بسم اللہ الرحمن الرحیم

رمضان المبارک


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِo فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اﷲَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo

مومنو تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ تاکہ تم پرہیز گار بنو۔ روزوں کے دن گنتی کے چند روز ہیں۔ جو شخص تم میں سے بیمار ہویا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوںکا شمار پورا کرے ۔اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔ اور جو شوق سے نیکی کرے تو اسکے حق میں اچھاہے ۔اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن (اول اول )نازل ہوا ۔ لوگوں کا راہنماہے ۔اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جو حق وباطل میں فرق کرنے والاہے۔ تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے موجود ہو چاہیے کہ پورے مہینے روزے رکھے او رجو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں رکھ کر انکا شمار پورا کرے۔ اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے ۔اور سختی نہیں چاہتا ۔اور یہ آسانی کا حکم اسلئے دیا گیاہے کہ تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔اور اس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تم کو ہدایت بخشی ہے ۔تم اس کی بڑائی کرو اور اسکا شکر ادا کرو۔ (بقرہ ،)۔

واجبات:

رمضان المبارک کے واجبات درج ذیل ہیں :

1 ) بدنی او رقولی عبادات پر عمل کرنا ۔

2) حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے او رسننے سے اجتناب کرنا ۔

3) رمضان کے تمام مستحب آداب پر عمل کرنا مثلاً سحری تاخیر سے کرنا ،افطار میں جلدی کرنا، قرآن پڑھنا ،ذکر ،دعا او رصدقہ وخیرات کثرت سے کرنا ۔

فضائل رمضان :

۔ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا ۔

۔ گناہوںکی بخشش کا موقع حاصل ہوتا ہے ’’جو شخص رمضان کے روزے ایمان واحتساب کے ساتھ رکھے تو اﷲتعالیٰ اسکے گذشتہ گناہوں کوبخش دیتا ہے‘‘۔(بخاری 1910)۔

۔ دعائوں کی قبولیت کا حصول ہونا: ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’تین افراد کی دعائیں کبھی رد نہیں ہوتیں‘‘ 1 روزہ دار جب تک افطاری نہ کرے۔ 2 عادل حکمران۔ 3اور مظلوم کی دعا۔ (حسن الصحیح المسند من اذکارالیوم واللیلہ)

۔ رمضان میں ’’لیلۃ القدر ‘‘ حاصل ہوتی ہے ۔

۔ شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے ۔

۔ روزے رکھنا گناہوں کا کفارہ بنتاہے ۔

چنانچہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے ’’جب تک کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے اس وقت تک ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کے روزے گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں‘‘(صحیح الجامع 4098)

روزوں کا لغوی مفہوم

نیت کے ساتھ کھانے ،پینے ،جماع اور تمام ایسے اعمال سے رک جانا جو روزوں کو توڑنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہ عمل طلوع فجر سے مغرب تک ہوتا ہے ۔روزہ اسلام کا رکن ہے ۔یہ ہر بالغ مرد و عورت پر فرض ہے۔ روزہ رکھنا چاند دیکھ کر او رروزوں کی تکمیل بھی رویت ِہلال یا 30روزوں کے مکمل ہونے پر ہوتی ہے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو‘‘۔(مشکوۃ)۔

روز ے دار کے لئے مباح وجائز کام

1) پورے دن مسواک کی جاسکتی ہے ۔

2) جائز کاموں کے لئے سفر اختیار کیا جاسکتاہے ۔

3) سخت گرمی میں پانی کے ذریعے ٹھنڈک حاصل کرنا ۔

4) بیماری سی بچنے کے لئے انجکشن وغیرہ لگوانا جائز ہے لیکن طاقت کا انجکشن نہ ہو ۔

5) خوشبو لگانا۔

6) سرمہ ڈالنا ۔

روزے کو توڑنے والے امور

1) جماع کرنا۔

2) کھانا پینا یا طاقت والے انجکشن لگانا ۔

3) سنگی لگا کرخون نکلوانا۔

4) قصداً قے کرنا۔

5) حیض یا نفاس کا خون جاری ہونا ۔

6) یہ شرائط اس وقت روزہ توڑتی ہیں جب یہ کام جان بوجھ کر کئے جائیں ۔ان میں سے کئی کام قصداً نہیں کئے جا سکتے۔

روزہ کن لوگوں پر واجب نہیں ہے

١) چھوٹا بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے ۔لڑکے کی بلوغت تین امور سے معلوم ہو جاتی ہے ۔ احتلام آنا ،زیر ناف بالوں کا اگ آنا یا 15سال کی عمر تک پہنچنا۔ لڑکی کی بلوغت میں حیض کا آنا بھی شامل ہے ۔

٢) پاگل پن۔

٣) ایسا بڑھاپاکہ کسی چیز کی تمیز نہ رہے۔

٤) ہمیشہ کا مریض یا معزور لیکن ایسے افراد پر فرض ہے کہ وہ فدیہ میں مسکین کا کھانا ادا کریں ۔

وہ افراد جن پر قضاء واجب ہے

1) وہ مسافر جوحالت سفر میں روزہ نہ رکھ سکے۔

2) وہ مریض جو شفا یابی کی امید رکھتا ہو۔ لیکن حالت ِ مرض میں روزہ نہ رکھ سکے۔

3) حائضہ عورت کو روزہ رکھنا حرام ہے ۔حالت روزہ میں حیض آجائے تو پھر فوراً روزہ چھوڑنا چاہیے ۔بعد میں قضاء دی جائے گی ۔نفاس والی عورت کا حکم بھی یہی ہے ۔

4) حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت جب کمزوری محسوس کرے توروزہ چھوڑ سکتی ہے ۔

5) کوئی بھی ایسی اضطراری یا مجبوری کی حالت جس میں روزہ چھوڑنا ضروری ہو جائے ۔

افطار مغرب کے فوراً بعد ہونا چاہیے ۔جلدی کرنا سنت ہے ۔فرمانِ نبوی ہے کہ لوگ اسوقت تک بہتری میں رہیں گے جب تک جلد افطار کرتے رہیں (بخاری 1856)۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم افطاری چند کھجوروں کیساتھ کرتے تھے۔ اگر وہ نہ ملتیں تو چھوارے کھاتے اگر وہ بھی نہ ملتے تو پھر آپ صرف پانی پیتے تھے (صحیح ترمذی )

رسول اﷲ نے فرمایا ’’جو شخص کسی دوسرے کا روزہ افطار کرواتا ہے تو اسکو بھی اجر وثواب ملتا ہے ۔روزے دار کے اجر میں کمی نہیں ہوتی‘‘ (ترمذی 648)۔

تراویح

رمضان کی راتوں میں قرآن اور نمازکے ذریعے شب بیداری کرنا ،تراویح سنت نبوی ہے۔ تراویح کی تعداد گیارہ رکعت ہے ۔بخاری شریف میں اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں گیارہ رکعات ہے ۔

قیام الیل

اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ رات کو خود جاگتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے‘‘ (بخاری)۔

سحری کرنا

رسول اﷲ نے فرمایا ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا کھانا ہے ‘‘(مسلم 1096) مزید فرمایا ’’سحری کرو بے شک سحری کرنے میں برکت ہے‘‘ (مسلم 1090)۔

نفلی روزے

1) رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے سے پورے سال کے روزے رکھنے کا اجر وثواب ملتا ہے ۔ (مسلم)۔

2) پیر اور جمعرات کے روزے رکھنا مستحب ہے ان دونوں ایام میں اعمال اﷲتعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں ۔

3) ہر مہینے کی15,14,13تاریخ کو روزے رکھنا ۔

4) ذوالحجہ کی 9تاریخ کو روزہ رکھنا (غیر حاجیوں کے لئے یوم عرفہ 9تاریخ کا)۔

5) عاشورہ محرم کی 9اور 10تاریخ کو روزہ رکھنا

ممنوعہ روزے

1) چاند دیکھے بغیر محض شک کی بنیاد پر روزہ رکھنا ۔

2) عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا ۔

3) ایام التشریق کو روزے رکھنا منع ہے ۔ایام التشریق12.11اور 13ذوالحجہ ہیں ۔

4) خاص طور پر صرف جمعۃ المبارک کا روزہ رکھنا منع ہے ۔

5) بیوی کا شوہرکی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھنا ۔

اعتکاف

اعتکاف میں بیٹھنا مستحب سنت ہے ۔رمضان کے مہینے کے آخری عشرے میں افضل ہے۔ اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھاکرتے تھے ۔یہاں تک کہ آپکی وفات ہو گئی ۔

فطرانہ

سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوٰۃ ِفطر کو روزے داروں کو لغو ،فحش کاموں سے پاک کرنے اور مساکین کے کھانے کیلئے فرض کیا تھا۔ جوشخص نمازِعید سے قبل زکوٰۃ فطر دے گا تویہ مقبول ہو گی۔ اور جو نماز عید کے بعد دے گا یہ عام صدقہ ہوگا فطرانہ نہیں۔ (ابودائود) یہ فطرانہ ہر شخص خود دے گا اوراپنے زیر کفالت افراد کی طرف سے بھی دے گا ۔

روزے داروں کی توجہ کے لئے
  • اے میرے مسلم بھائی: رمضان کے روزے ایمان واحتساب کی نیت سے رکھوا ﷲتعالیٰ تمہارے گذشتہ گناہوں کو بخش دے گا ۔
  • بغیر عذر کے ایک دن کا روزہ بھی مت چھوڑو ۔یہ کبیرہ گناہ ہے ۔
  • رمضان کی راتوں میں تراویح پڑھو ۔خاص طور پر لیلۃالقدر کی راتوں کو نوافل ادا کرو۔
  • اپنے کھانے پینے او رلباس کو حلال رزق سے بنائو ۔ا ﷲتعالیٰ تمہارے اعمال کو قبول فرمائے گا۔ دعائوں کو قبولیت ملے گی۔ حرام رزق سے افطاری کرنے سے اپنے آپ کو بچائو ۔
  • روزے داروں کو افطاری کروائو ۔تاکہ تم بھی وثواب حاصل کرو ۔
  • نماز ِپنج گانہ کی اچھی طرح پابندی کرو ۔
  • کثرت سے صدقہ وخیرات تقسیم کرو ۔بے شک رمضان میں صدقہ کرنا افضل ترین ہے ۔
  • اپنے اوقات کو بغیر صالح عمل کیے ضائع مت کرو ۔تم سے تمہارے عمل کے متعلق پوچھا جائے گا۔ ہر عمل کابدلہ ملے گا ۔
  • رمضان میں عمرہ کرناحج کے برابر ہے ۔
  • سحری کا اہتمام ضرور کرو ۔
  • مغرب کے فوراً بعد افطاری کرنے میں جلدی کرو،ا ﷲتعالیٰ کی محبت ملے گی ۔
  • فجر سے پہلے ہی غسلِ جنابت کرلو ۔تاکہ مکمل طہارت کے ساتھ عبادت کرسکو ۔
  • رمضان میں فرصت کے اوقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآنِ کریم کی کثرت سے تلاوت کرو ۔
  • اپنی زبان کو جھوٹ ،لعن طعن ،غیبت ،چغل خوری سے پاک رکھو ۔

یہ اعمال روزے کونقصان دیتے ہیں ۔
  • روزے میں اپنے غصے کو کنٹرول میں رکھیں ۔اپنے نفس کواطمینان اور سکون دیں ۔
  • روزے رکھنے سے اﷲتعالیٰ کے خوف وتقویٰ کا احساس پیدا ہوجائے ۔ہمیشہ شکر الٰہی کرو۔ احکامات الٰہی کی اطاعت کرو ۔
  • کثرت سے ذکر الٰہی کرو ۔استغفار کو اپنا شعار بنائو ۔طلب ِجنت او رجہنم سے نجات کا سوال کرتے رہو ۔خاص طور پر سحری وافطاری کے وقت خاص طور پر اپنے نفس ،والدین ،اولاد اور تمام مسلمانوں کیلئے دعاکرو۔اﷲتعالیٰ نے دعا اور مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اور قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے ۔
  • اﷲتعالیٰ سے سچی توبہ کرو ۔توبہ گناہوںکو ترک کرنے او ر ندامت وشرمندگی کے احساس کے ساتھ کی جاتی ہے ۔
  • ایمان وتقویٰ کو ہمیشہ جاری رکھو ۔رمضان کے اختتام تک نہیں بلکہ موت تک، فرمانِ الٰہی ہے ’’اور اپنے رب کی عبادت کرو حتی کہ یقین (موت)آجائے ۔‘‘
  • انسان پر عبادت ،توبہ او رتقویٰ کے آثا رنظر آنے چاہیں ۔
  • رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود وسلام پڑھیں ۔
روزے دار کا ٹائم ٹیبل

اس ٹائم ٹیبل کو لکھنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ روزے دار اپنے اوقات کو قیمتی بناتے ہوئے ہر منٹ کو ایک عبادت او رنیک عمل کے لئے مختص کرلے ۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ ’’ہر روز غروب شمس کے وقت میں ہمیشہ نادم ہوتا ہوں۔ کیوں کہ میری زندگی کا ایک لمحہ ایک دن کم ہوگیا لیکن میرا عمل نہیں بڑھا ۔

امام نخعی رحمہ اللہ یک روز رمضان کے دن کے قیمتی ہونے کے متعلق فرماتے ہیں ’’رمضان کاایک دن ہزار دنوں سے بہتر ہے ۔ایک تسبیح ہزار تسبیحات سے بہتر ہے ۔ایک رکعت ہزار رکعات سے بہتر ہے۔ (لطائف المعارف)۔

ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کا ایک ایک دن ،منٹ ،لمحہ بڑا قیمتی ہے ۔تقرب الی اﷲکے لئے مختلف عبادات ہیں جن کے ذریعے اﷲتعالیٰ سے اجرِعظیم کی امید کی جاسکتی ہے ۔

اے عزیز بھائی ۔اگر تم اﷲتعالیٰ کے حضور زیادہ سے زیادہ اپنی عبادات کا نذرانہ پیش کرنا چاہتے ہوتو پھر وقت ضائع نہ کرو ۔

پروگرام رمضان

تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو نام ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی۔

تہجد کی نماز پڑھو ،چاہے دورکعت ہی کیوں نہ ہو ۔نماز ِوتر پڑھو ۔اگر امام کے ساتھ نہ پڑھو تو رات کو ضرور پڑھو ۔

رسول ا ﷲکا ارشاد ہے ’’جو شخص رات کو جاگے اور گھر والوں کو بھی جگائے اور سب دورکعت نفل پڑھیں تو اﷲتعالیٰ انہیں ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں میں لکھ لیتا ہے (ابودائود،نسائی)

سیدنا صلۃ بن واشم رحمہ اللہ ساری ساری رات عبادت کرتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ اے اﷲ! مجھ جیسا جنت کا طلب گار کوئی نہیں ،لیکن اے میرے رب مجھے اپنی رحمت سے جہنم سے آزاد فرمادینا (المنتجر الرائج)۔

سحری کرو ،عبادت ِالٰہی کی نیت سے ،کیونکہ سحری میں برکت ہے (متفق علیہ)۔

اذان فجر سے نماز تک دعا اور استغفار کثرت سے کرو ۔فرمانِ الٰہی ہے ’’(مومن لوگ) سحری کے وقت استغفار کرتے ہیں‘‘۔ (سورہ الذاریات)۔

فجر کی سنتیں دورکعت ادا کریں ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’فجر کی دو رکعتیں دنیا ومافیہا سے بہتر ہیں۔ (مسلم)۔

فجر کی نماز میں باجماعت حاضری دینا ۔رسول اﷲنے فرمایا ’’اگر لوگ جان لیں کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا اجر ہے تو وہ ضرور آئیں اگرچہ گھسٹ گھسٹ کر آنا پڑے (بخاری مسلم)۔

اذان سے نماز کے درمیان دعا مانگنا ،فرمان ہے: ’’اذان اور اقامت کے درمیان دعائیں رَدّ نہیں ہوتی‘‘ (احمد ترمذی)۔

نماز فجر کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک ذکر الٰہی میں مشغول رہنا کیونکہ آپ کا معمول تھاکہ نماز کے بعد طلوع شمس تک چوکڑی مار کربیٹھتے تھے (مسلم)۔

امام نووی رحمۃ اﷲنے ذکر الٰہی کے لئے اس وقت کو موزوں ترین قرار دیا ہے ۔

طلوعِ شمس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا حج او رعمرہ کے مکمل ثواب کا ذریعہ ہے (ترمذی)۔

پھر اﷲتعالیٰ سے سارے دن کی برکت بھلائی کے لئے دعا مانگیں (ابودائود)۔

سارے دن کا پروگرام


- اجروثواب کی نیت سے سونا ۔


۔ کاروبار زندگی یا علم کے حصول کیلئے جانا ،فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ ’’اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے ۔اﷲتعالیٰ کے نبی دائود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے (بخاری) مزید فرمایا ’’جو شخص علم حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو اﷲتعالیٰ اسکے لئے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے‘‘۔ (ابودائود)۔

۔ اﷲتعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا تمام دن کا بہترین کام ہے رسول اﷲ نے فرمایا ’’اہل جنت صرف اس بات پر حسرت کریں کہ انھوں نے اوقاتِ دنیامیں ذکر الٰہی نہ کیا‘‘ (طبرانی)۔

۔ حسب استطاعت اﷲ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ وخیرات کریں ۔

۔ اذان سن کر باجماعت نمازکے لئے حاضر ہو جائیں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اﷲنے ہمیں ہدایت کے طریقے بتائے اور ان طریقوںمیں نماز کو مسجد سے پڑھنا بھی شامل ہے‘‘۔

۔ دوپہر کو کچھ نہ کچھ بدن کو آرام دیں ۔

۔ عصر کی نمازپڑھیں ۔اس سے پہلے کی چار رکعات پڑھنے کی کوشش کریں ۔

۔ کسی وعظ ونصیحت کی محفل میں شرکت کرسکتے ہیں ۔

۔ مسجد میں اﷲتعالیٰ کے ذکر اور تلاوت ِقرآن پاک کریں۔

۔ افطاری کے کسی پروگرام میں امداد فراہم کریں (حسب ِاستطاعت)۔

۔ ایمان وعمل کی تربیت کے لئے اسلامی کتب کا مطالعہ کریں ۔

۔ اہل وعیال کے مسائل اورضروریات زندگی مہیا کرنا ۔

۔ یا علمی کلاس میں شرکت کرنا ۔

۔ مغرب سے تھوڑا پہلے دعا میں شریک ہوں ،گھر والوں کے ساتھ یا انفرادی دعا میں شریک ہوں ۔روزے دار کی دعاکے قبول ہونے پر حدیث ِنبوی موجود ہے (ترمذی)۔

۔ مغرب کی نماز مسجدمیں اداکریں ۔تکبیر اولیٰ میں موجود ہوں ۔

۔ مسجدمیں ذکر واذکار کے لئے کچھ دیر موجود رہیں ۔سنتیں ادا کریں ،افضل عمل گھر واپس جاکر سنتوں کے پڑھنے کا ہے ۔

۔ رات کے کھانے میں اہل وعیال کے ساتھ بیٹھ کرا ﷲتعالیٰ کے شکر ادا کریں ۔

۔ عشاء کی نماز اور تراویح مسجد میں ادا کریں ۔

۔ رمضان کی راتوں میں انفرادی مطالعے کا اہتمام کریں ۔خاندانی اعزاء واقرباکے ساتھ مل جل کر بیٹھیں ۔احباب ودوستوں کے مسائل کے حل کے لئے کوشش جاری رکھیں۔

روزے داروں کے اہم ترین اذکار واوراد

ایک مؤمن کو ہر حال میں اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے ۔کسی وقت اور کسی لمحے اپنے رب کی یاد سے غافل نہ ہوں ۔اﷲ کا ذکر کرنا اور دعائیں مانگنا ،ایک مستقل عبادت ہے ۔رمضان میں خصوصاً ان اذکا رکا اہتمام کریں ۔

اے مسلمان بھائی ،بہن ! آپ صبح وشام کے اذکا ر ،بیت الخلاء میں آنے ، جانے کی دعا ،موذن کی آواذ سن کر پڑھی جانے والی دعائیں وضو ،مسجد میں دخول اور خروج کی دعائیں لازماً پڑھا کریں۔

اذان وامامت کے درمیان والا وقت بڑا اہم ہوتاہے فرمانِ رسول ہے کہ اسوقت مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ (صحیح ترمذی 81/3)۔

اسکے ساتھ نماز کے درمیان پڑھے جانے والے اذکا ر ،دعائیں ،تشہد میں پڑھی جانے والی دعائیں اور خاص طور پر انکا ترجمہ یاد کریں ۔

یہ دعائیں آج کل ہر جگہ عام دستیاب ہیں آ پ استفادہ کرسکتے ہیں ۔

دعائے قنوت ،جو وتروںمیں پڑھی جاتی ہے اسکا معنیٰ بھی ذہن نشین کریں ۔لیلۃ القدر میں یہ دعا پڑھنے کی حدیث موجود ہے ۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ

خواتین کے مسائل :رمضان کے حوالے سے :

اے مسلمان بہن :رمضان المبارک کے حوالے سے خواتین کی طرف سے بے شمار سوالات کئے جاتے ہیں ۔ہم ان تمام سوالات او رانکے جوابات کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں!

سوال نمبر 1 طلوع فجر کے فوراً بعد اگر کوئی عورت پاک ہوجاتی ہے (حیض سے )تو کیا تووہ روزہ رکھے گی ؟یا پھر یہ بعد میں قضاء کرے گی ؟

جواب : طلوع فجر کے بعد حیض بندہونے اور پاک ہونے کے متعلق علماء کے دواقوال ہیں ۔

1۔باقی دن وہ کھائے پیئے نہ بلکہ روزہ میں رہے ۔لیکن اس روزے کو شمار نہیں کیا جائے گا ۔بلکہ قضاء دی جائے گی امام احمد کا مشہور موقف یہی ہے ۔

2۔دوسرے قول کے مطابق باقی دن اسکا روزہ نہ ہوگا ۔وہ جو چاہے کھائے پیئے ۔اسکے بعد جب قضاء دی جائے تو پھر اس دن کو بھی شامل کیا جائے گا ۔یہ قول پہلے قول سے رائج ہے ۔

سوال نمبر 2 روزے کے شروع ہونے سے پہلے پاک ہوجائے ۔لیکن غسل بعد نماز ِ فجر ہوتو اسکا روزہ صحیح ہے ؟

جواب: جب کوئی عورت طلوع فجر سے پہلے (چاہے ایک منٹ قبل ہی کیوں نہ ہو ) پاک ہو جائے تواس پر روزہ رکھنا لازم ہو جاتاہے ۔اسکا یہ روزہ درست شمار ہوگا ۔اگرچہ غسل وغیرہ بعد میں کیا جائے ۔اسی طرح مرد کو اگر احتلام آجائے یاوہ جنبی ہو تو کیا وہ سحری نہیں کھاتا ؟اور غسل بھی بعد میں کرتاہے ۔یہی معاملہ عورت کا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ مزید وضاحت کئے دیتا ہوںکہ اگرپورے دن روزے کے بعد ،اگر حیض آجائے (چاہے مغرب کے چند منٹ بعد کیوں نہ ہو) تو بھی روزہ درست شمار ہوتا ہے ۔

سوال نمبر 3 اگر نفاس (ولادت )والی عورت 40دن سے پہلے ہی پاک ہوجائے تو کیا وہ نماز، روزہ پر عمل کرے گی ؟

جواب: جی ہاں ، 40دن سے پہلے پہل جس وقت بھی طہارت حاصل ہو فوراً اس پر نماز،روزہ رکھنا لازم ہوجاتاہے ۔اسکے ساتھ جماع بھی کیا جاسکتاہے ۔کیونکہ وہ پاک ہے ۔اور نماز،روزہ سے منع کرنے والی چیز نہیں ہے ۔

سوال نمبر 4 کسی عورت کے ایام میں کمی بیشی ہوتی رہے تو وہ کیاکرے؟یعنی کبھی حیض5دن آئے کبھی 6یا 8دن تو اسکے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب: جب کسی عورت کے ساتھ یہ مسئلہ ہو کہ کبھی حیض 5دن تو کبھی 8دن رہتاہو تو وہ جب تک پاک نہ ہوجائے اسوقت تک نماز نہیں پڑھ سکتی ۔کیونکہ رسول اﷲنے بھی حیض کی کوئی متعین مدت بیان نہیںکی ہے ۔لہٰذا جب تک خون باقی رہے گااسوقت تک نہ نماز ہو گی نہ روزہ ۔

سوال نمبر 5 اگر کسی عورت کو دن کے وقت حالت ِروزہ میں دوچار قطرے خون آجائے تو وہ کیا کرے ۔واضح رہے کہ اسکو پورا مہینے یہ قطرے آتے رہتے ہوں ،کیا اسکا روزہ صحیح ہے ؟

جواب: جی ہاں ،یہ روزہ بالکل صحیح ہے ۔اور جو قطرے خون کے آتے ہیں تو یہ حیض نہیں ہیں بلکہ یہ رگوں میں سے آنے والا خون ہے ۔حضرت علی رضی اﷲعنہ کا ایک قول بھی دلالت کرتا ہے

سوال نمبر 6 کوئی عورت محسوس کرے کہ اسکوخون آرہا ہے لیکن واقعتا مغرب سے پہلے خون نہ آئے ۔یا پھر حیض کی درد ہونے لگے لیکن خون نہ آئے ۔تو کیا اس عورت کا روزہ درست ہوگا ۔؟

جواب : اس صورت میں روزہ بالکل درست ہوگا ۔کیونکہ ایک پاک عورت کو خونِ حیض جاری نہیں ہواہے بلکہ صرف درد یا احساس ہواہے ۔جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ روزہ چاہے نفلی ہویا فرضی ،دونوں درست ہیں ۔

سوال نمبر 7 جب کوئی عورت خون دیکھے لیکن اسکو یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ یہ خون حیض کا ہے یا کوئی او رہے ۔تو پھر کیا وہ روزہ مکمل کرے یا نہیں ؟

جواب: اس عورت کو روزہ مکمل کرنا چاہیے۔اسکا روزہ بھی درست ہوگا کیونکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہواکہ خون حیض کا ہے یا نہیں۔

سوال نمبر 8 کیا حائضہ اورنفاس (ولادت )والی عورت رمضان کے دنوںمیں کھا پی سکتی ہے؟

جواب: جی ہاں ،مذکورہ بالا روزہ نہ رکھنے والی خواتین ،رمضان کے دنوں میں کھا پی سکتی ہیں۔ لیکن بہتر ہے کہ یہ سب کام پوشیدہ ہونے چاہیں۔ بالخصوص بچوں کے سامنے یہ کام نہ کریں کیونکہ ان کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو جائے گا ۔

سوال نمبر ٩ جب کوئی عورت عصر کے وقت پاک ہوتی ہے تو کیا اس پر عصر کے ساتھ ساتھ ظہر پڑھنا بھی لازمی ہے یا وہ صرف عصر کی نماز ہی پڑھے گی؟

جواب: بہتر قول کے مطابق عصر کے وقت پاک ہونے والی عورت پر صرف عصر کی نماز ہی فرض ہے۔ ظہر کو فرض کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اگر ظہر پڑھنا بھی فرض ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور واضح فرما دیتے۔ جس نماز کا وقت ہو گا ضرور وہی نماز فرض ہوتی۔

سوال نمبر١٠ بعض عورتوں کو قبل از وقت بچہ پیدا ہو جاتا ہے مثلاً ناقص بچہ تو اس صورت میں لازماً دو حالتیں ہوتی ہیں۔ کبھی بچہ جنین بننے سے پہلے ہی ساقط ہو جاتا ہے اور کبھی جنین بننے اور اس میں روح پھونکے جانے کے بعد، اسقاط ہوتا ہے۔ تو ان دونوںمیں اگر روزے رکھے جائیں تو ان کا کیا حکم ہو گا۔؟

جواب: اگر اسقاط ایسے بچے کا ہوا ہے جو ابھی جنین نہ بنا تھا تو اس وقت نکلنے والا خون نفاس کا نہیں ہو گا۔ لہٰذا اس صورت میں اس کا روزے رکھنا اور نماز پڑھنا درست ہو گا۔ اگر جنین کی تخلیق ہو گئی ہے اور پھر اسقاط ہوا ہے تو ایسی صورت میں نکلنے والا خون نفاس کا ہو گا لہٰذا نفاس میں نماز، روزہ دونوں کو ادا نہیں کیا جا سکتا۔

سوال نمبر١١: ایک حاملہ عورت کو رمضان کے دنوں میں خون آنے لگے تو اس کا روزہ رکھنا درست ہو گا؟

جواب: اگر کسی عورت کو حیض کا خون آئے تو اس کا روزہ فاسد ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہم نفاس اور حیض والی عورت کو فرضیت روزہ سے آزاد شمار کرتے ہیں۔ اگرکسی حاملہ عورت کو حیض کا خون آنے لگے تو پھر اس کے لئے روزہ رکھنا منع ہو گا۔ بعض طبی مشاہدوں کے مطابق بسا اوقات حاملہ عورت کو بھی کچھ نہ کچھ حیض کا خون آ سکتا ہے اور اگر وہ خون حیض والا نہ ہو تو پھر وہ عورت روزہ رکھے گی۔

سوال نمبر١٢ جب کسی عورت کو اپنے زمانہ حیض کے دوران ایسے دن بھی آئیں کہ اس دن کسی بھی وقت اسے حیض نہ آیا ہو۔ اور پھر اگلے دن دوبارہ شروع ہو جائے تو اس دن کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب: زمانہ حیض کے درمیانی ایام میں اگر کسی دن خون نہ آئے تو بھی اس دن کو ایام حیض میں شمار کیا جائے گا اور اگر پندرہ دن سے زائد عرصے تک یہی صورت حال رہے تو پھر یہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ کہلائے گا جس میں نماز، روزہ معاف نہیں ہوتا۔

سوال نمبر١٣ حیض کے آخری دنوں میں کچھ عورتیں خون کے نشانات نہیں دیکھتیں۔ کیا اس دن روزہ رکھیں گی۔ یعنی حیض کے آخری دن آنے والا سفید پانی بھی نہیں آتا تو وہ عورت کیا کرے؟

جواب اگر کسی عورت کی یہ ہمیشہ کی عادت ہے کہ اسے آخری دنوں میں سفید پانی نہیں آتا تو وہ روزہ رکھے گی اور اگر سفید پانی آتا ہو تو اس کو بھی حیض میں شمار کیا جائے گا۔

سوال نمبر١٤ کیا حائضہ یا نفاس والی عورت قرآن کو دیکھ کر یا زبانی پڑھ سکتی ہے؟ اگر وہ طالبہ یا معلمہ ہو تو کیا کرے؟

جواب کسی حائضہ یا نفاس والی عورت کا قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی ضرورت ہو یعنی معلمہ یا طالبہ کو قرآن پڑھنا لازمی ہو تو وہ پڑھ سکتی ہے (لیکن ہاتھ نہ لگائے) لیکن اگر صرف ثواب کی نیت سے پڑھنا ہو تو بہتر ہے کہ وہ نہ پڑھے کیونکہ اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں۔

سوال١٥ نمبر کیا حائضہ عورت کو پاکی حاصل کرنے کے بعد لباس تبدیل کرنا ضروری ہے؟

جواب ضروری نہیں ہے کہ ہر عورت پاکی حاصل کرنے کے بعد لباس تبدیل کرے۔ کیونکہ حیض سے لباس ناپاک نہیں ہوتا۔ بلکہ حیض کا خون جس جگہ کپڑے کو لگے صرف وہی مقام ناپاک ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ازواجِ مطہرات کو حکم دیتے تھے کہ جہاں جہاں حیض کا خون لگا ہے صرف اسی مقام کو دھو کر اسی لباس میں نماز پڑھ سکتی ہیں۔

سوال نمبر١٦ ایک عورت نے رمضان کے چند روزے نہیں رکھے بوجہ ولادت۔ اس نے ابھی ان روزوں کی قضاء نہیں کی تھی کہ دوسرا رمضان بھی آگیا۔ اس وقت یہ دودھ پلا رہی تھی اس لئے روزے نہ رکھ سکی۔ اب بتائیں کہ تیسرا رمضان بھی آگیا ہے لیکن وہ روزوں کی قضاء کب کرے گی؟

جواب قضاء دینے والی عورت جب اپنے اندر روزوں کی قضاء دینے کی استطاعت محسوس کرے گی تو اسی وقت وہ قضا دے گی اور جب تک معذوری ہے اس وقت تک کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک سال گزرے یا تین سال گزر جائیں۔ اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ شعبان آنے تک روزے رکھنے پر قادر نہیں ہوتی تھیں۔ یعنی کہ ایک رمضان کی قضاء اگلے رمضان سے صرف ایک ماہ قبل ادا کرتی تھیں۔

اگر استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر قضاء کو لٹکایا جا رہا ہے تو ایسی صورتحال میں توبہ کرنا اور قضاء صوم لازمی ہے۔

سوال١٧ نمبر بعض خواتین رمضان کے مکمل روزے رکھنے کے لئے گولیاں کھاتی ہیں۔ آپ کے خیال میں کیا یہ ٹھیک نہیں کہ حیض بند کرنے کی گولیاں کھا کر مکمل روزے رکھے جائیں؟

جواب میں اس سے پرہیز کا مشورہ دوں گا کیونکہ ان گولیوں سے بہت ہی زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ اکثر ڈاکٹر حضرات حیض بند کرنے والی گولیوں کے مضر صحت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ویسے بھی جب اللہ تعالیٰ نے روزوں کو بعد میں ادا کرنے کی آزادی دی ہے تو پھر یہ خطرہ مول لینے کی ضرورت بھی کیا ہے؟

سوال نمبر١٨ رمضان کی راتوں میں عورت اپنے گھر میں تراویح پڑھے یا مسجد و مدرسے میں جا کر؟ ان دونوں کاموں میں سے بہتر و افضل عمل کون سا ہے؟

جواب عورتوں کے لئے افضل عمل اپنے گھروں میں نماز پڑھنا ہے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم عام ہے کہ ’’خواتین کے لئے گھر سب سے بہتر ہیں‘‘۔ اگر کسی مقام پر وعظ و نصیحت کا پروگرام ہو رہا ہو تو پھر آپ مسجد و مدرسہ میں بھی جا سکتی ہیں لیکن گھروں سے باہر جا کر اپنی زیب و زینت کو نمایاں کرنا اور جلوے بکھیرنا کسی طور بھی صحیح نہیں ہے۔

سوال نمبر١٩ ایک روزے دار عورت کھانا وغیرہ چکھ سکتی ہے یا نہیں؟

جواب جی ہاں ذائقے کو چکھا جا سکتا ہے۔ لیکن صرف زبان پر رکھ کر تھوک دیا جائے۔

سوال نمبر٢٠ ایک عورت کو تین ماہ کا حمل تھا پھر ساقط ہو گیا وہ پاکی حاصل ہونے تک نماز سے دور رہی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ فوراً اسقاط کے بعد نماز پڑھے گی۔

جواب اہل علم کے نزدیک یہ معروف بات ہے کہ تین مہینے کے بعد اگر اسقاط ہوا ہے تو اس کے بعد آنے والا خون نفاس کا کہلائے گا۔ لہٰذا وہ عورت طہارت تک نماز نہ پڑھے۔ اسی () دنوں کے بعد جنین میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے بعد اگر اسقاط ہو تو پھر طہارت تک نماز نہ پڑھی جائے۔ اس سے قبل اگر اسقاط ہو تو پھر آپ پر لازم ہے کہ نماز پڑھیں کیونکہ اب جاری ہونے والا خون نفاس کا نہیں ہے بلکہ عام بیماری والا خون ہے۔

سوال نمبر٢١ ایک عورت سوال کرتی ہے کہ جب سے وہ رمضان کے روزے رکھنے لگی ہے اس وقت سے اس نے رمضان کے روزوں میں ایام حیض کے روزوں کی قضاء نہیں دی یعنی کبھی بھی قضا ء روزے رکھے ہی نہیں۔ اب وہ کیا کرے؟

جواب یہ ایک افسوسناک امر ہے۔ یہ کاہلی اور غفلت ہماری خواتین میں عام ہے۔ اپنے ذمے فرض روزوں کی قضاء نہ کرنا سستی کی وجہ سے یا روزوں کو کمتر اور غیر اہم گردانتے ہوئے یہ کام کیا جائے دونوں صورتیں غلط ہیں۔ اس کا علاج توبہ اور تقوی ہے۔ لہٰذا یہ عورت توبہ و استغفار بجا لائے۔ اور جس قدر استطاعت ہو سکے ان قضاء روزوں کو پورا کرے۔

سوال٢٢ ایک عورت نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد حائضہ ہوتی ہے۔ کیا اس نماز کی قضاء (طہارت کے بعد) ادا کرے گی یا نہیں؟ اسی طرح ایک نماز کے وقت میں وہ حیض سے نکل کر پاک ہوتی ہے تو؟

جواب نماز کا وقت داخل ہوتے ہی نماز فرض ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر حیض آیا ہو تو لازماً اس فوت شدہ نماز کی قضاء دینی پڑے گی۔ اسی طرح اگر عورت پاک ہو جائے اور اس وقت کسی بھی نماز کا ٹائم جاری ہو تو اسے لازماً یہ نماز پڑھنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے: ’’بیشک نماز اپنے مقررہ وقت پر فرض کی گئی ہے‘‘۔

سوال٢٣ ایک عورت پینسٹھ () سالہ ہے۔ اسے عادت کے مطابق حیض کا خون تو نہیں آتا لیکن چند قطرے انہی ایام میں آتے ہیں جو سابقہ ایام حیض تھے۔ یہ عورت ان دنوں میں روزے رکھے یا نہیں؟

جواب ایسی عورت انہی ایام میں یقینا روزے اور نماز چھوڑے گی جن ایام میں اسے حیض آتا تھا۔ اب اگر حیض نہیں آتا لیکن چند قطرے خون اور پانی آنا بھی حیض کے قائم مقام ہیں۔

سوال٢٤ کیا حائضہ عورت مسجد میں خطبہ، وعظ و نصیحت سننے آسکتی ہے یا نہیں؟؟

جواب حائضہ عورت مسجد حرام اور دیگر تمام مساجد میں حاضر نہیں ہو سکتی۔ کسی کام کی وجہ سے مسجد سے گذر سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو مسجد سے چٹائی لانے کا حکم دیا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ ’’حیض کا اثر آپ کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا‘‘۔ اس کے علاوہ نماز عید میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام حائضہ و غیر حائضہ خواتین کو عیدگاہ میں حاضر ہونے اور دعا میں شریک ہونے کا حکم دیا تھا لیکن یہ حکم مسجد کے لئے نہیں تھا۔

اصل مضمون نگار: رمضان المبارک