وغیرہ سے زکاۃ فطرنکالنا کفایت نہیں کرےگا ,کیونکہ یہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے ,اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پرہماراحکم نہیں ہے تووہ عمل مردود(ناقابل قبول) ہے"-
صاع کی مقداراچھے قسم کے گندم سے دوکلوچالیس گرام (2.040kg) ہے ,یہی صاع نبوی کی مقدارہے جسکے ذریعہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فطرہ (فطرانہ) کی مقدارمقررکی ہے-
صدقہ فطرنمازعید سے پہلے نکالنا واجب ہے ,افضل یہ ہے کہ اسے عید کے دن نمازعید سے پہلے نکالا جائے,عید سےایک یا دودن پہلے بھی نکالنا کافی (جائز) ہے,البتہ نمازعید کے بعد نکالنا کفایت نہیں کرے گا,اسلئے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ:
"نبی صلى اللہ علیہ وسلم نےروزہ دارکولغوورفث سے پاک کرنے اورمساکین کوخوراک مہیا کرنے کیلئے زکاۃ فطرقرض قراردیا ہے,چنانچہ جس نے اسکی ادائیگی نمازعید سے پہلے کردی تووہ مقبول زکاۃ ہے ,اورجسنے اسے نمازعید کے بعد اداکیا تووہ عام صدقات وخیرات کی طرح ایک صدقہ ہے"-(ابوداود,ابن ماجہ)
لیکن اگراسے عید کا پتہ نمازکے بعد چلے ,یا وہ اسکے نکالنے کے وقت شہرسے باہرصحرا(بیابان) میں یا ایسے شہرمیں تھا جہاں اسکا کوئی مستحق نہیں,تواسے نمازکے بعدنکالنا کفایت کرے گااگروہ نکالنے پرقادرہے- واللہ اعلم وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ صحبہ.
No comments:
Post a Comment