نمازمیں
خشوع وخضوع کیوں اور کیسے ؟
صفات عالم محمدزبیرتیمی (کویت)نمازمیں خشوع وخضوع کیسے حاصل کریں ؟ سرگوشی کی لذت سے كیسے لطف
اندوز ہوں ؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر نمازی کے دل کی آواز ہے ۔ آج ہر شخص کی شکایت ہے
کہ نماز میں ہمارا ذہن منتشر ہوجاتا ہے ،تو لیجیے زیرنظر تحریرپڑھئے ،اور بحالت نمازبے
توجہی اور عدم خشوع کا علاج کیجئے ع شاید کہ اترجائے تیرے دل میں میری بات
خشوع کیا ہے ؟ :
مولانا ابوالاعلی مودودی رحمه الله لکھتے
ہیں : ”خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا،دب جانا،اظہار عجزوانکساری
اختیار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی ۔ دل کا
خشوع یہ ہے کہ آدمی
کسی
کی ہیبت اورعظمت وجلال سے مرعوب ہو اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اس کے سامنے
جائے
تو سر جھک جائے ، اعضاء ڈھیلے پڑجائیں،نگاہ پست ہوجائے، آواز دب جائے، اورہیبت زدگی
کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہوجائیں جو ان حالات میں فطرتاً طاری ہوجایا کرتے ہیں جبکہ
آدمی کسی زبردست باجبروت ہستی کے حضور پیش ہو، نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی
یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے “۔ (تفہیم القرآن، تفسیرسورہ المومنون2)
خشوع وخضوع کی اہمیت :
اس وقت دل بڑا خوش ہوتا ہے جب ہم نماز کے
عادی نورانی چہروں کو مسجد کی طرف رواں دواں دیکھتے ہیں لیکن مسجد میں حاضرہونے کے
بعد ہماری اکثریت نمازوں کا حق ادا نہیں کرپاتی ،عموماً ہماری نمازوں میں غیرضروری
حرکتیں ہوتی ہیں ،سہو ونسیان کا غلبہ ہوتاہے ، خشوع وخضوع کا فقدان ہوتاہے ۔ تکبیر
تحریمہ سے سلام پھیرنے تک اپنے شبستانِ خیال اور کاروبار میں مشغول رہتے ہیں،جسم
نماز میں ہوتا ہے اور فکر نماز سے باہر ، شاعرمشرق علامہ اقبال نے ہماری اس حالت
کی صحیح ترجمانی کی ہے
صفیں کج دل پریشان سجدہ بے
ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
نماز میں خشوع وخضوع کی اس قدر اہمیت ہے کہ
اللہ تعالی نے فلاح یابی کو خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے پر معلق رکھا ہے
چنانچہ فرمایا: ”ایمان والے کامیاب ہوگئے جو اپنی
نمازوں میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں “۔ (سورہ المؤمنون 1-2) اورجونماز
خشوع وخضوع سے اداکی جاتی ہے اس کی ادائیگی نہایت سہل اور آسان ہوجاتی ہے اوراس
میں نمازی کو عجیب قسم کی لذت وچاشنی ملتی ہے ارشاد باری تعالی ہے: ”نمازکی پابندی عام لوگوں کے لیے گراں ہے لیکن خشوع وخضوع
کرنے والوں کے لیے بہت آسان“ (سورة البقرہ 45)
جب نماز میں خشوع وخصوع پیدا ہوتا ہے
توآنکھیں بے ساختہ اشک بار ہوجاتی ہیں، دل میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اورعبادت الہی
میں استغراق کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ خشوع وخضوع کے فقدان سے روح وبدن پر
نماز کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا، نماز میں دل نہیں لگتا ، نمازبوجھ بن جاتی ہے،
اورذہن میںبار باریہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کب نماز ختم ہوجائے۔
خشوع وخضوع کا فقدان کیوں؟
نمازمیں ایک بندہ اپنے منعم حقیقی سے
سرگوشی کرتا اوراس کے سامنے اپنا مطلوب رکھتا ہے تاہم شیطان جو راہِ حق کے راہیوں
کا رہزن اور انسان کا ازلی دشمن ہے اسے کب بھاتا کہ انسان اتنے اعلی مقام پر پہنچ
کر اپنے رب سے پورے خشوع وخضوع اور انہماک کے ساتھ سرگوشی کرسکے، چنانچہ وہ آگے سے
، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے ہرطرف سے آکربندے کو مختلف وسائل کے ذریعہ نماز سے
دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے ،اگر اس سے عاجز آگیا تو نماز کی حالت میں اس کے ذہن کو
مختلف خیالات ووساوس کی آماجگاہ بنادیتا ہے ،یہاں تک کہ وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے
جنہیں وہ نماز سے باہر بالکل بھولا ہوا تھا۔ محض اس لیے تاکہ بندہ لذت مناجات سے
محروم رہ جائے۔
البتہ اس محرومی کے پیچھے خود بندہ کی ذاتی
کوتاہی کا بھی عمل دخل ہوتاہے۔ مثلاً ٭مساجد میں پنجوقتہ نمازوں کی باجماعت
ادائیگی میں کوتاہی۔ ٭ سنن ونوافل کی ادائیگی میں سستی ۔ ٭دنیاوی معاملات میں کثرت
انہماک۔ ٭ذکرکے اہتمام میں کوتاہی اور دینی مجالس میں حاضرنہ ہونا۔ ٭قبر اوراس کی
وحشت اور اس کے مابعد کے احوال پر غورنہ کرنا ۔یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے نماز
کا خشوع وخضوع متاثر ہوتا ہے ۔
خشوع وخضوع اورسلف :
محسن انسانیت فداہ ابی وامی کی حیا ت طیبہ
میں جھانک کر دیکھیں کہ جب آپ مؤذن کی آواز سنتے تو چہرے کی کیفیت بدل جاتی ۔صدیقہ
بنت صدیق سیدہ عائشہ رضى الله عنها فرماتی ہیں :”نبی
اکرم صلى الله عليه وسلم ہمارے ساتھ دل لگی کرتے ہوتے ، اسی اثناءجب مو ذن اذا ن دیتا
تو ایسا لگتاکہ نہ وہ ہمیں پہچان رہے ہیں اورنہ میں آپ کو پہچان رہی ہوں“۔
حضرت عبداللہ بن شخیر رضى الله عنه کا بیان
ہے : أتیت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم وھو یصلی
ولجوفہ أزیزکأزیز المرجل من البکاء۔ (ابوداؤد،نسائی ، وصححہ الالبانی) ”میں نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ
نماز ادا کررہے تھے ،میں نے دیکھا کہ آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے اس طرح آواز
نکل رہی تھی جیسے چولہے پر رکھی ہوئی ہانڈی سے نکلتی ہے“ ۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ تو رسول اللہ صلى
الله عليه وسلم تھے ،ان میں اورہم میں کیا نسبت ،تو لیجئے اسلاف کرام کی زندگی سے
چند نمونے پیش خدمت ہیں:
٭زین العابدین علی بن حسین رحمه الله جب
وضو سے فارغ ہوتے تو نمازاور وضوکے بیچ آپ کے بدن میں کپکپی طاری ہوجاتی ۔ جب آپ
سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ویحکم
أتدرون الی من أقوم ومن أرید أن أناجی؟ ”تمہیں پتہ ہے کہ کس کے سامنے ہم
کھڑے ہونے جارہے ہیں اورکس سے سرگوشی کرنا چاہتے ہیں“۔ (حلیة الاولیائ3 /133)
٭ابراہیم التیمی رحمه الله جب سجدہ کرتے تو
پرندے ان کے پشت پر آکر نہایت اطمینان سے بیٹھ جاتے گویاکہ کٹے ہوئے درخت کا
باقیماندہ تنا ہیں ۔
٭ ابوبکربن عیاش کہتے ہیں کہ میں نے حبیب
بن ابی ثابت رحمه الله کو سجدے کی حالت میں دیکھا ،ان کے سجدے کی طولانی کا یہ
عالم تھاکہ اگر تم انہیں دیکھتے توکہتے کہ یہ مرچکے ہیں ۔
اللہ اکبر!کیسے کیسے اللہ
والے گذرے ہیں جن کو دیکھنے کے لیے آج آنکھیں ترستی ہیں
وہ سجدہ روح زمین جس سے کانپ
جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبرومحراب
اسی کو آج ترستے ہیں منبرومحراب
آج بھی ہم اپنی نمازوں میں وہی خشوع وخضوع
پیدا کرسکتے ہیں جو سلف کے ہاں پایاجاتا تھا البتہ شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم
اپنے ذہن سے اس شبہ کو نکال باہر کریں کہ ہم خشوع اختیار نہیں کرسکتے،یہ دراصل
شیطانی وسوسہ ہے جو ایک انسان کے اندر پیدا کرتا ہے تاکہ وہ مناجات کی لذت سے
محروم رہ جائے ۔ توآئیے اب ہم ان وسائل کی جانکاری حاصل کرتے ہیں جو ہماری نمازوں
میں خشوع وخضوع پیدا کرنے میں معاون بن سکتے ہیں ۔
نمازمیں خشوع وخضوع کے وسائل :
نمازمیں خشوع وخضوع پیدا کرنے والے وسائل
دو طرح کے ہیں، ایک کا تعلق بیرون نماز سے ہے اوردوسرے کا تعلق اندرون نمازسے ہے۔
جن کا تعلق بیرون نماز سے ہے ان میں مثلاً اللہ پاک کو الوہیت وربوبیت اور
اسماءوصفات میں ایک جاننا،دل میں اخلاص کا وجود ،خلوت وجلوت دونوںمیں اللہ پاک کی
نگرانی کا احساس، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی خالص اطاعت اورمتابعت کا جذبہ
، مامورات کی انجام دہی اور منہیات سے اجتناب، حرام غذا اور حرام لباس سے کلی
احتراز،خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والوں کی صحبت وہمنشینی اوراللہ تعالی کے جناب
میں بکثرت دعا وگریہ وزاری کہ اللہ پاک ہماری نماز میں خشوع وخضوع پیدا کرے۔ اور
جن وسائل کا تعلق اندرون نماز سے ہے وہ درج ذیل ہیں :
نمازکی تیاری کریں :
٭مؤذن کی اذان سنیں تو پوری خاموشی کے ساتھ
کلمات اذان دہراتے رہیں،پھر اذان کے بعدکی دعا کی فضیلت کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھائے
ہوئے اس کا اہتمام کریں، حتی المقدوراذان اوراقامت کے بیچ دعا کریں ۔
٭اچھی طرح وضو کریں،وضوسے پہلے مسواک
کرلیں، اوربسم اللہ کہتے ہوئے وضوشروع کریں،ہرعضوکو دھلتے ہوئے اپنے ذہن میں یہ
بات بٹھائیں کہ شعوری یا غیرشعوری طورپر آپ سے جو گناہ سرزدہوا تھا اعضائے وضو کو
دھلتے ہی وہ سارے گناہ بھی دھل جائیں گے، اوراس فضیلت کو بھی ذہن میں تازہ رکھیں
کہ وضو کے باعث اہل ایمان کی پیشانیاں اورہاتھ پاؤں روشن ہوں گے اوراسی کے باعث وہ
میدان محشر میں دوسری امتوں کے بیچ ممتاز ہوں گے ۔ جب آپ وضوکے ایک ایک نکتے کو
ذہن میں تازہ رکھیں گے تو پھرکوئی وجہ نہیں کہ آپ کی نماز خشوع وخضوع سے لبریز نہ
ہو۔
٭نماز سے پہلے زینت اختیار کرلیں، لباس صاف
ستھرا ہو، اگر خوشبو میسر ہو تو خوشبو بھی لگالیں،ذرا غورکریں کہ جب آپ کو کسی
پارٹی میں جاناہوتا ہے توکس انداز میں تیاری کرتے ہیں چہ جائے کہ آپ مالک الملک رب
کائنات کے دربارمیں حاضر ہورہے ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ صاف ستھرے ملبوسات زیب تن
کرنے سے نفسیاتی طورپر بھی راحت ملتی ہے اورسکون قلب حاصل ہوتا ہے ۔
٭جب مسجد کا رخ کریں تواپنے ذہن میں یہ بات
بٹھالیں کہ آپ اللہ کے گھر کا قصد کر رہے ہیںجو اسے روئے زمین کی ساری جگہوں میں
سب سے زیادہ محبوب ہے، اور حبیب کی عادت ہوتی ہے کہ اگراپنے محبوب کونہ پاسکے تواس
کے گھر کا قصد کرتا ہے،اوریہ اعزاز کیاکم ہے کہ اس نے آپ کواپنے گھر میںداخل ہونے
کی توفیق عنایت فرمائی۔
٭ان نبوی بشارتوں کو بھی ذہن میں تازہ کریں
کہ ہرہرقدم پر آپ کا ایک گناہ معاف ہورہا ہے اورایک درجہ بلند ہورہا ہے ،مسجد کی
طرف جاتے وقت آپ پر سکون اور طمانینت طاری ہو،نماز سے پہلے مسجد پہنچیں اوروہاں
بیٹھ کر نماز کا انتظار کریں ،کیوں کہ اتنی دیر آپ کا انتظارکرنا بھی نماز میں
شامل کرلیاجاتا ہے اورفرشتے آپ کے لیے دعا کرتے ہیں کہ” اے اللہ اس پر رحم فرما،اے
اللہ اس پر مہربان ہوجا۔ “
٭نماز شروع کرنے سے پہلے ان تمام چیزوں سے
خود کو فارغ کرلیں جو نماز میں تشویش کا باعث بن سکتی ہوں، مثلاً نماز کے لیے
پرسکون جگہ کی تلاش کریں جو شوروغوغا سے بالکل دورہو،سامنے کے پردے یا جائے نماز
پر ایسا نقش ونگارنہ ہو جو خشوع وخضوع میں خلل پیدا کرے ۔ اگرکھانے کی خواہش ہو یا
قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو نماز سے قبل اس سے فارغ ہوجائیں ۔ اللہ کے رسول صلى
الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب کھانا حاضر ہواور
قضائے حاجت درپیش ہوتو نماز نہیں ہوتی “۔ (مسلم)
غرضیکہ خشوع وخضوع میں جو چیزیں رکاوٹ بن
سکتی ہوں ان سے چھٹکارا حاصل کرکے قبلہ رخ ہوکرکھڑے ہو جائیں ، صفیں سیدھی
کرلیں،اگر صفوں کے بیچ خالی جگہ ہو تو اسے پُر کرلیں مباداکہ شیطان بیچ میں داخل
ہوجائے ۔
٭ہاتھ باندھنے سے پہلے مسواک کرلیں کیونکہ
مسواک منہ کی صفائی کا ذریعہ اور رضائے الہی کا سبب ہے ۔
اللہ کی عظمت کو ذہن میں بٹھالیں:
نماز شروع کرنے سے پہلے اس ذات کی عظمت پر
غورکرلیں جس کی عبادت کرنے جارہے ہیں۔
٭آپ کے دل میں اپنے محبوب کے تئیں محبت کے
جذبات ہوں،جس نے آپ کو انمول جسم عطاکیا اورہر طرح کی نعمتوں سے مالامال کیا۔
٭آپ کے دل میں حیا کے جذبات پیدا ہوں کہ اس
ذات کی عنایت کردہ نعمتوںمیںدن رات پلنے کے باوجود اسی کے سامنے ہردم اس کی
نافرمانی کی جرا ت کرتے ہیں،اگروہ چاہتا توفوراً زمین کوبدلہ لینے کا حکم دیتا
لیکن اس نے ایسا نہیں کیاکیونکہ وہ نہایت بردباراورشفیق ہے۔
٭آپ کے دل میں اس کی ہیبت کے جذبات پیدا
ہوں، وحی کے فرشتے جبریل امین کی خشیت الہی کا یہ عالم تھا کہ معراج کی رات اللہ
کی خشیت سے بوسیدہ ٹاٹ کی مانند ہوچکے تھے۔ اسکے اوامر کی تعمیل میں انگنت فرشتے
ہمہ تن لگے ہیں، کتنوں کا کام محض عبادت ہے ،کتنے رکوع میںہیں توکتنے سجدے میں ،
اورقیامت کے دن اس کی مٹھی میں آسمان وزمین ہوں گے۔ لہذاجب ہاتھ باندھتے ہوئے’
اللہ اکبر‘ کہیں تواس کے معنی پر غور کرلیں کہ اللہ پاک سب سے بڑاہے،جس کے قبضے میں
ساری کائنات ہے۔ جب یہ کیفیت آپ کے ذہن میں بیٹھے گی تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ آپ
تذلل وانکساری کا پیکربنے پورے خشوع وخضوع سے نماز کی طرف لپکیں گے ؟
موت کی یاد تازہ کرلیں:
نماز میں داخل ہوتے ہی موت کی یاد تازہ
کرلیں اور یہ خیال کریں کہ شاید اس کے بعد آپ کو کوئی نماز ادا کرنے کا موقع نہ مل
سکے اوریہ نماز آپ کی آخری نماز ثابت ہو ۔ اللہ کے رسول افرماتے ہیں: اذکر الموت فی صلاتک فان الرجل اذا ذکر الموت فی صلاتہ
لحری ا ¿ن یحسن صلاتہ وصلِّ صلاة رجل لایظن أنہ یصلی غیرھا ( السلسلة
الصحیحة 1421) ”اپنی نماز میں موت کو یادکر،کیونکہ
جب ایک شخص اپنی نماز میں موت کو یاد کرتا ہے توزیادہ مناسب ہے کہ وہ اپنی نماز کو
ٹھیک ٹھاک ادا کرسکے ،اورایسے آدمی کی طرح نماز ادا کرجسے امید نہ ہو کہ وہ دوسری
نماز ادا کرسکے “۔ احسان کی کیفیت پیدا کرلیں : نماز کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہی
اپنے اندریہ تصورپیدا کریں کہ ہم اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں اوراس کے سامنے نماز
ادا کررہے ہیں، اوریہی احسان کا سب سے اعلی درجہ ہے ۔یاکم ازکم یہ خیال پیداکریں
کہ اللہ تعالی ہمیں دیکھ رہا ہے اوراس کی نگرانی سے ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اوجھل
نہیں ہیں ۔ خدارا ہمیں بتائیں کہ اگر اللہ تعالی پورے جلال وجمال کے ساتھ ہمارے
سامنے ہو اور ہمیں نماز ادا کرنے کا حکم دے تو آخر اس وقت ہماری کیفیت کیسی ہوتی ۔
حضور پاک ا فرماتے ہیں الاحسان أن تعبداللہ کأنک تراہ
فان لم تکن تراہ فانہ یراک یعنی اللہ تعالی
کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو،اگر ایسا نہ ہوسکے تو کم ازکم اس
طرح کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
لیکن یہ کیفیت کب پیدا ہوگی ؟ جب کہ دل
دنیاوی آلائشوں سے پاک وصاف ہو، دل میں اللہ کی نگرانی اوراسکے سامنے جوابدہی کا
احساس ہو اور ذہن میں آخرت کی فکر رچی بسی ہو ۔
ذہن میں مناجات الٰہی کا تصور پیداکریں :
اس تصورکو ذہن میں بٹھائیں کہ آپ اللہ
تعالی سے ہم کلام ہیں،اس سے سرگوشی کررہے ہیں، اپنا مطلوب اپنے پروردگار کو سنارہے
ہیں اوراللہ تعالی بھی اس کا جواب دے رہا ہے ۔ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا
ارشاد ہے : ان أحدکم اذا قام یصلی فانما یناجی ربہ
فلینظر کیف یناجیہ (مستدرک حاکم )”جب تم
میں کا ایک شخص نمازادا کرنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے
لہذا دیکھ لے کہ اس سے کیسے سرگوشی کررہا ہے “۔ ایک دوسری حدیث میں اللہ کے
رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالی فرماتا ہے : ”میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں
میں بانٹ دیا ہے ،آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کا ، اورمیرے بندے کے
لیے وہ سب کچھ ہے جس کا وہ سوال کرے،چنانچہ جب بندہ
الحمدللہ رب العالمین
کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندے نے
میری بزرگی بیان کی، جب بندہ الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی ، جب بندہ مالک یوم
الدین کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم کی، اور جب بندہ ایاک نعبد وایاک
نستعین کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے :
یہ میرے اورمیرے بندے کے درمیان ہے اورمیرے بندے کے لیے
وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا….۔“ (صحیح مسلم )
اسی لیے حافظ ابن قیم رحمه الله فرماتے ہیں
: ہرآیت کے بعد ذرا ٹھہرو گویا کہ اپنے رب کا جواب سن رہے ہو ….
یہی نہیں بلکہ ایک دوسری حدیث میں آتاہے کہ
جب بندہ نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالی اپنا چہرہ اپنے بندے کے چہرے کی طرف گاڑ
دیتا ہے ۔اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
فاذا صلیتم فلاتلتفتوا، فان اللہ ینصب وجہہ لوجہ عبدہ فی صلاتہ مالم یلتفت (بخاری
) ”جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو بے توجہی مت برتو
کیونکہ نماز میں اللہ تعالیٰ اپنا چہرہ اپنے بندے کے چہرے پر گاڑ دیتے ہیں جب تک
بندہ بے توجہی نہیں برتتا “۔ ایک اثرمیں آتا ہے کہ جب بندہ نماز میں بے
توجہی برتتا ہے تو اللہ تعالی فرماتے ہیں الی خیر منی
الی خیرمنی”کیا مجھ سے بہتر کی طرف،کیا مجھ سے
بہتر کی طرف“؟ سبحان اللہ !اگر ہرنمازی
بحالت نماز اس تصور کو اپنے ذہن میں بٹھائے رہے گاتویقیناً اسے بے انتہا خشوع حاصل
ہوگا اورکیوں نہ حاصل ہو کہ اللہ تعالی اس سے مخاطب ہے اور اسے اس کا مطلوب پورا
کررہا ہے۔
نماز کی سورتوں اوراذکارکے معانی پرغورکریں
نمازمیں پڑھی جانے والی سورتوں اوراس کے
اذکار مثلاً ثنا،سورة فاتحہ ،رکوع وسجدہ کی تسبیحات اوردرودشریف وغیرہ کے معانی
ومقاصد پر بھی غورکریں۔یعنی آپ نماز کی جس کیفیت میں ہوں اس کیفیت کے اذکار کے
معانی ومفاہیم کو اپنے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کریں۔ اگر عربی نہ جانتے ہوں تو کم ازکم
ان کا مطلب اورمعنی یادکرلیں اورانہیں پڑھتے وقت یہ دھیان رکھیں کہ ان کے ذریعہ
اپنے منعم حقیقی سے کیا عرض کر رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ رٹی رٹائی اور بے خیالی میں
تلاوت وتسبیحات نہ پڑھتے جائیں بلکہ نماز کے ہر عمل کو سوچ سوچ کر ادا کریں کہ آپ
فلاں عمل کرنے جارہے ہیں مثلاً جب آپ قیام میں ہوں تو قیام کی سورتوں اور ان کے ادعیہ
پر غورکریں ، ان کے معانی ومفاہیم کو ذہن میں مرتسم کریں،رکوع میں جائیں تو ’سبحان ربی العظیم ‘کہتے ہوئے اپنے رب کی عظمت کو
دل پر طاری کریں،پھر جب سجدہ میں جائیں تو ’سبحان ربی
الا علی ‘کہتے ہوئے اپنے رب کی بلندی کو ذہن میں تازہ کریں اور اپنے اندر
یہ احساس پیدا کریں کہ میں اپنے سر کو رب ذوالجلال والاکرام کے سامنے رکھے ہوا ہوں
اور زبان سے اس کی پاکی بیان کررہا ہوں ۔ جب آپ کی توجہ آیات وادعیہ کے معانی پر
مرکوز ہوگی تو آپ کے خیالات یکسو ہوجائیں گے ،آپ کے اندر گردوپیش سے بے خبری پیدا
ہوجائے گی۔ اس طرح آپ پورے طور پر خشوع وخضوع سے نماز ادا کرسکیں گے ۔
سکون واطمینان سے نماز کی ادائیگی کریں:
نمازکے ہرعمل کو نہایت اطمینان اورسکون سے
اداکریں، اگررکوع،سجدہ،قومہ اورجلسہ پورے اطمینان سے ادا نہ کیا جائے تونماز کے
اندر کسی صورت میں خشوع وخضوع پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ جلدبازی نماز کی روح کو
نکال دیتی ہے ۔ اسی طرح نماز کی سورتوں کو ٹھہر ٹھہر کر نہایت خوش الحانی سے پڑھیں
۔
سورتوں اور اذکار میں تنوع ہو
سورتوں اور ادعیہ واذکارکو تنوع کے ساتھ
باری باری پڑھا کریں کیونکہ ایک ہی سورةیا دعا کو ہرنماز میں باربار دہرانے سے ایک
عادت بن جاتی ہے پھر اس کا زبان پر ورد تو جاری رہتا ہے لیکن دل فکر سے خالی ہوتا
ہے ،پھر نماز عبادت کی بجائے عادت کے طورپر ادا ہونے لگتی ہے ۔ اور ایسی صورت میں
ظاہر ہے کہ نماز کے خشوع وخضوع کا برقرار رکھنا ایک امر مشکل ہے ۔ شاید اسی وجہ سے
اللہ کے نبی ا سے نماز کی ہر کیفیت یعنی قیام، رکوع، سجدے اورتشہد سے متعلق متعدد
اذکار وارد ہیں جنکی تفصیل نماز کی مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے ،لہذا نمازی
کو چاہیے کہ کسی ایک ہی ذکر یا سورة کا اپنے آپ کو عادی نہ بنائے بلکہ ہر عمل سے
متعلق متعدد اذکار مسنونہ یادکرلے اور مختلف سورتیں بھی یاد کرلے اورہر نماز میں
باری باری ان کا اہتمام کرے تاکہ حضور قلب حاصل ہو۔
اللہ کی جناب میں شیطان سے پناہ مانگیں :
مذکورہ تمام وسائل اختیار کرنے کے باوجود
بھی اگر ذہن منتشر ہورہا ہوتو بحالت نماز اپنے بائیں طرف تین بار تھوک دیں اور
اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگیں: ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی حضرت
عثمان بن ابی العاص رضى الله عنه نے اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس شکایت
کی کہ :” یا رسول اللہ ! شیطان میرے اور میری نماز اور قرأت کے بیچ حائل ہوجاتا ہے
اور وسوسے پیدا کرتا ہے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ذاک شیطان یقال لہ خنزب فاذا أحسستہ فتعوذ باللہ منہ واتفل
عن یسارک ثلاثاً یعنی وہ شیطان ہے جسے خنزب
کہاجاتا ہے ،جب تمہیں ایسا محسوس ہو تو اللہ کی جناب میں اس سے پناہ مانگو اور
اپنے بائیں طرف تین بار تھوک دو۔ کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا چنانچہ اللہ
تعالی نے اسے مجھ سے دور کردیا ۔ “(مسلم)
اب آئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنی نمازوں
میں ان وسائل کوبرتنے کی پوری کوشش کریں گے،اوراپنی نمازوں کو اللہ والوں کی
نمازوںکا نمونہ بنائیں گے ۔
بارالہا! تو ہماری نمازوں کو خشوع وخضوع کا
پیکر بنا اور ہمیں لذت مناجات سے لطف اندوز ہونے کی توفیق مرحمت فرما ۔ آمین یارب
العالمین۔
No comments:
Post a Comment